ڈاکٹر شباہت علی خاں(فرانکفرٹ، جرمنی)
نصف صدی کا قصہ


ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے خطوط پڑھ کر صرف یہی نہیں کہ میرا دل باغ باغ ہو جاتا ہے بلکہ جب میں ان خطوط کے بعض حصے اپنی جرمن نژاد بیگم ڈاکٹر ہلترود کو فارسی میں ترجمہ کر کے سناتا ہوں تو وہ بھی محظوظ ہوتی ہیں۔ آپ کو یقیناً یہ معلوم ہو گا کہ میری بیگم فارسی لسان و ادب کی پی ایچ ڈی ہیں اور ڈاکٹر فتح پوری کی عالمانہ کتاب ’’اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ جس پر انھیں ڈی لٹ کی ڈگری تفویض ہوئی اور طلائی تمغہ دیا گیا کا انتساب میرے اور ڈاکٹر ہلترود کے نام ہے۔
میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ خطوط صرف فرمان صاحب کے شاگردوں، دوستوں اور عزیزوں کے لیے نہیں بلکہ اردو ادب اور ادب دانوں کے لیے بھی ایک گراں بہا تحفہ ہیں، میری خواہش ہے کہ ان کے خطوط یکجا کر کے شائع کیے جائیں اور ادب خوانوں کو بتایا جائے کہ ان کے خطوط کا اسلوب کتنا دلکش ہے اور ان میں علم و دانش کے کیسے کیسے نکتے محفوظ ہیں۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ۱۹۴۰ء میں اردو ہندی مڈل کا امتحان پاس کر کے مسلم ہائی سکول فتح پور میں داخلہ لیا۔ ان کا داخلہ چھٹی جماعت میں ہوا اور میں دو اگلی جماعت میں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ سکول کے روز اول ہی سے ان کی شخصیت نمایاں تھی۔ وہ لیڈری کے قابل تھے اور ہمیشہ اپنے ماحول کے لیڈر رہے۔ میں ۱۹۴۳ء میں ہائی سکول کا امتحان تمام کر کے الہٰ آباد اعلیٰ تعلیم کے لیے گیا اور ۱۹۴۵ء میں فتح پور واپس آیا۔ فرمان صاحب نے ہائی سکول کا امتحان ممتاز درجہ میں پاس کیا۔ پھر ہم دونوں قومی جوش میں اسی سکول میں معلم ہو گئے اور اس وقت سے لے کر ۱۹۴۸ء تک جب کہ ہم لوگ ایران اور مسقط کے لیے ساتھ ساتھ روانہ ہوئے ہمارے زندگی کا اہم دور تھا۔
فرمان صاحب کا ادبی ذوق نو عمری ہی سے بہت اونچا تھا اور ان کی ہندی تعلیم نے ان کے ذوق ادبیات کو چار چاند لگا دیے تھے۔ ظاہراً ہم لوگ معلم یعنی سکول ماسٹر تھے مگر ان کی صحبت میں رہنے سے میرا اردو کا ذوق پختہ تر ہو گیا تھا بلکہ اگر سعدی کے لفظوں میں یہ کہوں کہ   ؎
کمال ہم نشیں درمن اثر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہستم
تو غلط نہ ہوگا۔ ہندی کے دوہے جو میں نے ان سے سیکھے وہ ابھی تک میری گراں بہا یاد گاریں ہیں۔ فرمان صاحب اصلاً شاعر تھے اور ان کا ادبی ذوق اردو شاعری ہی سے شروع ہو ا تھا۔
میرا اور ڈاکٹر فرمان صاحب کا سفر فتح پور سے کانپور تک ہمیشہ ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔ مولانا حسرت موہانی کو ہم دونوں نے مختلف جگہوں پر بارہا چلتے پھرتے اور تقریر کرتے ہوئے دیکھا اور مولانا سے ان کے گھر جا کر احاطہ کمال خاں میں بھی ان سے ملاقاتیں کیں اور ان کے کردار و علم و فضل سے فیض یاب ہوئے۔
مسلم لیگ کی تنظیم اور اس کے لیے فنڈ جمع کرنے کی غرض سے ایک بڑا مشاعرہ فتح پور کے خاموش ہال میں ہوا تھا اس میں مسلم لیگ کے بڑے بڑے لیڈر شریک ہوئے تھے۔ شاعروں میں جگر اور حسرت موہانی خاص طو ر پر یاد ہیں۔ مولوی عبدالحق نے اس مشاعرے کی صدارت کی تھی۔ فرمان صاحب نے پہلے پرجوش تقریر کی تھی پھر شعر سنائے تھے۔ان کی ایک ایک چیز میرے پاس محفوظ ہے۔ جلسے میں ان کے شعر ملاحظہ ہوں:
وہی ایک جذب صادق وہی ایک عزم کامل
جو قفس کی تیلیوں سے بھی بنا لے آشیانہ
نشیمن پھونکنے والو! چمن کو پھونک دینا تھا
ابھی امید تعمیر نشیمن پائی جاتی ہے
۴۶۔۱۹۴۵ء کا زمانہ تحریک پاکستان کے شباب کا زمانہ تھا، فرمان صاحب ، طالب علموں کے رہنما کی حیثیت میں اس تحریک کے سرگرم رکن تھے۔ پر جوش تقریر کرتے اور مسلم لیگ کے ہر جلسے میں بلائے جاتے تھے۔ مولانا حسرت موہانی اور سید حسن احمد شاہ کے انتخابی جلسوں میں فرمان صاحب خاص طو رپر لچھے دار تقریر کرتے تھے۔
فرمان صاحب میں انسانی ہمدردی بہت تھی۔ وہ ہر غریب اور کمزور طالب علم کو مفت بلکہ زبردستی پڑھاتے تھے۔ وقت کے وہ شروع ہی سے پابند تھے۔ صبح تڑکے اٹھتے تھے اور دو تین گھنٹے ڈٹ کر پڑھتے تھے پھر سارا دن عام مشغلوں میں گزارتے تھے۔ دوسروں کو پڑھانے کے لیے وہ تڑکے ان کے گھروں پر پہنچ جاتے تھے کنڈی بجا کر دروازہ کھلواتے اور پڑھائی پر لگا دیتے تھے۔٭٭٭٭