ڈاکٹر اسلم فرخی
فرمانِ امروز
(ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔ ایک تاثر)

آج کے زمانے میں جس کو محنت ، شوق، لگن اور عزم و حوصلہ کی تصویر دیکھنا ہو وہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو دیکھے۔ فرمان صاحب نے اپنی ذاتی محنت، ذہانت اور مستقل مزاجی سے وہ مقام حاصل کر لیا ہے جو ہر پڑھے لکھے کے لیے باعث رشک ہے۔ محنت ، سوجھ بوجھ، ملنساری، دوسروں کے دکھ سکھ میں شرکت ، دوسروں کے مسائل سے گہری دلچسپی ، معاملات میں دلسوزی اور مفید مشورے۔ فرمان صاحب جہاں بھی رہے مقبول خاص و عام رہے۔ پڑوسیوں، محلہ داروں، جاننے والوں اور دوستوں نے ہمیشہ اپنے کاموں میں ان سے مشورہ کیا اور فرمان صاحب ہمیشہ دوسروں کے کام کو اپنا کام سمجھ کر دوڑتے رہے۔ میں نے بار بار دیکھا کہ فرمان صاحب دوسروں کے لیے دوڑ بھاگ کر رہے ہیں۔ ایسے ہمدرد، مخلص اور کام آنے والے لوگ کم ہوتے ہیں۔
میں فرمان صاحب کے نام سے واقف تھا۔ ان کے مضامین بھی پڑھ چکا تھا۔ دور سے دیکھا بھی تھا مگر تفصیلی ملاقات ہوئی شعبہ اردو کی ایک شعری نشست میں۔ ان دنوں شعبہ اردو پان منڈی کے قریب ایک عمارت میں تھا۔ فرمان صاحب ایم اے کے طالب علم اور مشاعرے کے مہتمم تھے۔ ملاقات ہوئی تو خوب ہوئی۔ دوستی کا پودا پروان چڑھا اور پھر بڑھ کر شجر سایہ دار بن گیا۔ رفاقت اور محبت کے اس قدآور درخت کا گھنا سایہ آج ہم دونوں کے لیے باعث فرحت ہے۔
فرمان صاحب کی جو وضع قطع، لباس اور انداز آج سے چالیس برس پہلے تھا وہی آج بھی قائم ہے۔ یہ ان کی استقلال مزاج اور استقامت طبع کی دلیل ہے۔ متوسط قد، امت وسطیٰ کے فرد ہونے کی نشانی۔ گول وجیہہ چہرہ، روشن اور تیز آنکھیں، پیشانی فراخ، صاف رنگ، بال جوانی ہی میں سفید ہو چلے تھے۔ نزلے کا نہیں مطالعے کا اثر تھا۔ چہرے پر مسکراہٹ، گفتگو میں شادابی اور شگفتگی۔ کلاس میں گئے تو خود بھی ہنس رہے ہیں طلبہ بھی مسکرا رہے ہیں۔ وہ جو ایک خواہ مخوا کی سنجیدگی اور خوف کا عالم بعض اساتذہ کی کلاسوں میں طاری ہوتا ہے فرمان صاحب کی کلاسوں میں کا دور دور کوئی پتہ نہیں ہوتا پھر یہ کہ طلبہ کے ساتھ ان کا رویہ بزرگ دوست کا سا رہا۔ ناصح مشفق یا محتسب وہ کبھی نہیں بنے۔ فرمان صاحب مستعد اور باقاعدہ آدمی ہیں۔ وقت پر یونیورسٹی آنا، وقت پر کلاس لینا۔ میٹنگوں میں بہ پابندی وقت شرکت۔ لمبی گفتگو سے اجتناب، کام کی باتیں شگفتہ انداز میں۔ رفقائے کار کو دیکھ کر مسکرانا اور پھر زیر بحث مسائل میں جچے تلے انداز میں اظہار خیال۔ میٹنگوں میں فرمان صاحب کی شرکت سے ایک خوش گوار کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
جہاں چار آدمی مل بیٹھتے ہیں، وہاں اختلاف کا کوئی نہ کوئی پہلو بھی نکل آتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے بعض شعبوں میں اختلاف کے یہ پہلو بہت نمایاں تھے مگر شعبہ اردو میں اس قسم کے اختلاف کی نوعیت جزوی تھی۔ یاران طریقت لڑانے اور بھڑکانے کی کوشش بھی کرتے رہتے تھے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپس میں کسی قسم کی چپقلش ہوئی ہو۔
شعبے میں قائد ایوان بھی تھے، قائد حزبِ اختلاف بھی۔ مگر رو در رو کبھی کسی بد مزگی کی نوبت نہیں آئی۔ اختلاف میں تلخی اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی کوئی واردات کبھی نہیں ہوئی۔ اختلاف ناپسندیدگی تک محدود تھا۔ ایک دوسرے سے شکایتیں تو رہتی ہی ہیں مگر کمال یہ ہے کہ قائد حزب اختلاف بھی فرمان صاحب کی صلاحیتوں کے معترف تھے اور ان کی رائے کو اہمیت دیتے تھے۔
اتفاق یہ ہے کہ شعبے کے تین اساتذہ فرمان صاحب، کشفی اور راقم الحروف تقریباً ہم عمر اور ہم پلہ تھے۔ اگرچہ ہمارے درمیان مقابلے کی کوئی کشمکش نہیں تھی کیونکہ تینوں کسی کشمکش کے لیے نہ تیار تھے نہ اس قسم کا مزاج رکھتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ شعبے اوراپنی ترقی کے سلسلے میں ان کا رویہ ہمیشہ درویشانہ رہا۔ بے نیاز، مستغنی اور مست فرمان صاحب کا رویہ معتدل ہے۔ وہ ٹھنڈے مزاج کے آدمی ہیں۔ ہم تینوں میں کبھی کسی شعبہ جاتی معاملے یا ترقی کے مسئلے پر کبھی کوئی الجھن نہیں ہوئی۔ یہ اتفاق بھی بڑا دلچسپ ہے کہ ہم تینوں ایسوسی ایٹ پروفیسر بھی ایک ساتھ ہوئے اور پروفیسر بھی ایک ساتھ۔ کسی کی طرف سے دوسروں کے لیے کوئی الجھن نہیں ہوئی۔
فرمان صاحب شعبے میں بہت کام کرتے تھے۔ ٹائم ٹیبل وہی بناتے تھے۔ یہ بڑا جان جوکھوں کا کام تھا۔ ٹائم ٹیبل اس طرح بناتے تھے کہ کسی کو بھی شکایت نہیں ہوتی تھی۔ شعبے کے سربراہ بدلتے رہے مگر فرمان صاحب ہر دور میں ٹائم ٹیبل بناتے رہے۔ یہ کام انہی کے ذمے رہا۔
محنت کے ساتھ ساتھ فرمان صاحب میں تدبر اور حلم بھی بہت تھا۔ میں نے انھیں کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔ لوگ چیختے چلاتے اور شور مچاتے ہیں فرمان صاحب خاموش رہتے ہیں۔ ہم لوگ شعبے میں خاصے پرانے ہو گئے تھے مگر پرچوں کی تقسیم میں ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہ آتا تھا۔ باہر والوں کو زیادہ پرچے مل جاتے۔ ایک بار فرمان صاحب سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی۔ انھیں بھی اس ناانصافی کا احساس تھا چنانچہ ایک دن اس عہدے کے سربراہ سے ہمارے گفتگو ہوئی۔ فرمان صاحب نے اپنے جچے تلے اندازمیں بڑی شگفتگی کے ساتھ اپنی شکایت بیان کر دی۔ اس طرح کہ کوئی ناگواری بھی نہیں ہوئی اور ہماری بات بھی مؤثر رہی۔ موقعہ احتجاج اور شور و غل کا تھا مگر فرمان صاحب کے حلم نے اس کی نوبت ہی نہیں آنے دی۔
فرمان صاحب بڑے عرصے تک ملیر میں مقیم رہے۔ میرے علم میں ہے کہ ان کے پڑوسی اور محلے کے لوگ اپنے اہم معاملات میں ان سے اکثر مشورہ کرتے تھے۔ ملیر سے وہ یونیورسٹی سٹی کیمپس میں آئے اور میرے قریب ہی مقیم ہوئے۔ یہاں بھی یہی کیفیت تھی کہ آس پاس کے اساتذہ اپنے مسائل کے سلسلے میں ان کی رائے لیتے تھے مگر فرمان صاحب کو کیمپس کی فضا کچھ زیادہ پسند نہ آئی کیونکہ تھوڑے دن بعد ہی وہ اپنے نئے مکان میں منتقل ہو گئے۔
کیمپس میں اکثر صبح سویرے میں انھیں ٹہلتے ہوئے دیکھتا تھا۔ بڑی پابندی سے سیر کرتے تھے۔ پابندی ان کی پوری زندگی میں جاری و ساری نظر آتی ہے۔
فرمان صاحب بڑے محنتی استاد ہیں۔پوری تیاری سے کلاس میں جاتے تھے اور ڈوب کر پڑھاتے تھے۔ شعبے کے طلبہ ان سے بہت متاثر تھے۔ شعبے سے فارغ ہونے کے بعد اکثر طلبہ فرمان صاحب سے رابطہ رکھتے تھے۔ دراصل استاد اپنے طلبہ ہی سے پہچانا جاتا ہے۔ طلبہ جس کی تعریف کریں وہی استاد اچھا۔ ویسے فرمان صاحب کے اساتذہ بھی ان کی لیاقت اور محنت کی داد دیتے تھے۔ مرحوم پروفیسر حبیب اللہ خاں غضنفر نے اکثر فرمان صاحب کی لیاقت اور محنت کی تحسین کی۔
فرمان صاحب نے ایم۔ اے اول بدرجہ اول کیا۔ اس زمانے میں وہ کسی سرکاری سکول میں معلم تھے۔ مستقل ملازمت تھی اور غالباً اس ملازمت کو کئی برس بھی ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے ان سے کہا کہ اسسٹنٹ لیکچرر کی حیثیت سے شعبے آ جائیے۔ تحقیقی مقالہ لکھ لیجیے گا تو لیکچرر بن جائیے گا، فرمان صاحب نے ایک لمحے کے لیے بھی تامل نہیں کیا، لگی بندھی نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور شعبے میں آ گئے۔ یہ اپنے اوپر اعتماد اور اللہ تعالیٰ پر یقین کی بات تھی۔ کوئی دوسرا ہوتا تو جھجکتا، سوچتا، دوستوں اور عزیزوں سے مشورہ کرتا، مگر فرمان صاحب کو اپنی محنت اور لگن پر اعتماد تھا۔ میں فرمان صاحب کے اس اعتماد کو یوں سراہتا ہوں کہ میں بذات خود بھی اس منزل سخت سے گزر چکا ہو۔ ریڈیو کی لگی بندھی سرکاری ملازمت چھوڑ کر پڑھانے کے شوق میں ایک پرائیویٹ کالج میں بلاتامل چلا گیا تھا۔ دوستوں اور عزیزوں نے لعنت ملامت کی، اونچ نیچ بھی سمجھائی مگر میں بہت پہلے یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ مجھے کالج میں پڑھانا ہے۔ موقعہ ملا تو سرکاری ملازمت چھوڑنے میں ایک لمحے کی دیر نہیں کی۔ ممکن ہے فرمان صاحب کو بھی ان کے عزیزوں اور دوستوں نے روکا ہو، سمجھایا ہو، مگر وہ دھن کے پکے تھے۔ اسسٹنٹ لیکچرر ہو کر شعبے میں آئے تھے ۔ پروفیسر اور صدر شعبہ ہو کر عزت و احترام سے اردو ڈکشنری بورڈ گئے ایسے اتفاقات بڑے نادر ہوتے ہیں۔
فرمان صاحب کے ساتھ مجھے بیسیوں ادبی جلسوں اور تقریبوں میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ پہلے وہ مضمون پڑھتے تھے۔ آج کل تقریر کرتے ہیں۔ تقریر بھی بے حد شگفتہ اور دلچسپ ۔ کام کی ساری باتیں اپنے خوبصورت جملوں میں بیان کر دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہر ادبی تقریب میں جان پڑ جاتی ہے۔ مگر ایک دفعہ میں نے اپنی اور فرمان صاحب کی بے بسی بھی دیکھی ہے۔ ہوا یہ کہ ایک یار عزیز نے فرمان اور مجھ کو ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لیے مدعو کیا۔ معاملہ دوستوں کا تھا، انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ صدارت بھی ہمارے ایک بزرگ رفیق کار کی تھی جنھیں اس تقریب میں شرکت کرنے کے لیے اسلام آباد سے آنا تھا۔ ہم دونوں وقت سے آرٹس کونسل پہنچے۔ جلسے کا اہتمام پورا تھا۔ اس تقریب کے بعد اسی حوالے سے کچھ اور سلسلہ بھی تھا۔ کھانا پک رہا تھا مگر ایک گھنٹہ گزر گیا نہ حاضرین میں سے کوئی نہ صاحب صدر۔ صرف وہ یار عزیز، فرمان صاحب اور میں، یہ کھانا پکانے والے۔ ایک گھنٹہ اور گزر گیا۔ معلوم ہوا کہ صاحب صدر نہیں آئیں گے۔ جب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو میں نے جھلّا کر فرمان صاحب سے کہا کہ اب کب تک بیٹھے رہو گے؟ وہ یار عزیز بھی موقعہ کی نزاکت کو بھانپ کر خاموشی سے کھسک چکے تھے۔ فرمان صاحب جھلائے تو نہیں مگر اس دن حسب معمول قہقہہ نہیں لگایا۔ کہنے لگے چلو بھئی واپس چلو، زندگی میں ایک تجربہ یہ بھی سہی۔ کوئی دوسرا ہوتا تو بہت برا مانتا، ناراض ہوتا، نجانے کیا کیا سخت سست کہہ ڈالتا فرمان صاحب نے ہلکی سی برہمی کا اظہا ربھی نہیں کیا اور اس یار عزیز سے حسب معمول خندہ پیشانی سے پیش آتے رہے۔
فرمان صاحب اردو ڈکشنری بورڈ میں بڑا مفید کام کر رہے ہیں۔ ایک لگن ہے جو انھیں رواں دواں رکھے ہے۔ سرکاری دفتروں میں کام کی رفتار عموماً سست ہوتی ہے۔ سازشیں بھی ہوتی ہیں۔ فرمان صاحب سے پہلے اردو ڈکشنری بورڈ کی شہرت کچھ اچھی نہیں تھی۔ اکھاڑ پچھاڑ بھی تھی کام کم تھا۔ اکھاڑ پچھاڑ زیادہ تھی۔ فرمان صاحب نے کام سنبھالتے ہی ہر شعبے پر نظر ڈالی۔ خرابیوں کو درست کیا اور پورے اعتماد سے کام شروع کیا۔ یہاں بھی ان کی خود اعتمادی نے انھیں سہارا دیا اور اردو ڈکشنری بورڈ ایک صاف ستھرے قابل تحسین قومی ادارے کی حیثیت سے خدمت انجام دینے لگا۔ لغت کی متعدد جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ ہر طرف دھوم ہے۔ فرمان صاحب نے ڈکشنری بورڈ کو ڈکشنری بورڈ بنا دیا۔
انسان نیک نیت ہو تو اللہ تعالیٰ اس نیک نیتی کا صلہ بھی دیتا ہے۔ فرمان صاحب جیسے خود ہیں ویسی ہی ان کی اولاد بھی ہے۔ لڑکے سعادت مند اور محنتی۔ لڑکیاں سلیقہ مند اور خدمت گزار۔ بچوں کی تربیت میں بھابھی کی کوششوں کو زیادہ دخل ہے۔ وہ بھی فرمان صاحب کی طرح نیک نیت اور محنتی ہیں۔ گھر کی خوبصورتی اور نفاست انہی کی مرہون منت ہے۔ پھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فرمان صاحب کے لیے ساز گار علمی ماحول فراہم کرنے میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ فرمان صاحب اپنے بچوں کو بہت چاہتے ہیں مگر بچوں کے سامنے اس کا اظہار نہیں کرتے۔
فرمان صاحب مزاج کے اعتبار سے سادہ اور عام دنیاوی تکلفات سے بے نیاز ہیں۔ نہ کھانے پینے میں کوئی تکلف نہ لباس میں غیر معمولی احتیاط۔ صاف ستھرے، عمدہ کپڑے پہنتے ہیں۔ اچھا اور شاندار مکان ہے۔ سلیقے سے رہتے ہیں۔ حفظ مراتب کے بہت قائل ہیں۔ ایک دفعہ رباعی کے حوالے سے شادانی صاحب سے ان کی کچھ بحث ہو گئی۔ یہ بحث تحریر میں ہوئی۔ شادانی صاحب بڑے آدمی تھے، چھوٹوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ فرمان صاحب سے اختلاف رائے ہوا تو انھوں نے اپنے مضمون کا لہجہ جارحانہ رکھا اور ناملائم الفاظ استعمال کیے۔ فرمان صاحب نے پوری بحث میں ادب اور شادانی صاحب کے مرتبے کا خاص خیال رکھا۔ بحث کی لیکن بڑے انکسار اور عاجزی کے ساتھ۔ شادانی صاحب الجھنے میں حفظ مراتب کا خیال نہیں کرتے تھے۔ ایک بار استاذی و مرشدی ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب سے ولی کے ایک شعر پر الجھے تو وہی جارحانہ لہجہ اختیار کیا مگر ڈاکٹر صاحب نے ایسی مسکنت اور عاجزی سے جواب لکھا جو یادگارحیثیت اختیار کر گیا۔ فرمان صاحب بزرگوں کے ادب میں بڑے محتاط ہیں۔ لیث صاحب کے سامنے ہمیشہ مؤدب نظر آتے ہیں۔ یہی حال ڈاکٹر شاہ علی صاحب کے سامنے رہا۔ اشرف ہاشمی ٹریننگ کالج میںاستاد تھے۔ فرمان صاحب کے بھی استاد تھے۔ جب کبھی فرمان صاحب کو دیکھتے۔ ارے بھئی دلدار کہاں ہو کہہ کر بات شروع کرتے۔ فرمان صاحب ہمیشہ ان کے ساتھ ادب لحاظ سے پیش آتے تھے اور دلدار سے مخاطب کیے جانے پر خوش ہوتے تھے۔
تصنیف و تالیف کا شوق فرمان صاحب کو ہمیشہ سے ہے۔جس زمانے میں وہ سکول میں پڑھاتے تھے تومختلف درسی کتابوں کی شرحیں لکھ ڈالیں۔ چونکہ موضوعات کے ماہر تھے، محنتی تھے۔ تالیفی سلیقے کے حامل تھے، اس وجہ سے یہ شرحیں بھی بہت مقبول ہوئیں۔ مضامین کاسلسلہ بھی اسی زمانے میں شروع ہو گیا تھا۔ یونیورسٹی آئے تو علمی کاموں کا شوق بڑھا۔ رباعی پر کتاب لکھی۔ پھر جو سلسلہ چلا تو آج تک جاری ہے۔ کتاب پر کتاب ایک سے ایک عمدہ ، ایک سے ایک بہتر ادب کے بے شمار موضوعات پر حاوی۔ انھوں نے ہر صنف سخن پر لکھا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی اقلیم سخن میں تمام اصناف شامل ہیں۔ کوئی صنف اس قلمرو سے باہر نہیں۔
فرمان صاحب صرف صاحب تخلص نہیں صاحب سخن بھی ہیں۔ اگرچہ انھوں نے اس امر کا اقرار نہیں کیا، تاہم میرا خیال یہ ہے کہ ان کی ادبیت کی ابتدا شاعری ہی سے ہوئی ہوگی۔ شعبہ اردو کی بعض محفلوں میں انھوں نے اپنا کلام سنایا ہے مگر نثر کی طرف توجہ ہونے کے بعد شاید انھوں نے شاعری کو پورا وقت نہیں دیا بہرحال وہ شاعر ہیں۔ زور شور کے نہ سہی لیکن ہیں شاعر۔
لکھنے لکھانے والوں کی ایک مصیبت یہ بھی ہوتی ہے کہ آئے دن فرمائشوں کا سامنا رہتا ہے۔ ہمارے مجموعے کا مقدمہ لکھ دیجیے، ہماری کتاب پر تبصرہ کر دیجیے۔ مجلہ تیار ہے، بس آپ کے مضمون کی دیر ہے۔ فرمان صاحب کی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی فرمائش کرنے والے کو مایوس نہیں کرتے۔ جہاں تک ممکن ہوتا ہے فرمائش پوری کر دیتے ہیں۔ مقدمہ، دیباچہ اور مضمون اس طرح لکھتے ہیں کہ دوسرے کا بھی بھرم قائم رہے، کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو اور کتاب کا صحیح تاثر بھی قاری تک پہنچ جائے۔اب فرمان صاحب نے اپنی بچت کا طریقہ یہ نکالا ہے کہ جلسوں میں بالعموم مضمون نہیں پڑھتے تقریر کرتے ہیں۔ چونکہ خوش گفتار ہیں اس وجہ سے ان کی تقریر بہت پسند کی جاتی ہے۔ سننے والے بھی خوش ہوتے ہیں اور صاحب کتاب بھی مطمئن ہو جاتے ہیں مگر یہ طریقہ ہر شخص نہیں برت سکتا۔ یہ اسی کے لیے موزوں ہے جو خوش تقریر بھی ہو اور گفتار کے اسلوب پر قابو بھی رکھتا ہو۔
وفا داری بشرط استواری بھی فرمان صاحب کی خصوصیت ہے۔ انھیں نیاز فتح پوری سے عقیدت بھی ہے اور محبت بھی۔ نگار کو انھوں نے جس طرح جاری رکھا۔ نیاز صاحب کی یاد میں ہر سال جس اہتمام سے محفل آراستہ کرتے ہیں وہ کوئی معمولی بات نہیں۔ اس محفل کو ایک اہم ادبی تقریب کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔
اس ضمن میں مجھے یاد آیا کہ فرمان صاحب ایک اچھے استاد، ادیب اور نقاد ہی نہیں اعلیٰ درجے کے منتظم بھی ہیں۔ دوسروں سے کام لینے کے ہنر سے بھی پوری طرح واقف ہیں اور کام لینے کے لیے اپنے چھوٹوں کی تربیت بھی کرتے رہتے ہیں۔
مردم شناس فوراً پہچان لیتا ہے کہ کس شخص میں کیا صلاحیت ہے۔ کس کو کس کام پر لگانا چاہیے۔ تربیت کے لیے کیا انداز اختیار کرنا چاہیے۔ فرمان صاحب مردم شناس بھی ہیں۔ تربیت بھی کرتے ہیں اور ہر شخص سے اس کی صلاحیت و استطاعت کے مطابق کام بھی لیتے ہیں۔
فرمان صاحب کی شخصیت کے جس پہلو نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ حب جاہ سے بے نیازی او رخواہ مخوا ہر کسی سے مرعوب نہ ہونے کی عادت ہے۔ میں نے انھیں مخطوطوں اور کتابوں کی جستجو میں دوڑ بھاگ کرتے ہوئے بار ہا دیکھا ہے لیکن کسی بڑے آدمی کے در پر ناصیہ فرسائی کرتے نہیں دیکھا۔ یونیورسٹی کا وائس چانسلر اساتذہ کا امید گاہ سمجھا جاتا ہے کہ عزل و نصب کے اختیارات اسی کو حاصل ہوتے ہیں۔ مشتاقان جاہ اس کے گرد گھیرا ڈالے رہتے ہیں۔ دن رات حاضری دیتے ہیں۔ وائس چانسلر تو بڑی چیز ہے رجسٹرار کے در پہ سجدے ہوتے رہتے ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ ایک استاد پروفیسر ہونے کی توقع میں ایک رجسٹرار کی بیگم کا قارورہ ایک مدت تک روزانہ ڈاکٹر کے یہاں لے جاتے رہے اور آخر کار پروفیسر مقرر ہو گئے۔ فرمان صاحب کے یہاں اس خفیف الحرکاتی کا کوئی شائبہ بھی نہیں۔ وہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور ڈاکٹر محمود حسین خاں کا بڑا احترام کرتے تھے۔ ڈاکٹر محمود حسین سے ان کے بڑے خوش گوار ذاتی تعلقات تھے مگر وہ ان کے حاضرباشوں میں نہیں تھے۔ ذاتی ملنا جلنا اپنی جگہ اور یونیورسٹی کے معاملات اپنی جگہ۔ فرمان صاحب علمی اور دنیاوی سطح پر کسی سے مرعوب بھی نہیں ہوتے۔ ہر شخص سے برابری کی سطح پر آزادانہ اور بے تکلفانہ ملتے ہیں۔ نہ کسی کے احترام میں کمی کرتے ہیں نہ کسی کے ناز بیجا اٹھاتے ہیں۔ با اصول آدمی ہیں۔
یہ سب کچھ قلم بند کرنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ فرمان صاحب کی شخصیت، جدوجہد اور لگن کو اگر ایک جملے میں بیان کرنا ہو تو کیا کہیں گے؟ ذہن میں آیا کہ حضرت سلطان جی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی ایک مبارک مجلس میں خواجہ حسن سجزیؒ سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا ''ہر کہ بود بحُسنِ عمل بمقامے رسید''۔ فرمان صاحب بھی حسن عمل سے آج اس مقام پر پہنچے ہیں۔ ان کی شخصیت ، جدوجہد اور لگن کے کلیدی الفاظ بھی ''حسن عمل'' ہیں۔ اسی حسن عمل نے انھیں زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر بنا دیا ہے۔
٭٭٭٭