کتاب میلہ

فکرِ بلیغ از: شاد عظیم آباد، مرتبہ: ڈاکٹر مزمل حسین
مبصر: حمیرا شمیم ، کوٹ اَدُو
پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین اردو تحقیق و تنقید کی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ علم بیان اور علم بدیع کے حوالے سے آپ کا بڑا وقیع کا م ہے۔ جسے مجلس ترقی ادب، لاہور نے شائع بھی کیا ہے۔ خواجہ غلام فرید کے کلام میں صنائع بدائع، ظفر اقبال کی شاعری میں صنائع بدائع کا حسن اور علم بدائع کی چند نادرصنعتوں کے علاوہ منٹو کی نادر تشبیہات آپ کا نادر کام ہے۔ اس کے علاوہ ''حدائق البلاغت'' کی ترتیب، تہذیب اور مقدمہ بھی قارئین سے داد وصول کر چکی ہے۔ اسی کتاب میں انھوں نے علم بلاغت کی تعریف اور تاریخ بھی پیش کی ہے۔ ''فکر بلیغ'' شادؔ عظیم آبادی کی ایک نایاب اور اہم کتاب ہے جو کئی دہائیاں قبل پٹنہ، بھارت سے شائع ہوئی تھی۔ جو ایک عرصے سے آئوٹ آف پرنٹ تھی۔ مگر محققین اور ناقدین اردو ادب نے اس کی جانب توجہ نہ دی اور اسی طرح آج کا اردو ادب کا قاری اس کے مطالعے سے محروم چلا آ رہا تھا۔ اس کی پیش کش ڈاکٹر مزمل حسین کا ایک اور علمی کارنامہ ہے۔ ''فکر بلیغ'' اردو لسان کی وہ اہم کتاب ہے جس میں اردو زبان کی تعریف ، تاریخ، اصول لسانیات ، فصاحت، بلاغت، بیان، بدیع، قافیہ، عروض، شعر کی تعریف اور اصنافِ شاعری پر مدلل اور مربوط بحث کی گئی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اتنی اہم کتاب آج کے قاری کی دسترس سے دور تھی۔ قاری اور ''فکر بلیغ'' کے درمیان فاصلہ دور کرنے کے لیے ڈاکٹر مزمل حسین نے اپنے تنقیدی شعور سے اسے دلآویز انداز میں مرتب کیاہے۔ بنیادی طو رپر اس کتاب کے دو باب تھے، فہرست اور سنِ اشاعت ندارد تھا۔ ڈاکٹر مزمل حسین نے قاری کی سہولت کے لیے دو ابواب کی جگہ تین ابواب بنا دیئے ہیں اور متن کو سمجھنے کے لیے ذیلی عنوانات اور فہرست بھی ترتیب دے دی ہے اور اکثر جگہوں پر رموزِ اوقاف سے تفہیم میں بہت سی سہولتیں بھی پیدا کر دی ہیں۔ اس کتاب میں بہت سے ایسے مباحث ہیں، جنھیں آج کا ناقد اپنے تجزیوں کی بنیاد بناتا ہے۔ اس لیے جدید انتقادی مطالعات کو سمجھنے کے لیے بھی اس کتاب کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔
ناشر: ادارہ فروغ قومی زبان، اسلام آباد
اداسی کے رنگ از: الطاف صفدر
مبصر: فیصل احمد گوندل
ڈیرہ اسماعیل خان نہ صرف سیاسی و سماجی حوالے سے بلکہ ادبی اور تہذیبی طور پر بھی زرخیز علاقہ ہے۔ جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے میدان میں بھی ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جو ملکی سطح پر نامور ہو کر اس شہر کا تعارف بنے۔ اس شہر میں اردو زبان و ادب کی روایت کو جن لوگوں نے حقیقی معنوں میں مضبوط بنیادوں پر استوار کیا ہے ان میں سے ایک الطاف صفدر ہیں۔ جن کا مجموعہ کلام ''اداسی کے رنگ'' ان کی وفات کے پانچ چھ سال بعد منظر عام پر آیا ہے اس مجموعے میں ان کا اردو اور سرائیکی کلام شامل ہے جس کے مطالعے سے الطاف صفدر کے ایک پختہ کار اور ماہر فن ذولسانی شاعر ہونے کا پتہ چلتا ہے۔
الطاف صفدر کی شاعری میں روایت کا پر تو صاف نظر آتاہے ویسے بھی غزل کو ذریعہ اظہار بنانے والے شعراء اس کی تہذیبی روایت کو یکسر نظر انداز نہیں کر پاتے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ الطاف صفدر کی غزل نہ صرف جدید لہجے سے آشنا ہے بلکہ فکر و احساس کی سطح پر یہ اپنا رشتہ پوری توانائی سے معاصر غزل سے جوڑتی نظر آتی ہے اور میرے خیال میں اس شاعری کے مطالعے کے لیے یہ جواز کافی ہے۔ الطاف صفدر کے بارے میں دو باتیں اور کرنا چاہوں گا ۔ ایک تو یہ کہ وہ معروف شاعر غلام محمد قاصر مرحوم کے دیرینہ رفیق تھے ۔ دونوں کے مابین گہری دوستی تھی اور دوسرے وہ پاکستان کے جواں شعراء میں اپنی پہچان رکھنے والے شاعر شہاب صفدر کے والد گرامی تھے۔ نمونہ کلام کے طو رپر الطاف صفدر کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ایسا نہ ہو کہ ہجر کی لگ جائے لُو مجھے
آنکھوں کے سرد خانوں میں کر بند تو مجھے

مری غزل میں اداسی کے رنگ بھر دے گا
کبھی تو مجھ کو خدا میرؔ سا اثر دے گا

دہن سجاوٹی گلداں، خلوص کاغذی پھول
جدید دور میں گفتار بھی جدید ہوئی

اٹھ کر سارے اپنا چہرہ دیکھتے ہیں
دن کا اجالا خود غرضی پھیلاتا ہے
انجمن آرزو از: انیس الرحمن
مبصر: ڈاکٹر اسلم فرخی
ڈاکٹر انیس الرحمن دلِ بیداد اور دیدۂ بینا کے حامل ہیں۔ پہلی دنیا، دوسری دنیا اور تیسری دنیا کے حالات، کیفیات، مسائل سب پر محرمانہ نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے مختلف ممالک کے مادی عروج اور روحانی انحطاط کا بڑا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ اس مطالعہ میں دانشِ برہانی کی جھلک اور دانشِ روحانی کے اثرات نمایاں ہیں۔جو گزر گیا وہ کیسا تھا جو آنے والا ہے وہ کیسا ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب کے یہاں دونوں کی جھلک ملتی ہے۔انھوں نے جدید علوم کا بھرپور مطالعہ کیا ہے۔ دنیا دیکھی ہے۔ بھانت بھانت کے لوگوں کو دیکھا ہے۔ مختلف معاشروں کے ذہنی اور روحانی رویوں کو جانچا اور پرکھا ہے اور تاثرات کو دلکش، پرکشش اور سلیس انداز میں اپنے قاری کے سامنے پیش کر دیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب سچے اور کھرے انسان ہیں۔ مصلحت اور سمجھوتوں کے قائل نہیں جو بات کہتے ہیں پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ کہتے ہیں۔ ان کی بات میں وزن، وقار اور سچائی کی روشنی ہے۔ وہ جدید علوم کے انکشافات، انسانی ذہن اور معاشرے پر ان کے اثرات اور حسن و قبح کے جائزے میں اسلامی اصولوں کی ہمہ گیری اور وسعت کے قائل ہیں۔ پیش نظر کتاب میں انھوں نے جا بجا اسلامی اصولوں کی روشنی میں آج کے پیچیدہ اور روز افزوں مسائل کا جائزہ لیا ہے۔ ان کے تجزیے، مشاہدے اور تجربے بڑے فکر انگیز اور ساتھ ہی ساتھ عبرت انگیز بھی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات اتفاقیہ طو رپر ہوئی اور پھر یہ اتفاقی ملاقات یگانگت اور میری نیاز مندی میں تبدیل ہو گئی۔ میں ان کی اصابتِ رائے اور معاملہ فہمی کا قائل ہوں۔ ان کی فکر اور خیالات میں کوئی شدت اور ناہمواری کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ انھوں نے اپنے افکار، خیالات اور مشاہدات کے بیان میں جابجا اپنے ذاتی تجربات کا مؤثر حوالہ دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے تجربات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لا قانونیت اور معاشرتی زبردستی کے سامنے سپر ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انھوں نے ایک سچے اور دلیر انسان کی حیثیت سے زندگی گزاری ہے اور نتائج کی کوئی پروا نہیں کی۔ یہ بات بھی بہت دلچسپ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے زمانے کی سیر کرنے کے بعد اپنے ملک اور وطن ہی کو اپنا مستقر بنایا۔ کاشانۂ اغیار کی شمع روشن نہیں کی ا ور اپنے خیالات سے معلومات عامہ ، ذہنی ارتفاع اور فکر صحیح کی راہ ہموار کی۔
ڈاکٹر صاحب کو اپنے ملک اور اپنے شہر لاہور سے بے پناہ محبت ہے۔ لاہور ان کے مضامین کا بنیادی پس منظر ہے اور ''لاہور ابجان برابر خریدہ ایم'' کی یاد تازہ کرتا ہے۔ لاہور ہی کے حوالے سے آج سے پچاس برس پہلے لکھا جانے والا سعادت حسن منٹو کے بارے میں مضمون آج بھی تازہ اور دلکش ہے۔ اس مضمون کے توسط سے ہم آج بھی منٹو کو زندہ ، توانا اور اپنے درمیان محسوس کرتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا تعلق دلی کے ایک معزز ، علم دوست اور ادبی گھرانے سے ہے۔ ان کے جدِ محترم غالبؔ کے تلامذہ میں شامل تھے لیکن ڈاکٹر صاحب اس تعلق سے محض غالبؔ کے طرفدار نہیں۔ سخن فہم بھی ہیں۔ انھوں نے شعر سخن کی طرف توجہ بھی کی لیکن اس وقت جب بقول حالیؔ''نہ رہی چیز وہ مضمون سجھانے والی''۔ انھوں نے نثر میں شعر کی معنویت اور جاذبیت پیدا کی ہے۔ ان کی نثر بہت روشن، سلیس اور دل موہ لینے والی ہے۔ وہ ناگفتنی کو بھی ایسے سلیقے اور احتیاط سے بیان کرتے ہیں کہ ناہمواری کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر صاحب کے مضامین کے مطالعے سے میرے علم اور بصیرت میں اضافہ ہوا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے قارئین میری اس رائے سے اتفاق کریں گے۔
ناشر: سورج پبلشنگ، ۳ ٹمپل روڈ ، لاہور
قاردش از: حسنین نازشؔ
مبصر: ڈاکٹر محمد امتیاز
ارادہ تو اپنا تھا کہ ترکی کا سفر نامہ لکھوں، کیونکہ دو بار ترکی دیکھا لیکن یہ کام اپنے بس کا نہیں تھاسو نہ لکھ سکا۔ حسنین نازش بار بار کہا کرتے تھے کہ جناب ترکی کاسفر نامہ کب لکھو گے؟ میں آج اور کل کے وعدے پر ٹالتا رہا۔ آخر حسنین نازش کو خود ترکی کا یہ خوشگوار سفر نصیب ہوا اور سفر نامہ لکھ ڈالا۔ سفر نامہ لکھ کر ایک نظر دیکھنے کے لیے راقم کو ارسال کیا۔ ان کا سفر نامہ پڑھ کر ترکی کی سب یادیں تازہ ہوئیں اور دل نے ایک سچے مسلمان کی طرح گواہی دی کہ بھئی امتیاز! اس طرح تم نہیں لکھ سکتے تھے۔ اچھا ہوا کہ تم نے سفر نامہ نہیں لکھا۔
حسنین نازش کے اندر کہانی بُنت کے جو ہر مخفی ہیں اس سے پہلے ان کی ایک کاوش ''پہلی اُڑان'' (افسانوی مجموعہ) کے نام سے منظر عام پر آ چکی ہے ''پہلی اُڑان'' پر کامیابی کی مبارک باد ممتاز افسانہ نگاروں ''منشا یاد'' اور ''محمد حمید شاہد'' سے وصول کر چکے ہیں۔ امید ہے کہ ''قاردش'' پر بھی صف اول کے سفر نامہ نگاروں سے داد و مبارک باد وصول کر لیں گے۔ حسنین نازش نے بڑی چابک دستی اور جزئیات نگاری سے ترکی کے خوشگوار لمحات کو قید کر دیا ہے۔ جب تک ترکی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں تھا اس وقت تک ترکی کے بارے میں پہلے سے معلومات اکٹھی کر لی تھی۔ ترکی زبان فرفر بول تو نہیں سکتے لیکن ترکوں کو ترکی بولتے سمجھ لیتے ہیں۔ یہی چیز ان کے ترکی میں کام آئی۔
چونکہ حسنین نازش بنیادی طور پر ایک تخلیق کار ہیں۔ ان کا اصل میدان افسانہ ہے اور افسانہ میں ان کے جوہر کھلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاردش میں بھی افسانوی رنگ ہے۔ لیکن یہ رنگ ایسا غالب بھی نہیں کہ سفر نامہ دب گیا اور افسانہ اوپر آ گیا ہے بلکہ سفر نامے کے فنی لوازمات اور تکنیک کو انھوں نے خوب برتا ہے۔
جہاں فلسفہ اور واعظ آ جاتا ہے تو اکثر زبان کی خوبی جاتی رہتی ہے لیکن ان کے ہاں یہ معاملہ درست ہے۔ زبان و بیان میں روانی اور خوب صورت تراکیب کا استعمال بھی متوازن ہے۔ حسنین کی اردو دانی کو داد دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے حد درجہ شعوری کوشش کر کے اردو الفاظ و اصطلاحات کو استعمال کیا ہے۔
حسنین نازش نے اپنے سفر نامے کے لیے بیسوں نام سوچے اور منتخب کیے تھے۔ میں ممنون ہوں کہ میرا تجویز کردہ نام ''قاردش'' انھیں پسند آیا اور اپنے اس سفر نامے کا یہی نام رکھا۔ قاردش کی وجہ تسمیہ یہ ہے؛ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ترک پاکستانیوں سے حد درجہ محبت کرتے ہیں۔ پاکستان کی ہر مشکل گھڑی میں مدد کرتے ہیں۔ جب کسی پاکستانی کو اپنے وطن میں دیکھ لیتے ہیں تو فوراً اسے گلے لگتے ہیں اور منہ سے ''قاردش قاردش ، جیوے جیوے پاکستان''۔ ''پاکستان لِروے ترک لِر قاردش لر'' (پاکستان اور ترک بھائی بھائی ہیں) کی صدائیں نکلتی ہیں۔ اگر آپ کو ترکی کا سفر نصیب ہوا تو اس محبت کا عملی نمونہ اور اظہار خود دیکھ لیں گے۔ قاردش کے معنی؛ بھائی، دوست ہیں؛ ترکوں نے یہ لفظ پاکستانیوں کے لیے مختص کیا ہے۔ اب جب ترک، پاکستان اور پاکستانیوں سے اس قدر محبت کرتے ہیں تو کیا ان کی محبت کا دیا تحفہ''قاردش'' کے نام کا جواز بنتا ہے کہ نہیں؟
اردو کے سفر ناموں میں قاردش ایک اچھا اضافہ ہے۔ امید ہے کہ ہمارے بعض دیگر سفر نامہ نگار بھی اس طرز پر پُر مغز ، معلوماتی اور روح افزاء سفرنامے لکھیں گے نہ کہ لذت اندوزی کی خاطر۔
ناشر: خیام پبلی کیشنز، راولپنڈی
سیاست نامہ۔۲(کالموں کا انتخاب) از: اثر چوہان
مبصر: مشاہد حسین سید، سید سلیم بخاری
اثرچوہان ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ روشن دماغ اور بالغ نظر۔ نامور صحافی، ادیب شاعر اور دانشور، ان کا کالم ''سیاست نامہ'' پڑھے لکھے طبقے میں دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے۔ ''سیاست نامہ'' میں عام طور پر سیاسی، سماجی اور معاشی ناہمواریوں کو موضوع بنایا جاتا ہے۔
اثر چوہان کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ وقیع ہے۔ تاریخ خاص طور پر سیاسی تاریخ ان کا پسندیدہ مضمون ہے۔ مذاہب عالم کے تقابلی جائزے میں از حد دلچسپی رکھتے ہیں۔ اردو ، فارسی، ہندی اور گُرمکھی(پنجابی) شعروادب سے لگائو ہے جس کا عکس ان کے کالموں میں صاف نظر آتا ہے۔ طنز و مزاح اُن کا مزاج ہے اور بذلہ سنجی جبلت۔ ہجو ملیح لکھنے میں حد درجہ مہارت رکھتے ہیں۔ راست اقدام کریں تو انتہائی سفا کی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
اثر چوہان جوانی میںDare Devil مشہورتھے۔ ان کا ذاتی اخبار روزنامہ ''سیاست'' لاہور بہت بڑا اخبار تھا جو موصوف کی ''مسلح جدوجہد کی پالیسی'' کی نذر ہو گیا۔
میرا اثر چوہان سے بیس بائیس سال سے تعلق خاطر ہے لیکن باقاعدہ دوستی ۱۹۹۱ء میں ہوئی جب ہم نے کچھ دوسرے دوستوں کے ساتھ عوامی جمہوریہ چین اور شمالی کوریا کا تفصیلی دورہ کیا۔ خدا کے بندوں سے (بلا لحاظ مذاہب و ملت) پیار کرنے والے شخص ہیں۔ دوستوں کے ساتھ وفا کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے اکثر کالم مستقل حیثیت رکھتے ہیں۔ میرے نزدیک سیاست نامہ ''بہترین سیاسی ادب'' میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
محترم اثر چوہان میرے لیے صرف ایک سینئر ایڈیٹر نہیں بلکہ ایک ادارے کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ بیک وقت میرے محسن، استاد اور دوست ہیں۔ میں نے جہاں ان سے صحافت کے رموز سیکھے وہاں میں نے ان کا جہد مسلسل کا انداز بھی اپنایا ہے۔ وہ کوئی باز ی ہارنے سے پہلے ہی نئی بساط بچھا لیتے اور ایک تازہ دم جنگجو کی طرح پھر ہتھیار اٹھا لیتے ہیں۔ ان کے کالم کے سادہ جملوں میں بھی ایک کاٹ ہوتی ہے اور وہ اپنی سادہ بیانی سے تلخ سیاسی حقیقتوں کا پردہ چاک کرتے ہیں۔
ان کے صحافتی اور سیاسی رقیبوں کا خیال ہے کہ اگر اثر چوہان سے دوستی نہیں ہو سکتی تو اُن کی دشمنی کا رسک کبھی نہیں لینا چاہیے۔ ایک اور بات جو انھیں ان کے معاصرین میں ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ وہ کبھی گرے ہوئے سُورمائوں کی پروا نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ اقتدار کے دریچوں میں بیٹھے حکمران ہی ان کا نشانہ رہے ہیں۔ وہ انجام کی فکر سے ہمیشہ بے نیاز رہتے ہیں۔ ان کی دوستیاں اور دشمنیاں جانی پہچانی ہیں۔
کتاب کے بارے میں مرتب لکھتے ہیں : اب تک تقریباً پانچ ہزار کالم لکھ چکا ہوں ''سیاست نامہ'' اوّل ۱۹۹۵ء میں شائع ہوا۔ اور دوم (میری لاپروائی کی وجہ سے) اب گیارہ سال بعد… دراصل میں نے اپنے داماد خلیل احمد خان، بیٹی منزہ خان(کینیڈا) منزہ کے ماموں مرزا زاہد بیگ اور ممانی رخسانہ بیگ (برطانیہ) کی فرمائش نما پریشر کو قبول کر لیا۔ اگر میں حکمران ہوتا تو برملا کہتا کہ میں غیر ملکی پریشر قبول نہیں کرتا لیکن تارکین وطن جب تک تارکین محبت نہ ہو جائیں، خون اور فون کے رشتوں میں بندھے رہتے ہیں۔ کتاب کے فلیب اور ابتدائی صفحات پر میرے دوستوں نے میری اور ''سیاست نامہ'' کی جتنی تعریف کی ہے، وہ میرے لیے کافی ہے۔ اب اور میں ''اپنے منہ میاں مٹھو'' کیا بنوں؟
رابطے کے لیے برقی پتا: asarchauhan@hotmail.com
مجلہ، بیاس رُت
پیش نظر ''بیاس رُت'' گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین جہانیاں ضلع خانیوال ۲۰۱۲۔۲۰۱۳ کا مجلہ ہے، اس کی سرپرست مسز غلام جنت ہیں۔ اردو حصے کی مدیرہ، مسز رضیہ رحمن جبکہ مدیرات معاون، فائزہ مقبول اور زنیرہ منیر ہیں جبکہ انگریزی حصے کی مدیرہ، زیب النساء اور نازیہ تبسم ہیں۔ مجلے میں طالبات کے دلچسپ مضامین کے علاوہ کالج کی نصابی اور غیر سرگرمیوں کو رنگین تصاویر کے ذریعے نمایاں طور شائع کیا گیا ہے۔
سہ ماہی اقبال، لاہور
بزم اقبال کا یہ مجلہ نگہت صدیق کی زیر ادارت شائع ہوتا ہے جبکہ مجلس ادارت میں پروفیسر محمد مظفر مرزا اور محمد نعیم بزمی بھی شامل ہیں۔ مجلے کے مقاصد علامہ اقبال کے حوالے سے تحقیقی مضامین ، تجزیاتی مقالے علامہ کی زندگی، شاعری، افکار، علوم وفنون کے ان شعبوں کا تحقیقی مطالعہ پیش کرنا شامل ہے جن سے انھیں گہری دلچسپی تھی جن میں اسلامیات، فلسفہ، عمرانیات ، مذہب، ادب اور فن وغیرہ شامل ہیں، پیش نظر اکتوبر تا مارچ ۲۰۱۳ء کے شمارے میں ''اقبال کا تصوراسلامی ریاست''، از ڈاکٹر جاوید اقبال، ''اقبال بحیثیت ممتحن'' از پروفیسر محمد حنیف شاہد اور ''علامہ اقبال بطور نقاد'' از ڈاکٹر مزمل حسین جیسے تحقیقی و علمی مضامین شامل اشاعت ہیں جو کہ اقبالیات کے طلباء کے لیے یقینا تحقیق میں معاون ثابت ہوں گے۔ رابطہ کے لیے پتا: بزم اقبال، ۲ کلب روڈ لاہور۔
برقی پتا: bazmeiiqbal@gmail.com
مبصر:تجمل شاہ