غزل
چراغ کیسے بجھا کچھ پتا نہیں چلتا
چلی کدھر سے ہوا کچھ پتا نہیں چلتا

عجب طرح کا تھا جادو نگاہ میں اس کی
یہ دل جیا کہ مرا کچھ پتا نہیں چلتا

امید و بیم یہاں تک تو ہم کو لے آئے
اب اس کے بعد ہے کیا کچھ پتا نہیں چلتا

بچا کے رکھا تھا جس دل کو آئینے کی طرح
وہ کیسے ٹوٹ گیا کچھ پتا نہیں چلتا

تمام رات اک آواز دل دکھاتی رہی
تھا کون نغمہ سرا کچھ پتا نہیں چلتا

بہت طویل ہے زنجیر وقت کی اکبر
کہاں ہے اس کا سرا کچھ پتہ نہیں چلتا
اکبر حیدر آبادی
غزل
کر لیا دن میں کام آٹھ سے پانچ
اب چلے دورِ جام آٹھ سے پانچ

چاند ہے اور آسمان ہے صاف
رہتے بالائے بام آٹھ سے پانچ

اب تو ہم بن گئے ہیں ایک مشین
اب ہمارا ہے نام آٹھ سے پانچ

شعر کیا شاعری کے بار ے میں
سوچنا بھی حرام آٹھ سے پانچ

وہ ملے بھی تو بس یہ پوچھیں گے
کچھ ملا کام وام آٹھ سے پانچ
باصرکاظمی
غزل      
کسی مُورت جیسی صورت پر لگے سایہ نُور اجالوں کا
کسی چال جمال خیال کی چھب پر واہمہ پڑے غزالوں کا

اُس شہر کا جب بھی حال سُنے ، دل اندیشوں کے جال بُنے
جس کی گلیوں میں بِکھرا ہے سرمایہ گزرے سالوں کا

کسی بانکے پیڑ کی لچکیلی بانہوں میں کریں آنکھیں گیلی
کسی نرم ہوا کے پھاہوں سے کریں درماں دل کے چھالوں کا

کوئی سایہ سر پر ہاتھ رکھے ، کوئی اپنا آنکھ کے اشک چُنے
کوئی پیچھے رہنے والوں کو دے پُرسہ جانے والوں کا

کچھ یادیں، موسم تابندہ ، کچھ چہرے ، عکس سدا زندہ
دل عجب عجائب خانہ ہے کچھ رنگوں کچھ تمثالوں کا
عابد سیال
غزل
میری آنکھیں تو تھیں رواں مِری جاں
تُو اس آشوب میں کہاں مِری جاں

کیا کہوں ، زخم اور لہو مِرا دل
کیا کروں ، راکھ اور دُھواں مِری جاں

ثبت ہیں صفحۂ سماعت پر
تیری آواز کے نشاں مِری جاں

یاد کرتا ہوں تیری باتوں کو
جوڑتا ہوں یہ کرچیاں مِری جاں

کوہِ غم آنسوؤں سے کٹتا نہیں
چھوڑ یہ کارِ رائگاں مِری جاں
عابد سیال
غزل
خبر سمجھ کے سرابِ خبر میں کھویا ہوا
عجیب شہر ہے یہ جاگتے میں سویا ہوا

جو آج منزلِ مژگاں پہ آ کے ٹھہرا ہے
یہ اشک پہلے کِسی وقت کا ہے رویا ہُوا

وہ دیکھنا ہے جو اپنی نظر کا قرض نہیں
وہ کاٹنا ہے جو اپنا نہیں ہے بویا ہُوا
 ق
کہاں سے پھر مِری وحشت تلاش کر لائی
وہ دور گردِ زمان و مکاں میں کھویا ہوا

غلافِ چشم میں لپٹے ہوئے ارادے تھے
پیام ------ تارِ تبسم میں تھا پرویا ہوا

ہزار دستکِ گریہ ، ہزار شورِ فغاں
کب ایسے جاگنے والا ہے ، بخت سویا ہوا
عابد سیال
غزل
سفر نصیب کو راحت نظر نہیں آتی
ٹھہرنے گھر کی سہولت نظر نہیں آتی

ہمارا جینا مسلسل نماز ہے لیکن
کسی کو بھی یہ عبادت نظر نہیں آتی

گھروں کو لوٹنے والوں کو احتمال ہے اب
زمین لائقِ ہجرت نظر نہیں آتی

وہ جن کو ہم نے محبت کے خون سے سینچا
انھیں میں ہم کو محبت نظر نہیں آتی

نہیں ہیں آئینے یکساں خیال کے میرے
تمہاری ایک سی صورت نظر نہیں آتی

شہابؔ آنکھ اچانک جو کھل گئی دل کی
خضر نماؤں کی حاجت نظر نہیں آتی
راشد لطیف
غزل
کنول ہوں آب میں خوش، گُل صبا میں شاد رہیں
ترے حزیں تری آب و ہوا میں شاد رہیں

پلٹ کے دیس کے باغوں میں ہم نہ جائیں گے
شفق مزاج ہیں، صحرا سرا میں شاد رہیں

چراغ بانٹنے والوں پہ حیرتیں نہ کرو
یہ آفتاب ہیں شب کی دعا میں شاد رہیں

گُلوں کی کھیتیاں کاٹی ترے شہیدوں نے
گلاب گوندھنے والے عزا میں شاد رہیں
علی اکبر ناطق
غزل
ہوا کے تخت پر اگر تمام عمر تُو رہا
مجھے خبر نہ ہو سکی پہ ساتھ ساتھ میں بھی تھا

چمکتے نور کے دنوں میں تیرے آستاں سے دُور
وہ میں کہ آفتاب کی سفید شاخ پر کِھلا

حجاب آ گیا تھا مجھ کو دل کے اضطراب پر
یہی سبب ہے تیرے در پہ لوٹ کر نہ آ سکا

وہ کس مکاں کی دھوپ تھی گلی گلی میں بھر گئی
وہ کون سبزہ رخ تھا جو کہ موم سا پگھل گیا

کبھی تو چل کے دیکھ سائے پیپلوں کے دیس کے
جہاں لڑکپنا ہمارے ہاتھ سے جدا ہوا
علی اکبر ناطق
اگر تم ایک احمریں لباس میں مبعوث ہو سکو
تم میرے لیے
ایک احمریں لباس میں مبعوث ہو سکو
اور میں تمھیں آنکھوں کے کناروں سے چننا
شروع کر سکوں
تم میری انگلیوں کو
اپنی پُشت پر نائیلون کی درُشتی سے واقف کرا سکو
اور میں یہ تحریر اپنی پوروں پر اُتار سکوں
تم میری ہتھیلیوں کو
اپنی کمر پر روئیں کی روئیدگی سے گُزار سکو
میں فصلوں پر مَوج زَن صبح کی ہوا بن سکوں
تم اپنے احمریں لباس پر بُنی
مہین شریانوں میں دَمکتے لہو سے
میری سانسوں میں اُگ سکو
میری سانسیں
تمھارے لہو کی خُوش بُو سے اپنی نیو اُٹھا سکیں
تم اپنے ہونٹوں سے میرا نام پُکار سکو
اور میں کائنات کی تہوں تک گونج سکوں
تم میرے لیے
ایک احمریں لباس میں مبعوث ہو سکو
جسے میں ایک چراغ کے شعلے سے قطع کر سکوں
جو تمھارے احمریں ملبوس سے جلایا جا سکے
          سید کاشف رضا
جب تم میری آنکھوں کے پاس آ جاتی ہو
جب تم میری آنکھوں کے پاس آ جاتی ہو
ایک خواب میرے دل کے قریب ہونے لگتا ہے
اور ایک سُرخ بُوند
میری انگلیوں کی پوروں میں سرکنے لگتی ہے
تاکہ تمھاری قمیص پر بنے ہوئے
کسی پھول کو چھُو سکے
یا کسی اُدھڑے
یا اچھی طرح سِلے ہوئے ٹانکے کو
محسوس کر سکے
میری آنکھیں
تمھیں روکنے کی کوشش میں
بے وقار ہونے لگتی ہیں
اور میرے بازو
تمھیں تھامنے سے انکار کرتے ہوئے
شل ہونے لگتے ہیں
جب تم میری آنکھوں کے پاس آ جاتی ہو
ایک خواب میرے دل کے قریب ہونے لگتا ہے
جیسے وہ کوئی بارودی سُرنگ ہو
اور دل کوئی آب دوز
سید کاشف رضا
زہریلی چراگاہیں
ندی کے اُس طرف سر سبز جنگل ہے
ملائم لہلہاتی گھاس کی سوندھی چراگاہیں ہیں
بابا ہم سے کہتے تھے
ندی کے اُس طرف بھینسیں نہ لے جانا
ندی کے اُس طرف قبریں ہیں ماسا ہاری لوگوں کی
وہاں کے پیڑ پودے سب ہیں زہریلے
دُدھیلن بھینس کے بھی تھن یکایک سوکھ جائیں گے
حمل گابھن کا گر جائے گا
ہیلے سر پھرے ہوں گے
مگر بابا نہیں ہیں اب
ندی کے اُس طرف سر سبز ، چمکیلی چراگاہیں
ہماری فربہ بھینسوں کی ضیافت کر رہی ہیں
مانج کو آئے ہوئے ہیلوں کے ڈکرانے سے جنگل گونجتا ہے
گابھنیں سب جڑواں بچے جن رہی ہیں
دودھ دونا اور گاڑھا ہو گیا ہے
ماساہاری = گوشت خور
دُدھیلن = شیردہ، lactating
تھن = پستان، breast
گابھَن = حاملہ
ہیلا = (یائے مجہول) بھینس کا نر
مانج کو آنا = مائل بہ جفتی ، intense libido
مصعب اقبال
٭٭٭٭