کیتھرین ڈیلسی مترجم :بینش شکور

تنقید اور شعورِ عامہ

ڈیوڈ لاج کے ناول ''مبتدل مقامات'' (Changing Places) میں جب فلپ سوالو (Philip Swallow) امریکہ کی یونیورسٹی میں انگریزی کے مہمان پروفیسر کے طور پر پہنچا تو اُسے بتایا گیا کہ اُسے ناول نویسی سے متعلق نصاب پڑھانے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ ایک طالبعلم جس کا نام ولی سمتھ ہے، یہ نصاب پڑھنے کا نہایت خواہش مند ہے۔
میں لکھنا چاہتی ہوں کہ میرے پاس یہ ناول ہے۔ یہ اسی کالے لڑکے سے متعلق ہے جس کی پرورش شہر کے پسماندہ علاقے میں ہوئی ہے۔
کیا یہ کسی قدر مشکل نہیں ہو جائے گا ، فلپ نے کہا۔ میرا مطلب ہے جب تک تم خود حقیقت میں نہ ہو۔۔۔''
فلپ ہچکچایا۔ اُسے چارلس بون نے ہدایت دی تھی کہ ان دنوں ''کالا'' درست استعمال ہے لیکن وہ Rummidgeمیں نسلی تعصب کی سب سے ناگوار قسم کے ساتھ جڑے اس لفظ کو ادا کرنے کے لیے خود کو ناقابل محسوس کرتا ہے۔
جب تک تمھیں خود تجربہ نہیں ہوجاتا، وہ اس کے جملے کی تصحیح کرتا ہے۔
یقیناً ۔ جیسا کہ کہانی آپ بیتی ہے۔ مجھے صرف تکنیک کی ضرورت ہے۔
''آپ بیتی؟'' فلپ نوجوان کو جانچنے کے لیے اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہے اور انپے سر کو ایک طرف جھکاتا ہے۔ ولی سمتھ کی جلد کا رنگ گرمیوں کی چھٹیوں کے ایک ہفتے بعد خود فلپ کے رنگ جیسا ہوگیا تھا۔ اس کا رنگ مرجھا گیا تھا اور پیلا پڑ گیا تھا۔ ''کیا تمہیں یقین ہے؟''
''یقینا مجھے یقین ہے'' ولی سمتھ افسردہ لگ رہا تھا، اس کی اس حالت کو شرمندگی نہیں کہنا چاہیے۔ (لاج ۱۹۷۸ء، صفحہ ۶۷)
بین الثقافتی ابلاغ میں مشکلات خواہ کچھ بھی ہوں پروفیسر اور طالب علم اس مفروضے پر متفق تھے کہ ناول زندگی سے متعلق ہوتے ہیں، وہ ذاتی تجربہ کی بنیاد پر لکھے جاتے ہیں اور یہ تجزیہ ناول کی صداقت کا ثبوت ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ ادب کے عام نظریہ سے متفق ہیں، جو'' واضح حقیقت پسندی''کی تلاش میں مطالعہ کی تجویز دیتاہے، اور ''Changing Place'' میں پیش کیا جانے والا واحد متبادل ، دائرۃ المعارف کے Morris Zapp کی ادبی استعماریت ہے، جو نورتھ روپ فرائی کا سرگرم پیش روہے۔ شعور عامہ فرض کرتا ہے کہ قابل قدر ادبی متون، جو مخصوص انداز سے پڑھے جانے کے قابل ہیں، سچائیاں بتاتے ہیں یعنی اس عہد سے متعلق جس میں وہ ادب تخلیق کیا گیا اور بالعموم اس دنیا یا انسانی فطرت سے متعلق سچائیاں بتاتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے مصنفین کے مخصوص وجدانی ادراک اور انفرادی بصیرتوں کو بیان کرتے ہیں۔
شعورِ عامہ ادب تک رسائی کے اس طریقے کو نہ صرف ذاتی شعور اور دانستہ عمل ، ایک ایسا طریقہ جو منطقی نظریاتی عمل پر مبنی ہو، کے طور پر پیش کرتا ہے بلکہ یہ مطالعہ کا درست اور ادبی تصانیف تک رسائی کا قدرتی طریقہ بھی ہے۔ نتیجتاً تنقیدی نظریہ مکمل طور پر قابل قدر ہے لیکن کسی حد تک ایک مخصوص شعبہ زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ تعلیم یافتہ طالبعلموں کے لیے ایک مناسب سرگرمی ہے یا زیر تعلیم طلباء کے لیے ایک مخصوص انتخاب ہے، اور خود مطالعہ کے عمل سے اس کا کوئی لازمی رابطہ نہیں ہے۔ اپنی بہترین صورت میں یہ نظریاتی طریقوں کو، جن کا ہمیں پہلے سے علم ہے، کو بیان کرنے کا طریقہ ہے اور جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو مجموعی طور پر کسی مشکل کا سامناکیے بغیر عمل میں آتا ہے۔ اپنی بدترین صورت میں اسے گمراہ کن سمجھا جاتا ہے۔ مطالعہ کے قدرتی طریقے میں مداخلت کرتے ہوئے فلسفہ کے قیاسی نظریوں سے قاری کے دماغ کو پریشان کرتا ہے اور اس طرح غیر اختراعی بولی تک رہنمائی کرتا ہے اور متن کے فوری قابل ادراک حقیقت کے ساتھ براہِ راست اور غیر ارادی رابطہ کو نقصان پہنچاتا ہے۔
اسی اثناء میں ، یورپ اور ریاست ہائے متحدہ کے حالیہ کام میں، جسے سب سے زیادہ تحریک فرانس سے ملی، نہ صرف شعور عامہ کے مخصوص مفروضات ، واضح اور قدرتی نظر آنے والے عقائد میں سے کچھ پر بحث کی گئی بلکہ خود شعور عامہ کے تصور کی برتری اور ابدی دانش جس کی قطعی موجودگی ہر اس چیز کی ضمانت اور ذریعہ ہے جس کی ہم ضمانت چاہتے ہیں، پر بحث کی گئی ہے۔ یہ کام، جسے زیادہ تر ساختیات سے منسوب کیا جاتا ہے، فردی نینڈ سوسیئر کے لسانی نظریہ کے بنیاد ی اجزاء پر انحصار کرنے کی وجہ سے زیادہ درست طور پر سوسٹیر کے بعد کے کام کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، تجویز دیتا ہے کہ شعور عامہ خود آئیڈیا لوجیکل اور استدلالی طورپر مخصوص تاریخی صورتحال سے جڑا ہے اور ایک مخصوص سماجی نظم و ترتیب کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ (کام) زور دیتا ہے کہ جو کچھ واضح اور قدرتی دکھائی دیتاہے ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو بلکہ ''واضح'' اور ''فطری'' پیش نہیں کیے جاتے تاہم ایک مخصوص معاشرے میں ان طریقوں سے ، جن میں وہ معاشرہ خود اپنے اور اپنے تجربات کے بارے میں گفتگو کرتا اور سوچتا ہے ، پیدا ہوتے ہیں۔
یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ مطالعہ کے عمل سے متعلق شعورعامہ کے بیانات بھی زیر بحث آئے ہیں۔زبان پر سوسیٹر کے بعد کے کام نے حقیقت نگاری کے کل تصور کو چیلنج کیا ہے۔ رولاں بارت نے خصوصی طور پر مصنف کی موت کا اعلان کیا ہے، اور ژاک لاکان، لوی آلتھیوسر اور ژاک دریدانے بشردوست مفروضہ ، جس کا موضوع فرد واحد کا دماغ یا باطن جو معنی اور عمل کا ذریعہ ہے، پر مختلف انداز سے بحث کی ہے۔ اس سیاق و سباق میں متن کا نظریہ، جو حقیقت پیش کرتا ہے ، وہ اکیلے فردِ واحد (مصنف) جس کی بصیرتیں متن کے مفہوم کا واحد اور بااختیار وسیلہ ہے، کے ذریعے سمجھا جاتاہے، نہ صرف ناقابل دفاع ہے بلکہ سچ مچ ناقابل یقین ہے کیونکہ وہ ساختی نظام جو اس (متن) کو سہارا دیتا ہے، مفروضات اور کلامیوں پر غور و فکر کرنے اور کلام کے طریقے کا ساختی نظام ہے، جو زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتا۔
درحقیقت شعور عامہ خود اپنی عدم کفایت کو اپنی بے ربطیوں، اپنے تضادات اور اپنے سکوت کے ذریعے افشا کر دیتا ہے، خود کو اتنا ہی غیر نظریاتی پیش کرتے ہوئے جتنا کہ واضح ہے، شعور عامہ اس بات کے اظہار کا تقاضا نہیں کرتا کہ یہ داخلی طور پر ہم آہنگ ہو۔ لیکن دنیا کی سرگزشت جو بالآخر غیر مربوط یا غیر تعبیری ثابت ہوئی ہے، مطالعہ یا تنقید کے عمل کے لیے ایک غیر اطمینان بخش بنیاد ہے۔لہٰذا عملی شعور عامہ یہ اصرار کرتا ہے کہ تنقید نگار کا اصل مقصد ، نظریہ کی جزئیات سے متعلق فکر مند ہوئے بغیر متن سے متعلق براہِ راست تاثر کا اظہار کرنے کے لیے مطالعاتی عمل کے ساتھ آگے بڑھنا ہے، جیسا کہ استعماریت پسندی یا کسی باضابطہ طریق کار کی کمی موضوعیت کی ضمانت تھی، اس طرح عملیت پسندی خود اپنی پیش قیاسیوں کا سامنا کرنے سے احتراز کرتی ہے،آج کل جو بھی طریق کار اور قاعدے غالب ہیں ، ان کا تحفظ کرتی ہے اور اس طرح موضوعیت کے بالکل خلاف قطعی مفروضات کی دوامیت کی ضمانت دیتی ہے۔
لیکن نظریے کے بغیر کوئی عمل نہیں ہے۔ تاہم نظریہ کا زیادہ تر حصہ دبا دیا جاتا ہے، ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے یا واضح طور پر مشاہدہ کر لیا جاتاہے۔ لہٰذا یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو زبان اور مفہوم کے متعلق، معنی اور دنیا کے درمیا ن تعلقات سے متعلق، معنی اور لوگ اور آخر کار خود لوگوں اور دنیا میں ان کے مقام کے متعلق پورے نظریاتی کلامیہ کو جو اگرچہ ان کہا ہوتا ہے ، پہلے ہی سے فرض کر لیتے ہیں۔ شعور عامہ واضح دکھائی دیتا ہے کیونکہ جو زبان ہم بولتے ہیں یہ اس میں تحریر ہوتا ہے۔ لہٰذا سوسیٹر کے بعد کے نظریہ کا آغاز زبان کے تجزیے سے ہوتا ہے جو یہ تجویز دیتا ہے کہ زبان شفاف نہیں ہے نہ ہی محض ایک واسطہ ہے جس میں خود مختار افراد اشیاء کی آزادانہ طور پر قائم دنیا سے متعلق پیغامات ایک دوسرے تک پہنچاتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ زبان ہی ہے جو افراد اور اشیاء کی دنیا قائم کرنے کے امکان کو پیش کرتی ہے اور ان کے درمیان امتیاز کرتی ہے۔ زبان کی شفافیت ایک فریب نظر ہے۔
اس نظریہ کے نتیجے میں ماہرین کی زبان کسی حد تک شفاف (زبان) سے کافی مختلف ہے۔ یہ نتیجہ قاری کو زبان کی غیر شفافیت سے باخبر کرتا اور شفافیت کے استبداد سے بچاتا ہے۔ خیال ہے کہ جو کچھ کہا جائے لازماً سچ ہوتاہے کیونکہ یہی ''واضح'' ، ''صاف'' اور ''مانوس'' طریقہ ہے۔ سوسیئر کے بعد کے لکھاریوں مثلاً لوئی آلتھیو سے ، رولاں بارت، ژاک دریدا اور ژاک لاکان کے کلامیے اگرچہ کئی اہم لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر ان سب کو اس مشکل کا سامنا ہے اور اس گمراہ کن خواہش سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ کسی کلامیہ میں موجود مقبول مفروضات اور مانوس اقدار، جنہیں وہ کلامیہ قابل مطالعہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ تخلیق کرتا ہے، کو چیلنج کرنا خارج از امکان ہے۔ نئے تصورات، نئے نظریات کو نئے نامانوس اور شروع شروع میں مشکل کلامیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر میں نے پہلے ہی اصطلاح 'آئیڈیالوجی' کو عقائد کے مجموعہ یا عقائد کے مربوط نظام کے بجائے شعور عامہ سے منسلک کرتے ہوئے ایک نامانوس طریقے سے متعارف کروایا ہے۔ آلتھیوسر کی اصطلاح سے ماخوذ اصطلاح کا استعمال، فرض کرتا ہے کہ آئیڈیالوجی یا شعور افراد کا قصداً قبول کیا ہوا غیر معمولی اضافہ نہیں ہے،(مثال کے طور پر قدامت پسندی)، بلکہ دنیا کے ہمارے تجربات اولین ترجیح ہیں جو کہ مانا ہوا سچ ہے، اس میں موجود لاشعور زیر بحث نہیں ہے۔ آلتھیو سر کی اصطلاح میں آئیڈیالوجی سماجی نظم و ترتیب ،ایک ایسی تشکیل جو مانوس اصطلاح کی نسبت سماجی تعلقات کے بہت زیادہ پیچیدہ اور بنیادی تجربہ کو فروغ دیتا ہے، کو قائم کرنے کے لیے سیاسی عمل اور معاشی عمل کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے، معاشرہ، جو اکثر یا تو ہم جنس رعایا کو یا اس کے برعکس خود مختار افراد کے بے پرواہی سے جڑے ہوئے گروہ کو بلند کرتا ہے اور اس طرح شعور عامہ کے مفروضات کے لیے کوئی چیلنج پیش نہیں کرتا۔
میں کہہ چکی ہوں کہ آئیڈیالوجی مخصوص کلامیوں میں تحریر ہوتی ہے۔ ایک کلامیہ زبان استعمال کادائرہ کار ہے، گفتگو کرنے(اور تحریر اور سوچنے کا) ایک مخصوص انداز ہے۔ ایک کلامیہ میں کچھ مشترک مفروضات موجود ہوتے ہیں جو اپنی شناخت کی تشکیلات میں ظاہر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر شعور عامہ کا کلامیہ جدید فزکس کے کلامیہ سے مکمل طور پر مختلف ہے اور ایک کلامیہ کی تشکیلات کا دوسرے کلامیہ کی تشکیلات سے تصادم ممکن ہے۔ آئیڈیالوجی اس اعتبار سے کلامیہ میں تحریر ہوتی ہے کہ یہ صحیح معنوں میں اس میں لکھی اور بولی جاتی ہے، یہ کوئی علیحدہ جزو نہیں ہے جو ذہنی تصورات کے آزاد عالم خیال میں موجود ہو اور بعد میں الفاظ کا روپ دھارتی ہے بلکہ سوچنے، کلام کرنے ، مشاہدہ کرنے کا انداز ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ استعمالات آگے چل کر واضح اور مانوس ہو جائیں گے۔
٭٭٭٭
شینا ضرب الامثال
<۱۔ لاؤ کھم تھے اپوجوں لنگ بلو
ترجمہ: زیادہ کھانے کے لالچ میں حق سے بھی گیا
۲۔دی دے بچ کھا
ترجمہ: بیٹی دے کر بیٹے کو مارو
۳۔ اچھے نوں دور توہیوں نوگہ دور
ترجمہ: آنکھ سے دور تو دل سے بھی دور۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل
۴۔ ایک ہتھ گی ترپ نہ بین
ترجمہ: ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی
۵۔ تینو کا چھکیٹ پئی
ترجمہ: حد سے بڑھنے والا خسارے میں رہتا ہے
۶۔ شویٹ مارن آلی تو جمرمیکے دئی
ترجمہ: کتے کو موت آئے تو مسجد میں پیشاب کرتا ہے
۷۔ کرکاموش سے بانگ دے لونابئی
ترجمہ: مرغی کی بانگ (اذان) سے لوصبح نہیں ہوتی یعنی عورت کی بات معتبر نہیں
شینا زبان کے محاورات
۱۔ دوت دئے گاویں پشٹ کہ مشٹی
ترجمہ: دودھ دینے والی گائے کی لات بھی اچھی
۲۔ جولی چکے یا تھرتھیا
ترجمہ: چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ
۳۔ اجھے پھری تھوتھگا تو توم مکھیٹ
ترجمہ: آسمان کی طرف تھوکا تو اپنے منہ پر لگا
۴۔ دے تھپوجوٹو
ترجمہ: لکیر کا فقیر
۵۔ دشمن چنونے پاش سین کم نے پاش
ترجمہ: ہمیشہ دشمن کو چھوٹا مت سمجھو، دریا کی گہرائی کو کم مت سمجھ کے چلو
۶۔ توم ملیٹ کوس چوکر تھین
ترجمہ: اپنی لسی کو کون کٹھی کہے گا
۷۔ پھٹکوس توم شیشی لیل ولاائی
ترجمہ: گنجا اپنے سر کو خون آلود کرے گا
تشبیہات
شینا فطری شاعری کا ذخیرہ اردو شاعری کی طرح نادرت تشبیہات سے مالا مال ہے، مثال کے لیے چند تشبیہات یہاں پر درج کی جاتی ہیں:
۱۔ پزئے یوں چودھویں کا چاند، محبوب کا چہرہ، شینا زبان میں چودھویں کے بجائے پندرھویں کے چاند کی تشبیہ دی جاتی ہے
۲۔ جل بئی سوری۔ ابھرتا ہوا سورج
۳۔ لچھار تارو۔ فجر کے وقت طلوع ہونے والا ستارہ
ذیل کی تشبیہ محبوبہ اپنے محبوب کے لیے استعمال کرتی ہے:
۱۔ گیزے بئی: بیر کا گلدستہ۔ ایام بہار میں جب یہاں پر بیر کھلتے ہیں تو ان کے پھولوں سے سارا علاقہ مہک اٹھتا ہے۔ اس خوشبو دار گلدستہ سے اپنے محبوب کی خوشبو کو تشبیہ دی جاتی ہے اور اکثر شینا کے قدیم و جدید شعراء نے اس کا استعمال کیا ہے۔
۲۔ حور: اکثر یہ پڑھے لکھے شاعراپنی محبوبہ کو جنت کی حور سے تشبیہ دیتے ہیں۔
(بشکریہ: شمالی عامہ جات کی لوک کہانیاں)
سید عالم استوری