فیض نقش فریادی سے دست تہ سنگ تک

ثمینہ چغتائی

فیضؔ صاحب نے جو دنیائے سخن آباد کی ہے وہ سب سے الگ ہے۔ اس کی وجہ ان کی وہ فعال زندگی ہے جو ہمارے عام شاعروں کی زندگی سے بہت مختلف ہے۔ وہ نہ صرف ایک اعلیٰ مرتبے کے شاعر ہیں بلکہ ایک خاص سیاسی مسلک کے ترجمان ہیں ۔ وہ انیسِ حلقہ یاراں بھی ہیں اور رفیق اہل جنوں بھی۔ انھوں نے نہ صرف رنگا رنگ بزم آرائیاں دیکھیں بلکہ قید وبند کی صعوبتیں بھی اٹھائیں۔
غیر معمولی اور متنوع تجربات کا جو سرماےۂ بے انتہا فیض کو حاصل ہوا وہ ہمارے عہد کے کسی بھی شاعر کے حصے میں نہیں آیا۔ مگر فیض نے ہر قسم کے حالات کا جوانمری سے مقابلہ کیا۔ کہتے ہیں کہ آزادی کی فضا روح کو بالیدگی اور نخلستانِ شعر وادب کو روئیدگی بخشتی ہے۔ مگر کبھی کبھی اس کے برعکس بھی ہوجاتا ہے۔
جب اظہار وبیان پر قد غن لگا دی جاتی ہے اور فکرو نظر پر پہرے لگائے جاتے ہیں یعنی متاع لوح وقلم چھین لی جاتی ہے اور زباں پر مہریں ثبت کردی جاتی ہیں۔ تو ایک باتدبیر فنکار خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر اور ہر حلقہ زنجیر میں زبان رکھ کر ان پابندیوں سے راہ فرار اختیار کرلیتا ہے۔ ’’ نقش فریادی سے لے کر دستِ تہہ سنگ تک ‘‘ جناب فیض احمد فیض نے جو کچھ کیا ہے وہ اسی فرار کی ارتقائی منازل طے کرنے کی مثال ہے۔ ’’ دست تہہ سنگ ‘‘ میں جناب فیض جس بلند مقام پر کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں اس مقام تک وہ تین مدارج میں پہنچتے ہیں۔
اس ارتقا کی پہلی کڑی ’’ نقش فریادی ‘‘ کے دوسرے حصے میں شامل منظومات وغزلیات ہیں۔ اس سلسلے کی دوسری کڑی ’’ دست صبا‘‘ اور زنداں نامہ اور تیسری کڑی ’’دست تہِ سنگ ‘‘ ہے۔
’’ نقش فریادی ‘‘ کا پہلا حصہ سماجی پابندیوں کے خلاف بغاوت کے جذبے کے زیر اثر ہے۔ نقش فریادی کے پہلے حصے میں فیض طلسم وحسن سے مسحور نظر آتے ہیں۔ اور دوسرے حصّے میں وہ طلسم سے آزاد ہونے کی شعوری کاوش میں مصروف ہیں۔ سیاسی اعتبار سے یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں ہر طرف غیر ملکی اقتدار کے خلاف بغاوت کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ اور جوش ، احسان ، دانش اور چند دیگر آتش نوا شاعروں کا طوطی بولتا تھا ۔ لیکن چونکہ ان شاعروں نے غیر ملکی حکمرانوں پر براہ راست تنقید کو اس بام عروج پر پہنچا دیا تھا کہ اس دشت میں مذید سیّاحی کی نئی جہتیں تلاش کیں۔
ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بحث اسی جستجو کا نتیجہ تھی ۔ جدید لکھاریوں نے کلاسیکی رنگ سے ہٹ کر شاعری میں نئے تجربے کرنے شروع کردئیے تھے۔ فیض ان دنوں کالج سے ابھی فارغ التحصیل ہو کر تلاش معاش میں سرگرداں تھے ۔ بقول خود فیض کے کوئے جاناں میں فرصت کے چار دن گزار کے وہ ’’ مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ ‘‘ کہتے ہوئے وادیِ غم جہاں کی طرف چل پڑے۔
جناب فیض کی اس دور کی نظموں میں دوسروں کے غموں کو اپنانے کی شعوری کاوش دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان نظموں میں نہ تو جذبے کی شدت ہے نہ فنکارانہ رچاؤ۔
فیض کے شعور اور فن کی پختگی کا آغاز ان کی سرکاری ملازمت کے دور سے ہوتا ہے۔ نظم ’’ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ‘‘ خواہ کسی واقعہ سے متاثر ہو کر لکھی ہو۔ در حقیقت ان کی اس ذہنی اور جذباتی کشمکش کی غمازی کرتی ہے جو کہ وہ محسو س کرنے لگے تھے لیکن جلد ہی فیض نے اس سے نجات کی راہ اختیار کرلی۔
جناب فیض ؔ کی اس جذباتی گھٹن کا زمانہ اسی دور تک محدود نہ رہا۔ سرکاری ملازمت سے سبکدوشی اور حصول آزادی کے باوجود انھوں نے محسوس کیا کہ ان کے خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکیں گے جو انھوں نے آزادی سے وابستہ کر رکھے تھے ۔ اسی لیے وہ اس منزل کو محض نشانِ منزل سمجھ کر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
؂کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
جناب فیضؔ کی یہی مایوسی ان کی آئندہ مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔ انھوں نے قوم کی تمناؤں کو محض نشان منزل کہہ کر تمام ملک کو چونکا دیا۔ ان کے لیے چہ میگوئیاں شروع ہوئیں۔ انہی چہ میگوئیوں نے فیض کے احساس کو مہمیز کیا اس طرح لیلائے وطن کی صورت زلفوں کو نکھارنے ، سنوارنے کی آرزو والہانہ لگن کی صورت اختیار کر گئی ۔ اب وہ اپنے قارئین کو یہ کہہ کر تسلی نہیں دیتے کہ ’’ چند روزمری جاں فقط چند روز ‘‘ بلکہ رمزو کنایہ کی زبان میں انھیں ظلمت اور اجالے کا فلسفہ سمجھاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں ۔
یہی کنارِ فلک کا سیہ ترین گوشہ
یہی ہے جسے مطلع ماہ تمام کہتے ہیں
اب نہ تو مزدور سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں ۔ نہ زرداد کے خلاف نفرت کا زہراگلتے ہیں۔ جیسے پہلے کرتے تھے ۔
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراؤں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کر ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
بلکہ نہایت دھیما انداز اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں :
نوائے مرغ کو کہتے ہیں اب زبان چمن
کھلے نہ پھول تو اسے انتظام کہتے ہیں
فکر و نظر کی یہی گہرائی فیض نے کوئے ملامت سے حاصل کی ہے۔ اسی فکر ونظر کے زاویے کو سنوارنے کیلئے قدرت نے فیض احمد فیض کو ایک اور موقع عطا کیا۔ یعنی ان کو سازش کیس میں ملوث کر کے جیل بھجوا دیا گیا۔ یہ ایک ایسا موقع تھا کہ ردّعمل کے طور ان کے دماغ کے جادوائی چراغ نے انھیں اندھیرے میں روشنی دکھائی ہے۔ اورایسی تیز حس عطا کی کہ جس پر تعزیریں تازپانے کا کام دیتی ہیں۔
وہ جب بھی کرتے ہیں نطق ولب کی بخیہ گری
فضا میں اور بھی نغمے بکھرتے جاتے ہیں
درقفس پر اندھیرے کی مہر لگی ہے ،
تو فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں۔
قید وبند نے فیض کویہ نکھرا ہوا انداز بیان ہی نہیں دیا بلکہ فکر وادائیگی کا ایک نیا پہلو بھی عطا کیا ۔ بقول فیض ’’ عاشقی کی طرح جیل خانہ بھی ایک بنیادی تجربہ ہے۔ ‘‘جس میں فکرو نظر کا ایک آدھ نیا دریچہ خود بخود کھل جاتا ہے۔ چنانچہ اول تویہ کہہ کہ ابتدائے شباب کی طرح تمام حِسیّات پھر سے تیز ہوجاتی ہیں اور صبح کی پو ، شام کے دھندلکے ، آسمان کی نیلاہٹ ، ہوا کے گداز کے بارے میں و ہی پہلا سا رنگ لوٹ آتا ہے اور وقت اور فاصلوں کا احساس جاتا رہتا ہے۔ اس دور کے کلام میں فنی پختگی کے ساتھ ساتھ افکار وجذبات کی گونا گونی بھی نظر آتی ہے۔حسیّات کی تیزی کا بھی ثبوت ملتا ہے۔
بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اُٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی
دوسری بات جو ان تلخ تجربات نے فیض کو سکھائی وہ لب ولہجے کا تیکھا پن ہے۔ اب ان کے لہجے میں ابتدائے عشق کی سی بے چینی اور اضطراب دکھائی نہیں دیتا ہے۔ وہ زرداروں کوعقابوں سے تشبیہ نہیں دیتے جو ناداروں کے منہ سے نوالے جھپٹ لیتے ہیں۔ بلکہ اب تو وہ الٹا زرداروں کی اور ظالموں کی کسمپرسی پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔
دست صیاد بھی عاجز ہے کفِ گلچیں بھی
بوئے گل ٹھہری نہ بلبل کی زباں ٹھہری ہے
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو فیض کی شاعری کیلئے یہ کڑی آزمائش کا دور تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب فکر شاعر پر احساسات کے نئے دریچے کھل رہے تھے۔ ان کے تجربات میں نیرنگی پائی جاتی تھی ۔ تجربات واحساسات کے ان نئے زاویوں نے ان کے جذبات میں ہلچل پیدا کردی تھی ۔زبان پر پہرے اور قلم پر تغریریں عائد تھیں۔ یہ دو قسم کی پابندیاں تھیں مگر ایک تو حکمرانوں کی عائد کردہ اور ایک خود کی طبیعت کی مقررکردہ حکمرانوں کی پابندیوں کو توڑا جاسکتاتھا۔ مگر فن کی عظمت کے تقاضوں سے فرار ممکن نہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے درمیان کی راہ نکالی جس سے حکمرانوں کی عائد کردہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرسکتے تھے۔ اور فن کی پاسداری بھی ہر چند کہ بڑی خطرناک اور پر پیچ راہ تھی لیکن فیض اس سے بڑے رکھ رکھاؤ اور انصاف کے ساتھ گزرے ہیں ۔ وہ اُردو ادب کا ہمارے ملک میں ایسا تجربہ ہے جس نے آئندہ لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کے لئے سینکڑوں دریچے وا کردیے ہیں۔
’’ دست صبا ‘‘ کی وادی سے گزر کر فیض ’’ دست تہہ سنگ ‘‘ کی منزل میں داخل ہوتے ہیں ۔
اس مجموعے کی کچھ نظموں تو جذباتی اور فنی اعتبار سے دست صبا کے ہم رنگ معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن زیادہ منفرد ہیں جوفیض کامنفرد رنگ ہوتے ہوئے بھی ان نظموں کو ’’ دست صبا‘‘ اور زنداں نامہ کی نظموں سے ممیز وممتاز کرتی ہیں۔ اس دور کی تخلیقات میں لب ولہجے کے ساتھ جذبات میں بھی ٹھہراؤ پیدا ہوگیا ہے۔ ایک زمانے میں وہ بے حد حسّاس تھے ۔ اب ان میں خود اعتمادی پیدا ہوگئی ہے۔ وہ تصویر کے تاریک رخ کو بھی غیر جانبدار انداز سے تجربہ کرتے ہیں۔
مجبوری و دعویٰ ، گرفتاری الفت
دست تہہ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے
یہی کافی نہیں ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کو بھی رستے کے خطرات سے باخبر کرتے جاتے ہیں تاکہ صرف وہ لوگ اس جہاد حیات میں آگے بڑھیں جو ان کو جھیلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
اس کے مارے تھکے ہارے شبستانوں میں
اپنی تنہائی سمیٹے گا بچھائے گا کون
بے وفائی کی گھڑی ، ترک مدارات کا وقت
اس گھڑی اپنے سوا یاد نہ آئے گا کوئی
اس گھڑی اے دل آوارہ کہاں جاؤ گے
ایک وقت تھا کہ فیض بڑے طمطراق سے اعلان کرتے تھے کہ جب تک ان کے خون میں حرارت اور نطق میں طاقت ہے وہ طوق وسلاسل ، نغمہ ونے سکھاتے رہیں گے مگر اب ان کے لب ولہجے میں وہ گرمی نہیں رہی اب وہ جذبات کے طلاطم میں غوطے نہیں کھاتے ، بلکہ تجربہ کارملاّح کی طرح اس کے سکوت وتموج اور پس وپیش منظر کا جائزہ لیتے ہیں اور ان کے نتائج کا انداز ہ کرتے ہیں۔
اس طرح کہ پس پردہ کوئی ساحر
جس نے آفاق پر پھیلایا ہے یوں سحر کا دام
دامن وقت سے پیوست ہے یوں دامن شام
اب کبھی شام بجھے گی نہ اندھیرا ہوگا
اب کبھی رات ڈھلے گی نہ سویرا ہوگا
آسماں اس لیے ہے کہ یہ جادو ٹوٹے
چپ کی زنجیر کٹے وقت کا دامن چھوٹے
دے کوئی سنکھ دھائی کوئی پاگل لولے
کوئی بت جاگے کوئی سانولی گھونگھٹ کھولے
’’ دستِ صبا ‘‘ میں ابتدائی شباب کا ساتحیر واضطراب ہے یا بے چینی ہے۔ ’’ دستِ تہ سنگ ‘‘ میں عشق حقیقی کا ساعمق ہے، گہرائی ہے، ٹھہراؤ ہے۔ وہ اب خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر داستان دل رقم نہیں کرتے بلکہ خون دل میں طنز کے نشتر بھگو کے حکایتِ دل بیان کرتے ہیں۔ مگر ان کے طنز میں نہ اوچھا پن ہے نہ جھنجھلاہٹ کا عنصر ، برخلاف اس کے اس میں دل سوزی ہوتی ہے اور متانت بھی ۔ وہ چوٹ کھا کر بھی مسکراتے ہیں۔ اب وہ اس دور کو فصل سکوں سے تعبیرکرتے ہیں۔ دور آلام میں بھی لوگوں کو کوئی محفل سجانے کا مشور دیتے ہیں۔
آگئی فصل سکوں ، چاک گریباں والو
سل گئے چاک کوئی زخم ملے یا نہ ملے
دوستو بزم سجاؤ کہ بہار آئی ہے
کھل گئے زخم کوئی پھول کھلے یا نہ کھلے
یہ حقیقت پسندی ، جذبات کا یہی ٹھہراؤ اور طنز کی یہی نشتریت اور لب ولہجے کا یہی دھیما پن فیض احمد فیضؔ کی خصوصیات کلام ہیں۔ لیکن فیض صاحب کی حقیقت پسندی میں حالات سے سمجھوتہ کرنے کی خواہش نہیں بلکہ حالات سے سمجھوتہ کرنے سے پہلے ان کا صحیح سیاق وسباق میں تجزیہ کرنے اوران پر قدرت حاصل کرنے کا جذبہ کار فرما ہے۔ اس طرح لہجے کا دھیما پن اور کا ٹھہراؤ ان کے عزم کی صلاحیت کو کم نہیں کرتے ، بلکہ ان میں مزید استحکام اور قوت کا باعث بنتے ہیں۔ جذبات کا جوش ختم تو ہوسکتا ہے مگر رچاؤ کم نہیں ہوسکتا۔ فیض کے جذبات کی وہی شدت یہاں بھی پائی جاتی ہے ۔ جو ’’ نقش فریادی ‘‘ میں ملتی ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں ٹھہراؤ سا پیدا ہوگیا ہے۔ جھیل کی سی گہرائی اور ٹھہراؤ۔ جناب فیض نے اپنی زندگی میں بے شمار نشیب وفراز دیکھے ہیں۔ فوج میں رہ کر گھاٹ گھاٹ کا پانی ہی نہیں پیا بلکہ خون انساں کی ارزانی کا نظارہ کیا۔ صحافت کے خارزار میں سیاست کی نیر نگیاں بے نقاب ہو کر ان کے سامنے آئیں۔ وہاں سے نکلے تو ناکردہ گناہوں کے جرم میں دھر لیے گئے ۔ جب ان سب چکروں سے نکل چکے تو ’’ لینن امن انعام ‘‘ کے حقدار قرار دئیے گئے ۔ مگر یہ فیض کی وسعت نظر تھی کہ وہ ان میں سے کسی ایک دور حیات سے خوش یا دوسرے سے کبیدہ خاطر نہ ہوئے۔ بلکہ ان سب کو کتاب حیات کا باب سمجھا اور اس کا ماحا صل اس زاوےۂ نگاہ کو خیال کرتے ہیں جو ان کی بدولت ان کو ہوا۔ اسی لیے تو ذات الٰہی کی حمدبھی یوں بیان کردی کہ :
ملکر شہر زندگی تیرا
شکر کس طور سے ادا کیجئے
دولت دل کا کچھ شمار نہیں
تنگدستی کا کیا گلہ کیجئے
جام چھلکا تو جم گئی محفل
منت لطف غمگسار کسے
اشک ٹپکا تو کھل گیا گلش
رنج کم ظرفئ بہار کیسے
مختصر یہ کہ جناب فیض کے یہاں جذباتی اور فنی ارتقاء ایک جاری وساری عمل کی صورت ملتا ہے؛ یوں تو ان کی ہر نظم ہی ارتقا کی نشاندہی کرتی ہے لیکن اس کی واضح ترین مثال جناب فیض کی وہ نظمیں جو انھوں نے تنہائی کے موضوع پر کہی ہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کا ان کی زندگی سے گہرا تعلق رہا ہے۔ اس لیے ان کے جذباتی ارتقا کا بھرپور اظہار ان کی اپنی نظموں میں ہوتا ہے۔ اس موضوع پر ان کی پہلی نظم ’’ نقش فریادی ‘‘ ملتی ہے۔ مگر وہاں شاعر اپنی تنہائی سے اکتا جاتا ہے اور محبوب سے مایوس ہو کر نہایت ہی جھنجھلاہٹ کے انداز میں کہتا ہے۔
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
اس کے بعد ’’ دست صبا‘‘میں یاد کے عنوان سے انھوں نے تقریباً اسی جذبے کا اظہار کیا ہے۔ مگر یہاں وہ جھنجھلاتے نہیں بلکہ اپنی تنہائیوں کو یاد کر کے مزید رنگین بناتے ہیں اور ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اس وقت تیری یاد نے ہات
یوں گماں ہوتا ہے ، گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن ، آبھی گئی وصل کی ذات
تیسرے دور میں ان کی نظم ’’ قید تنہائی ‘‘ ہے۔ اس کا انداز ان دونوں نظموں سے اچھوتا ہے ۔ اس میں نہ تو شاعر اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرتا ہے۔ نہ یادِ محبوب کے سائے میں استراحت کناں ہے بلکہ تلخی دیروز میں امروز کا زہر گھول کر محض حسرت روز ملاقات رقم کرتا دکھائی دیتا ہے۔
گھول کر تلخئ دیروزوامروز کا زہر
حسرت روز ملاقات رقم کی میں نے
ہر چند کہ موضوع کی یہ تکرار ان کے خوب سے خوب تر کی تلاش کی غماز ہے__ اور یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ حالات کے ساتھ ساتھ ان کا زاویہ نظر اور لب ولہجہ بھی تبدیل ہورہا ہے۔ اس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ان کے کلام میں ارتقائی صورتحال آئندہ دور میں عملی طور پر جاری وساری رہے گی۔
جناب فیض کے متعلق بہت کچھ کہا جاتا رہا اور کہا جاتا رہے گا۔ لیکن یہ امر مسلم ہے کہ ’’ نقش فریادی‘‘ سے لے کر’’ دست تہہ سنگ‘‘ تک جناب فیض نے جو منازل طے کی ہیں انھوں نے ہمارے اُردو ادب کو نئے نئے تجربات اور موضوعات فکر سے روشناس کرایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُردو کے قومی ادب میں انھیں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ فیض کی شاعری کے اس سفر سے ان کے شعری طلسم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ پھر انھوں نے تو شاعری کے ذریعے روح عصر کی اتنی بلیغ اور حسین ترجمانی کی ہے__ کہ ان کی ذات ان کی زندگی ہی میں ایک تحریک ، ایک ادارے اور ایک روایت کا مرتبہ ومقام اختیار کر گئی تھی ۔
بیسویں صدی میں اقبال ؒ اور جوش کے بعد فیض سے زیادہ شاید ہی کسی شاعر نے اپنے معاصرین اور اپنے قارئین کو اس شدت سے اور گہرائی کے ساتھ متاثر کیا ہو۔ فیض انسانی معاشرے میں ایک مثبت انقلاب کا داعی تھا۔‘ اس کی شاعری پھول کی پتیوں پر شبنم اترنے کی مثال ہے۔ اس کے باوجود اس کی کاٹ آہنی ہے۔ دراصل فیض کی سرگوشی قاری اور سامع کے اندر ایک انقلاب برپا کردیتی ہے۔ انقلاب کے حوالے سے جو شور بلند ہونا چاہیے وہ فیض کی شاعری میں نہیں بلکہ اس کے اثرات میں پوشیدہ ہے۔ چنانچہ فیض کی نغماتی سرگوشی اپنے اندر اتارے جانے والے کے باطن میں جو قیامت برپا ہوتی ہے کا اس کو فیض کے مثبت انقلاب کی شروعات سمجھنا چاہیے۔
فیض کے فن میں محبت اور حقیقت کا یہ امتزاج وہ جادوجگاتا ہے ۔اور وہ طلسم کاری کرتا ہے کہ اُردو شاعری کے کم ہی بڑے نام اس خصوصیت کے حامل ہوں گے اور فیض کے مقابل لائے جائے جاسکتے ہیں۔ ان دو بڑی قوتوں کا امتزاج بھی فیض کا اسلوب قرار پاتا ہے اور یہ امتزاج اتنا متوازن ہے کہ نہ تو فیض کو محبت کرتے ہوئے اپنے انقلابی نظریات کی قربانی دینے کی ضرورت پیش آئی اور نہ اس نے انقلابی موضوعات پر نظمیں لکھتے ہوئے اس شوخ کے آہستہ کھلتے ہوئے ہونٹوں سے نظریں ہٹا لینے کے گناہ کا ارتکاب کیا۔ اُسے عشق اور انقلاب ۔۔۔ دونوں یکسو بیک وقت محبوب رہے۔ اور یوں فیض کا نہ صرف اپنا اسلوب خاص صورت پذیر ہو۔بلکہ اس نے اپنے زمانے کے شاعروں کا بھی اسلوب متعین کردیا۔ ماضی میں ساحر لدھیانوی اور حال میں احمد فراز ؔ اس کی خوبصورت بلیغ مثالیں ہیں۔
بقول احمد ندیم قاسمی مرحوم
’’ قاتل ، بسمل ، عدو، دارورسن ، قفس اور صیاد وغیرہ الفاظ گھس پٹ کر بے معنی ہورہے تھے۔ مگر فیض کے معجز نمالمس نے انھیں نئی زندگی بخش دی ۔‘‘ ‘‘فیض نے حافظ شیرازی کی ڈکشن کو اپنے کلام خصوصاً غزلوں میں اتنی مہارت سے برتا کہ فارسی کی یہ ساری ترکیبیں ، علامتیں، تشبیہات ، اشارے اور پیکر اُردو کا سرمایہ بن گئے ۔
فیض کے ہاں شاعری کی مقصدیت کو زیادہ ترجیح دی گئی ہے ۔ فیض کا کلام اتنا گراں بہا سرمایہ ہے کہ اسے کہا جاسکتا ہے کہ فیض نے پاکستان اور تیسری دنیا کو بلکہ پوری دنیا کو فن اور رجائیت کے روشن مستقبل پر اعتماد کی صورت میں بہت کچھ دیا ہے۔ ہمارا ادبی افق زیادہ روشن ہوا۔ اس طرح ہم ان کی شاعری کو بین الاقوامی شاعری کا درجہ دے سکتے ہیں۔
کلام فیض سے کچھ منتخب اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے فیض کے مرتبہ ومقام کا تعین کر کے اس بحث کو سمیٹتی ہوں۔
چاہا ہے اسی رنگ میں لیلائے وطن کو
تڑپا ہے اسی طور سے دل اس کی لگن میں
ڈھونڈ ری ہے یونہی شوق نے آسائشِ محفل
رخسار کے خم میں کبھی کا کل کی شکن میں
چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دشنام
چھوڑی نہیں اپنوں نے کوئی طرزِ ملامت
اُس عشق نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل پہ بجز داغ ندامت
فیض نے اپنی دونوں محبتوں ، محبوب کے عشق او رطن کے عشق کو خوب نبھایا:
زندگی کیا ہے کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
عرصہ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم کو رہنا ہے پہ یونہی تو نہیں رہنا
اجنبی ہاتھوں کا بے نام گراں بار ستم
آج سہنا ہے ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے
یہ ترے حسن سے لپٹی ہوئی آلام کی گرد
اپنی دو روزہ جوانی کی شکستوں کا شمار
چاند کی راتوں کا بیکار ، دہکتا ہوا درد
دل کی بے سرد تڑپ جسم کی مایوس پکار
چند روز اور مری جاں فقط چند روز
نظم ’’نثارمیں تری گلیوں کے اے وطن ‘‘
بچا روزن زنداں تو دل یہ سمجھاہے
کہ تری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اٹھے جو سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پہ بکھر گئی ہوگی
غرض تصور شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفت سایہ دیوارودر میں جیتے ہیں
نظم ’’ ملاقات‘‘ (زنداں نامہ )
یہ رات اس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے اس کی شاخوں
میں لاکھ مشعل بکف ستاروں
کے کارواں گھر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب ، اس کے سائے
میں اپنا سب نور رو گئے ہیں
فیض کی شاعری دکھ درد، ظلم وستم کے اظہار کے ساتھ امید اور رجائیت سے بھرپور ہے۔ وہ حق وانصاف کے ملنے سے کبھی بھی مایوس نہیں ہوئے۔ یہی جذبہ آفاقیت کا حامل ہے اور ان کی کامیاب شاعری کا ضامن ہے۔ اسی وجہ سے انھیں ان کے ہمعصر ادیبوں اور شاعروں نے خراج عقیدت کچھ اس طرح پیش کیا ہے۔
’’ فیض ہمارے ایسے ہی شاعروں میں سے ہیں جنھیں زندگی اور اس کے ہزار شیوۂ۔ حسن سے محبت ہے۔ اور اس کی وجہ سے ان کا اور زندگی کا جھگڑا بھی چلتا رہا ہے۔ فیض کو آتش خانوں کی مقدس آنچ ملی ہے مگر اس نے انھیں جھلسایا نہیں بلکہ ان کی شخصیت کو توانائی اور ان کی شاعری کو تب وتاب عطا کی ہے ۔ ‘‘
(آل احمد سرور ؔ )
’’ دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جن کے نام سے ان کا ملک پہچانا جائے ۔پاکستان کی پچاس سالہ زندگی میں جن گنی چنی شخصیات کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے۔ ان میں فیضؔ یقیناًاپنے ملک کی پہچان تھے ۔اور عالمی سطح پر دانشوروں اور ادبی سماجی حلقوں میں پاکستان کے تعارف کے لیے ان کا نام کافی سمجھا جاتا ہے۔ ‘‘(آغا ناصر)
’’ فیض ایک ایسا بڑا شاعر تھا ۔ جس نے ہےئتی تجربوں کی بجائے ہماری کلاسیکی شاعری کی کلاسیکی علامتوں کو نئے مفاہیم دئیے ہیں۔ ‘‘ (میرزا ادیب)
اسی لیے پاکستانی شعر وادب میں کلام فیض کا فیض جاری وساری رہے گا اور نئے ادیب وشاعر فیض کے فیض کو آگے بڑھاتے رہیں گے۔