میر کا تصور عشق: فارسی غزلیات کی روشنی میں

نیلوفر حفیظ

عہد میر تک فارسی شعر و ادب صدیوں کی منازل ارتقاء طے کر لینے ا ور آفاقی و ادبی شہرت کے حامل ادباء و شعراء وجود میں لانے کے بعد دنیا کے بہترین زبان و ادب کے زمرے میں ایک بلند و ا علیٰ مقام حاصل کر چکا تھا۔یہ زبان و ادب برصغیر پاک و ہند میں بھی علمی ، ادبی اور درباری زبان و ادب کی حیثیت سے کم وبیش سات سو سال تک قائم و دائم رہا۔ایک خارجی زبان ہونے کے باوجود یہاں کے شعراء و ادباء نے گراں بہا بیش قیمت کارنامے انجام دیے جن کو دیکھ کر اہل زبان بھی انگشت بدنداں رہ گئے ۔ مغل حکومت کے زوال کے ساتھ اس زبان کی اہمیت و افادیت سے چشم پوشی کی جانے لگی شاہی سر پرستی حاصل نہ رہنے کے سبب اس شیریں و دلکش زبان کی نگہداشت کے بجائے بے اعتنائی و بے مروتی کے ساتھ مٹا دینے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا گیا ۔ اپنوں و بیگانوں کی تمام تر بے التفاتی و بے رخی کے باوجود اس زبان کے ہمہ گیر اور دیرپا اثرات کے سبب اس کے نقش پوری طرح محو نہ کیے جا سکے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اردو زبان کے متعدد عالمگیر شہرت کے حامل شعراء نے فارسی زبان میں بھی اپنے گرانقدر کارنامے یادگار چھوڑے ہیں ۔ اس سلسلہ میں حاتم ، سودا، فانی، مصحفی ، انشاء ، غالب، مومن ، حسرت، رخشاں اور اقبال وغیرہ جیسے ممتاز شعراء کے نا م سر فہرست ہیں۔ انہیں میں ایک اور اردو ادب کی ناقابل فراموش شخصیت میر تقی میر کی بھی ہے ۔وہ ایک طرف اردو ادب کے ملک الشعراء ، امام المتغزلین، خدائے سخن اور سرتاج الشعرا ء کے القاب سے نوازے گئے تو طرف دیگر وہ فارسی زبان و ادب کے بھی ایک بہترین شہ سوار ہیں ، حالانکہ اردو کے مقابلے میں ان کا فارسی کلام بہت کم ہے۔ اردو میں ان کے چھ دیوان یادگار ہیں جو ان کی شاعرانہ عظمت پر دال ہیں لیکن فارسی میں صرف ایک دیوان ہے جس میں پونے تین ہزارسے متجاوز ابیات ہیں لیکن کسی شاعر یاادیب کی ادبی عظمت کا انداز اس کے کلام کی مقدار و تعداد کے اعتبار سے نہیں لگایا جا سکتا۔ میر تقی میر کا فارسی کلام کمیت کے لحاظ سے مختصر لیکن ’’کہتر بہ قیمت بہتر،، کا مصداق ہے۔ اس مختصر مضمون میں ان کی قد آور تہ دار شخصیت کے تمام پہلوؤں کا تعارف کرانا تو ممکن نہیں لہٰذامیں اپنی کم علمی اور کوتاہ قلمی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی فارسی غزلیات کی روشنی میں ان کی زندگی کے ایک پہلو پر نظر ڈالنے کی سعی ناتمام کر رہی ہوں اور وہ پہلو ہے میر کے عاشقانہ احساسات و جذبات جن کے بارے میں لوگ مختلف الآرا ء نظر آتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ وہ قنوطی شاعر ہیں تو کسی نے رائے دی کہ وہ پیدائشی غمگین اور افسردہ شخصیت ہیں، کسی کا دعویٰ ہے کہ عشق کی ناکامی نے انہیں مردم بیزار بنا دیا تو کوئی ماحول کی نا مساعدی و ناسازگاری کے پیش نظر انہیں شاعر غم کہہ کر سکون قلب حاصل کرنے کی کوشش کرتا نظر آیا تو کسی نے ان کے عزیزوں کی بے وفائی و ظلم و ستم سے گھبراکر گوشہ تنہائی میں پناہ لینے یا دنیا سے کنارہ کشی کی داستان کو پیش کیا اور ان کی بیشتر شاعری کو مرثیہ گوئی پر محمول کرتے ہوئے اپنا دامن جھاڑنے کی کوشش کی۔
’’میر کی شاعری میں کنارہ کشی کی مختلف شکلیں پائی جاتی ہیں۔ ان کی ساری غزلوں میں میر کا خون جگر جھلکتا نظر آتا ہے۔ میر نے زندگی ناکامیوں میں بسر کی۔ اس لیے ان کے بہت سے اشعار ناکامیوں کے مرجھائے ہوئے غنچے معلوم ہوتے ہیں جن کو موج بہار اور باد صبا کھلانے سے قاصر رہی ‘‘۔ ۱؂
یہ درست ہے کہ میر کی زندگی کا بیشتر حصہ تنگ دستی ومصائب میں گزرا ۔خود ان کا کلام اس کاشاہد ہے ان کی اردو وفارسی شاعری کی فضا عموماًافسردہ ،سوگوار ، درد و اذیت ، رنج واندوہ، ہجرو فراق، ناکامی ومحرومی ، تلخی و تندی اور حسرت و یاس کی مظہر ہے جس میں نیم شب کی بے خوابی کی فریادیں ، آہ دل سوز کی پرسوز و پر درد شرر باری، اشک ہائے گرم و آتش ہائے دروں کی اضطرابی بے سکونی، حساس و ناکام دل کی آہ و زاری پورے شد و مد کے ساتھ جلوہ گر ہو کر قاری کے اذہان کو خیالستان سوگوار میں منہمک و مستغرق کر دیتی ہے۔ ان کے یہاں الفاظ کی بازی گری پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ دل نازک پر گزرنے والے ہر واقعہ اور حادثہ کو مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے، خصوصاً ان کی فارسی غزلیات میں جو عشقیہ مضامین بیان کیے گئے ہیں ان میں لطافت و حلاوت و شیرینی کی نظیر معاصرین شعراء کے یہاں شاذو نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
’’ان کی فارسی شاعری ہلکی پھلکی اور رواں ہے۔ اس میں نرمی ‘گھلاوٹ اور شیرینی ملتی ہے اور عشق کے آفریدہ درد و غز کی تصویر کشی کے لیے بے حد موزوں ہے ۔ ۲؂عشق مجازی کی محرومی و دل شکستگی ، تلخی و ناکامی اور سوز و گداز نے ان کی شعر گوئی کو صیقل کرنے اور اس کو نئی سمتیں دکھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے یہاں جذبہ صادق کی جو ترجمانی کی گئی ہے وہ انہیں انفرادی رنگ عطا کرتی ہے ۔ ’’متاخرین کے مقلدین کی بے رس اور بے سوزشاعری کی جگہ ہمیں اپنی تازہ واردات کی لذت سے بھی آشنا کر گئے ‘‘۔ ۳؂
میر نے اپنی عشقیہ شاعری بالخصوص فارسی غزلیات میں غزل کے حقیقی معنی و مفہوم ’’راز گفتن بہ معشوق ‘‘کو نہایت سلیقے و ہنر مندی کے ساتھ برتا ہے۔ان کے متعدد اشعار سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ آدم بیزار ، گوشہ نشین اور قنوطی شاعر نہیں بلکہ ہماری دنیا کے گوشت پوست سے بنے انسان ہیں جن کے سینے میں عشقیہ جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر در شکل دل موجود تھا ۔ظاہر ہے وہ انسانوں میں رہ کر اور بحیثیت انسان اس عالمگیر جذبے یعنی عشق سے اپنی ذات کو مبرا کیسے رکھ سکتے تھے ۔
کہتے ہیں کہ آفاقی شاعرہونے کے لئے عاشق ہونا شرط لازم ہے۔ اس کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ تقریباً تمام اکابر غزل گو اور مشاہیر عشقیہ شاعر اپنے اپنے عہد کے درد دل رکھنے والے عاشق رہے ہیں ۔ جن کی شہادت یا توان کی تخلیقات میں موجود ہے یا پھر تاریخی اوراق میں ان کی عشقیہ داستانیں ہمیں دعوت فکر دیتی ہیں۔ میر بھی آتش عشق سے اپنا دامن بچا نہیں سکے۔ ان کے یہاںیہ جذبہ اپنی تمام تر جلوہ آرائیوں کے ساتھ از اول تا آخر موجود رہا بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ان کی ہمہ زندگی عشق ہے اور اس پر خطر و پر پیچ و پر خار راہ عشق میں اس کا ایک ہی تجربہ ہے اور وہ ہے غم ۔یہی وہ غم ہے جو عشق کا مرہون منت ہے ۔وہی ان کی شاعری کا سب سے بڑا محرک ہے جو انہیں قوت و دانائی بخشتا ہے۔ عشق مجازی کی وجہ سے ہی کہ ان کے یہاں عشق حقیقی کا جذبہ پیدا ہوا ، لیکن ان کا صوفیانہ رنگ ان کی تمام شاعری پر غالب نہیں ہے بلکہ ان کی بیشتر شاعری مجازی محبوب کے ہجر و وصال ، شکایت بے التفاتی و بے نیازی ، تند خوئی و سرد مہری کی دلچسپ داستاں ہے۔
میر کے یہاں اگرچہ کہیں کہیں وحدت الوجود کا نظریہ ، جبر کا فلسفہ اور قناعت و درویشی کا رویہ مل جاتا ہے مگر بنیادی طورپر ان کی شاعری خالص عشقیہ شاعری ہے ۔ ۴؂ میر کی داستان عشق کی تفصیلی رودادمثنویوں میں اور بھی زیادہ شدت سے بیان کی گئی ہے۔ عام رائے یہ ہے کہ میر کا عشق صوفیانہ عقائد و افکار کا عکاس ہے۔ اس میں جستہ جستہ اشعار مجازی عشق کی ترجمانی کرتے ہیں مگرحقیقتاً ان کی پوری عشقیہ شاعری ان صوفیانہ رحجانات کو ہی پیش کرتی ہے لیکن ان کو صدفی صد درست نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے کلام کا بڑا حصہ ایسا ہے جس میں وہ کسی دنیاوی ’’شاخ بنات‘‘کے عشق میں تڑپتے اور آہیں بھرتے مانند مرغ بسمل نظر آتے ہیں ۔
ان کا عشق تو انسانی جذبات ، جسمانی تقاضوں ، ہجر و وصال اور انسانی رشتوں کی جستجو تھا جو صدیوں سے انسان کے دل کی دھڑکن تھے۔ اس عشق نے تو خود انہیں جنون میں مبتلا کر دیا تھا ۵؂خود ان کا یہ شعر ان کی دیوانگی کی جانب اشارہ کرتا ہے :
دل از بے طاقتی در سینہ خوں بشد
داماغی داشتم صرف جنوں شد
میر کے آئینہ خیال میں وہی جلوے زیادہ واضح، صاف اور روشن ہیں جو براہ راست ان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔گویا ان کا ایک ایک شعر ان کی زندگی کی تفسیر ہے۔ وہ عاشقانہ جذبات کو بغیر کسی تصنع و بناوٹ کے سیدھے عام انداز میں بیان کرتے ہوئے ’’ازدل خیزد بردل ریزد ،، کا مصداق بنا دیتے ہیں ۔ملاحظہ کیجیے کچھ اشعار جو بغیر کسی لفظی و معنوی آرائش کے دل پر گہرے نقش مرتب کرتے ہیں ۔
بت بے مہر من ہمہ کین است
دشمن جاں و رہزن دین است
جان تلخی کشیدہ می داند
کہ گل دلبراں چہ شیریں است
از خرامش بہار می ریزد
رفتن یار بس کہ رنگین است
قامت را بہ خلق بنمود است
کلفت روز گار من ایں است
جب معشوق تند خو عاشق کی جانب متوجہ ہونے کے بجائے بہ طرف رقیب راغب ہوتا ہے تو میر شکوہ زبان پر لانے سے روک نہیں پاتے اور اس کی بے مروتی سے اپنے دل پر گزرنے والی قیامت کو سادگی کے ساتھ کہتے ہیں اور یہ سادگئی بیان ہی شعر کا اصل حسن بن جاتا ہے ۔
مے خورد بارقیب شب و روئے مانہ دید
ایں بے مروتی دل مارا کباب کرد
وہ صرف رقیب سے ہی نالاں و بے زار نہیں بلکہ انہیں تو یہ گوارہ نہیں کہ کوئی پرندہ بھی اس کوچہ سے گزرے جہاں معشوق رہتا ہے ۔ کیونکہ وہ ایک عاشق و دنیا دار کی طرح اپنے معشوق کے حسن بے پناہ پر کسی اور کی نگاہ پڑنے دینا نہیں چاہتے پھر چاہے وہ کوئی پرندہ ہی کیوں نہ ہو ۔
شد کباب از آتش غیرت دلم
گر بہ کویش طائر پرواز کرد
شاعر کے یہاں خیال و فکر میں ندرت کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے تجربات و مشاہدات کے ساتھ خلوص یا صدق جذبات عشقیہ شاعری کی جان ہے۔اگر ندرت و خلوص کی باہمی آمیزش سے کوئی شعر وجود میں آئے تو اس کی اثر آفرینی و دل پذیری حد درجہ بڑھ جاتی ہے۔اس کا اندازہ میر کے اس شعر سے بآسانی ہو سکتا ہے ۔
سحر ہر روز خورشید از سر کویت گزر دارد
نمی داند مگر آں سادہ کیں رہ صد خطر دارد
یوں تو میر کو تمام ہی اصناف سخن پر استادانہ قدرت و مہارت حاصل ہے لیکن ان کا خاص میدان غزل ہے اور غزل میں وہ مضامین تغزل کے دائرے سے باہر نکلنا گوارہ نہیں کرتے ۔ان کی فارسی غزلوں میں بھی تغزل کے اعلٰی نمونے ملتے ہیں جن میں محبوب کے حسن ناز و انداز غرض اس کی ہر ادا کو نہایت جالب انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ تغزل کے عناصر میں تکلف وتصنع کا عکس نہیں پڑتا۔اسی لیے دوراز کار تشبیہات و استعارات کے استعمال سے میر نے اپنے تغزل کا چہرہ مہرہ نہیں بگاڑا یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں علم بدیع کے صنائع و بدائع خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ حدیث دل بیان کرنے کے لیے جس صاف ستھرے پیچیدگی سے پاک انداز بیان کی ضرورت ہے، میر نے اس کو اپنا اسلوب بنایا ہے۔ میر سراپا عشق و سراپا سوز تھے ۔اس کی ترجمانی فطری طور پر اس انداز بیان سے نہیں ہو سکتی جو میر کے ضروری تکلفات کے بوجھ سے دبا ہو‘‘۔ ۶؂
میر نے الفاظ کی خوش آہنگی ، اسلوب کی ندرت ، خیال کی تازگی، احساس کی شدت اور مسحور کن انداز بیان سے تغزل کو اتنا اعلیٰ مُقام عطا کیا ہے کہ کوئی ان کی برابری کو نہیں پہنچا۔ ان کی ایک فارسی غزل دیکھیے جس میں انہوں نے اپنے معشوق دلفریب کی کم عمری ، ناپختگئ خیال ، زمانے کے سرد گرم کی بے خبری ، عشق و عاشق سے بے نیازی ، دل کے فتنہ اٹھانے والے حالات سے ناواقفیت وغیرہ جیسی خصوصیات کو نہایت مؤثر انداز میں بیان کیا ہے ۔ انہوں نے نہ صرف غزل کے الگ الگ اشعار کے مابین ایک معنوی رشتہ قائم کیا ہے بلکہ ایک پر کیف جمالیاتی فضا قائم کر دی ہے۔
اوچہ داند کہ گل داغ نہ چیدہ ست ہنوز
غنچہ ای ہست و ہوائش نرسیدہ ہنوز
اوچہ داند کوچہ در دوری اومی باشد
چند گامی بہ رہ غم بہ دویدہ ست ہنوز
بر سر رہگزر از حال من او را چہ خبر
انتظاری چو خودی را نہ کشیدہ ست ہنوز
گوش بر قصہ عشاق نیند اختہ است
شور ہنگامہ دل ہم نہ شنیدہ ست ہنوز
کی بہ ایں چشم جگر بار منش چشم افتاد
اشک ہم از مژد�ۂاو نہ چکیدہ ست ہنوز
قدر ما سینہ فگاران چہ کند کآن بی رحم
چُوں گل از شوق گریباں نہ دریدہ ست ہنوز
داغم اے میر من از بکر نگاہی کہ زشرم
صورت آئینہ یک چشم نہ دیدہ ست ہنوز
میر کے متعدد فارسی اشعار میں محبوب کے خدو خال ، چشم و ابرو، قدو قامت ، زلف و رخسار، ناز و ادا ، ہجر و وصال ، شکوہ شکایت ، نامہ و پیام، خلوت و جلوت وغیرہ جیسے مضامین اپنی تمام تر فکری رفعت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔ ان کی عشقیہ شاعری میں غور طلب بات ہے کہ وہ محبوب کے جسمانی محاسن اور عشوہ طرازیوں کا ذکر اس انداز سے کبھی نہیں کرتے جو تہذیب و اخلاق کی نگاہ کو جھکا دے۔ ان کا وصف خاص یہ ہے کہ وہ بغیر کسی تفصیل کے معشوق کے حسن کا ذکر اس انداز سے کر جاتے ہیں کہ اس کے نازک سراپا اورحسن کی تصویر نگاہوں میں رقص کرنے لگتی ہے ۔ان کا مندرجہ ذیل شعر دیکھیے جس میں انہوں نے نہ تو محبوب کے خوبصورت چہرے سے متعلق کچھ کہا ہے، نہ آنکھوں کی مد ہوشی اور نہ ہی اس حسن بے پناہ کا بیان کرنے میں کسی اور چیز کا سہارا لیا ہے ،بس اتنا کہا ہے ۔
زروافگندہ برقع در چمن چوں جلوہ گر گشتی
گل از خود رفت سنبل گشت والہ سرو مائل شد
ان کا ایک اور شعر بھی دیکھیے:
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
میر کے یہ فارسی اشعار دیکھیے جو ان کے تغزل کی بہترین مثال کہے جا سکتے ہیں :
نومید ز جاں گشت بہ ہر کس کہ نگہ کرد
ایں چشم سیاہ تو بسے خانہ سیہ کرد
یک صبح نہ صد بارخ خوب تو برابر
ہر چند کہ گل مشورہ شب ہا بہ کلہ کرد
ان کی غزل کے چند اشعار اور ملاحظہ کیجیے:
درد مندے کہ عشق خوافتاد
باغم و درد کار او اُفتاد
رشتۂ الفت بت آخر کار
ہم چو زنار در گلو افتاد
دیدن او را بہ حشر ہم رمزے ست
طبع شو خش بہا نہ جو افتاد
زلف بکشوہ فتنہ ایں برخاست
چشم بنمود ہائے و ہو افتاد
قد بر افراشتے قیامت شد
گام برداشتے غلو افتاد
نامہ ام چوں پر فتادہ بہ راہ
در دیار تو کو بہ کو افتاد
ان کا ایک اور شعر ہے:
مپرس اے میر انداز چشم انداز چشم نیم بازاو
قیامت نشۂ زآں جام شراب نیم رس دارم
اسی خیال کا ان کا ایک اور شعر بہت مشہور ہے :
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
میر کی عشقیہ فارسی شاعری کی ایک بڑی اور اہم خصوصیت جدت طرازی ہے ۔میر اپنی قوت اجتہادی کی مدد سے نیا ،انوکھا مضمون باندھنے پر قادر نظر آتے ہیں ۔وہ فرسودہ کہنہ اور پامال مضمون کو بھی اپنے تخیل اور شاعرانہ کمال سے دلچسپ ، جدید اور اثر انگیز بنا دیتے ہیں۔ ان کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے:
از دل مگو کہ تیر بلا را نشانہ است
و ز سینہ ام مپرس زنبور خانہ است
دیشب بہ یاد زلفے کی می سوختی دلا
دو د جگر چو مارسیہ بیچ و تاب داشت
شد رہ آشیاں فراموشم
طائر نو پریدہ رامانم
میر کے اردو کلام میں معاملہ بندی سے متعلق متعدد اشعار موجود ہیں لیکن فارسی شاعری میں اس قسم کے اشعار نہیں ملتے اور اگر انہوں نے اس قسم کے اشعار کہے بھی ہیں تو اسلوب بیان کی ندرت و پاکیزگی کے سبب ابتذال ، عریانی یا جنسیت کا دھبہ نہیں آنے دیا ہے اور نہ ہی ایسے مضامین کو موضوع بنایا ہے جن سے کلام میں عامیانہ پن اور رکاکت پیدا ہوتی ہے یا جس سے تہذیب کی آنکھیں جھک جاتی ہیں ۔ ان کے یہ اشعاردیکھیے جن میں معاملہ بندی کا عنصر تو ہے مگر فحاشی و ابتذال کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا :
سر مست در رسیدی و دست و بغل شدی
قربان می شوم کہ ترا بے حجاب کرد
ہر کس بہ دلبر خود شد ہم کنار شاداں
حسرت فرود بے تو در روز عید مارا
عید تقریب خوشے بود و لیکن صد حیف
ماند بر عید دگراز تو ہم آغوشی من
اسی مضمون سے متعلق ان کا ایک اور شعر یہ ہے :
عید آئندہ تک رہے گا گلہ
ہو چکی عید تو گلے نہ ملا
میر کے اشعار میں پاکیزگی وطہارت کا اظہار ہوتا ہے ۔
صحبت چگونہ گرم تواں کردیا گلے
کافسردہ می شود نزاکت چو بو کنند
میر کو ایک عاشق بے قرار کی مانند معشوق کی جدائی کسی بھی لمحہ برداشت نہیں ہوتی ۔ وہ بے قراری سے کہہ اٹھتے ہیں :
امشب کہ در من کام جاں نبود
حالے گزشتہ است کہ جاں در میاں نبود
اور جب طویل انتظار کے بعد شب وصل کی نعمت حاصل بھی ہوتی ہے تو
دوش وصل او میر شد ولے
دل زبے تابی بہ فکر خویش برد
میر کو معشوق کے احترام اور اس کی عزت کا ہمیشہ خیال رہا ، لہٰذا کہتے ہیں ۔
مردم بایں راز عشق نہ رفعت
بعد عمرے غبار من برخاست
میر کے اشعار میں ایک کسک ، خلش اور سوزش کا احساس ہوتا ہے اور یہی چبھن و سوزش عشقیہ شاعری کا طرہ امتیاز ہے ۔ان کے یہاں عشق میں ظہور پذیر ہونے والے تمام تلخ و شیریں تجربات کی سچی ترجمانی ملتی ہے۔ جب وہ اپنے اضطراب، تشنگی ، بے اطمینانی ، ناراضگی اورکم یقینی کو بیان کرتے ہیں تو ان کا ہر ایک شعر شاہکار لازوال بن جاتاہے ۔
بہ بزم عیش او اساتدم خاموش از حیرت
بداں ماند کہ بر دیوار چسپا نند تصویر ے
اکثر مواقع پر ان کے یہاں ناکام عاشق کی بے بسی ، مجبوری اور لاچاری کا رنگ بہت گہرا اور نمایاں ہے ۔ اس قسم کے عشقیہ اشعار میں بڑی صداقت، خلوص ،وارفتگی اور اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے جو قاری کو حال خود فراموشی میں لے جاتی ہے۔ عشق میں ناکامی کے بعد عاشق کے دل سے جو کراہیں نکلتی ہیں ان کے بیان کرنے پر ہمارے شاعر کو غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔
’’میر حسن پرست تھے ۔عشق میں چوٹ کھائے تھے اور اپنے اس جذبے کو اس صداقت سے بیان کرتے ہیں کہ وہ دل پر نشتر کا کام کر جاتے ہیں ۔۷؂
عاشق جب معشوق کو یاد کرتا ہے تو اس کے فراق کا احساس اور زیادہ شدت اختیار کر لیتا ہے اور یہ احساس آہ و زاری کی شکل میں ظہور پذیر ہوتا ہے اور وہ بے چین ہو کر اس کی ایک جھلک پانے کو طرح طرح کی تدابیر اختیار کر تا ہے۔اپنی تمام تر ناتوانی و بے کسی کے باوجود برائے وصل معشوق وہ ایسے راستے اختیار کرتا ہے کہ اعتدال کی حالت میں جن کا کرنا محال ہوتا ہے ۔مثلاً میر کا یہ شعر دیکھیے:
روزے ہزار بار ز شوق در کسے
ایں پا شکستہ دست بہ دیوار می برد
میر کے یہاں گفتگو کا سلیقہ پایا جاتا ہے۔ وہ سیدھے انداز میں بات نہیں کرتے۔ ان کی بات تہہ در تہہ ہوتی ہے لیکن اس میں تکلف و تصنع کا شائبہ تک نہیں ہوتا بلکہ فطری انداز ہونے کے باعث اس میں ایک انوکھی کشش و سحر انگیزی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس میں ان کے احساس و جذبے اور ادراک و شعور کا لہو دوڑتا ہے۔ ان کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے جن میں معشوق کی سنگدلی ، سرد مہری اور بے وفائی کی شکایتیں اور شکوے ہیں :
بامن آں رشک ماہ صاف نہ شد
جرم نا کردہ ام معاف نہ شد
باما ہنوز بے مزگی ہاست یار را
بے وجہ رنجشے ست ہماں آں نگاررا
مردیم و مکاں ہم شدہ و یراں و نہ گفتی
کایں رہ گزر تکیہ در یوزہ گرے داشت
بے رحمی تو تاچہ مقام است خود ببیں
مردیم بے تو و نہ رسیدی بہ دردما
من اے ظلم کیشاں زجاں دست شستم
بیا رید نطعے و تیغے وطشتے
سالہا بیمار ماندم بے تو کے دیدی مرا
مردم از بے لطیف آخر نہ پر سیدی مرا
جب وہ معشوق کی کبھی نہ ختم ہونے والی تند خوئی ، سرد مہری اور سنگ دلی سے اکتا جاتے ہیں تو خود کو بڑے مشفقانہ و مخلصانہ انداز میں تسلی و تشفی دیتے ہیں ۔
دلبراں جز جفا نمی دانید
راہ و رسم وفا نمی دانید
جب دل شوخ و چنچل و شرارتی طفل کی طرح بار بار محبوب کی طرف مائل و راغب ہوتا ہے توناصحانہ انداز اختیار کرتے ہیں ۔
بجز پامالی کشت امید اے میر درآخر
بگو بارے کہ ازورزیدن عشقت چہ حاصل شد
مایوسی حد درجہ بڑھ جاتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں۔
چوں شمع چند گویم بے اختیار ہر شب
تاکے زنم بر آتش پروانہ وار ہر شب
ایک وقت تو ایسا آتاہے کہ وہ عشق مجازی سے بیزار و دل آزار ہو جاتے ہیں :
شدم بے زار از عشق مجازی
نمی آید زمن ایں بچہ بازی
انہیں عشق مجازی کی مسلسل ناکامیوں سے گھبراکر حسن مجاز کے عارضی ہونے کے احساس سے عشق حقیقی کی جانب مائل و متوجہ کرنے کے لیے اپنے دل شوریدہ کو اس انداز میں سمجھاتے ہیں :
تا چند میر خاک در چوں بود بے شدں
برخیز و ہر چہ می طلبی از خدا طلب
میر کے یہاں حقیقی دل کی آواز کی شان پائی جاتی ہے۔ مثلاًجب عشق مجاز میں بوالہوسی و حسن پرستی کا جذبہ کارفرما ہو تو واعظ یا ناصح کی باتیں سرد اور غیر ضروری محسوس ہوتی ہیں۔ ہوش و خرد کی گفتگو سے بیزاری محسوس ہوتی ہے۔ بقول حافظ :
چوں شدم مجنوں بروئے عشق لیلٰی در جہاں
عاقلا پندے مدہ ہمچوں من دیوانہ را
میر کے فارسی اشعار میں ناصح ، واعظ اور شیخ کا تذکرہ جس تکرار اور انفرادیت کے ساتھ آتا ہے اس سے صاف و سیدھے طور پر ان کی روداد محبت کی غمازی ہوتی ہے۔ ایک جگہ کہتے ہیں :
تو در نہ یافتہ ای ذوق عشق را ناصح
بتاں کہ دشمن جاں اند خوش تراز جانند
ایک اور شعر دیکھیے جس میں طنز کا پہلو نمایاں ہے :
پند دیوانگاں ناصح ندارد حاصلے
شیوہ رحمے بیا موز آں ستم اندیش را
شیخ کی پند و نصیحت سے بے زار ہوکرکہہ اٹھتے ہیں۔
مشنو سخن شیخ کہ از بے بصراں است
اور منکر دیدار رخ خوش پسراں است
جب ناصح کی باتیں ناقابل برداشت ہونے لگتی ہیں تو دو ٹوک انداز میں کہہ اٹھتے ہیں :
ناصح دماغ خود محبت صرف می کند
مہر از دلم بہ حیلہ و افسوس نمی رود
غالب نے اسی خیال سے اپنے اظہار کی شمع کو اس طرح روشن کیا ہے :
ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہودین و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں
مختصر، کہہ سکتے ہیں کہ میرنے اپنی فارسی غزلیات میں جو عشقیہ جذبات و احساسات پیش کیے ہیں وہ کسی بڑے اضافے کا باعث تو نہیں ہیں لیکن ان کی اہمیت اورافادیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ۔انہوں نے اپنے پیش روؤں کی عشقیہ شاعری کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان سے استفادہ تو کیا ہے لیکن ان میں سے کسی ایک کی بھی تقلید کو اختیار کرنے کی کوشش نہیں کی ہے ۔ ان کی عشقیہ شاعری خواہ وہ فارسی ہو یا اردو بنیاد تو ان کے ذاتی تجربات و مشاہدات رہے ہیں۔ اس لیے ان کے یہاں صداقت و انفرادیت کا رنگ نمایاں ہے۔ ان کی کوئی بھی عشقیہ تمنا یا خواہش تعیش اورعیش کوشی کی انتہائی حدود میں داخل نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ معاصرین شعرا ء کی طرح ان کے یہاں بے اعتدالی نہیں ہے۔ میر کے یہاں موضوع حسن و عشق میں اساتذہ کی طرح مفکرانہ گیرائی تو یقیناًنہیں ہے لیکن تنوع، رنگا رنگی ، وسعت ہمہ گیریت کے پہلو ضرور موجود ہیں ۔
مآخد و ذرائع
۱) ڈاکٹر سلام سندیلوی ، رسالہ نیادور،ص ۱۸، اتر پردیش لکھنؤ ، اپریل ۱۹۷۵ء
۲) اختر علی تلہری، رسالہ نقوش ۵۳۳، ادارۂ فروغ اردو،لاہور ، نومبر ۱۹۸۰ء
۳) مظفر علی سید ، رسالہ نقوش میر تقی میر نمبر ، ص ۶۴۳، ادار�ۂ فروغ اردو،لاہور ، ۱۹۸۳ء
۴) ڈاکٹر وحید اختر ، خواجہ میر درد: تصوف اور شاعری ، ص۳۴۷، لیتھو کلر پرنٹرس ، علی گڑھ، ۱۹۷۱ء
۵) وقار ناصری ، رسالہ نیا دور میر تقی میر نمبر ص : ۴۴، اتر پردیش ، لکھنو، مئی ، جون ، ۲۰۱۰ء
۶) اختر علی تلہری، رسالہ نقوش ، ص ۵۳۵، ادار�ۂ فروغ اردو لاہور ، نومبر ۱۹۸۰ء
۷) عارف حسین جونپوری ، نیا دور، میر تقی میر نمبر ، ص ۷۹، اتر پردیش لکھنؤ، مئی ۔جون ۲۰۱۰ء

اخبار اردو کے نام
جولائی ۲۰۱۲ء کا شمارہ دیکھا۔ بلکہ از اول تا آخر پڑھا۔ بالکل نئے انداز سے ترتیب دیا ہوا۔ اسی لیے گزشتہ رسالوں کے مقابلے میں یہ تبدیلی بہت بھلی لگی۔ یاد نگاری کے ساتھ ساتھ غیر ملکی زبانوں کے افسانوی تراجم۔۔۔مرحوم اور موجود اہل قلم و علم کے تعارف و تبصرہ بھی قابل مطالعہ رہا۔ پھر ایک ساتھ مقتدرہ کی مطبوعات کی تقریبات کا تعارف۔ اس کے علاوہ دیگر کتب پر تبصرہ بھی اور قومی اخبارات سے اہم کالم کا انتخاب۔ یعنی اب صحیح معنی میں اخبار اردو بنا۔ پہلے تو صرف حکومت کے زیر انتظام شائع ہونے والے ایک جریدے کی حیثیت رکھتا تھا۔
سلطان جمیل نسیم، کراچی
***
جشن آزادی کے موقع پر سعادت حسن منٹو کے لیے صدارتی اعزاز
بطور افسانہ نگار منٹو کی حیثیت مسلمہ ہے۔ منٹو نے ریڈیو اور فلم کے لیے سکرپٹ بھی لکھے اور بہت سے تراجم بھی کیے۔ اپنی مختصر حیات میں منٹو نے اپنے بائیس افسانوی مجموعے، ایک ناول، تین مضامین کے مجموعے اور دو شخصی خاکوں کے مجموعے شائع کیے۔ منٹو پر چھ مرتبہ فحاشی پھیلانے کا مقدمہ بھی چلا، تین مرتبہ ۱۹۴۷ء سے پہلے اور تین مرتبہ ۱۹۴۷ء کے بعد۔حالیہ صدارتی اعزاز اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ۲۰۱۲ء کو منٹو صدی قرار دیا گیاہے۔