اعزاز احمد آذر
مادری زبان کا قومی کردار


بچہ اپنی عمر کے پہلے سال میں لفظ بولنا سیکھ لیتا ہے ۔ پھر اس کے بعد اس کی ساری عمر یہ سیکھنے میں بسر ہو جاتی ہے کہ کون سا لفظ کب اور کہاں بولنا چاہیے ۔ اب یہ اس کی لگن ،ریاضت، تحقیق اور جستجو ہے کہ وہ اس عمل یا کوشش یا خواہش میں کس قدر کامیاب ہوتا ہے ۔ خود کار فطری عمل تو یہ ہے کہ وہ آغاز عمر ہی سے اپنی مادری زبان کے الفاظ سے مانوس ہوتا انہیں سمجھنے کی کوشش کرتا اور پھر اپنی زبان سے ان کے بر محل استعمال کو ممکن بنانے کی سعی کرتا ہے ۔ مادری زبان سے وابستگی شیر مادر کے ساتھ بچے کو فطرت کی جانب سے ودیعت ہوتی ہے۔ یہ دراصل اس کی اپنی زبان ہے جو اس کے خون کا بھی حصہ ہے۔ اسی مادری زبان میں لوریاں سن کر وہ ماہ وسال کا سفر طے کرتا ہے اورپھر ایک ایسا وقت بھی آتاہے جب وہ اپنی مادری زبان میں خواب دیکھتا اور پھر اسے بیان کرنے پر قدرت حاصل کرتا ہے ۔ اگلا مرحلہ کچھ عرصے کے بعد آتا ہے جب اسے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اب معاشرے میں اسے کون سی زبان بولنی ہے ؟یہ شعوری فیصلہ کرنے کے لیے اسے ارد گرد کے ماحول ، معاشرے اور سماجی و معاشی حالات و واقعات کے ساتھ ’معاملہ طے کرنا ‘پڑتا ہے جن پر خود سیاسی حالات بھی اثر انداز ہورہے ہوتے ہیں۔ سب سے بنیادی سبب اور جواز کسی بھی زبان کی طرف مائل ہونے کے لیے اقتصادی اور معاشی حالات پیدا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جو زبان اس کے لیے روز گار اور ذرائع آمدنی کے دروازے کھولے گی ، وہی اس کی ضرورتوں اور توجہ کا مرکز بنے گی وہ خواہ اس کے لیے اجنبی اور غیر ہی کیوں نہ ہو۔
پاکستانی معاشرے اور یہاں کے تناظرات کو پیش نظر رکھیں تو انگریزی اور کسی حد تک تو اردو زبان اس حوالے سے دستگیری کرتی ہے ۔ پاکستانی قوم کے لیے نہایت تلخ حقیقت ہے مگر آج کل بوجوہ روزگار کا مین گیٹ تو انگریزی زبان کی چابی ہی سے کھلتاہے۔
اردو ہماری قومی زبان ہے اور چاروں صوبوں میں اور وفاق میں بھی انسانوں کے باہم دگر رابطے کی زبان ہے ۔ ہمارے بزرگوں کے ہاتھوں صدیوں سے پروردہ اس زبان کی شائستگی ،ندرت ،جمالیات، گیرائی اور گہرائی حیران کن حد تک وقیع اور وسیع ہے۔ لسانی تشکیلات کا جو اعجاز اردو زبان کے پاس ہے وہ شاید ہی کسی اور زبان میں نظر آ ئے ۔ اردو زبان کی حلاوت اور گھلاوٹ شیرینی آمیز ہے۔ اس زبان میں سماجی ،انسانی اخلاقی قدروں کا احترام کرنے اور انھیں فروغ دینے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے ۔ادب آداب ،چھوٹے بڑے کے لحاظ اور امتیاز کا جو قرینہ اور کلچر اردو زبان کے ہاں پایا جاتا ہے وہ انگریزی زبان کے ہاں نا پید ہے۔ مثلًا بظاہر معمولی سی بات ہے مگر ہمارے روز مرہ کے سماجی اور ثقافتی ماحول میں یہ بہت اہم اور بہت بنیادی مسئلہ بن جاتا ہے کہ ً ہمارا انداز تخاطب ً کیاہے ۔ ہم اپنے سے عمر میں بڑے ’مرتبے میں بڑے رشتے میں بڑے حتیٰ کہ بظاہر اپنا ہم عمر نظر آنے والے یا چھوٹی عمر کے بھی اجنبی کوجب مخاطب کریں گے تو اس کے لیے لفظ ً آپ ً نہ صرف ہمارا وسیلہ ہو گا بلکہ ہماری ذاتی اور خاندانی اخلاقیات کی پہچان بھی بنے گا ۔ اس کے بر عکس انگریزی میں باپ بھی You ، دادا بھی You ،ماں بھی You ، افسر بھی Youہی ہوتا ہے ۔ عالمی سفارت کاری کی سطح پر صدر ، وزیرِ اعظم اور دیگر اعلٰی مناصب پر فائز شخصیات کے لیے احترام کے الفاظ مختص کیے گئے ہیں۔
مگرانگریزی زبان اپنے روایتی اندازاً تخاطب کے ساتھ ً ایکسی لینسی ً کا اضافہ کر کے اخلاقیات کا گھر پورا کر دیتی ہے ۔ پھر انگریزی زبان کے پاس انسانی اور خاندانی رشتوں میں امتیاز اور تفریق کا کوئی قابل توقیر فارمولانہیں ہے،ماموں بھی Uncle ، چچا بھی Uncle اور تایا بھی Uncle ، بھابھی بھی Sister in lawاور سالی بھی Sister in law ہوتی ہے۔ اسی طر ح بہنوئی اور سالہ دونوں ہی Brother in law ۔ ہاں البتہ انگریزی زبان نے کزن (Cousin )کا ایک لفظ وضع کر کے نوجوانوں کے لیے بہت سے راستے اورامکانات کے در کھول دیے ہیں، بہت سی گنجائشیں پیدا کر دی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔جس کو جی چاہا ً کزن ً کہہ کے متعارف کرادیا پتا ہی نہیں چلتا کہ یہ لوگ آپس میں چچیرے ،ممیرے ، پھپھیرے کون سے رشتوں میں منسلک ہیں۔ البتہ اردو زبان بالوضاحت متعارف کرانے میں ہماری مدد کرتی ہے کہ یہ میرے ماموں ہیں ، یہ چچا ہیں ،تایاہیں ،خالو ، بہنوئی ہیں، برادر نسبتی ہیں، چچا ،تایا ،ماموں یا خالہ زاد بھائی (یا بہن ) ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
یہ ساری گفتگو میں نے خدانخواستہ انگریزی زبان کا مرتبہ گھٹانے کے لیے کی ہے نہ میری کسی ایسی کوشش سے یہ مرتبہ کم ہو سکتا ہے ۔ میں دراصل ایک پروان چڑھتے ہوئے بچے کی ذہنی ،فکری ، علمی اور معلوماتی پر داخت کے حوالے سے کوئی معاون و مدد گار اور شافی و کافی زبان کے انتخاب کے سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں نے یہ ساری بحث اپنے مقامی کلچر اور اپنے تہذیبی پس منظر کے حوالے سے چھیڑی ہے۔ سو انگریزی زبان کی بین الاقوامی اہمیت کے باوجود ہمیں پاکستان کی پچاسی فی صد آبادی کے بچوں کے بارے میں بھی سوچنا ہے جودیہی ہیں ، پسماندہ ہیں ، بے جہت ہیں، وسائل سے محروم ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر انھیں بولنا تو ہے ،بات تو کرنا ہے ، انسانوں کے ، چیزوں کے ، رشتوں کے ، زبان و مکاں کے نام تو سیکھنے ہیں اور پھر انھیں اپنے لیے وسیلہِ اظہار تو بنانا ہے نا۔
صرف پنجاب کی ہی بات کی جائے تو لاکھوں کروڑوں بچے ایسے ہیں جنھوں نے ہوش سنبھالا اور چیزوں کے نام سیکھنے شروع کیے تو اس سے بچے کی تربیت کا ایک دلہرا لسانی عمل شروع ہو گیا ۔ ابتدائی برس مادری زبان کے الفاظ سیکھنے میں لگے اور پھر اسکول میں اس نے ابتدائی قاعدے سے قومی زبان کی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی ۔ مثال کے طور پر گھر میں اس نے باپ اور دادا کو پاؤں میں کھُسہ پہنے دیکھا مگر جب اسے پڑھنے پر راغب کرنے کا شروع کیا گیا تو اس کے قاعدے میں کھُسے کی تصویر دیکھ کر اسے کھ ، کھُسہ نہیں بلکہ ج، جوتا پڑھایا ۔۔۔۔ خمیدہ کمر لاٹھی ٹیکتے دادا یا کسی فقیر کو اس نے ابھی تک’’ بُڈھا بابا‘‘ ہی سنا تھا مگر اب اسے ض ، ضعیف پڑھا یا گیا ۔ ایک پاکستانی بچہ اس عمل سے نہایت کامیابی کے ساتھ گزر جاتا ہے ۔ اس کے برعکس اب تو ذریعہ تعلیم ہی انگریزی کر دیا گیا ہے۔
پاکستان بھر میں پنجابی ، سندھی ،پشتو ، بلوچی ، سرائیکی ، براہوئی ، چترالی اور شنا جیسی مختلف علاقائی زبانیں بولنے والے اِن پچاسی فی صد بچوں کے اِن لسانی مسائل کو بیان کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے ہاں بدیسی زبان انگریزی کے فروغ پذیر حالات میں لسانی طور پر بری طرح متاثر ہو کر تاریک مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ میں بھر پور توجہ کے لیے صرف ایک صوبے پنجاب کی زبان پنجابی کی مثال سے اپنی بات واضح کروں گا ۔ بلاشبہ یہ تمام مادری زبانیں قومی زبان کے ساتھ لسانی اخوت کے سیسہ پلائی دیوار بن کر بیرونی لسانی یلغار کا پامردی سے مقابلہ کرتی چلی آ رہی ہیں۔ البتہ ہماری مصیبتیں ہیں کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی ہیں۔
ماہرین ، ،تحقیقاتی اداروں اور اہل علم و دانش نے اور زندگی کے عملی تجربے کو استاد اور رہنما ماننے والوں نے بتایا ہے کہ کسی بھی بچے کو تعلیم دینے یا علم سکھانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ’’ معلوم سے نا معلوم تک سفر ‘‘ کے اصول کو رہنما بتایا جائے۔ اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر میں طے کردیا کہ بچے کی ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان کے ذریعے بچے کا حق ہے ۔
پاکستان کو قائم ہو ئے ۶۵ سال ہونے کو آئے ہیں مگر ہم ابھی تک اپنی شرح خواندگی۶۵ فی صد نہیں کرسکے ،یعنی ایک فی صد فی سال ۔اس کا سبب کیا ہے ؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ ہم نے اپنے ملک بھر کے اسی قسم کے بچوں کو ان کا فطری ،بنیادی حق نہیں دیا یعنی اسے اس کی مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کے حق ہی سے محروم کر رکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شروع ہی سے ہماری ہر آنے والی حکومت بھی نئے نئے ناموں کے ساتھ مسجد مکتب ،نئی روشنی،Each one,Teach oneجیسے اربوں روپے سالانہ کے تعلیمی منصوبے چلانے کے باوجود خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی ۔
ہر دور میں تبدیل شدہ اشرافیہ کا طرز عمل ، جاگیر دارا ذہنیت اور نوکر شاہی کے مخصوص مفادات نے ہمارے ملک میں کوئی مربوط اور منضبط نظام تعلیم رائج نہیں ہونے دیا۔ خمیازہ ہم نے بھگت لیا ۔ایک بات میں واضح کردوں کہ میں جب بچے کا حق اس کی مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کی بات کرتاہوں تو اس کا مطلب کسی رخ، کسی انداز اور کسی حوالے سے بھی یہ نہیں ہے کہ یہ قومی زبان یا کسی اور زبان سے متحارب ہونے کی بات ہے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے اور ابتداء میں اس کے مختلف النوع حوالوں سے اس کی اہمیت کو اجاگر کرچکا ہوں ۔ انگریزی ہمارے ہا ں اس وقت تک بھی عدالتی ،سرکاری اور روزگار کے حصول کی زبان ہے۔ اب تو یہ رپورٹیں بتائی جا رہی ہیں کہ پاکستان دنیا میں انگریزی بولنے والا نواں بڑا ملک بن گیا ہے ۔ اس کے باوجود ہمارے مسائل اسی طرح ہیں۔ بات تو بچے کی مادری زبان میں تعلیم اور مادری زبان کے وسیلۂ تعلیم بننے کی ہے۔
رئیس امروہی مرحوم نے ۲۹ جنوری ۱۹۸۵ ء کو مسعودکھدر پوش کے نام اپنے خط میں لکھا تھا ’’ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ پاکستان سیاسی طور پر ہی ایک وفاق نہیں بلکہ یہ لسانی ، تہذیبی اور نسلی طور پر بھی ایک وفاقی مملکت ہے ۔ بھارت میں اب تک بائیس (۲۲) زبانوں کو قومی زبانیں تسلیم کر لیا گیا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں پنجابی ،سندھی ، کشمیری ، پشتو، براہوئی ، بلوچی ، اور دیگر تمام زبانوں کو بھی قومی درجہ نہ دیاجائے ،اردو رابطے کی زبان ہے اور رہے گی۔ ‘‘
آخر پر بات کو سمیٹتے ہوئے میں عرض کروں گا کہ مادری زبان ہی وہ پہلی زبان ہوتی ہے جو بچہ ماں کی گود میں سیکھتا ہے۔ اسے اس فطری زبان میں ماں کی ازلی محبت ملتی ہے ۔ اس زبان کی آوازیں بچے کے ذہن کے خلیات پر ایسے نقش ہو جاتی ہیں کہ ساری زندگی وہ قدرتی طور پر ان سے مانوس رہتا ہے ۔ ۱۹۵۱ ء میں اقوام متحدہ کی دعوت پر جو ماہرین پیرس میں اکھٹے ہوئے تھے ،انھوں نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا :’’ مادری زبان انسان کاقدرتی ذریعہ اظہار ہے اور تعلیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان میں خود اظہار کی قوت بڑھے ۔ مادری زبان ، ذریعہ تعلیم ہونے سے تعلیم نہ صرف آسان ہو جائے گی اس طرح وہ خطر ناک طرزِ فکر بھی ختم ہو جائے گی بلکہ مقبول بھی ہوگی جو ہر غیر ملکی چیز پر فریفتہ ہے اور ہر ملکی چیزبلکہ ہم وطنوں تک سے متنفر کرتی ہے۔ ‘‘
یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہماری پاکستانی قومیت ،لسانی قومیت نہیں ہے سو جب ہم ملک کو غیر ملکی زبان کے بوجھ سے آزاد کرتے ہوئے اپنی زبانوں کو پاکستان کی قومی زبانیں مان لیں گے اور اردو کی مرکزیت کو بھی قائم رکھیں گے تو وفاق کے استحکام میں مدد بھی ملے گی اور خوبصورتی بھی پیدا ہوگی ۔ابتدائی سطح پر مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم قرار دینے سے تعلیمی ترقی کا ہمار ا خواب بھی پورا ہوگا۔ وہ خواب جو پنجاب ہی نہیں پاکستان کے تمام صوبوں کے سب بچے دیکھتے ہیں۔