مرتب: محمد انور سرور
کتب نما
غالب کے زمانے کی دلی


’’چوٹی زیریں میں بیٹھے عباس برمانی نے ایک مخصوص عہد کی دلی کو اور غالبؔ کے زمانے کو تاریخی وتہذیبی شہادتوں ، جمالیاتی وجدان اور تخلیقی تخیل سے کیوں دریافت کرنا چاہا ہے؟ کیا یہ اپنے اجتماعی وجود سے منہا ہونے والے حوالے کی بازیابی کی رومانوی کوشش ہے ؟ پاکستان کے جہادی مکتب فکر کی جانب سے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے خواب یا کلیم کی تجدید ہے ؟ یا پھر مغل کلچر کی تلچھٹ، سامراجی ورثے ، مشرق شناسی اور عالمگیریت کے کثیر الابعاد منظر نامے کو سمجھنے کی ایک سنجیدہ کوشش ، جس کے ماخذات حیرت انگیز ہیں اور جس سہولت سے وہ نتائج اخذ کرتا ہے ، جس اسلوب میں بیان کرتا ہے، جس معصومیت سے وہ بیان کرتا ہے ، متاثر کرتا ہے۔
عباس برمانی نے بھی اس عہد کی دلی کے ناظر اور شاہد کے طور پر غالب کو نہیں دیکھا بلکہ غالب کی زندگی کے مختلف ادوار اور مراحل کے بیان میں تبدیلیوں کی زد میں آئی دلی کی مرقع کشی کی ہے اور غالب کی آخری سانسوں کے ساتھ ہی یہ کتھا ختم کی ہے ۔ گویا وہ غالب کو اس عہد کی دلی کا مرکزی کردار ہی نہیں ، تہذیبی ہم زاد اور نبض شناس بھی خیال کرتا ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر عباس برمانی ’غالب کے زمانے کی دلی ‘ عباس برمانی کا ذوقِ تحقیق اور رنگِ تخلیق ، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
آشوب
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا شاعر ہونا ان کے شاگردوں اور مداحوں کے لیے خوش گوار حیرت کا موجب ہے ۔ ان کا ذوقِ سخن اکبر الٰہ آبادی اور مجید امجد سے قلبی وابستگی نیز حفیظ جالندھری اور قابل رشک حافظے سے لے کر اوزان وبحور سے ان کے تخلیقی وجود کو مانوس اجنبی بنا دیتا ہے ، مشفق خواجہ کے بعد وہ دوسرے محقق اور نقادہیں ، جنھوں نے اپنے شاعر ہونے کی دریافت کا سہرا اپنے سرہی باندھا ہے۔
خواجہ صاحب کے شعری مجموعے ’آشوب‘میں دولحن ملتے ہیں ۔ ایک اکبر الٰہ آبادی کا ہے ، جو عصری مسائل پر بے باک للکار بن جاتا ہے اور دوسرا رومانی لحن ، جو اس شخص کی تنہائی کو متکلم بناتا ہے ، جسے کسی اور نے نہیں خود ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے نظم وضبط نے تنہا کیا تھا۔
چند منتخب اشعار
خدا وند ترے انصاف کی میں داد دیتا ہوں
کسی کو گہرِ تاباں، کسی کو چشمِ تر دی ہے
وہ امن آج بھی اتنا ہی دور ہے ہم سے
جس امن کے لیے سب ہورہی ہے خوں ریزی

بجا تھا خوف ، اگر اٹھ بھی جائے گا پرویز
تو پھر بھی ہم پہ مسلط رہے گی پرویزی

رہے نہ پچھلے طریقے بہ فیضِ’ انٹرنیٹ
ہوا رواج سحر خوابی اور شب خیزی

دفتروں کے سب عامل اپنے فن میں ہیں کامل
پیچ ڈال دیتے ہیں کام کتنا آساں ہو

ہیں بچے ان کے امریکہ میں خوشحال
بڑے جن کے رہے ہیں اشتراکی

ارے یہ کس مصور کا ہے شہکار
کہ جس کا پیٹ تو ہے سر نہیں ہے

ایک جا دین و دیو مالا کرو
پھر اسے ناولوں میں ڈھالا کرو
از: خواجہ محمد زکریا؛ الحمد پبلی کیشنز، لاہور؛ ۲۰۱۱ء
’’
بچے جبر کے سائے میں ‘‘
اقبال محمد فریدی کا نہایت خوبصورت شعری مجموعہ’’بچے جبر کے سائے میں ‘‘ منظر عام پر آچکاہے۔ اقبال فریدی کی یہ کتاب ایک مسلسل نظم کی شکل میں ہے، جس میں انھوں نے بچوں پر ہونے والے مظالم اور ان کے سماجی اور اقتصادی استحصال کو نظم کے پیرائے میں بیان کیا ہے۔ شعر رواں اور اسلوب نہایت دل کش ہے۔ اردو میں یہ پہلی کتاب ہے جس میں بچوں کی جبری مشقت اور ان کے متعلق ’’اسلامی اور بین الاقوامی قوانین‘‘ سب کو شعر اور نظم میں بھی بیان کیا ہے۔ اسے ساہیوال پرنٹنگ پریس، ساہیوال نے شائع کیا ہے۔ دو سو اٹھتر صفحات کی اس کتاب کی قیمت پانچ صد روپے ہے۔
(علی اکبر ناطق)
محمد اسلم رسول پوری کی مرتب کردہ دو کتب
رسول پور کی بستی ضلع راجن پور کے دور افتادہ ضلع میں ہونے کے باوجود مکمل طور پر تعلیم یافتہ ہے۔ محمد اسلم رسول پوری کا نام سرائیکی لسانیات کے حوالے سے خاصا معروف ہے۔محمد اسلم رسولپوری کی متعدد کتب سرائیکی لسانیات کے حوالے سے سامنے آچکی ہیں۔ ان میں سرائیکی رسم الخط کی مختصر تاریخ؛ سرائیکی زبان اوندا رسم الخط تے آوازاں اورسرائیکی مضامین جیسی کتب کے بعد نئی سامنے آنے والی کتاب’’ سرائیکی زبان اتے لسانیات ‘‘ کے عنوان سے ملتان سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں وادی ہاکڑہ کی پہلی زبان ، لسانی سامراجیت ، سرائیکی زبان اور مزاحمت ، ڈاکٹر مہر عبدالحق کی سرائیکی لسانی خدمات ، سرائیکی زبان میں املاء کے مسائل اور سرائیکی زبان کے نام کی حقیقت جیسے موضوعات سامنے لائے گئے ہیں۔اس سے پتا چلتا ہے کہ محمد اسلم رسولپوری کی نظر سرائیکی لسانیات کے مختلف موضوعات کی ترجمان ہے اور ان کا قلم ان موضوعات کی ترجمانی میں منفرد کردار کا حامل ہے۔
تنقید وتحقیق کے حوالے سے محمد اسلم رسولپوری کی کتب میں جہاں ’’ تلاوڑے ‘‘ اور ’’ نتارے‘‘ جیسی کتابیں منظر عام پر آئیں وہاں ملتان سے شائع ہونے والی کتاب ’’ لیکھے ‘‘ میں عملی تنقید، نظری تنقید اور تحقیقی کتب پر لکھے گئے تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ نظری تنقید میں متن اور مدون کے احوال ، تخلیق کا عمل اور ادبی نقاد کے منصب پر قلم اٹھایا گیا ہے۔ عملی تنقید کے سلسلہ میں کلام فرید سے دور جدید تک کی شاعری کے متعلق اہم موضوعات زیر بحث لائے گئے ہیں۔ تحقیقی حوالہ کے مختلف سلسلوں اور سرائیکی زبان وادب کی منتخب کتب پر تبصرے بھی ’’ لیکھے ‘‘ کاحصہ ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ اس کتاب میں تنقید کے مختلف پہلو سامنے لائے گئے ہیں۔
(حمید الفت ملغانی)
ڈاکٹر نبیلہ رحمن کی مرتب کردہ دو کتب
تحقیق وتنقید کے ساتھ ساتھ ترتیب وتدوین کا عمل بھی ادب میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ پنجاب یونیورسٹی اور یئنٹل کالج لاہور کے شعبہ پنجابی کی ڈاکٹر نبیلہ رحمن نے پنجاب کی کلاسیکی شاعری کے دو اہم شعراء پیر فضل شاہ گجراتی اور فقیر قادر بخش بیدل کے کلام کو ترتیب دے کر کتابی شکل میں پیش کیا۔
’’
کلام پیر فضل گجراتی ‘‘ کے عنوان سے پیر فضل گجراتی کی متعدد کتب کو یکجا کر کے کلیات کی شکل میں لاہور سے سامنے لایا گیا ان کتب میں قطبی تارا، ڈونگھے پینڈے ، ٹکوراں اور پنجابی داقطبی تارا کے علاوہ غیر مطبوعہ کلام اور شاعر کا قلمی کلام بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ ضخیم کلیات پنجابی زبان کی تعلیم وتعلم کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
فقیر قادر بخش بیدل کا کلام ’’ رمز وجود ونجاون دی ‘‘ کے عنوان سے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر کی جانب سے منظرِ عام پر لایا گیا ۔ ڈاکٹر نبیلہ رحمن کی مرتب کردہ اس کتاب میں فقیر قادر بخش بیدل کی کافیوں کو حروف تہجی کی ترتیب سے پیش کیا گیاہے ۔ عام طور پر کافیوں کو ردیف کی ترتیب سے پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کتاب میں ہر کافی کے پہلے لفظ کے حوالے سے الفبائی ترتیب پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
(حمید الفت ملغانی)
فیض احمد فیض، درد اور درماں کا شاعر ؛از: ڈاکٹر محمد علی صدیقی
فیض کے جشنِ صد سالہ کے حوالے سے ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی تازہ کاوش ’’فیض احمد فیض ، درد اور درماں کا شاعر ‘‘ پیس پبلی کیشنز لاہور نے ۱۸۴ صفحات پر مشتمل ۲۰۱۱ء میں شائع کردی ہے۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ بھی ہے۔ صدیقی صاحب نے فیض صاحب پر تصوف کے واضح اثرات کا ذکر کردیا ہے۔
کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے میں صدیقی صاحب نے سات مضامین شامل کیے ہیں جن کے سرنامے اندر کی خبر دیتے ہیں۔ دوسرا حصہ مطالعے کے عنوان سے ہے جس میں آٹھ کتب کا مطالعہ پیش کیا ہے۔یوں دیکھا جائے تو یہ کتاب فیض احمد فیض جیسے بڑے شاعر پر ایک بڑی اہم دستاویز کے طور پر دیکھی جائے گی۔ ایسا بڑا کام ڈاکٹر موصوف جیسے بڑے آدمی سے ہی ممکن ہوسکتا تھا۔ یہ تو نہیں کہتا کہ اب فیضؔ پر کام مکمل ہوچکا ہے مگر فیض پر ہونے والے تحقیقی وتنقیدی مطبوعہ کام میں اس کتاب کی قدروقیمت کسی طرح کم نہیں ۔اس کے لیے ڈاکٹر محمد علی صدیقی یقیناًہدیہ تہنیت کے مستحق قرار پائے ہیں۔ )ڈاکٹر سجاد حید رپرویز (
مطالع�ۂ راشد (چند نئے زاویے ) ؛از: ڈاکٹر فخر الحق نوری
’’
بسلسلہ راشد صدی ‘‘ ۲۶۲ صفحات پر مشتمل یہ کتاب مثال پبلشرز فیصل آباد نے شائع کی ہے۔ اس کتاب کا انتساب اوساکا یونیورسٹی جاپان۔ شعبہ اُردو کے تین اساتذہ ماتسو موراتا کامی تسو ، سویامانے یاسر اور مامیا کین ساکو کے نام بھی کیا گیا ہے۔ن م راشد کے ساتھ ڈاکٹر موصوف کی ذہنی وقلبی وابستگی ۱۹۹۷ء میں پنجاب یونیورسٹی کی عطا کردہ پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی ہے اور زیر مطالعہ کتاب ’’ مطالعۂ راشد(چند نئے زوایے ) ‘‘ میں شامل بارہ منتخب مضامین بھی۔ راشد کے ساتھ ان کے یہ مضامین نہ صرف رسالوں میں چھپ چکے ہیں بلکہ اس سے پہلے ڈاکٹر صاحب کی کتب میں بھی شامل ہوچکے ہیں مگر ان تمام کو کتابی صورت میں جمع اور یکجا کردیا گیاہے۔ ان مضامین کی تسوید واشاعت کا دورانیہ ۱۹۹۵ء سے ۲۰۱۰ء تک کم وبیش پندہ سولہ سال پر پھیلا ہوا ہے۔ شخصی حوالے سے جہاں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ راشد میں بہت سے مذہبی رنگ بھی شامل تھے۔ اس طرح ان کے زمان�ۂ طالب علمی اور خاکسار تحریک سے وابستگی کا دور بھی راشد کی شخصیت کی پرداخت میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ سانیٹ ، غزل اور نثری نظم کے سفر کا احوال بھی ہے۔ یوں ان کا سرماےۂ شعر صنفی وہےئتی تنوع کا حامل ہے۔ راشد کی نثر نگاری اور وہ بھی مزاح نگار ، پھر بلند فکر نقاد اور بلند مرتبہ مترجم کے طور پر بھی سامنے لائے گئے ہیں۔ نقاد کی حیثیت سے غالب پر ہونے والا کام اور مترجم کے طور پر اردو کے ساتھ انگریز ی میں کیا گیا کام۔الغرض راشد کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور توقع کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دور میں راشد فہمی میں یہ کتاب انتہائی مدد گار اور معاون ثابت ہوگی اور صاحبان علم ودانش کی تشنگی بجھانے میں ’’سمندر میں شبنم نہیں بلکہ سیر حاصل سیرابی ثابت ہوگی‘‘ اور یوں ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری جو خود بھی اُردو زبان وادب کے ناقد استاد ہیں اُردو زبان وادب کے طلباء اور محققین اور نقاد کے لیے بھی گرانقدر خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔
)
ڈاکٹر سجاد حید رپرویز (
محبت وہم ہے شاید ‘از: کاشف کمال
’’کاشف کمال کی ذات میں معصومیت اور حسن کاری جو کشش رکھتی ہے وہ ، تخلیقی کائنات میں خوشی کے سرچشمے سے خود اختیار دوری کے ساتھ مل کر ایک طرح کی افسردگی میں تبدیل ہوجاتی ہے ، دیس ، پردیس ، اپنے ، بیگانے ، قریب، دور، اور مانوس اور اچھوتے پھر لفظ نہیں ہرتے ، کرداروں کی پرچھائیاں بن جاتی ہیں اور اس کے شعری نگار خانے کو مزین کر دیتی ہیں۔ جب وہ شوق اور ضرورت کا ذکر اپنی تخلیقی سرگرمی کے لیے کرتا ہے، تو وہ فیض کی ناقابلِ فراموش نظم ، کچھ عشق کیا ، کچھ کام کیا ، کی یاد دلاتا ہے۔ یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ وہ کہنہ مشق نہیں اور اس کے کلام میں وہ پختگی نہیں جو نئے تجربات اور ممکناتِ اظہار ، کا دروازہ کسی تخلیق کار پر بند کردیتی ہے۔ ‘‘
’’
جوش بانی ‘‘ ترقی پسند نظم نمبر
’’ جوش بانی ‘‘ ، شمارہ ۵۔۶ کا ترقی پسند نظم نمبر ، مرتبہ: اقبال حیدر ، علی احمد فاطمی ،جوش وفراق لٹریری سوسائٹی بھارت کے زیر اہتمام حال ہی میں اشاعت پذیر ہوا۔ شمارے کا انتساب دو اہم شخصیات محمد حسن اور قمر رئیس کے نام ہے۔ اداریہ میں علی احمد فاطمی نے ترقی پسند ادب سے متعلق دو ایسے اہم موضوعات کا ذکر کیا ہے جو ہمیشہ سے تشنہ رہے ہیں، اول: ترقی پسند شاعری کی جمالیات اور دوم :ترقی پسند تنقید کی تاریخ ۔ بھارت سے علی احمد فاطمی اور کینیڈا میں مقیم ترقی پسند شاعر وادیب اقبال حیدر نے مل کر ’’ جوش بانی ‘‘ کا یہ ترقی پسند نظم نمبر ترتیب دیا ہے۔ یہ شمارہ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ حصہ اول میں ترقی پسند نظم کے حوالے سے نہایت اہم مضامین شامل ہیں ۔ مضمون نگاروں میں محمد حسن، سید محمد عقیل ، صدیق الرحمن قدوائی ، شارب ردولوی ، عتیق اللہ ، اقبال حیدر ،ابن کنول اور علی احمد فاطمی شامل ہیں۔ حصہ دوم نظموں کے تجزیوں پر مشتمل ہے جس میں اقبال سے لے کر عصرِ حاضر تک کے مختلف شعراء کی تقریباً ستر نظموں کے تجزیے شامل ہیں۔یہ ترقی پسند نظم نمبر بلاشبہ اپنی طرز کا نہایت اہم کام ہے۔اس ’ترقی پسند نظم نمبر‘ میں ہر دور کے ادب میں موجود اضطراب کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔ ’’ جوش بانی ‘‘ کے مدیران اور مبصرین کی فراخ دلی اور ترقی پسندی کے دائرہ کے وسیع تر ہونے کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہوتا ہے کہ انھوں نے نئی نظم اور بالخصوص وہ نظم گو جنھیں جدیدیت ومابعد جدیدیت ایسے رجحانات کا علمبردار کہا جاتا ہے کو بھی شامل کرنا اہم سمجھا کہ اس ادب کو بھی نئے زاویے سے دیکھنے اور ایک مخصوص روایت کے تناظر میں پرکھنے کی راہیں کھل سکیں۔
)
خاور نوازش (
ارضِ ملتان
خطۂ ملتان ، جسے صوفےأکرام کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے ، اپنی تاریخ ، تہذیب وثقافت اور ادب کے حوالے سے ہمیشہ اہم رہا ہے۔ اس خطے کی تہذیبی وادبی روایت کو آگے بڑھانے اور تاریخی نقوش کو محفوظ کرنے لیے مختلف حکومتی ونجی اداروں اور کچھ شخصیات نے اپنے اپنے طور پر وقتاً فوقتاً کوششیں کیں۔ انہی میں سے ایک غیر سرکاری تنظیم کاروانِ ثقافت ملتان ہے جو جنوبی پنجاب کی تاریخ، تہذیب وثقافت اور ادب کے حوالے سے ہونے والی تحقیق کو سامنے لانے کے لیے اپنے ا شاعتی فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ مختلف اجلاس اور تقریبات کا انعقاد بھی کر تی ہے۔اِسی کے زیر اہتمام جولائی ۲۰۱۱ء سے اس روایت کو آگے بڑھانے کے لیے ’’ ارضِ ملتان ‘‘ کے نام سے ایک جریدے کا اجراء کیا گیا ہے۔ملتان کے رضی الدین رضی اس کے مدیر اعزازی ہیں جبکہ مجلس ادارت میں ڈاکٹر اسلم انصاری، ڈاکٹر محمد امین ، قمر رضا شہزاد ، ظہور احمد دھریجہ اور شاکر حسین شاکر شامل ہیں۔ ’’ارضِ ملتان‘‘ کے پہلے شمارے کے اداریہ میں رضی الدین رضی نے اس کے اجراء کے مقاصد، کا روانِ ثقافت کے قیام اور سرگرمیوں پر روشنی ڈالی ہے۔ ’’ ارض ملتان‘‘ کو سات مختصر حصوں میں تقسیم کیا گیا جو تصوف ، تاریخ ، تہذیب وثقافت ، شاعری ، البم ، شخصیات اور عکس تحریر کے عنوانات کے تحت ہیں۔ ہر حصے میں موضوع کی مناسبت سے اہم تخلیق کاروں کی تحاریر شامل کی گئی ہیں۔ یوں تو ’’ ارضِ ملتان ‘‘ میں شامل تمام تحریریں اس خطے کی تاریخ، ثقافت اور ادب پر اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد اور اہم ہیں لیکن ’’ عکس تحریر ‘‘ نے اس جرید ے کی قدر میں بطورِخاص اضافہ کیا ہے۔ پہلے شمارے کے مذکورہ حصے میں فراق گورکھپوری کے ایک خط بنام سید مقصود زاہدی محررہ ۲۰ دسمبر ۱۹۴۰ء اور ن ۔ م راشد کے ایک خط بنام صفیہ محررہ ۱۴ مارچ ۱۹۴۶ء کے عکس کے علاوہ ملتان کے اہم شعراء اسد ملتانی ، جابر علی سید ، حزیں صدیقی اور ارشد ملتانی کی تحریروں کے عکس بھی شامل کیے گئے ہیں۔ کاروانِ ثقافت ملتان نے ایس پی او نامی تنظیم کے تعاون سے یہ جریدہ شائع کیا ہے۔ ملتان کی تہذیبی وادبی روایت کو آگے بڑھانے اور لوگوں کو اس سے روشناس کرانے میں ’’ ارضِ ملتان‘‘ سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ (خاور نوازش )
سندھی زبان
تحقیقی جریدہ’سندھی زبان‘ سندھی میں شائع ہونے والے رسائل میں مؤقر شمار کیا جاتا ہے۔ اِس میں چھپنے والے مختلف مضامین اور مقالے نہ صرف طالب علموں بلکہ عام قاری کے لیے بھی مفید ہوتے ہیں۔ سندھ کے نامور ادیب اورمحققوں نے اِس شمارے میں سندھی زبان اور لسانیات کے پہلو کو نمایاں طور پر مد نظر رکھا ہے۔ سندھی میں ہر قسم کے لٹریچر ( ادب، سائنس و ٹیکنالوجی ،سماجی سائنس، مذہب، زراعت وغیرہ) کے لسانی پہلوؤں پر لکھنے کی گنجائش نکلتی ہے۔ اِس لیے سندھ کے ایسے ادیبوں،محققوں اور مختلف مضامین کے دانشوروں سے توقع ہے کہ وہ اِس کمی کو پورا کرنے میں مدد کریں گے تاکہ مختلف علوم کی مخصوص اصطلاحات کا مطالعہ کرکے ضرورت کے مطابق نئے الفاظ اور اصطلاحوں کو سندھی زبان کے لفظی ذخیرے میں جدید دور کے مطابق اضافہ کیا جائے۔
رخسانہ رخ سومرو کی تین کتابیں
رخسانہ رخ سومرو نے اپنے تازہ شاعری مجموعے ’’515551295152 52125 51555152518051295177‘‘ میں سندھ کے لوگوں کے لیے لطیف کلام پیش کیا ہے۔ رخسانہ سومرو کی شاعری میں شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ کا لطف، سچل سرمست کی سرمستی، ایاز کی آفاقیت، مخدوم طالب مولمولیٰ کی میٹھاس، تاجل جیسا ترنم، اُستاد بخاری جیسی اصلیت اورعبدالغفار تبسم کے تبسم کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ان کی شاعری میں بلند خیالی۔ اعلیٰ ظرفی کمال درجے کی ہے۔رخسانہ رخ سومرو نے رسول کائنات ﷺ کے ساتھ عقیدت و محبت کا اظہار والہانہ انداز میں کیا ہے۔ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ رخ سومرو کا شاعری مجموعہ ’515551295152 52125 51555152518051295177‘ایسے وقت آیا ہے جب سندھ دھرتی کے لوگوں کو اس کی اشد ضرورت تھی۔
محترمہ رخسانہ رخ سومروکی نظموں کا ایک اور مجموعہ ’عطراوت‘کی صورت میں بھی شائع ہوا ہے۔ یہ مجموعہ سندھی زبان، علم اور ادب کے فروغ کا ذریعہ ثابت ہوگا۔
اسی طرح رخسانہ رخ سومرو کی تیسری کتا ب ’’زندگی کحانھ گل‘‘ہے۔ اِس شاعری کے ذریعے اس نے انسانیت کے لیے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ تمام انسانوں کا ایک ہی گھر ہے، جس میں وہ ساتھ رہتے ہیں۔ سندھی زبان میں لکھی گئی یہ کتاب صرف اہل سندھ کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ پیغام ساری دنیا کے لیے ہے۔ یہی پیغام سندھ کے معروف شاعرشاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ نے بھی شاہ جو رسالو میں دیا ہے۔
خواب کی کشتی پر (ماہیے (
جیم فے غوری ایک طویل عرصہ سے اٹلی میں مقیم ہیں۔ پاکستان میں تھے تو ماہنامہ ’’تلاش‘‘ نکالتے تھے۔ اس رسالہ میں کچھ ادبی، کچھ سماجی اور کچھ انسانی حقوق کے حوالے سے تحریریں شامل ہوا کرتی تھیں۔ یہ رسالہ اب سہ ماہی ہوکر اٹلی سے نکل رہا ہے۔ جیم فے غوری کی شاعری سادہ اور معصوم جذبوں کی شاعری ہے۔ جس میں برے کل کو اچھے آج میں بدلنے کی شدید خواہش ہے۔ ۱۳۳ صفحات پر مشتمل ماہیے کی اس خوبصورت کتاب میں مصنف نے زمین ہجرت کے دردناک تجربے سے دوچار ہوکر اپنے فکری اور تخلیقی عمل کو متحرک رکھا ہے۔ ان کی شاعری میں وجدانی زاویہ نظر کے تحت امکان اور کیا ہونا چاہیے کا اظہار ملتا ہے۔ اس خوبصورت کتاب کو فکشن ہاؤس ، لاہور نے شائع کیا ہے۔
پشتون شناس(خوشحال خاں خٹک (
پشتو ادب کے درخشندہ ستارے، آزادی کی تحریکوں کے روح رواں اور جمال و جلال کے پیکر خوشحال خان خٹک کو کون نہیں جانتا۔ انھوں نے اپنے عہد میں زندگی کے مختلف شعبوں میں اتنی شہرت حاصل کی کہ پشتونوں کے متعلق لکھی گئی کوئی بھی کتاب خوشحال خان کے ذکر کے بغیر ادھوری تصور کی جائے گی۔
خوشحال خان خٹک نے اپنے منظوم اور منثور آثار میں اپنے عہد کی تاریخ بڑے دیانتدارانہ طریقے سے کھل کر بیان کی ہے۔ خوشحال خان خٹک نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود پشتو ادب کو جن بلندیوں تک پہنچایا اسے دیکھ کر وہ کسی عام انسان کی جگہ کوئی فوق البشر فرد دکھائی دینے لگتا ہے۔ پشتو زبان تادیر ان کے زیر بار رہے گی۔انھوں نے نظم، نثر اور خط کے حوالے سے پشتو زبان کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا اور اس زبان میں قیمتی تصانیف لکھیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر محمداقبال نسیم خٹک کی اس ۵۸۲ صفحات پر مشتمل تحقیق کو پشتو اکیڈیمی، پشاور یونیورسٹی نے شائع کیا ہے۔
ماہنامہ ’’ادب دوست‘‘، لاہور
ماہنامہ ادب دوست، لاہور۔ اگست ۲۰۱۱ء کا شمارہ شائع ہوگیا ہے۔ بانی مدیر اعلیٰ اے جی جوش (مرحوم) تھے۔ ان کے بعد جناح خالد تاج کی ادارت میں باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے۔ اس شمارہ میں، سیدشوکت علی شاہ کا سفرنامہ حجاز، خواجہ محمد زکریا کا گوشۂ اقبال جس میں تفہیم بال جبریل کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے علاوہ، پروفیسر افتخاراجمل ، پروفیسر حسن عسکری کانجی، ڈاکٹر سعیداقبال سعدی، زاہدحسین کے مضامین شامل ہیں۔ اور سید مشکورحسین یاد، اسلم گورداسپوری، اکبرحمیدی، اسلم کولسری کی غزلیں، افسانہ اور نظمیں شامل ہیں۔ شاعر، ادیب ڈاکٹر محسن مگھیانہ کا تعارف بھی اس پرچہ کی زینت ہے اور اس کے علاوہ آپ کے خطوط کی شکل میں پرچے میں چھپنے والے مضامین کے متعلق تاثرات بھی شامل ہیں۔
چاند کا چہرہ تکتے رہنا
غزلوں کے تازہ مجموعے ’’چاند کا چہرہ تکتے رہنا‘‘ کے ساتھ شائستہ لہجے میں کلام کرنے والے نوجوان شاعر فاروق شہزاد نے آغاز سفر میں ہی کئی منزلیں کامیابی سے طے کی ہیں۔ ۱۱۲ صفحات پر مشتمل خوبصورت کتاب غزلیات، آزاد منظومات کا حسین مرقع ہے۔ عصرحاضر میں غزل کی روایت نے جدید اسلوب اختیار کیا ہے۔ غزل کی اس خوبصورت کتاب کی من پسند پبلی کیشنز، اردو بازار، لاہور نے شائع کیا ہے۔
شطرنج، لڑکی اور فالتو چیز
جیم فے غوری کی تازہ تصنیف ’’شطرنج، لڑکی اور فالتو چیز‘‘ افسانے کی دنیا میں ایک نیا اضافہ ہے۔ کہانی کے مصنف نے کہیں شفاف اور کہیں استعاراتی طور پر اپنے گہرے مشاہدے کا اظہار کیا ہے۔ اس کا مشاہدہ اور رائے ذاتی بھی ہوسکتی ہے مگر یہ اردگرد کے ماحول کا فہم ہے۔ اس میں ایسے سوال اٹھائے گئے ہیں جن سے بعض اوقات ہم پہلو تہی کرتے ہیں۔ انسانی تعلقات کا ادراک تو رکھتے ہیں مگر اپنی نفسیات کے ہاتھوں مجبور ہوکر عملی مظاہرہ کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ کتاب کے موضوعات مختلف النوع ہیں جو مختلف ادوار پر پھیلے ہوئے ہیں اور ہر موضوع قاری کے لیے جاگنے کا عمل ہے۔ جو سوچ کو وسعت عطا کرتا ہے۔ ہماری اجتماعی سوچ و فکر کی عکاس بھی ہے اور انفرادی خودغرضی پر بھی محیط ہے۔ ۸۰ صفحات پر مشتمل کہانیوں کی اس کتاب کو فکشن ہاؤس ، لاہور نے شائع کیا ہے۔
فہرست مخطوطات
پروفیسر ڈاکٹر سلمیٰ شاہین ڈائریکٹر پشتو اکیڈیمی، پروفیسر ڈاکٹر فاروق سواتی، پروفیسر ڈاکٹر عارف نسیم اور کامران خان نے پشتو اکیڈیمی میں موجود مخطوطوں اور نایاب کتب کی کیٹلاگ تیار کرنے کا منصوبہ بنایا جسے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید نے بہت پسند کیا اور اسے امریکی قونصلیٹ کے پرنسپل افسر کی خدمت میں پیش کیا۔ امریکی قونصلیٹ نے اپنے سفارت خانے کے مالیاتی تعاون سے اس منصوبے کی منظوری دے دی۔
پروفیسر ڈاکٹر عارف نسیم اور عبدالحمید نے تفصیلی کیٹلاگ سازی کے اس عظیم کام کا بیڑا اٹھایا اور بڑی جانفشانی سے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اب مخطوطات و نایاب کتب کی یہ فہرست کتابی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ مخطوطات کی یہ فہرست لگ بھگ ڈیڑھ ہزار مخطوطات اور ایک سو ستاون نایاب کتب پر مشتمل ہے۔ مخطوطات کی تفصیلی کیٹلاگ تین کالمی کی بجائے سترہ کالمی ہے اور یہی اس کی نمایاں خصوصیت ہے۔ اس کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ مخطوطات کے اعداد مسلسل بھی دیے گئے ہیں۔ یہ فہرست پاکستان کے تمام صوبوں اور وفاق کے تمام تعلیمی اداروں کے کتب خانوں اور دیگر سرکاری کتب خانوں میں موجود ہونی چاہیے تاکہ جو محققین اس موضوع پر داد تحقیق دینا چاہتے ہوں، انھیں یہ معلوم ہوسکے کہ پشتو اکیڈیمی کے کتب خانے میں کون کون سے مخطوطات اور نایاب کتب موجود ہیں۔
)
قاضی محمدعزیزالرحمن عاصم (