حاصل مطالعہ
ارمغان ملتان


محمد داؤد طاہر نے ۱۹۶۹ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور محکمہ انکم ٹیکس کے لیے منتخب ہوئے اوروہاں اعلیٰ عہدوں پر تعینات رہے۔ اس دوران انھیں لکھنے لکھانے کی دھن سمائی اور انھوں نے شوق ہم سفر میرا کے نام سے اپنا پہلا سفر نامہ لکھا۔ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ بکی۔ ممتازادیبوں اور نقادوں نے اس سفر نامے کی بے حد تعریف کی اور یوں وہ اپنے پہلے ہی سفر نامے کے ساتھ ممتاز سفر نامہ نگاروں کی صف میں شامل ہو گئے اور اب ’’ارمغان ملتان ‘‘ کے نام سے ان کی نئی کتاب شائع ہوئی ہے جس میں اس شہر کے اہم تاریخی آثار، اولیائے کرام اور مشاہیر کا مفصل تذکرہ کیا گیا ہے۔
’’
ارمغان ملتان‘‘ ۵۹۲ صفحات پر مشتمل ملتان کے اہم تاریخی بزرگان دین اور بعض مشاہیر کا جامع تذکرہ ہے۔ اس کا ذکر اس مختصر سے تبصرے میں نہیں ہو سکتا، جن آثار کا ذکر ہے ان کے عنوانات کے لیے بھی کئی صفحات درکار ہیں۔
محمد داؤد طاہر تاریخی آثار میں صرف مسلمانوں کی عمارتوں ہی کا ذکر نہیں کرتے بلکہ ہندوؤں اور سکھوں کے اہم مقامات اور مذہبی اہمیت کی حامل عمارتوں کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ محمد داؤد طاہر صحیح تحقیق کرتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے ڈاکٹر ہرگوبند کھورانا کو بھی تلاش کیا ہے جنھوں نے سائنس میں نام کمایا اور نوبل انعام کے حقدار ٹھہرے۔ کتاب کا دیباچہ ممتاز مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی نے لکھا ہے اور داؤد طاہر کی کاوش کو سراہا ہے۔ محمد داؤد طاہر کا انداز تحریر سادہ مگر اتنا دلکش ہے کہ وہ تاریخ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتاہے۔ انھوں نے نہ صرف سفرنامے کو اہم مقام دیا بلکہ تاریخی آثار کی مکمل تصویر کشی کی۔ وہ سفرنامہ اور آثار قدیمہ کے لیے لکھنے کا فن جانتے ہیں۔
از:انوار فیروز، روزنامہ خبریں، ۶ ستمبر۲۰۱۱ء
اے حمید کی کچھ یادیں
ایک دن ان کو وائس آف امریکہ کے دفتر سے خط آیا کہ آپ نے جو امتحان دیا تھا اس میں کامیابی کے بعد آپ کا انتخاب کر لیا گیاہے۔ اس کال لیٹر میں پوری فیملی سمیت ٹکٹ وغیرہ کی پیش کش کے ساتھ امریکن قونصلیٹ کی طرف سے ہماری امریکہ روانگی کے لیے موزوں تاریخ کا پوچھا گیا تھا۔ میرے لیے حیرت کی بات تھی کہ انھوں نے مجھے کبھی بتایا ہی نہیں تھا کہ وہ اس کی تیاری میں مصروف تھے۔ بہرحال پھر وہ دن آ بھی گیا جب ٹکٹ موصول ہو گئے، وہ مجھے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن میں نے کہا گھر کے معاملات نمٹا کر بعد میں بچوں کو لے کر آؤں گی تو بہت اداس ہوگئے کہنے لگے کہ زیادہ دیر نہ کرنا۔ واشنگٹن پہنچتے ہی تار آگئی کہ میں اللہ کے کرم سے بخیریت واشنگٹن پہنچ گیا ہوں۔ پھر ان کے ٹیلی فون آنا شروع ہو گئے کہ میں دفتر جوائن کر لیا ہے واپسی پر شام کو اپنے اپارٹمنٹ میں واپس آتا ہوں تو کمرے میں اندھیرا اور خاموشی ہوتی ہے۔ پھر ہم بھی ایک لمبے او رتھکا دینے والے ہوائی سفر کے بعد واشنگٹن پہنچ گئے۔ وہ ایئر پورٹ لینے آئے ہوئے تھے، وہاں سے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں پہنچے تو انھوں نے ہمارے لیے دنیا کی ہر چیز منگوا رکھی تھی۔ واشنگٹن میں بڑے خوبصورت دن گزرے جیسے خواب دیکھ رہے ہوں۔ میں نے خدا سے دعا کی کہ اے خدا میرے خدا، یہ خواب کبھی نہ ٹوٹے۔ واشنگٹن کی بہت ڈھیر ساری یادیں ہیں۔ وائس آف امریکہ کی طرف سے اجازت تھی کہ جتنا سامان آپ لانا چاہیں لیکن ان کی درویشانہ طبیعت نے یہ گوارہ نہ کیا۔ کہتے تھے میں تو سیروتفریح کے لیے جا رہا ہوں۔ میں اپنے پیارے پاکستان کو نہیں چھوڑ سکتا جہاں کے درختوں، پھولوں، بارشوں، خوشبوؤں سے میری روح میں توانائی ہے۔
وہ اپنے ساتھ صرف ایک چھوٹا اٹیچی کیس اور ایک بیگ لے کر گئے تھے۔ ان کے امریکہ کے دوست حیران ہوئے کہ تمہارا سامان کہاں ہے انھوں نے کہا کون سا سامان؟ میں یہاں کوئی رہنے کے لیے نہیں آیا میں اپنا ملک نہیں چھوڑ سکتا۔
از: ریحانہ اے حمید،
سنڈے میگزین روزنامہ ’نوائے وقت‘ ۳۰؍ اگست ۲۰۱۱ء
ایک باپ، ایک استاد۔۔۔پروفیسر کرارحسین
ہمارے تعلیمی اداروں کی شروع سے یہ روایت رہی ہے کہ آزاد سوچ رکھنے والے اور مزاحمتی ذہن رکھنے والے کبھی پسند نہیں کیے گئے ، بلکہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور اساتذہ دونوں ہی انھیں کچلنے اور ان کی سوچ پر پہرہ بٹھانے کی کوشش کرتے رہے۔ ہرجگہ غلام ذہنیت رکھنے والے اور ابن الوقت ہی سرا ہے گئے۔ بابا نے گھر میں بھی اور بحیثیت استاد بھی ہمیشہ آزادیِ فکر کی حوصلہ افزائی کی خواہ وہ فکر ان کی سوچ سے کتنی ہی مختلف اور متضاد کیوں نہ ہو۔ ان کا خیال تھا کہ ایک آزاد ذہن ہی انسان کی سچائی ، حسن اور نیکی (truth beauty and goodness) کی طرف رہنمائی کرسکتا ہے اور آزادیِ فکر سے ان کا مطلب یہ تھا کہ انسان کی فکر نا صرف بالا دست طبقوں کی غلام نہیں ہونی چاہیے بلکہ ذہن کو نفسیاتی خواہشات کی غلامی سے بھی آزاد ہونا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔بابا ہمیشہ تعلیمی اداروں کو آزادیِ فکر اور آزادیِ اظہار کا مرکز سمجھتے تھے۔ ایک طرف انھوں نے انتظامیہ کو اس بات کا پابند کیا کہ کوئی پولیس والا کالج کے اندر داخل نہیں ہوگا۔ دوسری طرف راتوں کو کالج ہاسٹل میں بیٹھ کر طالب علموں کو سمجھاتے اور بالآخر انھیں اس بات پر آمادہ کرلیا کرتے کہ وہ کالج کے اندر جو چاہیں کریں جس پر چاہیں تنقید کریں لیکن کالج سے باہر قدم نہیں نکالیں گے اور ایک دن عالم یہ تھا کہ کالج کے دروازوں پر بابا نے تالے ڈلوادیے تھے۔ کالج کے اندر طالب علموں کی دھواں دھار احتجاجی تقاریر ہورہی تھیں ، سارے کالج کو مسلح پولیس نے محاصرے میں لیا ہوا تھا اور بابا کالج کے اندر اپنے دفترمیں موجود تھے۔
۔۔۔۔۔۔کوئٹہ کے کمشنر صاحب کا فون آیا۔ فرما رہے تھے کہ کرار صاحب سنا ہے آپ کے کالج کے اندر بڑا شور اور ہنگامہ ہورہا ہے۔ بابا نے خوش ہو کر کہا ہاں کالج میں طلبأ یونین کے الیکشن ہیں،لڑکے جلوس نکال رہے، نعرے لگا رہے ہیں۔ کمشنر صاحب فرمانے لگے اگر آپ کوہماری ضرورت ہو تو ہم موجود ہیں۔ بابا نے کہا جس دن مجھے اپنے بچوں کے خلاف آپ کی ضرورت ہوئی تو میں کوئٹہ چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔
۔۔۔۔۔۔ایک مرتبہ علی گل بابا کے ڈرائیور آئے ، کچھ ناراض تھے بابا سے کہنے لگے ۔ بابا !ہم کل سے کام چھوڑ کر جارہے ہیں۔ بابا نے پوچھا ارے بھئی کیوں جارہے ہو۔ کہاں جارہے ہو۔ علی گل نے کہا امی ہمیں بہت ڈانٹتی ہیں۔ بابا نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔
۔۔۔۔۔۔امی تو ہمیں بھی ڈانٹتی ہیں ، ہم تو گھر چھوڑ کر نہیں بھاگتے ، ارے بھئی امی کے ڈانٹنے پر گھر تو نہیں چھوڑتے۔
از: شائستہ زیدی ، ارتقا : ۵۱ ، کراچی
واحد بشیر اور کیکٹس
واحد بشیر ایک مضطرب روح کے مالک ہمیشہ سے رہے ہیں۔ حیدر آباد دکن میں تلنگانے کی انقلابی تحریک سے شروع ہی میں متاثر ہوگئے۔ مخدوم محی الدین جیسی عہد ساز شخصیت کے اثرات اور پھر کراچی میں ڈاکٹر اعزاز نذیر اور دیگر انقلابی رہنماؤں کی صحبتیں۔ واحد بشیر شاعری اور ادب کے مقابلے میں مزدور تحریکوں اور ٹریڈ یونینوں پر زیادہ توجہ دینے لگے اس کی ترتیب وتدوین پرکبھی توجہ نہیں دی ۔ واحد بشیر کا ذہنی رشتہ دنیا کی بڑی انقلابی شخصیات سے استوار رہا ہے۔ انھوں نے ماوزے تنگ ، چی گویرا ، پیٹرس لوممبا پر جو نظمیں لکھیں ہیں وہ رسمی یا لمحاتی نہیں ہیں ، ان میں بھی آدرشوں کی روشنی فروزاں نظر آتی ہے۔
از : پروفیسر سحر انصاری، ارتقا : ۵۰، کراچی
پانی کی مدھانی
سڑک کے کنارے ایک جگہ سیلاب زدہ خاندان چار پائیوں پر خراٹے لے رہا تھا۔ ایک چھوٹے سے کولہو پر ایک لمبے ڈنڈے پر دوسرا ڈنڈا چوڑائی میں فٹ ہو کر انگریزی حرف ٹی بنا رہا تھا۔ اس کے دونوں سِروں پر کپڑے کے موٹے موٹے ٹکڑے لٹکے ہوئے تھے۔ ایک گدھا جس کی آنکھیں ڈھانپ دی گئی تھیں اس چھوٹے سے کولہو کو گول گول گھما رہا تھا۔ جس کے سبب یہ پنکھا سوئے ہوئے خاندان کو بہترین ہوا دے رہا تھا۔ مقامی زبان میں اس گدھا پنکھے کو جھلی کہتے ہیں۔ یہ نظارہ دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ جو لوگ گدھے کی صلاحیتوں سے اس حد تک فائدہ اٹھانے کا دماغ رکھتے ہیں ، اپنے فائدے کے لیے آخر ان کے دماغ کیوں نہیں چلتے ؟
سیلاب ڈائری از: وسعت اللہ خان ، جامعہ کراچی ، ۲۰۱۱ء
منگ (باد گیر)
حیدر آباد سندھ کے مکانوں میں جومنگ تھے ان کی بنیاد اس اصول پر تھی جس کے تحت گرم ہوا ہلکی ہو کر اوپر کی طرف جاتی ہے اور ہوا کی حرکت سے اس کی حرارت میں فرق پڑتا ہے۔
منگ میں جو پائپ لگایا جاتا ہے اس میں دو راستوں کی گنجائش ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک ہوا کے رخ پر ہوتا ہے۔ کمرے کی گرم ہوا ہلکی ہو کر اوپر اٹھتی ہے اور دوسرے راستے سے باہر نکل جاتی ہے جبکہ تازہ ہوا ، ہوا کے رخ والے راستے سے پائپ میں داخل ہوکر ٹھنڈی ہوتی ہوئے کمرے میں پہنچ جاتی ہے۔
کسی جگہ کو ٹھنڈا کرنے کا یہ بہت پرانا طریقہ ہے جو ایران میں ایجاد ہوا تھا۔ وہاں ایسی قدیم عمارتیں موجود ہیں جن کی بنیاد کے نیچے پانی کے ذخائر بنائے گئے ہیں۔ ایک دوسرے راستے سے ہوا بنیاد تک پہنچ کر پانی پر سے گزرتے ہوئے اور بھی ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ جب عمارت میں گرم ہوا ہلکی ہو کر باہر نکل جاتی ہے تو کمرے میں ہوا کا دباؤ کم ہوجاتا ہے اور ٹھنڈی ہوا خود بخود عمارت میں داخل ہوجاتی ہے۔ اس طریقہ سے کمرہ یا تہہ خانہ اتنازیادہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے کہ وہاں برف رکھی جاسکتی ہے۔ ایسی جگہوں کو فارسی میں ’یخ چال کہا جاتا ہے۔ فارسی میں ریفریجریٹر کو اب بھی ’ یخ چال‘ کہتے ہیں۔
یہ طریقہ گرم اور خشک علاقوں میں کار آمد ہوتا ہے ۔ جہاں ہوا میں نمی زیادہ ہو وہاں یہ طریقہ کام نہیں کرتا۔ جہاں رات اور دن کی حرارت میں زیادہ فرق ہو وہاں یہ طریقہ بہت کامیاب رہتا ہے کیونکہ رات کی ٹھنڈی ہوا عمارت کی بنیادکے نیچے جمع ہوجاتی ہے اور بہت زیادہ ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔
مرزا قلیچ بیگ؛ از: فہمیدہ ریاض ؛ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ؛ ۲۰۱۰ء
کمپیوٹر اور اردو
کمپیوٹر کی اس کتاب میں، جیسا کہ ہوتا آیا ہے، شروع میں کچھ عیب تھے اور کچھ عیب اب تک ہیں، مگر وہ ایک ایک کر کے نکالے جا رہے ہیں۔ پہلے سنا ہے یہ کمپیوٹر ایک کمرے کے برابر جگہ لیتا تھا، اب ایک میز کے کونے میں سما جاتا ہے۔ پہلے یہ تھا کہ جو لفظ اس کی یادداشت میں نہیں تھے انھیں خط نسخ میں لکھنے پر مجبور تھا۔ اب ہر پیچیدہ سے پیچیدہ اور اجنبی سے اجنبی لفظ بنا دیتا ہے۔ کچھ برس پہلے میری یہ تحریر کاتب لکھ رہا ہوتا تھا، اب میں اپنے کمرے میں بیٹھا خود لکھ رہا ہوں۔
غرض یہ کہ کاتبوں کی فوج رخصت ہوئی۔ ان ہی میں سے کچھ لوگوں نے کمپیوٹر چلانا سیکھ لیا۔ پھرپڑھے لکھے نوجوان اس میدان میں آئے اور جہاں تیس تیس آدمی بیٹھ کر رات رات بھر آنکھیں پھوڑا کرتے تھے وہاں اب چند لوگ بیٹھے ہوئے ایک ذرا سا سر کھپاتے ہیں اور باقی کام برقی کمپیوٹر اور اس کا ڈیجیٹل دماغ کرتا چلا جاتاہے۔ کام آسان ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، اس میں رکھ رکھاؤ اور سلیقہ بلا کا آ گیا۔
نوری نستعلیق سے ملتے جلتے خوش نویسی کے کچھ اور نظام بھی وضع ہوئے ہیں مگر ان میں وہ بات نہیں۔ یہ بات انھیں بھی مان لینی چاہیے۔
کمپیوٹر کو اردو خطاطی کیسے سکھائی گئی، یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس کی داستان جدا ہے۔ یہ نظام چینیوں سے کس طرح مستعار لیا گیا، اس کے حروف کی کتابت کیسے کی گئی، ان کے جوڑ کیوں کر بٹھائے گئے، ان حروف سے شہ سرخیاں کیسے لکھی گئیں، الفاظ ایک دوسرے پر کس طرح چڑھائے گئے اور سات کالم کی عبارت پانچ کالموں میں کیوں کر سمائی، یہ سب باتیں کہیں اور ہونی چاہئیں۔
بس ایک بات اور، کاتب کا ایک مرض کمپیوٹر میں وائرس بن کر چلا آیا ہے جس کا ابھی تک کوئی توڑ نہیں نکلا۔
پے در پے غلطیاں کاتب بھی کرتا تھا، پے درپے غلطیاں کمپیوٹر کے کی بورڈ پر بیٹھا ہوا شخص بھی کیے جا رہا ہے۔
اگر اُس سے بھی خدا ہی سمجھا تھا ، تو اِس سے بھی خدا ہی سمجھے۔
حوالہ: ’’اردو کا حال‘‘؛ از: رضا علی عابدی؛ ص: ۱۲۰۔۱۲۱
)
ڈاکٹر راشد حمید (
کاتب، کتابت اور طباعت
آخر وہ دن آ پہنچا جس نے کاتب نامی مخلوق کو جنم دیا۔ ہوا یہ کہ نقشے اور اشکال چھاپنے کے لیے وہ چھاپہ خانہ رواج پا گیا جسے لیتھو کہا جاتا تھا۔ اس میں ٹائپ کو دخل نہیں تھا بلکہ پتھر کی سلوں پر نقشوں وغیرہ کا چربہ اتار کر اور اس پر بیلن سے سیاہی پھیر کر سینکڑوں نقلیں اتار لی جاتی تھیں۔ اس وقت ہندوستانیوں کی ایجاد کی رگ پھڑکی اور کسی کو خیال آیا کہ کیوں نہ نقشوں کی جگہ خوش نویسی کے چربے اتار ے جائیں۔ تجربہ کامیاب رہا۔ اردو، فارسی اور عربی کتابوں کی کتابت چھاپے خانے کے راستے کتابوں میں ڈھلنے لگی اور ہماری ساری طباعت ٹائپ کے آہنی جنگلے سے رہائی پا کر لیتھو کے سنگلاخ میدانوں میں قلانچیں بھرنے لگی۔
دیکھا دیکھی وقت نے بھی قلانچیں بھریں۔ پتھر کی سلیں رخصت ہوئیں۔ ان کی جگہ جستے کی پلیٹیں آگئیں۔ چھاپہ خانے نے زیادہ تیزی پکڑی تو یہی پلیٹیں روٹری اور دیگر آفسٹ مشینوں پر چڑھ کر لاکھوں کی تعداد میں اخبار اور کتابیں چھاپنے لگیں۔
سب کچھ ہوا، کتابت نے اردو کا دامن نہ چھوڑا۔
جب تک لیتھو کی چھپائی چلی، اس کے پہلو سے لگی لگی وہ تحریک بھی چلی جس کا مقصد تھا کہ اردو میں ایران اور عرب دنیا کی طرح نسخ ٹائپ کو رواج دیا جائے۔ سارا مشرق وسطیٰ لیتھوکی چھپائی کے چنگل سے آزادی پا چکا تھا۔عالم عرب میں تو نسخ ٹائپ بآسانی رائج ہو گیا کیونکہ اس کی لکھائی عربی حروف کی شکل میں تھی۔ اہل ایران نے کمال کیا اور اپنی قدیم نستعلیق چھوڑ کر نسخ کو گلے لگا لیا اور وہاں ساری کتابیں اور رسالے اسی خط میں اور ٹائپ پر طبع ہونے لگے اور ایران کا تو یہ دستور ہے کہ ہر کتاب اور ہر رسالہ لاکھوں کی تعداد میں چھپتا ہے۔ وہاں ٹائپ نے ایسی مقبولیت حاصل کی اور لیتھو گرافی کو ایسا دیس نکالا ملا کہ کاتب نامی مخلوق ختم ہوئی اور خطاطی کاکام مصوروں نے سنبھال لیا جیسا کہ اب ہندوستان اور پاکستان میں بھی ہو رہاہے۔
پاکستان قائم ہوتے ہی کچھ باذوق حکام کو خیال آیا کہ یہاں بھی نسخ کو رواج دیا جائے تاکہ ٹائپ میں چھپائی ہو اور پڑھنے لکھنے کا کام خوش اسلوبی سے آگے بڑھے۔
مجھے معلوم نہیں وہ کون تھا جس نے فیصلہ کیا کہ بچوں کی ساری درسی کتابیں نسخ میں کتابت کرائی جائیں۔ اس طرح ایک پوری نسل اس خط کو پڑھنے کی عادی ہو جائے گی جس کے بعد ٹائپ رائج کرنا سہل ہو جائے گا۔
بہت کم لوگوں کو یاد یا معلوم ہو گا کہ قائداعظم کی تحریک پر شروع ہونے والا انگریزی روزنامہ ڈان شروع شروع میں اردو میں بھی شائع ہوتا تھا۔ یہ اردو ڈان نسخ ٹائپ پر چھپتا تھا۔
ادھر انجمن ترقی اردو کی کوشش سے نسخ ٹائپ کو بہتر بنایا گیا اور انجمن کی کتابیں اسی پر شائع ہونے لگیں۔ لاہور میں ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھنے والوں نے کتاب سازی میں اسی ٹائپ کو رواج دیا۔ ان کا جریدہ’سویرا‘ ٹائپ پر چھپا۔ باری کی کتاب’کمپنی کی حکومت‘ سے لے کر مجاز کی ’آہنگ‘ تک کتنی ہی کتابیں نسخ ٹائپ سے آراستہ ہوئیں اور سب سے بڑھ کر لاہور ہی میں مجلس ترقئ ادب نے کلاسیکی ادب کے سینکڑوں شہ پارے نہایت عمدہ ٹائپ میں شائع کیے۔ غرض یہ کہ یہ سلسلہ چلتا تو رہا مگر ہچکیاں لے لے کر۔
سب سے پہلے اردو ڈان بند ہوا۔ سویرا اپنے خواب دیکھنے والوں کے ارمانوں کے برعکس نہ سرخ ہوا اور نہ سرخ رو۔ مجلس ترقئ ادب کا کلاسیکی ادب فٹ پاتھوں پر کوڑیوں کے بھاؤ بکا اور بحیرہ عرب کے ساحل سے لے کرتابخاک پشاور ہمارا کاتب ہی اپنی کتابت کے ڈنکے بجاتا رہا۔ نستعلیق نے اپنی چولی ہمارے دامن سے ایسی باندھی کہ پھر لاکھ جتن کیے گئے، یہ نہ کھلنی تھی، نہ کھلی۔
حوالہ: ’’اردو کا حال‘‘؛ از: رضا علی عابدی؛ ص: ۱۱۵۔۱۱۶
)
ڈاکٹر راشد حمید (
میر،غالب اور اقبال
تین صدیوں کے تین عظیم شاعروں کا مطالعہ ایک خصوصی نقطۂ نظر

’’
ہر معاشرے میں فکر و خیال اور فلسفہ و دانش کی حاضر و موجود لہریں اس کی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرتی ہیں، اس کے لیے معیاروں اور قدروں کا تعین کرتی ہیں، افعال و اعمال کے سانچے وضع کرتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس معاشرے کے شعروادب کی آبیاری کرتی ہیں، اسے اپنے عہد کا ترجمان اور نمائندہ بناتی ہیں۔ غور کیا جائے تو جس چیز کو روح عصر کہا جاتا ہے اس کا اندازہ کسی ایک عصر کے فکر و خیال ، فلسفہ و دانش اور شعرو ادب کے میلانات و رجحانات ہی سے تو کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی ہنگامے، ملک گیری کی عسکری مہمات، تیغ و سناں کے کارنامے تاریخ کے صفحات کی زینت تو ضرور بنتے ہیں مگر معاشرے میں بقائے دوام کسی فلسفی کے افکار، کسی صوفی کے ملفوظات، کسی شاعر کے کلام ہی کو نصیب ہوتی ہے کیونکہ یہ ورثہ قوم کے اجتماعی شعور کا حصہ بن جاتاہے‘‘۔
****
’’
مسلمان ادیبوں کی ایک امتیازی خصوصیت ان کی ’کفر پرستی‘ بھی ہے، مسلمانوں کے ادب میں جس شدت اور جس تاکید سے کفر کو بطور ایک اخلاقی اور روحانی دستور حیات کے پیش کیا گیا ہے اور جس کفر کا کلمہ پڑھا گیا ہے اس کی مثال کسی اور قوم کے ادب میں نہیں ملے گی۔ اس قسم کی کفر پرستی کی روایت خاص مسلمان ادیبوں کی چیز ہے جو صدیوں تک ایک تسلسل کے ساتھ قائم رہی ہے۔ بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں ظاہر پرستوں اور روحانیت سے لگاؤ رکھنے والوں، یعنی زاہدوں اور صوفیوں کی باہمی کشاکش ہمیشہ سے چلی آئی ہے۔ صوفیوں کا فکر ’’خلاف مذہب آناں‘‘ کی حیثیت رکھتاہے۔ ان کفر پرست صوفیوں ، شاعروں اور ادیبوں میں سے شاید ایک بھی ایسا نہیں جو اسلام کا منکر اور باغی ہو، کفر ان کے ہاں رچی ہوئی بھرپور زندگی کی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ یعنی اس زندگی کی علامت کے طور پر جس سے زاہدوں کی ظاہر پرستی محروم ہے، جس میں روح کی حکمرانی ہے۔ خیال کی آزادی ہے، جس کا کیش ترک رسوم اور جس کا مشرب رواداری ہے، جس کی فضا میں وسعت اور تجربات میں گہرائی اور خلوص ہے۔ جذب و شوق اور سوز و ساز ہے، مختصر یہ کہ جس کامسلک زندگی کی بے اندازہ صلاحیتوں اور امکانات کو دم بخود کرنے کی بجائے ان کو پیغام نمودینا ہے ، جو اعلیٰ اخلاقی اور روحانی اقدار کی تلاش ہے اور ان کا اثبات بھی‘‘۔
انتخاب: ’اشارات‘ از: ڈاکٹر آفتاب احمد
پہاڑ
ملک خدا بخش ساجد کا ناول ’’پہاڑ‘‘ درحقیقت پنجاب اور خاص طور پر ’’وادی سون سکیسر‘‘ کی تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرتاہے۔ ’’پہاڑ‘‘ میں ہمیں اس خاص تہذیب کے حامل لوگوں کا رہن سہن، طرزِ بودوباش، ثقافت اور علاقائی رسوم و رواج کا پتا چلتا ہے۔ ملک خدا بخش ساجد نے ’’پہاڑ‘‘ میں دیہاتی تہذیب و ثقافت کو اپنی تمام تر باریکیوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ نقادوں کے نزدیک ایک اچھی تحریر کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ قاری کو اپنے ساتھ لے کے چلے۔ ملک خدا بخش ساجد کے ناول ’’پہاڑ‘‘ میں ہمیں یہ خوبی شروع سے لے کر آخر تک دکھائی دیتی ہے اور ا س کی ایک خاص وجہ کہانی کا مربوط ہونا ہے جو کہ ایک اچھے ناول یا ڈرامے کی خوبی اور جزو لازم ہے۔ ’’پہاڑ‘‘ کا قاری آغاز سے انجام تک ایک تجسس کی کیفیت میں مبتلا رہتاہے۔
اردو ناول میں حقیقت نگاری کا آغاز اگرچہ ’’مرزا ہادی رسوا‘‘ نے کر دیا تھا لیکن ان کے ہاں قدیم روایت کا تاثر موجود تھا۔ ملک خدابخش ساجد نے ’’پہاڑ‘‘ میں حقیقت نگاری کی اور ناول کے ذریعے انھوں نے معاشرتی تعصبات اور دیہاتی زندگی کے سماج سے جڑی صدیوں پرانی خاندانی روایات کے خلاف ثقافت کا علم بلند کیا۔ جن روایات کی پابندی کرتے ہوئے آج کی نوجوان نسل ایک اذیت سے دوچار اور کرب کی کیفیت میں مبتلا ہے۔
کسی بھی عہد کا ادب اس عہد کی تاریخ ہوتاہے ’’پہاڑ‘‘ بھی اپنے عہد کی تاریخ ہے کیونکہ یہ اپنی تہذیب و ثقافت کی عکاسی اور معاشرتی ناہمواریوں کو پوری سچائی سے بیان کرتا ہے۔
’’
اس ملک اور معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے پروفیسروں، دانشوروں، صحافیوں اور ادیبوں نے سماجی برائیوں کے خلاف بہت کچھ لکھا اور کہا لیکن جب بھی عملی قدم اٹھانے کا وقت آیا ہمیشہ کسی مصلحت کی آڑمیں دامن بچا گئے‘‘۔
ملک خدابخش ساجد کا ناول’’پہاڑ‘‘ انہی سماجی برائیوں کے خلاف آواز بن کر سامنے آیا۔ انھوں نے جہاں دیہاتی تہذیب و ثقافت کو تمام جزئیات کے ساتھ وڈیروں ، چوہدریوں اور ملک صاحبان کو بھی بے نقاب کیا اور نوجوان نسل کے خوابوں کی عکاسی کی۔ معروف ڈراما نگار اصغر ندیم سید، ملک خدابخش ساجد کے ناول ’’پہاڑ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ملک خدا بخش ساجد نے اپنے ناول’’پہاڑ‘‘ میں ایسا منظر نامہ پیش کیا ہے جو اردو ناول میں اس شکل میں پہلے موجود نہ تھا۔ انھوں نے وادی سون سکیسر اور اس سے وابستہ وادیوں کی ثقافت اور زندگی کو دیہاتی اور قصباتی پس منظر میں باریکی کے ساتھ اپنے ناول میں پیش کیا اور علاقے کے لینڈ سکیپ میں انسانی تضادات اور قدیم روایات کی جبریت سے لڑنے والوں کے خوابوں کی خوبصورت عکاسی کی ہے۔ اصل میں یہ آج کے پاکستان میں غیر جمہوری رویوں اور غیر انسانی تصورات کو بے نقاب کرتاناول ہے۔ ‘‘