ادبیات
سید طاہر علی شاہ
نظیرؔ اکبر آبادی کی نظموں میں تمثالی اثرات


نظیرؔ اکبر آبادی (۱۷۳۵ء تا ۱۸۳۰ئ) کا اصل نام سیّد ولی محمد اور نظیر تخلص تھا۔ انھیں ہندی، پنجابی اور سنسکرت سے بھی شناسائی حاصل تھی۔ ہندو تہذیب کے تہوار ورسومات سے نہ صرف دلچسپی رکھتے تھے بلکہ تجزیاتی نگاہ بھی رکھتے تھے۔ وجہ شہرت ان کی نظمیں بنیں۔انھوں نے زیادہ تر مناظر قدرت، تغیراتِ موسم، تقریبات، تہوار اور مختلف قسم کی ہندو مسلم رسومات ورواجات کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کی حالت زار کو بھی اپنی نظموں کا موضوع بنایا اور ایسے کرداروں کو بھی بے نقاب کیا جو امت مسلمہ کی زبوں حالی کا باعث بنے، جیسے   ؎
شب تاریک تھی چور آئے جو کچھ تھا اٹھا کر لے گئے
بندہ کر ہی کیا سکتا تھا کھانس لینے کے سوا
نظیر کے کلام کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اُنھوں نے مناظر کو ضبط کرنے کی کوشش کی اوراس کمال کے ساتھ کہ مناظر میں تصویر کاری اورمصوری کے ساتھ ساتھ احساساتِ انسانی کو بھی سمو دیا۔ نظیر کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ اُس نے شاعری کے دو بڑے قطبین کے ہوتے ہوئے اپنے لیے نئی سمت اور رحجان کا تعین کیا اور کسی گھنے پیڑکے نیچے پناہ لینے کی بجائے اپنا الگ گلشن آباد کرنے کی سعی کی۔ باوجودیکہ کہ دبستانِ لکھنؤا ور دبستانِ دہلی اپنے عروج پر تھے مگر نظیرؔنے اپنی آزاد طبع کے تحت اپنے آپ کو ان دونوں دبستانوںسے مکمل طور پر علیٰحدہ رکھا ،نہ صرف سوچ کے حوالے سے بلکہ صنفِ سخن کے اعتبار سے بھی وہ دور رہے۔ اُس دور میں جبکہ ہر طر ف غزل کا دور دورہ تھا اور ہر کوئی اسی میں طبع آزمائی کو طرۂ امیتاز سمجھتا تھا۔ نظیر نے صحرا میںنظم کے پودے کی قلم کو نہ صر ف لگایا بلکہ آبیاری کی اور پروان بھی چڑھایا۔
ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں: 
’’دلّی اور لکھنؤ جیسے ادبی مراکز سے دور نظیر اپنے رنگ کا موجد اور خاتم ہے۔‘‘ ۱ ؎
نظم کے حوالے سے نظیر نے انفرادیت کا علم اکیلے اُٹھایا اور تنہا سفر کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب صنفِ نظم کو کوئی شاعر گھاس بھی نہ ڈالتا تھا۔بقول ڈاکٹر سلیم اختر:
’’نظیر نے اُس عہد میں نظم کہی جب (آج کی اصطلاح میں) نظم کا وجود نہ تھا۔‘‘ ۲؎
نظیر کی شاعری کو پڑھ کر یہ احساس شدت سے پیدا ہوتا ہے کہ نظیر نے منظرنگاری کرتے ہوئے منظر کو صرف ضمنی انداز سے پیش نہیں کیا بلکہ اُس کو زندہ وجاوید کرکے اُس میں اپنی روح پھونک دی اور الفاظ کی طاقت سے منظر آنکھوں کے گرد گھومتے ہوئے دکھایا۔ شاید اُن کی تمثال میں پختگی نہ تھی مگر ابتدائی خدوخال ضرور تھے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اُن کی شاعری میں منظر نگاری، تصور کاری کے ساتھ ’’فوٹوجینک‘‘ عنصر زیادہ واضح اور اُبھرا ہوا دکھائی دیتاہے۔ مگر کہیں کہیں اُس میں ذاتی احساسات و جذبات بھی در آتے ہیں۔ اور یہی اُن کا اپنا ذاتی مزاج تھا۔
نظیر کی رومانویت کلاسیکل انداز سے بغاوت کی صورت میں کم اور جدت طرازی کی صورت میں زیادہ ہے، خوب سے خوب ترکی تلاش اور مادہ حُبِ جمال اُنکی شاعری میں زیادہ نظر آتا ہے۔ نظیر کی رومانویت کی بنیاد پرانی روایت سے نفرت سے کہیں زیادہ نئی دنیا کی تلاش پر تھی۔ وہ جدت پسند انسان تھے اور مٹی سے رشتہ ختم کیے بغیر نئی دنیا اور نئی منزل کی تلاش میں تھے۔
ڈاکٹر محمد صادق کہتے ہیں:
’’اپنے دور کی شاعری میں نظیر ایک ایسا وجود ہے جو ناقابل تشریح ہے۔ اس کی شاعری کا سب سے نمایاں نقش اس کی اپنے عہد کے ادبی معیاروں سے دوری اور علیٰحدگی ہے۔ یہ شاعری زندگی کے لمس سے وجود میں آئی ہے اور اُس کا اپنا لہجہ ہے۔‘‘ ۳؎
نظیر نے کلاسیکل عہد کی ہمہ گیری اور عروج کے باوجود ایک ایسے ادب کو جنم دیا جس کا رشتہ اپنی مٹی، رنگ وآہنگ اور زندگی سے جڑا ہوا تھا جو ہر موسم، ہر رُت، ہر رنگ، ہر لہجہ، ہر سُر اور ہر تال کو محسوس کرتا ہے۔ اور یہی رومانویت کا خاصہ ہے کہ وہ حقیقت، سچ اور زندگی سے قریب تر ہو۔ زندگی اور حقیقت سے قریب ہونے کے باعث اُن کی زبان، انداز اور لہجہ میں عوامی عنصر در آیا۔ الفاظ کا چنائو ہو یا ماحول کی جزئیات نگاری، کسی منظر کی تصویر نگاری ہو یا کوئی تمثال کاری وہ عوام ہی کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اور عوام ایک دوسرے کے لیے ہیں۔
اُنہوں نے اپنی شاعرانہ قوت کی بناء پر اس طرح کی منظر کشی کہ ہمیں تصویر یں جیتی جاگتی، چلتی پھرتی بلکہ بسا اوقات سانس لیتی دکھائی دیتی ہیں۔ اُنہوں نے اپنی مٹی اور زمین سے رنگ آہنگ لے کر لفظی تصویریں تخلیق کیں۔ علاقیت یا مقامیت آپ کی شاعری کا اساسی رنگ تھا۔
اُنہوں نے اپنی اکثر نظموںمیں ایک عام چیز کو موضوع بنا کر پورے کے پورے معاشرے کا تجزیہ کیا نہ صرف یہ بلکہ افراد پر اُن کے اثرات، نفسیاتی عوامل اورخواہشات کے علاوہ معاشرے پر پڑنے والے مضر اثرات کو منطقی انجام تک پہنچایا۔ اُنکی نظم ’’روٹی‘‘ ہی کو لیں کس عالمانہ اور تجزیاتی انداز میں اُنہوں نے واضح کیا کہ انسان جب ضرورت کو مقاصد پرحاوی کرتا ہے تو معاشرے میں کس کس طرح کے اور کیسے کیسے نقائص جنم لیتے ہیں۔ اور اس تجزیے میں وہ کہیں غیر فطری غیر علاقائی اور غیر مقامی سرزمین پر گھومتے پھرتے دکھائی نہیں دیتے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معاشرے کے اندر ڈبکی لگاکر ایک ایک کردار کا تجزیہ اُبھار اُبھار کر پیش کرتے ہیں۔ غور وفکر کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انسان پر روح ِحیوانی کے غلبہ سے کس طرح کی معاشرتی تصویربنتی ہے۔ نظم ’’روٹی‘‘ کے پڑھنے سے واضح ہوتا جاتا ہے۔
جس طرح نظم ’’آدمی نامہ‘‘  میں کس کمال خوبصورتی سے آدمی (انسان) کی تاریخ کورنگ وآہنگ، مزاج، مستی، خیر وشرا ور عروج و زوال کے پیرایوں میں بیان کیا کہ آدمی آدمیوں کو کس طرح غلام بناتا ہے اور کس طرح آدمی آدمیوں کو غلامی سے نجات دلاتا ہے۔
اس کے علاوہ اپنی نظموں میں کچھ ایسے تمثالی عناصر پیدا کیے جو آج تک آنکھوں کے سامنے ایک تصویری شکل میں آتے ہیں۔ مثلاً ’’بٹ مار‘‘، ’’نقارہ‘‘، ’’موت‘‘ ایسے الفاظ ہیں جن کو خاص معنی اور مفہوم دے کر اپنے جذبات احساسات، میلانا ت کا نمائندہ بنا لیا ہے۔
مثلاً ’’کبڑی نامہ‘‘ کے اس بند پہ غور کریں :
یہ اسپبہت اُچھلا کودا، اب کوڑا ماروزیر کرو
جب مال اکھٹا کرتے تھے اب تن کا اپنا ڈھیر کرو
گڑھ ٹوٹا لشکر بھاگ چکا، اب میان میں تم شمشیر کرو
تم صاف لڑائی ہار چکے اب بھاگنے میں مت دیر کرو
تن سو کھا کبڑی پیٹھ ہوئی گھوڑے پر زین دھرو بابا
اب موت نقارہ باج چکا چلنے کی فکر کرو بابا
سرکانپا ، چاندی با ل ہوئے منہ پھیلا پلکیں آن جھکیں
قد ٹیٹرھا کان ہوئے بہرے اور آنکھیں بھی چند ھیائے گئیں
سُکھ نیند گئی اور بھوک گئی، دل سست ہوا آواز نہیں
جو ہونی تھی سو ہو گزری اب چلتے ہیں کچھ دیر نہیں
            مذکورہ اشعار میں نظیر نے لفظ ’’بڑھاپا‘‘ سے جو لفظی تصویر بنتی ہے، کو چھوٹی چھوٹی تصویروں کی صورت جزئیات کے ساتھ اندر جھانکتے ہوئے تجزیاتی انداز میں بیان کیا۔
ڈاکٹر سلیم جعفر کہتے ہیں:
’’نظیر کی مصوری اور نقاشی کے بارے میں کچھ لکھنا تحصیل حاصل ہے کلیات کا ہر صفحہ اُن کے کامل فن ہونے کا شاہد ہے۔‘‘ ۴؎
اُردو نظم میں سیّد محمد ولی نظیرؔ کا جداگانہ مقام ہے۔ آپ نے اپنے ذاتی رجحان کے باعث دونوں دبستانوں سے اپنی حیثیت الگ رکھی۔ دونوں دبستانوں سے جداگانہ حیثیت کی وجہ سے آپ سے اکثر بے اعتنائی برتی گئی اور آپ اور آپ کا فن گمنام جزیرے کی مانند رہا۔ شیفتہؔ نے اُن کے بارے میں یہ رائے دی۔
’’شیفتہؔ نے اُنھیں شعراء میں ہی شمار نہیں کیا۔‘‘ ۵؎
مولانا الطاف حسین حالیؔ نے اُن کے بارے میں کہا کہ نظیر نے انیس سے بھی زیادہ الفاظ کا استعمال کیا ہے۔مگر اُن کی زبان کو اہلِ زبان کم جانتے ہیں۔مگر اِن تمام باتوں کے بر خلاف ڈاکٹر فیلن کے خیال میں:
’’صرف یہی ایک ایسا شاعر ہے جس کی شاعری اہلِ فرنگ کے معیار کے مطابق سچی ہے۔‘‘ ۶
مگر جب وقت نے کروٹ لی حالات بدلے اور شاعری کے دبستان اپنی افادیت کھونے لگے تو غزل سے شعراء نظم کی طرف مائل ہوئے تو یہ بے حیثیت شاعر مہِ کامل بن گیا اور گمنام جزیرہ ادب کی دنیا پر اُبھر آیا۔ نظیر پہلے ہی روشِ کہن کو خیر آباد کہے چکے تھے اور اپنے اظہار کے لیے ایسی شے کو پسند کیا جس کا تعلق لکھنؤی یا دہلوی دبستانوں یا عہد سے نہ تھا۔آپ نے نہ لکھنؤی رنگینی مستعار لی نہ ہی دہلوی شعری انداز اپنایا۔ رام بابو سکسینہ کہتے ہیں۔
’’اُنھیں لکھنؤی بناوٹ و رنگینی اور دہلوی شعراء جیسی فارسیت اور تراکیب بندی کا مطلق شوق نہ تھا۔‘‘۷؎
یہ بات عجیب ہے کہ نظیر نے مشورئہ سخن کسی سے نہیں کیا۔ بانک، پٹّا، بلّم چلانے میں مشاق تھے۔ عمر کا زیادہ حصہ عیش و نشاط میں بسر کیا۔ خالص ہندوستانی تھے اور ہندو تہواروں میں خاص دلچسپی لیتے تھے۔ عوام میں گھل مل کر زندگی بسر کر نا اُن کو زیادہ پسند تھا۔ مَیلوں ٹھیلوں کے شوقین تھے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نظیر اکبر آبادی کے بارے میں کہتے ہیں۔
’’نظیر نے زندگی کو بھرپور انداز میں بسر کیا اور اس کا لطف والہانہ سرشاری سے اُٹھایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نظیر ایسا بنجارہ نظر آنے لگا جو اپنا چمٹا ہر چوکھٹ پر بجاسکتا ہے۔‘‘  ۸؎
اُنھوں نے شاعری اور اُس کے موضوعات کو قدامت پسندی اور خواص کے خول سے نکال کر عوامی رنگ و روپ دیا اور کامیاب بھی رہے۔ اس لیے کہ ادب سب کی میراث ہے اور ادب کا فرض ہے کہ وہ کسی خاص طبقے کا نمائندہ نہ بنے ورنہ وہ فطری تخلیقی ادب نہ ہو گا بلکہ مصنوعی ادب کہلائے گا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کہتے ہیں:
’’اُن کی وساطت سے شعر آسمان سے اتر آیا اور زمین کی باس سونگھنے لگا۔‘‘ ۹؎
نظیر ہندوستان کی کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ جن میں پنجابی، ہندی، فارسی، مارواڑی اور بھاشا وغیرہ شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام میں اِس قسم کے الفاظ کا استعمال جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ اور یہی اُن کی انفرادیت ہے۔ زبان سلیس، عام فہم اور الفاظ عوامی ہیں۔ اِن عوامی الفاظ کے باعث نواب شیفتہؔ نے ایک جگہ اور کہا:
’’نظیر نے بہت سے شعر کہے اور وہ ادنیٰ درجے کے لوگوں کی زبان پر جاری ہیں۔‘‘  ۱۰؎
نظیر کی خوبی ہی یہی تھی کہ اُس نے اپنے گرد و نواح سے مواد حاصل کیا۔ اس لیے وہ موضوعات کے لیے بھی کسی دبستان یا تحریک کے محتاج نہ تھے۔ اُنھوں نے اُن ہی الفاظ سے لفظی تصویریں اور تمثال تراشے۔ اُنھوں نے اپنی ہی مٹی پر بکھرے ہوئے موضوعات کو زیبِ قرطاس کیا۔ مثلاً روٹی، خوشامد، آدمی نامہ، بنجارانامہ، کبڑی نامہ، شبِ برات، دیوالی، برسات کی بہاریں، بسنت، راکھی، فقیر کی صدا، پتنگ بازی، کبوتر بازی، آندھی، مفلسی اور پیٹ وغیرہ۔ ان موضوعات پر شاعری کرتے ہوئے نظیر نے میلوں ٹھیلوں، تہواروں، موسموں، قدرتی مناظروں میں چھوٹی بڑی تمام جزئیات کو بروئے کار لاتے ہوئے چلتی پھرتی لفظی تصویریں، پیکر اور تمثال پیدا کیے ہیں۔ طلعت حسین نقوی اِس خوبی کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’جزئیات نگاری کے ذریعے اُنھوں نے سماجی زندگی کی چلتی پھرتی اور منہ بولتی تصویریں پیش کر دی ہیں۔‘‘ ۱۱؎
نظیر نے اپنی نظم ’’بنجارا نامہ‘‘ میں تمثال کاری کی بہترین مثالیں پیش کی ہیں۔ چند اشعار:
کیا سخت مکان بنواتا ہے کھم تیرا تن کا ہے پولا
تو اُونچے کوٹ اُٹھاتا ہے وہاںگور گڑھے نے منہ کھولا

جب مرگ پھرا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا
کوئی تاج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سیئے اور ٹانکے گا
شعر نمبر۱ میں شاعر نے موت کی سختی کے آگے جسم کی بے بسی اور بے ثباتی کو کھم کے مترادف قرار دے کر ایک اجتماعی تمثال پیدا کی ہے کیونکہ یہ تمثال الفاظ کے مجموعے سے پیدا ہوئی ہے۔ جبکہ شعر نمبر۲ میں نظیر نے جسم کے اندر پائی جانے والی قوت کو حیوان سے تشبیہ دی ہے۔ اور موت کے اٹل فیصلے کو چابک کی ضرب سے مماثل قرار دیا ہے کہ چابک ایک امر کی مانند جانور کے جسم پر لگ کر اُسے مجبور کرتی ہے بعینہٖ امرِ ربی کے سامنے ہمارا گوشت پوست کا جسم مجبور ہے۔ یعنی اِس شعری تشبیہ سے چابک کی ضرب، آواز اور جسم کی ناپائیداری کی تصویر اُبھرتی نظر آتی ہے۔ جس میں تمثالِ اولیٰ کارفرما ہے۔
نظم ’’برسات کی بہاریں‘‘ میں نظیر نے بہت باریک بینی سے برسات کی رحمت اور زحمت کو محسوس کروایا ہے۔ اور دونوں کیفیات کے لیے جزئیات کو استعمال کر کے ایسی تصویر کشی کی کہ آنکھیں بند کر کے شعر دہرائے تو لفظ متشکل ہو جاتے ہیں اور تصویریں چلنے پھرنے لگتی ہیں۔ گو کہ نظیر کی پہچان اُس کی نظم ہے مگر اُنھوں نے کہیں کہیں غزلوں میں بھی طبع آزمائی کی اور شاندار تمثالیں پیدا کی ہیں جنھیں تمثال کا اعلیٰ نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ چند اشعار:
ملو جو ہم سے کہ مل لو کہ ہم بہ نوکِ گیاہ
مثالِ قطرئہ شبنم رہے، رہے، نہ رہے
چھوٹا سا خال اِس رخِ خورشید ِ تاب میں
ذرہ سما گیا ہے دلِ آفتاب میں
اِس کا وہ روئے مہروش چمکے ہے یوں نقاب سے
جیسے شعاعِ آفتاب پھوٹے تنک صحاب سے

تو ہم مضطرب ہیں دوڑتا ہے دم بدم کہہ کر
چلیں دیکھیں کوئی تو حلقۂ در کھٹکھٹاتا ہے
یہاںشعر نمبر۱میں نظیر نے اپنی داخلی کیفیت کو خارج سے متصور کر کے زندگی کی خوبصورتی، بے یقینی اور بے ثباتی کو کس دلکش انداز سے پیش کیا ہے۔ یہاں نظیر نے مصرعہ اولیٰ میں تمثالِ ثانی پیدا کی ہے۔ جس میں ’’نوکِ گیاہ‘‘ کو بطور استعارہ لیا بمعنی زندگی کی گذران اور مصرع ثانی میں تمثالِ اولیٰ پیدا کی جس میں مثالِ ’’قطرئہ شبنم‘‘ بطور تشبیہ لیا بمعنی خوبصورتی و بے ثباتی۔ جسے ہم کثیرالسطحی تمثال (Multi-dimensional Image ) کہتے ہیں۔
شعر نمبر۲ میں محبوب کے چہرے پر سیاہ تل کو چاند کی سفیدی پر ذرے سے تشبیہ دے کر حسّیاتی تمثال(Sensuous Image ) پیدا کی ہے۔
شعر نمبر۳ میں نظیر نے مصرع اولیٰ میں تمثالِ اولیٰ کا استعمال کرتے ہوئے حُسن کی جھلک کو پسِ پردہ بیان کرتے ہوئے مصرعِ ثانی کے الفاظ کے مجموعے سے ایک منظر کشی کی ہے۔ جس میں چہرے کو سورج، نقاب کو بادل اور حُسن کو شعاع سے تشبیہ دی ہے۔ جس سے مرکب تمثال (Compound Image )پیدا کی ہے۔
جبکہ شعر نمبر۴ میں حرکی (Kinetic )، بصری (Visual ) اور سمعی (Audiotry ) تمثالیں موجود ہیں۔
نظیر کو خود بھی اَس بات کا علم نہ تھا کہ دبستانوں سے الگ رہنے نے اُسے منفرد مقام عطاء کر دیا ہے۔ بلا شبہ نظیر کی نظراپنے گرد و نواح کے حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ قدرت کے عطاء کردہ نظاروں، موسموں، رحمتوں، زحمتوں پر بھی تھی۔ نیاز فتح پوری نظیر کے اِس وصف کے بارے میں کہتے ہیں:
’’نظیر کی مناظر پرستی اِس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ نقوشِ قدرت میں وہ اپنے آپ کو بالکل گم کر دیتا تھا اور اِس لیے اِس کے بیان میں قیامت کی والہانہ تکمیل پائی جاتی ہے۔‘‘ ۱۲؎
نظیر کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عَلَمِ بغاوت بلند کرنے اور اپنی انفرادیت قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔ بعد میں کوئی ایسی انفرادی کوشش سامنے نہیں آئی۔
حوالہ جات:
۱۔          سلیم اختر، ڈاکٹر، اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ، سنگِ میل لاہور، ۱۹۸۴ئ، ص ۱۱۰
۲۔         سلیم اختر، ڈاکٹر، اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ، سنگِ میل لاہور، ۱۹۸۴ئ، ص ۱۱۰
۳۔         محمد صادق، ڈاکٹر، تاریخِ اُردو ادب (انگریزی)، س ن، ص ۱۶۴
۴۔         سلیم جعفر، نظیر اکبر آبادی کا تغزل، مشمولہ زمانہ، ماہنامہ کانپور، ۱۹۴۳ئ، ص ۸
۵۔         شیفتہ مصطفی خان، نواب، گلشنِ بے خار، ترجمہ محمد احسان الحق فاروقی، ص ۵۱۹
۶۔         بحوالہ انور سدید، ڈاکٹر، اُردو ادب کی مختصر تاریخ، عزیز بُک ڈپو، طبع پنجم، ۲۰۰۶ئ، ص۲۱۹
۷۔         بحوالہ انور سدید، ڈاکٹر، اُردو ادب کی مختصر تاریخ، عزیز بُک ڈپو، طبع پنجم، ۲۰۰۶ئ، ص ۲۱۹
۸۔         گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر، نظیر نامہ، شمس الحق عثمانی (مرتبہ)، دہلی، ۱۹۷۹ئ، ص ۳۳۱
۹۔         وزیر آغا، ڈاکٹر، اُردو شاعری کا مزاج، مجلسِ ترقیٔ ادب، ۲۰۰۸ئ، ص ۳۴
۱۰۔        شیفتہ مصطفی خان، نواب،گلشنِ بے خار، لکھنؤ، مطبع نول کشور، ۱۹۷۴ء ،ص ۷۱
۱۱۔         طلعت حسین نقوی، نظیر اکبر آبادی کی نظم نگاری، دہلی ایجوکیشنل پبلیشنگ، ۱۹۹۳ئ، ص ۲۱
۱۲۔        نیاز فتح پوری، نظیر میری نظر میں، مشمولہ نظیر نامہ (مرتب شمس الحق عثمانی)، دہلی صبوحی پبلیکیشنز، ۱۹۷۹ئ، ص۱۰۱
 ٭٭٭٭