پروفیسر فتح محمد ملک
اردور سم الخط

 
اردو رسم الخط کے خلاف گزشتہ دو سو سال سے جاری مہم جارحانہ ہندواحیائیت کی سیاست کا شاخسانہ ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کے طویل دورِ اقتدار کے دوران بلادِ اسلامیہ ٔ ہند میں جو عظیم الشان ہند اسلامی کلچر وجود میں آیا تھا اردو زبان اُس کا ایک حسین ، توانا اور متحرک عوامی مظہر ہے۔ جب مسلمانوں سے سیاسی اقتدار چھین کر انگریز برصغیر پر قابض ہو بیٹھے تو ہندو احیائیت کے علمبرداروں نے انگریزوں کی سرپرستی میں ہند اسلامی کلچر کی اسلامی شناخت کو مٹانے کی مہم کا آغاز کر دیا۔ اردو زبان کے عربی رسم الخط کے ساتھ ساتھ اردو میں شامل عربی فارسی الفاظ مسلمانوں کے خلاف منافرت کی اس مہم کا اوّلیں نشانہ بنے۔ کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج کے منشی للو لال جی نے ۱۸۰۳ء میں ’’پریم ساگر‘‘ کی صورت میں اردو پر پہلا پتھر پھینکا۔
ہر چند فورٹ ولیم کالج میں ہندوستانی شعبے کے صدر ڈاکٹر گلکرسٹ کی سرپرستی کے باوجود اردو کو ہندی بنا ڈالنے کا یہ تجربہ بڑی حد تک ناکام رہا تاہم بہت جلد بنارس کی ہندی پر چارنی سبھاکی سی متعدد انجمنیں سیاسی محاذ پر سرگرم عمل ہو گئیں اور گورنر میکڈونلڈ کی استعماری سیاست اور گریرسن کا لسانی استعمار ان انجمنوں کی سرپرستی کو اپنا قومی فریضہ سمجھنے لگا۔ یہ امر بہت معنی خیز ہے کہ عربی فارسی الفاظ سے ’’پاک‘‘ اور سنسکرت الفاظ کے گراں بار خالص ہندی کی پہلی کتاب ہندو احیا کی جارحیت پسند تنظیم آریا سماج کے بانی دیانند سرسوتی کی مشہور تصنیف’’ستیارتھ پرکاش‘‘ ہے۔ وی ڈی ساور کرنے ہندو مہاسبھا کے ۱۹۳۹ء کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس کتاب کے حوالے سے اعلان کیا تھا کہ چونکہ برصغیر کے مختلف خطوں میں آباد ہندوؤں کی زبان ہندی ہے اس لیے ہر ہندو کا یہ مذہبی فریضہ ہے کہ وہ آریا بھاشا کے فروغ کی خاطر سرگرمِ عمل ہو جائے۔ آریا سماج اور ہندو مہاسبھا کی آئیڈیالوجی کے پیروکار دانشوروں نے جہاں دیونا گری رسم الخط میں لکھی جانے والی ہندی زبان کو برصغیر میں بین الہندو (Pan-Hindu ) زبان قرار دیا وہاں اردو کو ’’مسلمانی بھاشا‘‘ اور ’’ملیچھ بھاشا‘‘ قرار دیا۔ مرزا خلیل احمد بیگ نے اپنی کتاب ’’ایک بھاشا: جومسترد کر دی گئی‘‘ میں ملیچھ بھاشا کے کلمۂ تحقیر کوشتی کنٹھ مشر کی کتاب ’’کھڑی بولی کا آن دولن‘‘ کے حوالے سے چندردھرشرما گلیری کی ایجاد بتایا ہے۔ بہت جلد اس ایجاد نے ہندو انتہا پسندوں میں بے پناہ مقبولیت پائی اور یوں ’’ملیچھ بھاشا‘‘ کو پوتر ہندی بنانے کے عمل نے زور پکڑ لیا۔
بیسویں صدی کا المناک ترین سانحہ یہ ہے کہ اس کی تیسری دہائی کے آغاز ہی میں انڈین نیشنل کانگریس نے مہاتما گاندھی کی قیادت میں اپنے وسیع النظر اور صلح کل مسلک سے منحرف ہو کر انتہا پسند ہندو سیاست کا مسلمان دشمن لسانی اور تہذیبی ایجنڈا اپنا لیا۔ فطری ارتقاء کے صدیوں پر پھیلے ہوئے لسانی اور تہذیبی مراحل طے کرنے کے بعد اردو کا نام پانے والی زبان کو جب گاندھی جی کی قیادت میں پہلے ہندی اور پھر ہندوستانی زبان بنانے کی پر تصنع لسانی سیاست نے زور پکڑا تو کانگریسی مسلمانوں میں اضطراب کی لہریں دوڑنے لگیں۔ اس کتاب میں شامل پنڈت نہرو کے نام سید محمود کا خط شامل ہے جس میں کانگریس کی لسانی سیاست پر احتجاج کرتے ہوئے ڈاکٹر سید محمود نے سوال اٹھایا ہے کہ مہاتما گاندھی اردو کو مسلمانوں کی مذہبی زبان کیوں قرار دیتے ہیں؟ علامہ نیاز فتح پوری اور منشی پریم چند کی خط و کتابت بھی آئندہ صفحات میں درج کر دی گئی ہے جس میں منشی پریم چند علامہ نیاز فتح پوری کے اُٹھائے ہوئے اسی طرح کے سوالات کو ’’اردو فسطائیت‘‘ کا نام دیتے ہوئے ذرانہ شرمائے تھے۔ جہاں تک مجوزہ ’’Pan-Hindu ‘‘ ہندی زبان کے غیر سائنسی، پُر تصنع اور خود ہندوؤں کے لیے ناقابلِ فہم ہونے کا ثبوت مہاتما گاندھی نے سُندر لال جی کے نام اپنے خط میں فراہم کر دیا ہے۔ ایک ہندو عقیدت مند کے نام پندرہ سطروں پر مشتمل ایک خط میں مہاتما جی اُنیس الفاظ کے اردو مترادفات دینے پر اس لیے مجبور ہوئے کہ اُنہیں یقین تھا کہ اُن کا ہندو مکتوب الیہ ان الفاظ کا مطلب نہ سمجھ سکے گا۔ چنانچہ انہیں درج ذیل اُنیس الفاظ کا مفہوم اردو(ملیچھ بھاشا) میں سمجھانا پڑا:
لیکھ(مضمون)، نرمل ہتیو(نیک نیتی)، پرتہن(کوشش)، شبد (لفظ) پرچلت(جاری)، دیاکھیا(تشریح)، ہتیو(مقصد)، کارن(وجہ)، ویا کرن(قواعد)، سوکھرت(منظور)، لیکھک(مصنف)، مہیا(غلط)، کارن(وجہ)، تیاگ(چھوڑنا)، ڈھیریہ(اطمینان)، پرشنوں(سوالوں)، اتر(جواب)، بھیر(مشغولیت)۔
قوسین میں دیئے گئے اردو الفاظ کو اچھوت قرار دے کر زبان سے خارج کر دینے کی اس حکمتِ عملی کے برعکس مسلمانوں نے نہ ہندوؤں کو اچھوت سمجھا اور نہ ہی اُن کی بولیوں کو۔اردو کی ابتدائی نشو و نما کا خیال کرتا ہوں تو مجھے وہ مسلمان یاد آتے ہیں جو پہلے پہل ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ ہندوستان میں آباد ہونے والے یہ اوّلین مسلمان اردو بولتے ہوئے ہندوؤں میں وارد نہ ہوئے تھے۔ عربی ، فارسی اور ترکی ان کی مادری زبانیں تھیں۔ اردو کی ابتداء اور مسلسل نشوونما مقامی زبان کے ساتھ ان مسلمانوں کے عشقانہ سلوک کا نتیجہ ہے۔صوفیائے کرام نے برصغیر کے ہر خطے میں اپنے انسان دوست طرزِحیات کی مثال قائم کی اور یوں خلقِ خدا اُن کی جانب کچھی چلی آئی۔ اگر ہم صرف پنجاب میں اجودھن (پاک پتن شریف) اور دکن میں گلبرگہ کی مثال سامنے رکھیں تو چشتی صوفیا کا عاشقانہ مسلک ایک نئی زبان کو جنم دیتا نظر آتا ہے۔ اردو کا ابتدائی زمانہ وہ زمانہ ہے جب علم پر برہمن کی اجارہ داری ہے اور دیوتا بائی (سنسکرت) برہمنوں کی مقدس زبان ہے۔ عوام کی زبانیں متبذل(vulger )قرار پائی ہیں۔ مسلمہ انسانی حقوق سے محروم اچھوت اور دیگر نچلی ذاتوںکے ہندوؤں کو لکھنے پڑھنے کی آزادی بھی میسر نہیں ہے۔ چنانچہ ان کی بولیوں کا کوئی رسم الخط بھی نہیں ہے۔ صوفیا کے طرزِ احساس اور طرزِحیات سے متاثر ہو کر یہ لوگ جب جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں دیگر انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ لکھنے پڑھنے کا حق بھی مل جاتا ہے۔ صوفیا کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرکے لکھنا سیکھنا چاہتے ہیں تو لامحالہ صوفیائے کرام انہیں وہی عربی / فارسی رسم الخط سکھاتے ہیں جو انہیں آتا ہے۔چنانچہ اردو زبان کو ابتداء ہی میں عربی/ فارسی رسم الخط کی نعمت میسر آ گئی ۔ساتھ ہی ساتھ برصغیر کے ہر خطے کی زبان میں بالکل قدرتی طور پر عربی / فارسی الفاظ شامل ہوتے چلے گئے۔ صدیوں یہ لسانی عمل جاری رہا۔ تب جا کر کہیں اردو زبان ہند اسلامی کلچر کی علامت بن کر اُبھری۔مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کی موت کے بعد جب برطانوی استعمار کی سرپرستی میں ہند اسلامی کلچر کے اسلامی عناصر کو ملیامیٹ کر کے آمدِ اسلام سے پیشتر کے خالص ہندو کلچر کے احیا کے عمل نے جارحانہ رُخ اختیار کیا تو اردو زبان کے ملیچھ الفاظ کے اخراج اور اس کے عربی/ فارسی رسم الخط کو دیونا گری رسم الخط میں بدلنے کی مہم شروع کر دی گئی۔ یوں رفتہ رفتہ ایک مصنوعی جناتی زبان نے ہندی کا نام پایا۔
خود ہندوؤں کے لیے اس بالکل اجنبی اور سراسر ناقابلِ فہم ہندی زبان کو اردو کے وسیلے سے مقبول بنانے کی یہ مہم گزشتہ دو صدیوں سے جاری ہے۔ اکیسویں صدی میں اس مہم نے گیان چند جین کی ہنگامہ خیز کتاب ’’ایک بھاشا ، دو لکھاوٹ ، دو ادب‘‘ کے قالب سے از سرِ نو جنم لیا ہے۔ ہندوستانی دانشوروں نے اس پرانی مہم کے نئے پیرہن کو تار تار کر کے رکھ دیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شمیم حنفی نے اس کتاب کو بجا طور پر ’’فسطائیت کا لسانی اور ادبی محاذ‘‘ قرار دیا ہے۔ متعدد مقالہ نگاروں نے اس کے جواب میں ’’دو زبانیں ، دو رسم الخط اور دو ادب‘‘ کا نظریہ زبان کے سائنسی اصولوں کی روشنی میں پیش کر دیا ہے۔ ان میں سے بیشتر تحریریں اس کتاب میں شامل ہیں لیکن یہ کتاب صرف اکیسویں صدی میں برپا ہونے والے لسانی ہنگامے تک محدود نہیں ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ عہد در عہد سر اُٹھانے والی اس مہم کو ہر عہد کے سیاق و سباق میں پیش کر دیا جائے۔ اردو رسم الخط کے تنازع کو پاکستان میں وقتاً فوقتاً کی گئی رومن رسم الخط کی وکالت کی سیاست کے تناظر میں بھی دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اردو سے عربی فارسی الفاظ کے اخراج اور اردو کے عربی رسم الخط کے ترک اور اُس کی جگہ دیونا گری یا رومن رسم الخط کو اختیار کرنے کی اس حکمت عملی کا زبانوں کے آغاز و ارتقاء کے لسانی اصول و قواعد سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ دو صدیوں پر پھیلتی چلی جانے والی ہندو احیائیت کی اس بنیاد پرست مہم کا تعلق برصغیر کی اسلامی کلچر کی اسلامی شناخت مٹانے کی دیرینہ تمناؤں سے ہے۔ اردو کی اسلامی شناخت کو پہلے دھندلانے اور پھر رفتہ رفتہ مٹا ڈالنے کی انتہا پسند ہندو سیاست کو برطانوی استعمار کی جو تائید و حمایت حاصل رہی ہے وہ قیام پاکستا ن کے بعد ہمارے ہاں فرنگی استعمار کی بخشی ہوئی ذہنی ساخت پر داخت کے حامل پاکستانی دانشوروں میں عربی رسم الخط کی بجائے رومن رسم الخط اپنانے کی ناکام سیاست کا سامراجی ورثہ ثابت ہوئی۔
لگ بھگ نصف صدی پیشتر امریکی سی آئی اے کی تائید و حمایت سے اقتدار میں آنے والے فوجی آمرفیلڈ مارشل ایوب خان نے جب اردو کو رومن رسم الخط اپنا کر ’’ترقی‘‘ کرنے کا فرمان جاری کیا تھا تب ہمارے سرکردہ ادیبوں اور دانشوروں نے یہ فرمان ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کتاب کا آخری حصہ اُن عہد آفریں مضامین پر مشتمل ہے جو اس بحث کے دوران لکھے گئے تھے۔ ان مضامین میں اردو رسم الخط کی روحانی اور فکری بنیادوں کو بڑی جرأت کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے۔ آج ہمارے ہاں ایک مرتبہ پھر بڑی خاموشی اور کمال عیاری کے ساتھ ہمارا الیکٹرانک میڈیا اردو کو رومن رسم الخط میں پیش کرنے میں مصروف ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے اشتہارات میں رومن رسم الخط کے ذریعے ہماری قومی زبان کا حلیہ بگاڑنے میں منہمک ہیں۔ کراچی کے ماہنامہ ’’نفاذِ اردو‘‘ نے اپنے مئی ۲۰۰۸ء کے شمارے میں خبر دی ہے کہ کراچی سے رومن رسم الخط میں اردو کے ایک روزانہ اخبار کا اجرا عمل میں آگیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس اخبار کا بھی وہی حشر ہوگا جو اس سے پہلے وقتاً فوقتاً رومن رسم الخط میں لکھے گئے اردو کتابچوں کا ہوتا چلا آیا ہے۔ رومن اردو کی ترویج کی یہ مساعی اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ ہماری اور ہماری قومی زبان کی منفرد تہذیبی اور لسانی شناخت کو مٹانے کے درپے قوتیں آج بھی سرگرمِ کار ہیں مگر بقول اقبال:
رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِ بیضا
(ادارے سے شائع ہونے والی کتاب ’’اردو رسم الخط‘‘ کے پیش لفظ سے انتخاب)
دفتری اصطلاحات
قومی زبان کے سرکاری، دفتری اور عدالتی دائرہ ہائے عمل میں قومی زبان اردو کے نفاذ کی راہیں ہموار کرنا مقتدرہ قومی زبان کے بنیادی اغراض و مقاصد میں سے ایک ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر مقتدرہ آغازِ کار ہی سے سرگرم کار ہے۔ اب تک انگریزی اردو قانونی لغت (دو جلدوں میں) ، مجموعہ قواعدسرکار (ایسٹا کوڈ) اور دفتری اصطلاحات و محاورات کی ایک سے زیادہ لغات کے ساتھ ساتھ دفتری اور سرکاری قواعد و ضوابط کی بیسیوں دستاویزات اردو میں منتقل کی جا چکی ہیں۔ جدید دفتری اور سرکاری اصطلاحات کی یہ نئی لغت اردو میں دفتری مواد کی فراہمی کی جانب ایک اور پیش رفت ہے۔ اس لغت میں دفتری امور کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بیشتر ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لغت کی چند خصوصیات حسب ذیل ہیں:
۱۔          وہ انگریزی لفظیات، اصطلاحات اور تراکیب جو اردو زبان کاحصہ بن چکی ہیں، انھیں اردو مترادفات کے ساتھ جوں کا توں اردو میں لکھ دیا گیا ہے۔
۲۔         حتی الامکان تکرار سے گریز کیا گیا ہے۔
۳۔         ثقیل اور نامانوس اصطلاحات کے استعمال سے اجتناب کیا گیا ہے۔
۴۔         اصطلاحات کو سادہ، سلیس اور عام فہم انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
۵۔         اس لغت کی تیاری میں ایسے افراد کا تعاون حاصل کیا گیا ہے جو ایک طویل مدت سے ہمارے دفتری نظام کا حصہ ہیں اور جو انگریزی اور اردو ہر دو زبانوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں۔
(کتاب ’’دفتری اصطلاحات‘‘ کے پیش لفظ سے اقتباس)
……  پروفیسر فتح محمد ملک