کتاب میلہ


جزیرے کا خواب:ایک تأثر    از: ڈاکٹر زاہد منیر عامر
مبصر:  عبدالعزیز ساحر
’’جزیرے کا خواب‘‘ ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے احوالِ سفر کا خوش کن منظرنامہ ہے۔ وہ ایک ہفتے کے لیے ماریشس کے علمی دورے پر گئے اور دورانِ سفر انھو ںنے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، اسے اپنے خوبصورت اسلوبِ نگارش میں ڈھال کر ہدیۂ قارئین کیا۔ اس سفرنامے کی اہم تر خوبی یہ ہے کہ ماریشس کا مسافر اپنے قاری کو کہیں بھی گم نہیں ہونے دیتا۔ ان کا قاری ان کے متعاقب محوِ سفر رہتا ہے۔ وہ علمی مذاکرے کے شرکأسے مخاطب ہوں، یا میڈیا کے لوگوں سے محوِ کلام ہوں، یا کسی ہاٹ بازار کی سیر میں مگن… وہ ایک لمحے کے لیے بھی اپنے قاری کو اپنی گرفت سے باہر نہیں نکلنے دیتے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی خوش خیال قصہ گو نے اپنی مہارتِ فن سے اپنے سامعین کو گنجینۂ معانی کے طلسم کدے میں قید کر دیا ہو اور پھر اپنے کلام کے سحر سے منظر پہ منظر بدلتے ہوئے، کہانی کو ایسی فضا سے ہم آہنگ کر نے کا جتن کر رہا ہو کہ سامع اس کی گفتگو کے دائرے اور اس کے خواب انگیز ماحول سے آزاد نہ ہو۔ میں بحیثیت قاری ان کے سنگ اس خوبصورت اور دلکش جزیرے کی سیر دیکھ آیا ہوں اور ان کی روایت سے اس قدر متأثر ہوا ہوں کہ ماریشس کے ان دیکھے مناظر میری آنکھوں میں خواب بن کر طلوع ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب صرف پیش منظر سے مسحور نہیں ہوئے، کہیں کہیں تاریخ کے حیرت کدوں میں جھانکتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عامر کا یوں تاریخ کے آنگن میں اُتر کر ماریشس کے ماضی کو آواز دینا مجھے صرف اچھا نہیں، بہت اچھا  لگا ہے،اس لیے بھی کہ ماریشس کے حوالے سے ہماری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہم ماضی کی اس بازآفرینی سے حال کے منظرنامے پر پھیلتے ماریشس کے طربناک ماحول سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یوں ماضی کی تاریکی، حال کے سویروں میں بدل کر ایک ایسے خواب رنگ موسم کا اظہاریہ بن گئی ہے ،جو ’’جزیرے کا خواب‘‘ کے ایک ایک جملے سے ہویدا ہے۔
اس سفرنامے کی دوسری خوبی اس کا علمی اندازِ بیاں ہے۔ پورے سفرنامے میں کوئی ایک بھی جملہ اپنے علمی تناظر اور فکری مدار سے ہٹتا ہوا معلوم نہیں ہوتا۔ ایسے لگتا ہے گویا یہ سفرنامہ ایک طویل نظم ہو، جس کی ہر سطر اپنے اپنے مقام پر معانی کی ترسیل اور اس کے ابلاغ میں معاون ہو اور کسی بھی جگہ سے کسی سطر کی بے دخلی نظم کے پورے منظر کو بکھیر کر رکھ دے گی۔جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے، کے مصداق ان کا ایک ایک جملہ اپنی ارزش اور گرانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر صاحب علمی دنیا کی ایک باوقار شخصیت ہیں۔ ان کے قلم سے نکلے ہوئے لفظ ان کی وجاہتِ علمی کا ثبوت ہیں۔ کہیں بھی کسی منظر کی تصویر کشی میں ایک آدھ سطر بھی ان کے علمی اور ادبی منہاج سے فروتر نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ایسے علمی سفرناموں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں، جو اپنے فکری اور علمی ماحول سے اس قدر جڑے ہوئے ہوں اور ان کی منظرآرائی میں حقیقت پر افسانے کا گماں نہ گزرتا ہو۔ علمی مقصد کے لیے کیا گیا یہ سفر جب سفرنامے کی صورت میں منکشف ہوا، تو سفر کی غرض و غایت اس کی معنوی فضا پر غالب رہی اور مسافر نے رودادِسفر کو حقیقت کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ یقیناً حقیقت میں افسانے کی آمیزش بھی کئی رنگ اور آہنگ رکھتی ہو گی، لیکن محض حقیقت نگاری کے رنگوں سے جزیرے کے خواب دیکھنا اور دکھانا ایک مشکل امر ہے ،کیونکہ کسی بھی لمحے مسافر کا قدم ڈگمگا کر اس کی رودادِ سفر کو دلکشی اور دلکشائی کے نگارخانے سے نکال کر طاقِ نسیاں کی زینت بھی تو بنا سکتا ہے۔ ان کے مابین فاصلہ ہوتے ہوئے بھی فاصلہ نہیں ہوتا۔ دو نوں کہیں ایک ہی مدار میں گردش کرتے ہوئے ایک دوسرے کے متوازی بھی تو آ سکتے ہیں۔ یہ اس سفرنامے کے مسافر کا کمال ہے کہ انھوں نے اپنی رودادِ سفر کو حقیقت نگاری کا وقار بخشا ہے ،جس سے اس کی روایت کا اعتبار بڑھا ہے اور یہ خوبی کچھ کم مایہ نہیں ہے۔
منظرکشی اور منظر آرائی اس سفرناے کی ایک اور نمایاں خوبی ہے۔ مناظر کے متنوع رنگوں کی کشید سے سفرنامے کی خوش آہنگی نئے رنگوں سے مزین ہوئی ہے۔ خوابوں کے اس جزیرے کے خوش رنگ مناظر صفحۂ قرطاس پر بکھر کر نئے موسموں کی نوید بن گئے ہیں۔ ایسے منظروں کی عکس گری میں مسافر کے حسنِ قلم کی بہار دیدنی ہے۔ ان کا اسلوب رنگ اور خوشبو کی یکجائی سے ایسے مناظر کو منعکس کرتا ہے کہ ان کے جملوں کی اوٹ سے جمالیاتی طرزِ احساس کی کوملتا معنویت کی بُکل اوڑھ کر ایک نئے جہانِ معنی کی تخلیق کرنے لگتی ہے۔ اس سلسلے میں یہ چند جملے دیکھیے کہ کس طرح ان کے ایک ایک لفظ میں معانی کے سائے پھیلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں:
’’صدیوں پرانے درخت اپنے بال بکھرائے یوں کھڑے تھے کہ ان کے نیچے کوئی کونپل سرسبز نہیں ہو سکتی۔‘‘
’’زندگی کے داخلی دریچے کی کشادکی طرف توجہ دلائی جائے، تو اس پر کان دھرنے والے دنیا میں کم نہیں ہیں۔‘‘
’’ماریشس میں بتوں کی کمی نہیں، لیکن یہ بت اردو شاعری والے نہیں۔‘‘
’’کنول کا پھول بھی کتنا اکیلا ہوتا ہے، اس کے اردگرد اس کا کوئی ہم نفس دکھائی نہیں دیتا۔ جھیل میں جہاں جہاں کنول کا پھول تھا، اس کے گرد محض تنہائی تھی۔‘‘
’’سراب کی اس نمائش گاہ میں سبھی کچھ حباب ہی تو ہے… اس کنول پر کیا موقوف: ہستی اپنی حباب کی سی ہے۔‘‘
سفرنامے میں مختلف اور متنوع مناظر کے اظہار کے لیے دیئے گئے عنوانات تو گویا چراغ ہیں، جن کی لَو خواب رنگ منظروں کو اُجال رہی ہے۔ سفرنامے میں جابجا اردو اور فارسی اشعار کی تہذیب اور ان کا جڑاؤ بھی مرصّع سازی سے کم نہیں۔ مختلف مقامات اور مواقع پر بنائی گئی تصویروں کا انتخاب… اس مجموعے کے حُسن میں اضافے کا باعث ہے۔ زندہ باد ڈاکٹر زاہد منیر عامر زندہ باد!
……o ……
جزیرے کا خواب     از: ڈاکٹر زاہد منیر عامر
مبصر:  سید سردار احمد پیرزادہ
دنیا کے گول جسم پر جابجا دیس بکھرے ہوئے ہیں۔ پرائے دیسوں کو اپنا بنانے کے لئے سفارتکاری ایجاد ہوئی۔ سفارتکاری ایک بہت ہی سنجیدہ اور فورمل کام ہے۔ بعض اوقات فورمل سفارتکاری کے ذریعے انجام نہ پانے والے ضروری کام بیک ڈور چینل ڈپلومیسی کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ بیک ڈور چینل ڈپلومیسی میں پیپل ٹو پیپل کانٹکٹ بہت اہم ہوتا ہے اور پیپل ٹو پیپل کانٹکٹ میں لٹریچر، رائٹر اور میڈیا سرفہرست ہوتے ہیں۔ جب کسی ادیب یا رائٹر سے کسی ملک کا سفر سرزد ہوتا ہے تو نتیجہ اس رائٹرکی تحریر یا کتاب کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ماریشس کا سفر کیا اور آج "جزیرے کا خواب" ہمارے مطالعہ میں ہے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر ماہرِ لسانیات اور ماہرِ ابلاغیات ہونے کے ساتھ ساتھ "ماہرِ سفریات" بھی ہیں۔ جیسے سفریات ایک استعمال نہ ہونے والا غیرشناسا لفظ ہے ویسے ہی ڈاکٹر زاہد منیر عامر جب کسی ایسے دیس میں جاتے ہیں جو اُن کے لئے پہلے شناسا نہ ہو تو وہ وہاںجنتر منتر کا ایسا دائرہ کھینچتے ہیں کہ وہ اجنبی دیس کچھ ہی دیر میں ان کا دوست دیس بن جاتا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر زاہد منیر عامر ایک باوقار اور باشعور قرض خواہ کی طرح اپنے اصل دیس کے لوگوں کو اُس نئے دیس کی کہانیاں لکھ کر ایسے سناتے ہیں کہ سب قرض ادا ہو جاتے ہیں ۔ اسی لیے ڈاکٹر زاہد منیر عامرکے سفرنامے پڑھنے والے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ساتھ خود اُس دیس میں پہنچ جاتے ہیں۔ ہزاروں برس پہلے آتش فشاں کی بدصورت تباہی کے باعث بحرِہند کے گہرے سمندر میں بننے والا یہ خوبصورت جزیرہ، جسے ہم ماریشس کہتے ہیں، اپنے اندر جدوجہد اور لہلہاتے گنے کے کھیتوں کی صدیوں پرانی داستانیں سمیٹے ہوئے ہے۔ اس ہسٹری کو ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے سات دن کے قیام میں اپنے قلم کے ذریعے "جزیرے کا خواب" میں ایسے اتارا کہ قاری سات صدیوں کا سفر کرگیا۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر جملہ سازی کے لئے اپنے قلم پر جس حد تک مارشل لائی کنٹرول رکھتے ہیںاُس سے کہیں زیادہ اپنی آنکھوں کے ذریعے محسوس کئے جانے والے منظر کو کاغذ پر اتارنے کی آمرانہ طاقت بھی رکھتے ہیں۔ ماریشس کا سفرنامہ "جزیرے کا خواب" محض ایک کتاب نہیں بلکہ پاکستان اور ماریشس دونوں ملکوں کی لازوال محبت اور بھائی چارے کی تحریری فلم بھی ہے۔ آپ ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے ساتھ ہوائی جہاز کے جھولے بھی لے سکتے ہیں اور ایئر ہوسٹس کی خوبصورتی کے باوجود اُس کی سخت گیری کے باعث منہ کا چسکا خراب بھی کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر "جزیرے کا خواب" میں جب ماریشس کے دریافت کنندہ الادریسی کا ذکر کرتے ہیں تو پڑھنے والے کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود بارہ سو برس پرانا بوڑھا بن گیاہے اور الادریسی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے  چل رہا ہے۔ اس سفرنامے میں جب ماریشس کے باٹینیکل گارڈن کے عجیب و غریب جڑوں والے درختوں کا ذکر ہوتا ہے تو ریڈر محسوس کرتے ہیں کہ وہ بھی معصوم گلہریوں کے ساتھ ساتھ اُن درختوں کی زمین کے اوپر رکھی جڑوں کے درمیان میں سے گزر رہے ہیں۔ ماریشس کے لذیذ کھانے ڈاکٹر زاہد منیر عامر اکیلے اکیلے ہی کھاتے رہے لیکن اب ذائقہ قاری تک ضرور پہنچ رہا ہے۔ خوبصورت ماریشس کا خوبصورت ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر زاہد منیر عامر جب لفظ علامہ اقبال کے پاس سے ہی گزرتے ہیں تو بے قابو ہوجاتے ہیں۔ پھر جب تک وہ اقبال کو بہت سلام نہ کرلیں اور اقبال کی باتیں ریڈر تک نہ پہنچا لیں، چین سے نہیں بیٹھتے۔ یہ اُن کا نہیں بلکہ اُن کے خمیر کا مسئلہ ہے جوکہ ہر پاکستانی کا ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر’’ جزیرے کا خواب‘‘ کی تحریروں میں ایسے الفاظ بھی شامل کرتے ہیں جہاں وہ ایک بہت مشکل استاد نظر آتے ہیں کیونکہ ایسے الفاظ آج کل کے اکثر عمومی ریڈر کی ڈکشنریوں میں نہیں ملتے بلکہ یہ صرف چند انتہائی گہرے طالبعلموں کی کاپیوں میں ہی پائے جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر "جزیرے کا خواب" میںاپنی یادداشتوں کو محفوظ کرنے کے لئے بار بار لیپ ٹاپ کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک قلم کار کی قلم دوات سے فرار کی کہانی ہے یا ایک جدید ادیب کی جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کی بات ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں میں ہر چند قدم کے بعد کوئی نہ کوئی لڑکی ضرور نمودار ہوتی ہے اور اکثر اوقات وہ لڑکی کے کندھے پر سر رکھ کر سوئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ کی یہ "یملی نیند" ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے ہاں تو ناپید ہے لیکن سفرنامہ ہو اور ریڈر لڑکی تلاش نہ کرے، ایسے تو حالات نہیں۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے بھی سفرناموں کی اس روایتی ونڈو شاپنگ کا تجربہ ضرور کیا ہے البتہ ریڈر مایوس ہوکر یہ کہہ اٹھتا ہے کہ یہ ونڈو شاپنگ تو لوڈ شیڈنگ میں کی گئی ہے کیونکہ وہ ماریشس جاتے ہوئے دبئی کے ایئرپورٹ پر نمازِ جمعہ اور سورہ کہف کے بعد ایئرپورٹ کی دکانوں میں رنگینی کا ذکر ایسے کرتے ہیں جیسے وہ پرانا دیسی برقعہ پہنے ہوئے ہوں۔ ریڈر ’’جزیرے کا خواب‘‘ میں پرنٹ ہوئی مختلف تصویروں کو جلدی جلدی دیکھتا اور پلٹتا ہے کہ شاید گوہرِ نایاب مل جائے مگر وہاں تو صرف مردِ آہن ہی نظر آتے ہیں یعنی دنیا کی پچاس فیصد آبادی ان تصویروں سے یکسر غائب ہے۔"جزیرے کا خواب" کے ریڈر کو ایک امید اور لگتی ہے جب ڈاکٹر زاہد منیر عامر واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں تو اُن کے ساتھ ایک فرانسیسی عورت بیٹھتے ہوئے کہتی ہے کہ "اگر میں نیند میں چِلانے لگوں تو گھبرائیے گا نہیں"۔ اب خدا جانے اُردو نہ جاننے والی فرانسیسی عورت نے نیند کس چیز کو کہا تھا لیکن ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ریڈر کی تمام آشائوں پر پانی پھیر کر صرف یہ بتایا کہ وہ خاتون کچھ دیر بعد خراٹے لے رہی تھی اور موصوف ڈاکٹر صاحب لیپ ٹاپ میں مصروف تھے۔ ریڈر کو ایک مرتبہ پھر امید لگی جب ڈاکٹر زاہد منیر عامر عالیشان ہوٹل کے جم میں پہنچے تو وہاں ایک دبلی پتلی لباس کا خرچہ برداشت نہ کرنے والی کم لباس لڑکی ورزش کی مختلف مشینوں پر اپنی ٹانگیں، ہاتھ اور کمر مختلف انداز سے ہلاتی اور اٹھاتی نظر آئی۔ اب تو ریڈر کو پوری امید تھی کہ کام بن گیا مگر ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے اس موقع پر جو بتانا شروع کیا وہ جم کی مشینوں سے اُن کی اپنی اٹکھیلیاں تھیں۔ ریڈر بیچارہ اور کیا کہے سوائے اس شعر کے:
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ماریشس میں ادبی شخصیات، کتابوں اور رسائل کا ذکر کیا لیکن پاکستانی قاری اس چیز میں بھی دلچسپی رکھتا ہے کہ آیا وہاں کی ادبی تقریبات میں محترم سپیکرز علم و ادب کی گفتگو میں بڑھ چڑھ کر بولنے کی خواہش کرتے ہیں یابیٹنگ آرڈر میں اپنے نمبر کے باعث اپنی سنیارٹی کا لوہا منوانے کے ادبی کمپلیکس میں مبتلا رہتے ہیں۔ "جزیرے کا خواب" میں مصنف نے ماریشسی لوگوں کے اردو سے گہرے روابط کا دل کھول کر ذکر کیا ہے۔ وہاں کی اردو سپیکنگ یونین، اُن کے صدر شہزاد عبداللہ اور اُن کے دوسرے ساتھی اردو کو ایسے اپنائے ہوئے ہیں کہ شاید پاکستانیوں کو بھی شرم آنے لگے ۔ماریشس میں ہندوستان نے مہاتما گاندھی انسٹیٹیوٹ بنانے کے علاوہ بے پناہ کام کیا ہے مگر پاکستانی حکومت نے وہاں اردو سپیکنگ یونین ماریشس کی طرف سے زمین فراہم کئے جانے کے باوجود اب تک اقبال مرکز قائم نہیں کیا جبکہ اقبال مرکز بنانے کا وعدہ پرویز مشرف نے اپنے دور میں ماریشس کے نائب صدر جناب رئوف بنڈن کے ساتھ ایک ملاقات میں کیا تھا۔ اقبال مرکزکے قیام کا آئیڈیا اُس وقت ماریشس میں پاکستان کے سفیر میجرجنرل (ر) محمد صدیق ملک کا تھا جنہوں نے اِس کے لئے اپنے دور میں بے حد کوشش کی۔ میجرجنرل (ر) محمد صدیق ملک اپنی سفارتی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے باوجود اب بھی ماریشس اور پاکستان کے رشتوں کو مضبوط سے مضبوط کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے سابق سفیر پاکستان میجر جنرل (ر) محمد صدیق ملک کی پاکستان کے لئے ماریشس میں بے پناہ کوششوں کا اپنے سفرنامے میں تحریری اور تصویری بہت ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ماریشس کی ۲۳رنگی مٹی کا بھی بتایا جو دلفریبی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اِن خوشنما رنگوں میں غم کا کوئی رنگ نہیں۔ خدا کرے پاکستان میں بھی ایسا ہو کہ مٹی کے خوشنما رنگ ہوں اور اُن میں خون کا کوئی دھبہ نہ ہو، آمین۔ (یہ مضمون ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے ماریشس کے سفرنامے "جزیرے کا خواب" کی تقریب رونمائی کے لئے لکھا گیا)
بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت
……o ……
رحیلِ کوہ     از: محمد حسین عنقا 
مبصر: محمد رفیق
سرزمینِ بلوچستان کو اللہ تعالیٰ نے بیش بہا قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ اسی وجہ سے روز اول سے تاحال سامراجی اور استحصالی طاقتوں نے ہمیشہ اس سرزمین پر حکمرانی کے خواب دیکھے اور ایک سازش کے تحت وقتاً فوقتاً ان باشندوں کو آپس میں دست و گریباں کر کے اسے تاراج کرتے رہے اور یہ سلسلہ مقامی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک تا ہنوز جاری ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی تدابیر ہم سب سے مختلف ہیں۔ اس نے سر زمین بلوچستان کو محض قدرتی وسائل عطا نہیں کیے بلکہ شخصیات کے حوالے سے بھی بہت زرخیز بنایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان نے بہت ہی لائق فرزندوں کو جنم دیا ہے اور ان لائق فرزندوں نے مختلف اوقات اور مختلف انداز میں ہمہ وقت اپنی مادر وطن کی بھرپور انداز میں پاسبانی کی۔ ان فرزندگان میں کوئی نواب یوسف عزیز مگسی کے روپ میں نمودار ہوا تو کوئی خان عبدالصمد خان اچکزئی کے روپ میں، کوئی عبدالعزیز کرد کی صورت میں آیا ہے تو کوئی سائیں کمال خان شیرانی کی صورت میں، کوئی گل خان نصیر کی شکل میں تو کوئی ماما عبداللہ جان جمالدینی کی صورت میں، کوئی شورش بنگل زئی کی شکل میں ، کوئی پروا نہ کے تخلص میں، کوئی بابا بزنجو کی صورت میں تو کوئی ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی صورت میں ظہور پذیر ہوا لیکن اس قافلے کا ایک اور بھی مجاہد تھا۔ کامریڈ صحافی، شاعر و ادیب، دانش ور اور ایک بڑا ترقی پسند، محمد حسین عنقا ۔ یقیناً بلوچستان ہمیشہ سے دنیا کے جغرافیے اور تاریخ میں اپنا نام زندہ کرتا ہواچلا آ رہا ہے کیونکہ اس کے فرزندگان علم و عرفان کے میدان میں اپنے ہم عصر معاشرے میں اپنے مادر وطن کی عظمت و بھلائی کے لیے ہمہ وقت تگ و دو کرتے چلے آ رہے ہیں۔ زمانے کے نشیب و فراز کی وجہ سے بلوچستان کا عام طبقہ یعنی عوام ہمیشہ محروم و مجبور اور نظر انداز رہا ہے لیکن ان محرومیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو علمی و ادبی ، سیاسی و سماجی اور حصول حقوق کا شعور بھرپور انداز میں دیا ہے۔ جس کی بدولت وہ ہمیشہ نو آبادیات، سامراجی قوتوں، استحصالی قوتوں، جاگیرداروں، نا انصافی کے خلاف طبقاتی نظام اور سماجی اور معاشرتی نا انصافی کے خلاف ہمیشہ نبرد آزما رہے۔ اس سلسلے میں محمد حسین عنقا کا نام نمایاں رہا ہے۔ عنقا صاحب نہ صرف ایک انقلابی شاعر تھے بلکہ وہ ایک سچے اور عوامی دکھ و درد محسوس کرنے والے رہنما تھے۔ انھوں نے انگریز سامراج کے خلاف نہ صرف شاعری کی بلکہ بلوچستان کے کونے کونے میں پیدل جا کر لوگوں میں شعور بیدار کیا۔ جس کی وجہ سے انھیں زندان میں بھی ڈالا گیا۔ ان پر تشدد کیا گیا، ذہنی اذیتیں دیں گئیں۔ ہر طرح کے ظلم و ستم کے تجربے کیے لیکن یہ مرد آہن چٹان کی طرح سینہ سپر رہا۔ اس کے عزائم میں کوئی لغزش نہ آئی۔ آتی بھی کیسے؟ وہ تو مادر وطن کا ایک سچا اور باعزت فرزند تھا۔ جس کے لہو میں بلوچستان اور بلوچیت رچی بسی تھی۔ انھوں نے پوری زندگی بلوچستان اور بلوچیت کے ساتھ عشق کیا۔
عنقا حب الوطنی کے عشق میں پوری زندگی مست رہے۔ انھوں نے بلوچستان کے دوسرے نامور سیاسی رہنمائوں کے ساتھ مادر وطن کی آزادی کے لیے بھر پور جدوجہد کی، جیلیں کاٹیں ، اخبار میں مضامین شائع کیے ، پمفلٹ تقسیم کیے اور انقلابی شاعری کی۔ عنقا کی شاعری میں بلوچستان کی روح سمائی ہوئی ہے۔ اس وقت عنقا کی کتاب ’’رحیل کوہ‘‘ میرے سامنے ہے جو کہ ان کی لائق پوتی علم و ادب دوست شخصیت گلشن آراء عنقا کے بدست موصول ہوئی ہے۔ عنقا کی یہ کتاب پہلی بار ۱۹۳۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ تقریباً پچھتر سال قبل شائع شدہ کتاب نایاب ہو چکی تھی۔ اس لیے گلشن آراء عنقا صد ہا آفرین کی مستحق ہیں کہ انھوں نے دوبارہ کتاب شائع کرائی ہے۔ میں انھیں بھی داد دوں گا جنھوں نے اس بارے میں ان کی بھرپور انداز میں مدد کی۔ جن کی بدولت یہ کتاب ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ ’’رحیل کوہ‘‘ بظاہر ایک چھوٹا کتابچہ ہے ۔ تقریباً آدھا اردو اور آدھا فارسی میں ہے۔ افسوس کہ میں فارسی سے نابلد ہوں۔ البتہ اردو کے کلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ عنقا صاحب کا شاعری کرنے کا واحد مقصد بلوچ اقوام اور بلوچستان کی انگریزوں سے آزادی تھا۔ آئیے میں آپ کو بھی رحیل کوہ کے سفر پر لیے چلتا ہوں۔ کتاب کی پہلی نظم میری اس دلیل اور مؤقف کی تائید و حمایت کے لیے واضح ثبوت ہے کہ عنقا صاحب پیام تحریک کے عنوان سے اپنے رب العالمین سے دست بدعا ہیں کہ اے اللہ ہم نے اپنی قومی تحریک کی بنیاد آپ کی عطا کی ہوئی فطرت کے عین مطابق رکھی ہے۔ ہم نے اپنی غرض و لالچ یا ذاتی مفاد کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ شعر ملاحظہ فرمائیں:
رکھی ہم نے تحریک قومی کی بنیاد
تیری دی ہوئی عین فطرت کے اوپر
اس سے اگلے شعر میں کیا خوبصورت بات کہی ہے۔ کہ ’’میرے اللہ آپ تو ہر چیز پر قادر ہو۔ اس پوری کائنات میں اگر کوئی پتا بھی ہلتا ہے تو اس کا بھی آپ کو بخوبی علم ہے۔ ہماری سرزمین بلوچستان اور بلوچ قوم کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے آپ یہ بس جانتے ہیں مجھے آپ سے گڑگڑا کر دعا کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن کیا کروں چونکہ میں مخلوق ہوں آپ خالق۔ اس لیے مخلوقیت کا یہ تقاضا ہے فرماتے ہیں:
ضرورت نہیں ہے دعا کی و لیکن
میں کرتا ہوں مخلوقیت اپنی ظاہر
اپنی نظم کے مقطع میں کیا خوبصورت تلمیح انھوں نے استعمال میں لائی ہے۔ فرماتے ہیں ’’اے الٰہی ہماری قومی تحریک کی پرورش اس طرح کرکہ جس طرح آپ نے حضرت موسیٰؑ کی پرورش فرعون کے گھر میں کی تھی۔ حالانکہ فرعون موسیٰؑ کا جانی دشمن تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا کرشمہ دکھانے کے لیے حضرت موسیٰؑ کو فرعون کے گھر تک پہنچایا اور وہاں بڑا کیا۔ تو عنقا صاحب یہی عرض کررہے ہیں کہ بلوچ اقوام کے ساتھ بھی یہی موسیٰؑ والا سلوک روا رکھا جا رہاہے اے اللہ حضرت موسیٰ والا معجزہ پھر سے ظہور فرما۔ فرماتے ہیں:
الٰہی ہو تحریک کی پرورش یوں
ہوئی جیسے موسیٰ کی فرعون کے گھر
ایک اور نظم بعنوان ’’سردار‘‘ میں سرداروں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیںکہ اے سردار آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ سردارکیوں ہو؟ اور تمام قوم کی قسمت کی ڈوری آپ کے ہاتھوں میں کیوں ہے؟ شعر ملاحظہ فرمائیں:
ذرا سوچ لو تم ہو کیوں آج سردار
ہو کیوں قوم کی قسمتوں کے عناں دار

فقط اس سبب سے کہ پیدا ہوئے ہو
اس عورت سے جس کا تھا شوہر تمندار

یہ کیوں ورنہ عبدالعزیز ایسا لائق
بنایا نہیں کُرد کا جاتا سردار
نوجوان کسی بھی قوم کاسرمایہ ہوتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ قوموں کی تقدیر کو نوجوانوں نے ہی بدلا ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار باصلاحیت نوجوانوں پر ہوتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اس حقیقت کو جانتے ہوئے عنقا صاحب ایک نظم میں نوجوانوں سے مخاطب ہو کر انھیں حوصلہ و ہمت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔  اے نوجوانو! یہ آپ کی بہادری اور ہمت ہے کہ آپ نے حق سچ کا راستہ اپنایا ہے ۔ محض اس وجہ سے لوگ آپ کی عزت کرتے ہیں اور آپ نوجوانوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ نہیں تو آپ تو نہتے ہو لیکن پھر بھی ریاست کی تمام طاقتیں آپ سے ڈرتی ہیں، فرماتے ہیں:
لی تم نے ہاتھوں میں ہے حق کی طاقت
تمہیں اتنی ہے اہمیت اس کی برکت

یہ ورنہ تم ایسے نہتوں سے کیونکر
پریشان رہتی ہے مسلح حکومت
بلوچوں کی ایک بدقسمتی رہی ہے اور تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بلوچ ہمیشہ چھوٹے چھوٹے مسائل پر طویل ترین جنگی ماحول میں رہے ہیں جس کی وجہ سے ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار رہے ہیں۔ دنیا کے جدید تقاضوں کے بجائے وہ اکثر پرانی سوچ پر عمل پیرا رہے ہیں۔ ہمیشہ بیابانوں میں رہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے۔ اس کے برعکس عنقا صاحب دنیا کی جدید سائنسی ترقی کو بھانپتے ہوئے بلوچوں سے مخاطب ہوتے ہیں کہ آپ ابھی تک غربت میں مبتلا ہوکے دشت و بیابان کی خاک چھان رہے ہو۔ ابھی تک خواب غفلت میں پڑے ہو کہیں بیدار ہو جائو گے کہ نہیں اور آپ کی غربت کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ آپ علم و ہنر سے دور ہو۔ فرماتے ہیں:
کس لیے پھر رہے ہو دشت بدشت
کیا تمہارے نصیب میں غربت ہے

کس لیے پھرتے ہو بیاباں میں
تم کو کیا شہر سے ندامت ہے؟

سب زمانہ بدل چکا پہلو
پھر وہی تم کو خواب غفلت ہے
مزید جھنجھوڑتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے بلوچو خدا کے لیے اٹھو اور سنبھل جائو۔ ہوش کے ناخن لو دنیا کس جانب رواں دواں ہے اور آپ کہاں کھڑے ہو اس طرح  لاچار مجبور بے بس اور بے علم کی سی حالت اپنی کیوں بنا رکھی ہے۔ اپنی سوچ و فکر اور سماجی و معاشرتی زندگی میں تبدیلی لانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے حالانکہ انسان تو ہمیشہ ارتقائی منازل طے کرتا رہا ہے ہمیشہ تگ و دو میں رہا ہے کہ وہ اپنی حالت بہتر سے بہتر کرے۔ لیکن اس کے برعکس آپ تو زمانہ قدیم سے لے کر آج تک اسی حالت میں رہنا چاہتے ہو۔ یکسانیت تو حیوانوں کی خصوصیت ہے جو کہ اپنی حالت بدلنا نہیں چاہتے فرماتے ہیں:
کچھ خدا کے لیے سنبھل جائو
کیوں یہ ایسی تمہاری حالت ہے؟

نہ بدلنا کسی طرح حالت
یہ تو حیوان کی جبلت ہے
بلوچ تحریک کے عظیم رہنما یوسف عزیز مگسی کے بارے میں عنقا صاحب اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہے لاثانی خدا کون و مکاں میں
تو اپنا عکس لا یوسف جہاں میں

زلیخا ہے ترا ہر بچہ قوم
پلٹ دے دہر کو چاہے تو آں میں
ایک اور تحریک کے رہنما عبدالصمد خان اچکزئی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے عنقا صاحب فرماتے ہیں:
اگر گاندھی پر ہندوستان نازاں
صمد پر ہے بلوچستان نازاں

نوازش سے تری مجھ کو یقیں ہے
اٹھے گا خطہ ناداں نازاں
اس کے علاوہ ایک اور بلوچ رہنما میر محمد امین کھوسہ کو عنقا صاحب ان الفاظ سے خراج پیش کر رہے ہیں:
امیں ہے کیا پیارا نام تیرا
ہے ہم سب میں تسلط عام تیرا

ترے ہوتے خیانت کا ہو دورہ
بچا کہ مٹ رہا ہے نام تیرا
کاتب تقدیر نے بلوچوں کے مقدر میں حوشیاں شاید نہیں لکھیں تھیں کہ روز اول سے بلوچ قوم خوشیوں سے محروم چلی آرہی ہے۔ ہر زمانے میں بلوچ مصیبتوں کا شکار رہے کوئی بھی دور ہو مختلف انداز میں بلوچوں پر نزلہ گرتا رہا،ظاہر ہے انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ پھر انسان شکوہ پر اتر آتا ہے۔ علامہ اقبال جیسے عظیم شاعر نے اسی تناظر میں شکوہ اور جواب شکوہ لکھا تھا۔ یقیناً عید کے موقع پر عنقا صاحب کے بلوچستان پر کوئی مصیبت گری تھی کہ عید کا چاند نظر آنے پر عید چاند سے شکایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔’’اے عید آپ تو خوشیوں کی علامت ہو عید کا نام سنتے ہیں دلوں میں خوشیاں پھوٹنے لگتی ہیں۔ مگراے عید کیا وہ خوشیاں مجھے عنایت کر سکتی ہو کہ جس میں میری قوم کی بھلائی اور ترقی کا راز چھپا ہوا ہے یا پھر گزشتہ عید کی طرح تم بھی ہم بلوچوں پر مصیبتیں نازل کرنے کے لیے آئی ہو۔ اگر محض غم و الم ہمیں دینا مقصود ہے تو پھر ہم کبھی تمہاری آمد نہیں چاہیں گے:
کیا کبھی پوری کرو گے بھی وہ اَن بجھ آرزو
جس میں پنہاں قوم کی آسودگی کا راز ہے

یا گزشتہ عید کی تو ہو بہو تقلید میں
اک نئی آفت نئے اندوہ کا آغاز ہے
دیکھنا ہرگز نہ چاہیں گے تری آئند عید
گر یہی تیری روش ہے گر یہی انداز ہے
وطن سے عشق و محبت اور وطن کے باسیوں سے اخلاص و سچائی ایک انسانی فطری جذبہ ہے لیکن پھر حساس طبیعت لوگ تو مزید اس جذبے میں دوہاتھ آگے ہیں۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی فرماتے ہیں کہ ہزار لعنت ہے اس شخص پر جس نے وطن کو بھلایا۔ عنقا صاحب ناگزیر وجوہات کی وجہ سے مختصر عرصے کے لیے بلوچستان سے باہر رہے تو یقیناً وطن کی یاد انھیں تڑپاتی رہی اور وطن انھیں کوستا رہا جس پر انھوں نے شکوہ کے انداز میں وطن سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا ہے کیونکہ انگریز سامراج نے ان کے لیے وطن میں رہنا ہی ناقابل معافی جرم قرار دیا تھا:
وطن کی یاد نے پھر دل پر آ قبضہ جمایا ہے
پھر اپنے نشتر خونیں ادا سے کارفرما ہے

پھر اپنے دل کی ہر رگ سے ابل کر خون بہتا ہے
پھر اپنے سیل تندخوں سے یہ نالہ نکلتا ہے

تو کسی خوبی پہ دعوت اے وطن دیتا ہے آنے کی
نہ آئوں گا نہ چھیڑو کیوں یہ سوجھی ہے ستانے کی
پھر عنقا صاحب کی جانب سے وطن کا جواب شکوہ بھی سنو:
ہے حد ہر چیز کی یہ حد میں رہنا چاہیے تجھ کو
نہ یوں جذبات کی موجوں میں بہنا چاہیے تجھ کو

سمجھ کر سوچ کر معقول کہنا چْاہیے تجھ کو
کہوں کچھ میں اگر تجھ سے تو سہنا چاہیے تجھ کو
میں دعوت اس لیے دیتا ہوں تجھ کو یاں پر آنے کی
کہ پوچھوں تجھ کو آخر کیوں یہ سوجھی بھاگ جانے کی
شروع دن سے آج تک ہمارے قومی رہنما، شاعر و ادیب، صحافی باشعور سیاسی لوگ چیخ چیخ کے یہ کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان کا جو اصل مسئلہ ہے یا تو یہ ایوانوں میں بیٹھے لوگ اسے سمجھ نہیں رہے ہیں یا پھر ان کی نیتوں میں فتور ہے کہ جان بوجھ کر اسے مزید الجھا رہے ہیں۔ عنقا صاحب فرماتے ہیں اس وقت کے فرنگیوں کے بارے میں تو یہ غیر لوگ جنھیں بلوچ نسل، بلوچ رسم و رواج، بلوچ تہذیب و تمدن کا کچھ علم ہی نہیں ہے وہ بلوچستان کو کیا سمجھیں گے:
یہ ہم سے پوچھ لیں آ کر بلوچستان کے اسرار
بلوچستان کی باتیں بھلا سمجھیں گے کیا اغیار

ہماری نسل کی اور دین کی کرتے نہیں ہیں جانچ
اگر یہ دیکھتے ہیں تو فقط عشرت زدہ سردار
آزادی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد منش پیدا کیا ہے لیکن دنیا میں ایک ایسا طبقہ ہے جو مخلوق خدا کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ ہوس زر اور ہوس حکمرانی کے نشے میں دُھت اندھا طبقہ، استحصالی طبقہ، سرمایہ دار طبقہ ، جاگیردار طبقہ، سامراج طبقہ اور اس طبقے کے پجاری جاہل لوگوں نے ہمیشہ لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر انھیں غلام بنانا چاہا۔ ان کی مادر پدر آزادی کو غصب کیا یقیناً آزادی کی قدر و اہمیت کو ایک آزاد سوچ اورآزاد فکر رکھنے والا انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ اس طرح عنقا لفظ آزادی سے شکوہ کناں ہے۔ ذرا توجہ سے ملاحظہ کیجیے:
تو اب کیوں مشرقیوں سے جدا ہے
بتا کیا دکھ تجھے ہم نے دیا ہے

خطا وہ کون سی ہم سے ہوئی ہے
بنا پہ جس کی تو ہم سے جدا ہے
مضمون کی طوالت سے بچتے ہوئے محض یہ عرض کروں گا کہ عنقا صاحب کی دور اندیشی کا اندازہ تو دیکھیے کہ انگریز سامراج کے خلاف اس دور کے تقاضوں کے تحت لکھے ہوئے اشعار آج بھی بلوچستان کے معاملے پر سو فی صد صادق آ رہے ہیں۔ میرے خیال میں کسی کی دانشمندی کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے ’’رحیل کوہ‘ میں بے شمار موضوعات پر کافی تعداد میں نظمیں ہیں جو کہ پڑھنے کے لائق ہیں مگر مضمون کے آخر میں اس نظم کو پڑھ کر لطف اٹھائیے اور عنقا صاحب کے حق میں مغفرت کی دعا کیجیے:
عدوئوں میں ہے یہ گفت و شنید آج
کہ مرتا ہے ’’بلوچستان جدید‘‘ آج

بلوچستان کے خود غرض سردار
سنیں آزاد ہونے کی نوید آج

یہ ظالم کہتے ہیں اک دوسرے سے
کہ آئو سب منائیں مل کے عید آج

حق و باطل ہوئے ہیں پھر مقابل
ہے واللہ معرکہ سنایان دید آج

ہے کوئی گر بلوچستان میں ایسا
کرے ناموس قومی کو خرید آج
آخر میںیہی دعا ہے کہ خدا ان کے پسماندگان کو توفیق اور وسائل عطا کرے کہ وہ عنقا صاحب کا غیر مطبوعہ مواد شائع کرکے علم و ادب کے شائقین تک رسائی ممکن بنا سکیں۔
قیمت:=/۱۷۵روپے     صفحات:  ۱۴۴
ناشر:ادارہ حرف و قلم گلشن اتحاد، کوئٹہ 
……o ……
یاقوت کے ورق     از: علی اکبر ناطق
مبصر: پروفیسر ڈاکٹر رشید امجد
’’یاقوت کے ورق‘‘ علی اکبر ناطق کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جس میں ان کی دو نظمیں شامل ہیں جو پچھلے کچھ عرصہ میں مختلف رسائل میں چھپ کر اہل علم سے دادِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ علی اکبر ناطق افسانہ نگا ربھی ہیں اور ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔ زمانی اعتبار سے دیکھا جائے وہ ہماری جدید ترین نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے پچھلے دس برسوں میں لکھنا اور چھپنا شروع کیا۔ مجھے یاد ہے کہ ۲۰۰۸ء میں جب میں اکادمی ادبیات پاکستان کے لیے اردو شاعری کا ایک انتخاب مرتب کر رہا تھا جس کا دورانیہ ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۸ء تک تھا تو علی اکبر ناطق سے جو اس وقت اکادمی میں کام کر رہے تھے اور نمل میں ایم اے اردو میں میری کلاس میں تھے، مجھے اپنی ایک نظم دی کہ میں اسے اس مجموعے میں شامل کر لوں۔ نظم لیتے ہوئے مجھے احساس تھا کہ اول تو علی اکبر ناطق اکادمی میں ہے اور دوسرے ابھی وہ بہت نیا ہے ایسا نہ ہو کہ اس کی شمولیت کسی اعتراض کا سبب بنے لیکن جب میں نے نظم پڑھی تو میں نے فیصلہ کیا کہ اس نظم کو انتخاب میں ضرورشامل ہونا چاہیے۔ اس وقت اس کی افسانہ نگاری کا بھی آغاز ہو رہا تھا۔ شاید میں نے اسے مشورہ دیا تھا کہ دو کشتیوں میں پائوں نہ رکھے کیونکہ اس طرح کسی ایک سے انصاف ممکن نہیں لیکن ناطق نے بعد میں ثابت کر دیا کہ وہ دونوں کا شناسا ہے۔ اس نے جس طرح افسانے میں سادہ بیانیہ کے باوجود اپنی انفرادیت قائم رکھی اسی طرح شاعری میں بھی اپنا اعتبار قائم کیا۔
نظم کہنے میں اس کا اپنا انداز ہے۔ نظم گو افسانہ نگار بھی اور نظم کے مزاج کا شناسا بھی ہو تو کیا بات ہے۔ نظم میں ایک افسانوی مزاج اور رنگ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی خوبی ناطق کی نظم کو ان کی انفرادی پہچان بناتی ہے، اس کی نظم کی ابتداء ہی ایک کہانی گو کے سے انداز میں ہوتی ہے۔
عصا بیچنے والو آئو مرے شہر آئو
کہ لگتی ہے یاں پر عصائوں کی منڈی
ہرے اور پچکیلے بانسوں کے ،شیشم کی ِمضبوط لکڑی کے عمدہ عصا بک رہے ہیں (عصا بیچنے والو)
یا پھر
میں غنودگی سے رہا ہوا تو کھلا یہ مجھ پہ معاملہ
مرے ہم نفس سرِ شام ہی مری بستیوں سے چلے گئے
نظم کی ابتداء کا یہ انداز تقریباً ہر نظم میں موجود ہے۔ یوں لگتا ہے کوئی تہری کہانی شروع ہونے والی ہے جو اپنے فنی مراحل سے گزر کر ایک نقطۂ عروج پر جا دم لیتی ہے۔
ترے مکاں کے بام پر دیوں کی ہلکی روشنی
ستا رہی ہے رات کو، بڑھا رہی ہے خامشی
اس مہیب خامشی میں دو قدم دبے دبے
کبھی وہ چل کے رک گئے، کبھی وہ رک کے چل پڑے
وہ چل پڑے تو زندگی کا نور پھیلنے لگا
جو رک گئے تو تھم گئی ہے نبض کائنات کی
یہ مثال اس فنی ٹریٹ منٹ کی ہے جو ناطق نظم کہتے ہوئے ذہن میں رکھتا ہے۔ اس وقت ہماری نظم کے دو متضاد دھارے موجود ہیں۔ اول وہ نظم جو اپنی غنائی کیفیت میں غزل کی غنائیت کے زیر اثر ہے۔ دوسرے وہ نظم جو غزل سے اپنی غنائیت کو علیحدہ کر کے اپنے علیحدہ وجود کا اعلان کرتی ہے۔ پہلی صورت دراصل بند نظم سے جنم لیتی ہمارے عہدتک آتی ہے۔ دوسری صورت میرا جی سے شروع ہوتی ہے اور مجید امجد، وزیر آغا سے ہوتی ہوئی جدید شاعروں تک آتی ہے۔ علی اکبر ناطق اس دوسری صورت کا شاعر ہے۔ اس کی نظم میں نغمگی موجود ہے لیکن یہ غزل کی غنائیت سے علیحدہ ہے۔
جیسا کہ کہا گیا ہے ناطق کی نظموں کا آغاز کہانی کے سے لہجے اور انداز میں ہوتا ہے۔
سفیرِ لیلٰی یہی کھنڈر ہیں جہا ں سے آغازِ داستاں ہے
ذرا سا بیٹھو تو میں سنائوں
فصیلِ قریہ کے سُرخ پتھر اور اُن پہ اژ در نشان بُرجیں گواہ قریہ کی عظمتوں کی
(سفیر لیلیٰ۔۱)
سفیرِلیلیٰ یہ کیا ہوا ہے
شَبوں کے چہرے بگڑ گئے ہیں
دِلوں کے دھاگے اُکھڑ گئے ہیں
شفیق آنسو نہیں بچے ہیں، غموں کے لہجے بدل گئے ہیں
تمھی بتائو کہ اس کھنڈر میں، جہاں پہ مکڑی کی صنعتیں ہوں
جہاں سمندر ہوں تیرگی کے
سیاہ جالوں کے بادباں ہوں
جہاں پیمبر خموش لیٹے ہوں، باتیں کرتی ہوں مُردہ روحیں
سفیرِ لیلیٰ تُمھی بتائو جہاں اکیلا ہو داستاں گو
وہ داستاں گو، جسے کہانی کے سب زمانوں پہ دسترس ہو
شبِ رفاقت میں طُولِ قصہ چراغ جلنے تلک سنائے
جِسے زبانِ ہنر کا سودا  ہو  زندگی کو سوال سمجھے
وہی اکیلا ہو اور خموشی ہزار صدیوں کی سانس روکے
وہ چُپ لگی ہو کہ موت بامِ فلک پہ بیٹھی زمیں کے سائے سے کانپتی ہو
(سفیر لیلیٰ۔ ۳)
یہ چند مثالیں علی اکبر ناطق کے فنی اور تخلیقی عمل کی نشاندہی کرتی ہیں۔ انھیں زبان پر دسترس ہے۔ لفظوں کی اہمیت کا احساس ہے اور ان کے استعمال کا سلیقہ۔ جس کی وجہ سے مصرعہ نہ صرف پکڑتا ہے بلکہ ایک زینہ کی طرح اگلے مصرعے کی معنویت میں لے جاتا ہے۔ یوں ہر مصرعہ دوسرے سے جڑا ہوا اور ارتقائی عمل سے گزرتا اس اکائی کی تکمیل کرتا ہے جو عنوان اور موضوع سے متعلق ہے۔ ہر نظم ایک تخلیقی بہائو اور روانی کی مظہر ہے۔ ایسی روانی ان کی نسل کے بہت کم شعراء کو نصیب ہوتی ہے۔ فنی پختگی اور فنی ریاضت کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔ مصرعہ کی بنت کاری شاعر کی محنت ، فن سے واقفیت اور اس کے تخلیقی عمل کی پیچیدگی اور خلوص کا اظہار کرتی ہے۔ اس نسل کے اکثر شاعر فنی ریاضت اور محنت سے جی چراتے ہیں۔ ناطق کو یہ اختصاص ہے کہ وہ موضوع اور فن دونوں کی اہمیت سمجھتے ہیں۔ یہ چند باتیں علی اکبر ناطق کے فن نظم گوئی کے حوالے سے تھیں، اب کچھ ذکر ان کے موضوعات کا ۔ وہ کہتے ہیں:
’’میں شعر نہیں کہتا جب تک میرے پاس مسئلہ نہ ہو اور مسئلہ بیان نہیں کرتا جب تک وہ شعر نہ بنے‘‘۔
یہ بیان ان کے پورے فنی اور تخلیقی معاملات کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ موضوع کی اہمیت کے قائل ہیں اور فنی حسن اور رچائو کی ضرورت کو بھی سمجھتے ہیں۔ اپنی نظموں کے بارے میں بھی ان کا بیان بڑا جامع اور معنی خیز ہے۔
’’یہ دل سے دل تک کا سفر ہے جو لفظوں کے معصوم پرندوں کے پروں پر ہوتا ہے‘‘۔
اس کے موضوعات آج کی زندگی سے جنم لیتے ہیں۔ سیاسی سماجی پس منظرمیں ایک نوجوان کی زندگی کرنے کے انداز ، اس کے خیالات، تمنائیں اور خواب ایک اثر انگیز لہجے، زبان اور فنی بنت میں قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ یہ مجموعہ اس کا دوسرا پڑائو ہے، آگے ایک لمبا سفر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اپنے اس سفر میں وہ کئی یادگاریں بنائے گا۔
……o ……
سرائیکی وسیب دا مہاندرا لکھاری ۔ڈاکٹر سید قاسم جلال 
از:  جمشید اقبال
مبصر: پروفیسر ڈاکٹر مختار ظفر
شعر و ادب کی دنیا میں کم شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا ذہنی تناظر کثیر الجہتی (Dimensional )اور تخلیقات، تنوعات پر محیط ہوتی ہیں، ایسے لوگوں کا مشاہدہ بھی بوقلموں ہوتا ہے اور اظہار بھی کئی رنگی دھاروں میں امنڈتا ہے، جس کے نتیجے میں ان کی نگارشات شعر و ادب کی متعدد اصناف میں اپنے حسن کی تابانیاں دکھاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کو اکائی کی صورت میں ہی نہیں دیکھتے بلکہ ان کی حسیات کا تنوع، زندگی کی قوسِ قزح میں جھانکتا ہے جس کا ہر رنگ ان کی جمالیاتی حِس اور تخلیقی اُبال کو متحرک کرتا ہے جو رنگا رنگ تخلیقات کی صورت میں جلوہ سامان ہوتا ہے۔ ایسی شخصیتیں اپنی ذات میں انجمن کہلاتی ہیں۔ ڈاکٹر سید قاسم جلال کا شمار بھی انہی میں ہونا چاہیے۔ ایک علمی خانوادہ کے چشم و چراغ، اردو، سرائیکی اور فارسی شاعری کا تخلیق کار، تنقید نگار اور افسانہ نگار اور مترجم، پھر مبصر، مقرر اور نغمہ نگار… اب تک سترہ کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں اور اہل علم و ادب سے داد پا چکی ہیں ۔ یوںانھوں نے نہ صرف اپنے علمی خانوادے کی تصنیفی شان کو برقرار رکھا بلکہ اس کے معیار اور وقار میں اس دعوے کے ساتھ اضافہ کیا۔
ہم سنواریں گے زلفِ منزل کو
ہم کریں گے رہِ سفر آباد
جواں سال شاعر، افسانہ نگار اور نقاد جمشید اقبال علم و ادب کے گوہر آب دار کی تلاش میں رہتے ہیں، تاکہ اس کی تخلیقی و فکری آب وتاب سے جویانِ شعر و ادب کے اذہان کو مستنیر کریں۔
’’سرائیکی وسیب دا مہاندرا لکھاری‘‘ اسی سلسلے کی قابل قدر کاوش ہے، مشمولات میں مختلف لکھاریوں کے مضامین کا حسن انتخاب اور ترتیب اس حقیقت پر دال ہے کہ مرتب نے اپنی منتخب شخصیت کے ہر قلمی پہلو کو اُجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔ یہ سعیِ جمیل بجائے خود ایک اچھے وژن کی نشاندہی کرتی ہے۔
ناشر:       پیس پبلی کیشنز، بہاولپور
……o ……
رموز ِعرفاں    از: سید قاسم جلال 
مبصر: ڈاکٹر اسلم فرخی
قاسم جلال بڑی محبت کے آدمی ہیں۔ بڑوں اور چھوٹوں دونوں سے یکساں محبت سے پیش آتے ہیں۔ علم دوست اور ادب دوست ہیں۔ انھوں نے زندگی کا معتدبہ حصہ ادبی مشاغل کے سہارے گزارا ہے۔ حلقۂ احباب میں معتبر اور مقبول ہیں۔ شعر و ادب کی محفلوں میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ اردو اور سرائیکی دونوں زبانوں میں شعر کہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں۔
علمی و ادبی فضائوں نے ان کی صلاحیتوں کو بڑی خوبی سے پروان چڑھایا ہے اور ان کاشمار ملک کے ممتاز اہل قلم میں ہوتا ہے۔
سید قاسم جلال صرف شاعری ہی کے مردِ میدان نہیں نثر بھی بڑی اچھی لکھتے ہیں اور ادبی تحقیق و تنقید سے شغف رکھتے ہیں۔
سید قاسم جلال غزل کے ساتھ ساتھ نظم بھی بڑی توجہ سے کہتے ہیں اور معلوم موضوعات میں ایک نیا حسن اور کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ ان کی منظومات کے مجموعے ’’رموزِ عرفاں‘‘ کے نئے ایڈیشن کا مسودہ میرے سامنے ہے۔ یہ مجموعہ حمد، نعت، منقبت اور طویل نظموں پر مشتمل ہے۔  حمد، نعت اور منقبت میں ان کا انداز والہانہ، دلپذیر اور پُر تاثیر ہے۔ انھوں نے اپنے وجود کی پوری قوت ، صلاحیت اور محبت کو اپنی عقیدت کے اظہار میں بڑی خوبی سے نمایاں کیا ہے، ان کی عقیدت کا وفور اور اس کی قبولیت ان کے اس قطعے سے بخوبی نمایاں ہے۔
جلال بادِ صبا آئی ہے مدینے سے
ترا سلام محبت قبول ہوتا ہے
سید قاسم جلا ل کا دل اور ذہن ذوقِ اصلاح سے سرشار ہے۔ انھیں اپنے معاشرے کی بے وقعتی ، نا توانی، عصبیت اور ظلم و تشدد کا شدید احساس ہے۔ انھوں نے پاک صاف اور سچے دین کو اجارہ داروں کی اجارہ داری کا ذریعہ اور نفرتوں کا مظہر بنتے دیکھا ہے اور اس صورت حال پر خون کے آنسو بہائے ہیں جو ’’رموز عرفاں‘‘ کی طویل نظموں میں ایک سوالیہ نشان بن کر بھی ابھرے ہیں۔
سید قاسم جلال خوش فکر شاعر ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی فکر اور فن دونوں میں زیادہ پختگی پیدا ہو گی اور ان کا کلام قارئین کے حلقے میں اور زیادہ مقبول ہو گا۔
ملنے کا پتا: جبران اشاعت گھر، ۱۰۲۔ عائشہ منزل، اردو
بازار، کراچی ۷۴۲۰۰
الجلال، ۲۳ چیمہ ٹائون، بہاولپور
……o ……
’’انجمن فیض الاسلام کی اصلاحی اور فلاحی خدمات کا جائزہ:  تاریخ کے آئینہ میں‘‘  تکمیل و تدوین: ڈاکٹر محمد میاں صدیقی
مبصر: پروفیسر نیاز عرفان
یہ کتاب انجمن فیض الاسلام، راولپنڈی کی با تصویر مختصر تاریخ ہے جو کئی سال کی محنت اور انتظار کے بعد منصۂ شہود پر آئی ہے۔ کتاب کا نام عام روایت سے ہٹ کر طویل نظر آتا ہے۔ اگر کتاب کا نام ’’تاریخ انجمن فیض الاسلام‘‘ رکھا جاتا اور اس کا موجودہ طویل نام اس کا ذیلی نام بنا دیا جاتا تو زیادہ موزوں ہوتا۔ میاں محمد صدیق اکبر، صدر انجمن کے تحریر کردہ ’’اظہار تشکر‘‘ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب کی تدوین و تالیف انجمن سے متعلق کئی اصحاب کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ایسی تدوین میں ایک خوبی بھی ہوتی ہے اور ایک خامی بھی۔ خوبی یہ کہ یہ ہر مولف کا تجربہ ، مشاہدہ اور معلومات کا نچوڑ ہوتی ہے۔ اس میں سے بیشتر دنیاء فانی میں نہیں رہے۔ اگر ان کی زندگی میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات اس وقت ضبط تحریرمیں نہ لائے جاتے تو بعد میں ان میں سے بعض بلکہ اکثر کتاب میں جگہ پانے سے رہ جاتے۔ خامی یہ ہوتی ہے کہ اس میں تسلسل اور لوازمے کی منطقی ترتیب کا امکان کم ہوتا ہے۔ اگر کتاب صرف ایک مصنف یا مؤلف کی تخلیق ہو تو کتاب اس خامی سے مبرا رہ سکتی ہے۔
دو خوبیوں نے کتاب کو قارئین کے لیے دلچسپ بنا دیا ہے۔ ایک یہ کہ اس میں انجمن کے ابتدائی سالوں سے لے کر اب تک اہم مواقع کی چیدہ چیدہ تصاویر شامل کر دی گئی ہیں۔ دوسری یہ کہ اس میں قائداعظم محمد علی جناح سے لے کر اب تک مختلف مواقع پر انجمن کادورہ کرنے والی چیدہ چیدہ نامور شخصیات کے مہمانوں کی کتاب میں اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریروں کی عکسی نقول چھاپنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ تاہم اگر قائداعظم کے جاری کردہ چیک کی تصویر بھی چھاپی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔
اس کتاب کی تالیف نے انجمن کی مجلس منتظمہ کے ذہنوں میں اکثر پیدا ہونے والے اس سوال کا جواب بھی فراہم کردیا ہے کہ انجمن و عطیہ شدہ مختلف جائیدادیں کہاں کہاں ہیں۔ ان کے معطی کون کون تھے یا ہیں اور ان کی تفاصیل کیا کیا ہیں۔ میں نے کتاب کی مدد سے جائیدادوں کی فہرست مرتب کی ہے جس کی رو سے ان کی تعداد انیس ہے اور خرید کردہ جائیدادوں کی تعداد تین ہے۔
کتب کی خوبیوں کا ذکر تو ہو چکا اب کتاب میں اصلاح طلب باتوں کا ذکر بھی ہو جائے۔ اصلاح طلب باتوں کو اغلاط کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ راقم الحروف نے اپنی عادت کے مطابق کتاب کا مطالعہ کرتے وقت اصلاح طلب نکات پر کچی پنسل سے نشان لگا لیے تھے، جو کافی تعداد میں ہیں۔ اگر طباعت سے پیشتر مناسب پروف خوانی ہو جاتی تو کتاب اغلاط سے مبرا حالت میں چھپ جاتی۔ اصلاح طلب نکات پر درج ذیل ذیلی عنوانات کے تحت بات ہو سکتی ہے۔
اصطلاحات کا معاملہ
کتاب میں انجمن کو ملنے والی جن جائیدادوں کا ذکر ہوا ہے وہ ’’عطیہ‘‘ ہوئی ہیں مگر تقریباً سبھی کو ’’ودیعت کردہ‘‘ لکھا گیا ہے۔ ’’عطیہ ‘‘ اور ’’ودیعت‘‘ کی اصطلاحات کو ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے۔ ، دراصل ایسا نہیں ہے۔ ’’ودیعت‘‘ کا مطلب ’’امانت‘‘ ہوتا ہے۔ اسے عموماً ’’صفات کے لیے بولا جاتا ہے۔ جیسے’’اللہ نے انسانوں میں ایثار و قربانی کا جذبہ ودیعت کیا ہے‘‘۔ ایک آدھ جگہ ’’عطیہ‘‘ کی بجائے ’’تولیت‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال ہوئی ہے۔ ’’عطیہ ‘‘ اور ’’تولیت‘‘ بھی ہم معنی نہیں۔ ’’تولیت‘‘ ایک قانونی اصطلاح ہے جس کا مفہوم ’’جائیداد کی عارضی انتظام و انصرام اور نگرانی ہوتا ہے یہ لفظ عموماً کم عمر وارث جائیداد کی طرف سے کسی کے اس کی طرف سے اس کے سن بلوغ کو پہنچنے تک کے عرصے کے لیے انتظام و انصرام‘‘ کے لیے بولا جاتا ہے انگریزی میں ’’تولیت‘‘ کے لیے guardianshipکی اصلاح مخصوص ہے۔ راقم کو علم نہیں ہے کہ جن جائیدادوں کو عطیہ کی بجائے ’’تولیت‘‘ لکھا گیا ہے۔ کیا واقعی وہ انجمن کے لیے مستقل دوامی عطیہ نہیں بلکہ کسی نابالغ وارث کی طرف سے اس کے سن بلوغ کو پہنچنے کی مدت تک انجمن کو نگرانی ، انتظام و انصرام کے لیے ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ ’’عطیہ‘‘ کی صحیح متبادل اصطلاحات ’’تحفہ‘‘ اور ’’ہدیہ‘‘ ہیں۔
انگریزی لفظ  Technicalکا اردو ترجمہ عموماً ’’فنی‘‘ کیا جاتا رہا ہے اور اس کتاب میں بھی ’’فنی‘‘ ہی درج ہے جبکہ لفظ Artistic کا ترجمہ بھی فنی کیا جاتا ہے۔ مقتدرہ قومی زبان کا اصطلاحات کے ضمن میں فیصلہ ہے کہ انگریزی یا کسی بین الاقوامی اصطلاح کا اردو مترادف ایک ہی ہونا چاہیے، غیر ملکی زبانوں کی دو اصطلاحات کا اردو مترادف ایک نہیں ہونا چاہیے۔ اس اصول کے تحت لفظ Artisticکا اردو مترادف ’’فنی‘‘ تو درست ہے لیکن Technicalکا اردو ترجمہ فنی درست نہیں ہے۔ اب عرب ممالک میں لفظ Technicalکی تعریب کر کے ’’تکنیکی‘‘ کی اصطلاح اختیار کر لی گئی ہے۔ اسی طرح تورید کر کے Technicalکا ترجمہ ’’تکنیکی‘‘ کیا جانے لگا ہے۔ چنانچہ مناسب ہو گا کتاب کی اگلی اشاعت میں Technicalکے لیے لفظ ’’فنی‘‘ کی بجائے ’’تکنیکی‘‘ کا لفط لکھا جائے۔
واقعات کی تاریخوں کی غلطی اور عدم ترتیبی
کتاب کے صفحہ ۱۴ پر لکھا ہے: ’’پنجاب پر سکھوں نے ۱۹۷۵ء میں قبضہ کر لیا‘‘ ، جو مضحکہ خیز ہے۔ پنجاب پر سکھوں کے قبضے کی صحیح تاریخ معلوم کرنے کے لیے راقم کو لائبریری میں جا کر تاریخ پنجاب اور تاریخ ہندوستان پر اردو اور انگریزی میں متعدد کتابوں کو کھنگالنا پڑا تب جا کر پنجاب پر سکھوں کے پہلی دفعہ قبضے کی صحیح تاریخ معلوم ہوئی جو ۱۷۵۸ء ہے نہ کہ ۱۹۷۵ئ۔ اس کے علاوہ کتاب کے صفحہ ۳۹ پر انجمن کے ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے باقاعدہ افتتاح کے بارے میں تحریر ہے کہ یہ ’’اس وقت کے صدر مملکت محمد رفیق تارڑ نے یکم ستمبر ۱۹۸۳ء میں کیا تھا‘‘۔ ۱۹۸۳ء میں پاکستان کے صدر محمد رفیق تارڑ نہیں بلکہ محمد ضیاء الحق (مرحوم) تھے۔ انسٹی ٹیوٹ کی دیوار پر نصب ’’سنگ افتتاح‘‘ پر ۲ ؍ اپریل ۱۹۹۸ء لکھا گیا ہے اور وہی صحیح ہے۔
کتاب میں بعض اہم واقعات کا ذکر تو کیا گیا ہے مگر ان کی تاریخیں درج نہیں۔ قاری کو ان کی تاریخوں کے بارے میں تجسس رہتا ہے۔ مثلاً مشہور و معروف ماہر تعلیم فیض الاسلام ہائی سکول ٹرنک بازار کے ہیڈ ماسٹر شیخ حبیب احمد کے تقرر کا صفحہ ۳۲ پر ذکر ہے مگر ان کے تقرر کی تاریخ درج نہیں اگر تاریخ بھی دے دی جائے تو مناسب ہو گا۔ صفحہ ۲۶ پر ماہنامہ فیض الاسلام کے ۱۹۴۹ء میں اجرا کا ذکر تو کیا گیا ہے۔ اجرا کے مہینے کا ذکر بھی ہو جاتا تو بہتر تھا۔ صفحہ ۳۲ پر ہی راجا محمد ایوب کی طرف سے چار کنال زمین مع ایک پرانی مسجد کے عطیہ کا ذکر ہے لیکن تاریخ درج نہیں ہے جبکہ زمین/اراضی کے باقی ۱۹ عطیات کی تاریخیں درج ہیں۔
ہجوں کی اغلاط
عام طو ر پر کتابوں میں ہجوں کی اغلاط زیادہ پائی جاتی ہیں لیکن خوش قسمتی سے زیر تبصرہ کتاب میں ہجوں کی اغلاط بہت کم ہیں۔ جن کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔
نمبر شمار
صفحہ
سطر
غلط
صحیح
کیفیت
۱
۳۰
۶
جودت طبعی
جودت طبع

۲
۳۴
۶
اب نو منتخب
نو منتخب
اب کا لفظ فالتو ہے
۳
۳۷
نیچے سے ۵
ودیت
ودیعت
ویسے لفظ عطیہ ہونا چاہیے
۴
۳۷
نیچے سے ۴
کئی عرصہ تک
کافی عرصہ تک

۵
۴۶
نیچے سے ۴
بے سہارہ
بے سہارا

……o ……
سخن آئینہ   از: مظفر ایرج
مبصر:ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی

کتاب میلہ
مظفر ایرج غزل اور نظم کے شاعر ہیں ان کے کلام کے پانچ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ابجد، ۱۹۸۳ انکسار، ۱۹۸۸ء ثبات، ۲۰۰۷ ء دل کتاب، ۲۰۰۹ء اور ہوادشت، دیار ۲۰۰۹ء سے وہ شعری پیکر مجسم کرتے رہے ہیں۔ مظفر ایرج غالب اور ابن صفی کے طرفدار ہیں۔ جن کی تخلیقانہ شخصیت مختلف جہتیں اور حوالے رکھتی انھیں اپنے شاعر ہونے کا ادراک ہے۔ اسی لیے سخن فہمی کے مہکتے پھول کی لطافت سے باغ اردو کو معطر کر رہے ہیں اور گرم دم جستجو کی دستک دیتے نظر آتے ہیں۔ وہ افکار کی نشوو نما اور تعین قدر کے لیے خاص فکر کو بروئے کار لاتے ہیں۔ جس کا ذائقہ ہم عصروں سے الگ ہے۔ مافی الضمیر بیان کرتے وقت مظفر ایرج استعارات و علامات سے کام لیتے ہیں۔ حمد اور نعت میں ایسا فکری منظر نامہ کم پڑھنے کو ملتا ہے۔
مظقر ایرج کی غزلوں کی معطر فزا میں فن کے ساتھ فکر اور فلسفہ زندگی کے بہت سارے راز بطون میں پوشیدہ نظر آتے ہیں جن میں زبان و بیان کی رنگینیاں ہیں تو دوسری طرف مشاہدے کی تصنف آفرینیاں بھی۔ انسانی فطرت رنگ اور کیفیات کی حامل ہے جو رزم وبزم، خلوت و جلوت ، ناز و نیاز، ہجر و وصال غرض ہر میدان اور ہر مقام علیحدہ عمل کی عکاس ہے۔ مظفر ایرج کا یہ وصف ہے کہ وہ ہر چیز کو اور ہر عمل کو ایک نئے پہلو سے دیکھتے ہیں، انوکھے زاویے سے پرکھتے ہیں اور دل فریب انداز میں بیان کرتے ہیں۔
مظفر ایرج کی غزل میں قدم قدم پر فکر و نظر کی ایسی شمعیں فروزاں ہیں جو احساس ضیاء دیتی ہیں۔ ان کے ذہن کے گوشے میں ہزار ہا موضوعات مچلتے ہیں ارض و سماء کی حقیقتوں کوجیسے چاہتے ہیں، قلب و ذہن کی تابندگی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ مظفر ایرج کی نظمیں طویل ہوتی ہیں۔ ان میں تھرتھراہٹ ہے، تمتماہٹ ہے، سرسراہٹ ہے اور سنسناہٹ بھی۔ نفسیات سے کام لے کر انھوں نے افکار و خیالات کو جلا بخشی ہے اور شاعری کو بیکراں بو قلمونی عطا کی ہے۔ حقیقت پسندی ، عصر نگاری اور صداقت بیانی کے جذبات سے ان کی شاعری کی معنویت فلسفیانی عمل کے ساتھ ہر پہلو اور ہر نکتے کو سامنے لاتی ہے، جس سے انفرادیت کا نقش اجاگر ہوتا ہے۔
ناشر:       براق پبلی کیشنز، سری نگر
ملنے کا پتا: ’’کہکشاں‘‘ نوگام (بائی پاس)، سری نگر۱۹۰۰۱۵، کشمیر
……o ……
 اردو کلیات غالب نسخۂ اشرف   
از: ڈاکٹر محمد خاں اشرف، ڈاکٹر عظمت ارباب
مبصر: ڈاکٹر اے بی اشرف
مشہور محقق اور نقادڈاکٹر محمد خان اشرف کا مرتب کردہ ’’اردو کلیات غالب نسخۂ اشرف‘‘ اس وقت میرے پیش نظر ہے۔ یوں تو ڈاکٹر صاحب کے علمی و ادبی کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے لیکن حال ہی میں ان کا مرتب کردہ کلیات غالب اردو منصۂ شہود پر آیا ہے جو میرے نزدیک ان کی علمی اور تحقیقی کاوشوں کا حاصل ہے۔ اس کام کی تکمیل پر انھوں نے اپنی زندگی کے کم و بیش پچاس سال صرف کیے ہیں۔
یہ کلیات اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد اور اپنی مثال آپ ہے۔ یہ پہلا اردو کلیات غالب ہے جس کو مکمل ہیئتی ترتیب اور درست متن و املا کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غالب کے مروجہ جملہ دواوین میں غزلیات غالب نامکمل اور نا تمام شکل میں ملتی ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ غالب نے خود اپنی زندگی میں اپنے کلام کے پانچ مجموعے چھپوائے اور پانچوں کا انتخاب خود کیا کیونکہ یہ مجموعے اس دور کے متمول نوابین کو پیش کرنے کی خاطر مرتب کیے گئے تھے، جن سے غالب کو مالی منفعت کی امید تھی۔ چنانچہ ان مجموعوں میں پورے کلام کے بجائے منتخب کلام شامل کیا گیا۔ ممکن ہے غالب کے سامنے ان کی ضخامت، کتابت اور طباعت کے اخراجات پر اٹھنے والے مصرف کا اندیشہ بھی ہو اور یہ خیال بھی کہ ان کا وہ کلام ان کے احباب تک نہ پہنچے جو ان کے سر سے گزر جائے۔ چنانچہ کتابت اور طباعت کے اخراجات کو کم کرنے اور اپنے مشکل کلام کو بچا کر رکھنے کی خاطر انھوں نے انتخاب طبع کرائے۔ اب ہوا یہ کہ بعد کے آنے والے محققین اور مرتبین نے انہی دواوین کی تقلید میں غالب کے کلام کے مجموعے مرتب و مدون کیے۔ تھوڑی بہت کمی بیشی کرتے رہے لیکن مکمل کلام اپنی تمام و کمال شکل میں کبھی بھی سامنے نہ آ سکا۔
زیر نظر کلیات کے مرتب کی تحقیق کے مطابق متداول دیوان غالب میں اشعار کی تعداد زیادہ سے زیادہ ۱۸۰۲ء ہے جبکہ زیر نظر کلیات میں اشعار کی تعداد ۴۳۸۷ ہے۔ جو دوگنی سے بھی زیادہ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غالب جیسے نابغہ شاعر کے نصف سے بھی زیادہ کلام کو نظر انداز کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ گویا غالبیات کے سلسلے میں آج تک کی گئی تحقیق و تنقید محض منتخبیات تک ہی محدود رہی۔ غالب کے مکمل اور پورے کلام کو سامنے نہ رکھا گیا۔ اس لحاظ دیکھا جائے تو ڈاکٹر محمد خان اشرف نے غالب کے مکمل اور پورے کلام کو مکمل ہیئتی وحدت اور درست متن و املا کے ساتھ مرتب کر کے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جس کی تحسین کیے بغیر چارہ نہیں۔ اس سے پہلے غالب کے کلام کو تمام و کمال شکل میں کبھی پیش نہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر اشرف نے پہل کی ہے اور اس لیے اولیت کا سہرا اُن کے سر جاتاہے۔
میرے خیال میں اس کلیات کی امتیازی خصوصیات یہ ہیں:
۱۔          غالب کے کلام کو جزئیاتی سطح پر ہی مرتب کیا جاتارہا۔ یہاں تک کہ خود غالب نے بھی ایسا ہی کیا۔ غالبیات کے سلسلے میں یہ پہلی کوشش ہے کہ اس کلیات میں غالب کو جملہ کلام کو نہ صرف اردو کے کلاسیکی معیار اور طریق کار کے مطابق مرتب کیا گیا بلکہ ہیئتی وحدت اور درست متن و املا کے ساتھ مکمل کلام کو مرتب و مدون کیا گیا ہے۔
۲۔         اس کلیات میں اشعار کی داخلی ترتیب میں جزوی الف بائی ترتیب کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے۔ یعنی مرتب نے پورے کلام کو ہیئتی ترتیب اور ردیف وار داخلی ترتیب کے ساتھ مرتب کیا ہے۔
۳۔         یہ پہلا اردو کلیات غالب ہے جس میں تمام غزلوں کے منتشر حصوں کو دوبارہ یکجا کر کے اسی ترتیب سے پیش کیا گیا ہے جس میں غالب نے انھیں تخلیق کیا۔
۴۔         الف بائی ترتیب کے ساتھ ساتھ اس کلیات میں تمام غزلیات اور اشعار کے نمبر شمار بھی دیئے گئے ہیں۔
۵۔         غالب کے مختاراتِ املائی کا لحاظ رکھا گیا ہے اور جہاں جہاں موجودہ دور کی مروجہ املا کے مطابق اس میں تبدیلی کی گئی ہے تو اس کی توجیہہ بھی بیان کر دی گئی ہے۔
۶۔         غزلیات کے علاوہ دیگر اصناف سخن کو بھی ان کی ہیئتی وحدت کی شکل میں مرتب کیا گیا ہے۔
۷۔         اس کلیات کی پہلی غزل وہ نہیں جو غالب کے ہر دیوان میں پہلے نمبر پر آئی ہے یعنی نقش فریادی ہے کس… والی غزل، اس کلیات میں یہ غزل ہیئتی ترتیب کے سبب ۱۵ ویں نمبر پر آئی ہے۔ اس غزل سے پہلے ۱۴ ایسی غزلیں شامل ہیں جن کو ہیئتی وحدت اور الف بائی ترتیب کی بدولت پہلے آنا چاہیے تھا۔
۸۔         اس کلیات کے ساتھ ایک مفصل فرہنگ بھی شامل کی گئی ہے جیسے ڈاکٹر اشرف اور ان کی معاون ڈاکٹر عظمت رباب نے تیار کیا ہے۔ یہ کلیات کے ساتھ سیٹ کی صورت میں دستیاب ہے۔
۹۔         اس کلیات کا مقدمہ بھی خاصے کی چیز ہے۔ اس میں بڑی تفصیل اور جامعیت کے ساتھ کلیات کے سلسلے میں مختلف موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
اس کلیات کو مدون و مرتب کرنے میں ڈاکٹر محمد خان اشرف کی شاگرد اور معاون ڈاکٹر عظمت رباب کا بڑا ہاتھ ہے۔ وہ خود بھی ایک نامور محقق ہیں اور انھوں نے تحقیق و تدوین میں بڑا کام کیا ہے۔ اُن کی معاونت اور مدد کا اعتراف خود اس کلیات کے مرتب نے برملا کیا ہے۔
مختصر یہ کہ یہ کلیات غالبیات کے سلسلے میں اولیت کا درجہ رکھتا ہے اور اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ یہ پہلا اردو کلیات غالب ہے جس میں غالب کلام شامل ہے۔
ناشر:       سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
……o ……
رسائل پر تبصرہ   ۔    مبصر: تجمل شاہ
سہ ماہی قلم قبیلہ، کوئٹہ 
پیش نظر مجلہ قلم قبیلہ ادبی ٹرسٹ کوئٹہ کی جانب سے گزشتہ ۱۹ سال سے شائع ہو رہا ہے، اس کی سرپرست اعلیٰ بیگم ثاقبہ رحیم الدین ہیں جبکہ سرپرست سرور جاوید اور مدیر ڈاکٹر فردوس ہیں۔ قلم قبیلہ ادبی تنظیم کا قیام ستمبر ۱۹۷۹ء میں ہوا، اس کے بنیادی مقاصد میں دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے اہل قلم کو ایک برادری کی صورت اپنے قبیلہ سے وابستہ رکھنا شامل ہے۔ بیگم ثاقبہ رحیم الدین اس ادارے کی بنیاد گزاروں میں شامل ہیں۔ وہ اپنے علمی اور سماجی و اخلاقی کاموں خصوصاً عام بچوں اور خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے جانی پہچانی جاتی ہیں۔ ان کا تعلق برصغیر پاک و ہند کے معروف علمی خانوادے سے ہے۔ وہ ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر محمود حسین کی صاحبزادی ہیں جو کہ ۱۹۴۸ء میں پاکستان میں وفاقی وزیر تعلیم، وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی اور وائس چانسلر ڈھاکہ یونیورسٹی رہے اور متعدد کتابوں کے مصنف بھی ۔ انھوں نے تدریس کے شعبے میں بڑا نام کمایا۔ ان کے چچا ڈاکٹر ذاکر حسین ہندوستان کے نامور ماہر تعلیم اور صدر مملکت رہے، دوسرے چچا ڈاکٹر یوسف حسین درجن بھر ادبی کتابوں کے مصنف تھے۔
بیگم صاحبہ کو علمی سرمایہ ورثے میں ملا۔ وہ اب تک دو درجن سے زائد ادبی کتابیں لکھی چکی ہیں جس میں بچوں کی کہانیاں بھی شامل ہیں، ان کی علمی وادبی خدمات پر اب تک ممتاز اہل قلم طلباء نے درجنوں کتابیں اور مقالے تحریر کیے ہیں جبکہ وہ کئی علمی و ادبی کانفرنسوں اور تقریبات میں اب تک بے شمار مقالے پڑھ چکی ہیں۔ بیگم صاحبہ کئی علمی، ادبی اور فلاحی اداروں کی سرپرستی بھی کر رہی ہیں۔
پیش نظر ’’قلم قبیلہ‘‘ فروری تا اپریل ۲۰۱۳ء کا مجلہ ہے جو کہ طویل عرصے بعد منظر عام پر آیا ہے۔ ادارے کی طرف سے تحریر ہے کہ ڈاکٹر فاروق احمد وائس چیئرمین کے امریکہ جانے اور پھر اس دنیا سے اٹھ جانے کے بعد مجلے کی اشاعت ایک طویل عرصے تک تعطل کا شکار رہی۔ موجودہ شمارے میں بیگم ثاقبہ رحیم الدین کی علمی و ادبی خدمات پر ممتاز اہل قلم کی تحریریں، سعید احمد رفیق اور ڈاکٹر فاروق احمد کی یاد میں مضامین کے علاوہ مختلف کتابوں کی تقاریب کی رپورٹیں ، حصہ غزل و نظم اور افسانے (عالمی ادب و پاکستانی ادب) شامل ہیں۔
ناشر: قلم قبیلہ ادبی ٹرسٹ ۲۔اے خوجک روڈ
برقی پتا: firdous786pk@yahoo.com
ویب گاہ:www.saqiba.com
مجلہ، دستک، مری
’’مری‘‘ پاکستان کی خوبصورت وادیوں، کوہساروں پر مشتمل علاقہ جہاں گرمیوں اور سردیوں بلکہ سال کے ہر موسم میں سیاحوں کا رش رہتا ہے۔ ’’دستک‘‘ اس علاقے کا سلسلے وار نمائندہ علمی و ادبی مجلہ ہے، پیش نظر مجلہ اپریل تا اگست ۲۰۱۳ء اس سلسلہ کا پچیسواں شمارہ ہے جس میں مری کے ماضی اور حال کی تصاویر اور دیگر مضامین کے علاوہ ’’مری نامہ‘‘ میں مری کے مختلف علاقوں ، مختلف قبائل، جنگلات، سکولوں، ماضی میں مری کے خطوط نگار حضرات بارے معلومات، مضامین، ادبی گوشے اور مری آنے والے سیاحوں کی رہنمائی کے لیے ’’مری ٹورسٹ گائیڈ‘‘ کے عنوان سے مضمون اور نقشہ بھی شائع کیا گیا ہے۔ ۱۳۴ صفحات پر مشتمل اس مجلے کو ’’انجمن فلاح معاشرہ، مری‘‘ نے شائع کیا ہے۔ اس کے مدیر اعلیٰ، محمد آصف مرزا اور مدیر طاہر ایوب ہیں۔ رابطے کے لیے ڈاک وبرقی پتا:۹۴، لوئر بازار، صدیق چوک مری۔ dastakmag@yahoo.com
ماہنامہ ’’کاروان ملت‘‘ اسلام آباد
پیش نظر علمی و ادبی شمارے کے مدیر اعلیٰ محموالحسن محمود ہیں۔ مدیر عنایت الرحمن فریدی جبکہ نائب مدیر ڈاکٹر فہد انوار ہیں۔ ستمبر ۲۰۱۳ء کے اس شمارے میں نقوش سیرت جیسے معلوماتی مضامین کے علاوہ فکاہیات ہیں ’’قاضی بہلول خان‘‘ اور ادبیات میں مصطفی زیدی و صوفی غلام مصطفی تبسم کے حوالے سے نظموں کو جگہ دی گئی ہے۔ رسالے کے سرورق کو ایک خاکے اور اس شعر کے ساتھ خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے:
ہم بچاتے رہ گئے دیمک سے اپنا گھر مگر
کرسیوں کے چند کیڑے ملک سارا کھا گئے
رابطے کے لیے پتا: کمرہ نمبر ۷، جامعہ اُم القریٰ، ٹی اینڈ ٹی کالونی، جی ایٹ فور، اسلام آباد
برقی پتا:  kanwan2054@gmail.com
……o ……