شہر کوفے کا محض ایک آدمی

اسد محمد خان

ایک ایسے آدمی کا تصور کیجیے جس نے کوفے سے امامؑ کو خط لکھا ہو کہ میرے ماں باپ فدا ہوں، آپ دارالحکومت میں ور ود فرمائیے، حق کا ساتھ دینے والے آپ کے ساتھ ہیں۔ اور وہ آدمی اپنے وجود کی پوری سچائی کے ساتھ اس بات پر ایمان بھی رکھتا ہو مگر خط لکھنے کے بعد گھر جا کر سو گیا ہو۔
جیم الف ایسا ہی ایک آدمی ہے (بلکہ شاید یہ وہی آدمی ہے) جسے مسلم بن عقیل کے واقعے کی خبر ملی تو اس نے زانو پیٹ لیے، گریباں چاک کیا اور بہت دیر تک روتا رہا۔ پھر اس نے سیر ہو کر کھانا کھایا اور سو گیا۔
ادھر گواہی دینے والے آسماں حشم سچوں نے نہرِ فرات کے کنارے خیمے گاڑے اور صبر کی تاریخ شروع ہوئی۔
جب دس ہزار دینار زادوں نے اِمامؑ کے مقابل صف بندی کی تو یہ آدمی زیتون کے روغن میں اپنی روٹی چور چور کے کھار رہا تھا۔ پاس ہی دودھ سے بھرے پیالے میں حلب کے خرمے پڑے بھیگتے تھے اور شیشے کے ایک ظرف میں کوئی عرق تھا اور یہ ظرف یخ سے زیادہ سرد ہو ہاتھا۔
خبر ملی کہ اشرار آمادۂ فساد ہیں، تو اس آدمی نے روغن میں سَنے ہوئے دونوں ہاتھ طمانیت کے ساتھ اپنے چہرے پر مَلے اور کہنے لگا، ’’امامؑ حق کے ساتھ ہیں اور حق غالب آنے والا ہے‘‘۔ پھر اس نے ڈکار لی ، امامؑ کو یاد کیا اور ان کے لیے ، اور ان کی جماعت کے لیے اﷲ کی نصرت طلب کی اور دسترخوان کے برابر پڑے تکیے سے ٹیک لگا لی۔ پھر وہیں کروٹ لے کر سو گیا۔
جب خبر آئی کہ سچّوں پر پانی بند کر دیا گیاہے تو روتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ کی ایک ضرب سے عرق کے ظروف اوندھا دیے اور پکار کر کہنے لگا کہ وائے افسوس! سگِ دنیا ابنِ زیاد نے اور اس کے زرخرید کتّوں نے اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈال دیا!اس بار وہ بہت دیر تک رویا اور کرب و انتشار میں جاگتا رہا۔ کہیں صبح ہوتے ہوتے اسے نیند آئی۔
پھر پتا چلا کہ ایک پاکیزہ خصلت جوان، بچّوں اور بیماروں کے لیے پھرا ہوا مشکیزہ لاتا تھا کہ بدخصالوں کے ہاتھوں شہید ہوا۔ یہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اب کے اس نے ایک پہر نالہ و شیون کیا اور سینہ زنی کی اور اب کے بھوک اور پیاس اور نینداس سے رخصت ہو گئے اور یہ سوچتا رہا کہ کچھ کرے، اس لیے کہ ان صادقوں کے لیے اس کا دل خون روتا تھا۔
سو اس نے کچھ اور نہ کیا، بس گڑ گڑ ا کر دعا کی کہ بار الہاٰ! تیرے محبوبؐ کی آل اپنے گھروں سے نکلی ہے اور تو جانتا ہے کہ وہ لوگ حق پر ہیں اور تو ہی ان کا حامی و ناصر ہے۔ پھر کیوں کہ اس تمام کاوش سے یہ کسل مند ہو گیا تھا اس لیے روتے روتے اس نے کچھ دیر کو آرام کیا اور دیوار سے ٹکے ٹکے سو گیا۔
پھر کسی نے پکار کر کہا کہ سگِ دنیا شمرِ ذوالجوشن نے کسی بھیانک جرم کے ارادے سے امامؑ کی طرف گھوڑا بڑھا دیا ہے۔ تب اور تب ہی یہ چیخ مار کر اٹھا۔ یہ بالآخر اٹھا اور اس نے عجیب کام کیا کہ اپنے چھپر کو سہار نے والی تھونی جھٹکے سے اکھاڑ لی۔ اسے گزر کی مانند گردش دیتا ہوا نہرِ فرات کی طرف بڑھا؛ اور حق تو یہ ہے کہ لمحے بھر کو اس نے یہ نہ سوچا کہ اس چھپر کے نیجے اس کی عورت اور اس کے بچے بیٹھے ہیں۔
بلاشبہ امامؑ کے لیے اس کی محبت حد درجے کی تھی۔
یہ چھپر کی تھونی اٹھائے دوڑا جاتا تھا اور شریروں، بدخصالوں، قاتلوں کے لیے اس کے پاس کلمات نا ملائم تھے اور کبھی کبھی یہ فحش کلامی بھی کرتا تھا۔ اس لیے کہ سخت آزردہ تھا۔ اور لگتا تھا کہ ان ہزاروں سگانِ دنیا کو، کہ جو سچوں ، گواہی دینے والوں کو قتل کرنے آئے تھے، یہ اپنی مغلظات سے پارہ پارہ کر دے گا۔ اس کی فحش کلامی کچھ عرصے تک جاری رہی، پھر بند ہو گئی۔ کس لیے کہ آگے مقامِ ادب تھا۔ آگے وہ مطہر سماعتیں تھیں جنھوں نے مقدس رسولؐ کو کلام فرماتے سنا تھا۔
تو بس ایک لمحے میں اس کی وابستگی اور اس کے باطن کی سچائی نے ظہور کیا اور اس ایک لمحے میں کہ شجر نجس کا وار امامؑ پر ہوتا، اور انسانی تاریخ کا سب سے بھیانک جرم سر زد ہو جاتا؛ اس ایک لمحے میں یہ شخص امامؑ اور قاتل کے درمیان کھڑا تھا۔ پھر اس نے ایک دل ہلا دینے والا نعرہ سر کیا اور اپنی ٹیڑھی میڑھی لاٹھی سے ایسی ایک ضرب لگائی کہ شمر ذوالجواشن اپنے خود کی نجس چوٹی سے اپنے مرکب کے زنگ آلود نعلوں تک ہل کر رہ گیا۔ اور لکڑی ٹوٹ گئی۔
تب شمر نے گھوڑے کو مہمیز کیا اور اسے ، جو بہت تاخیر سے، اور نہتّاہی اپنے ذی حشم مہمان کے سپر بننے آ نکلا تھا۔ اسے روندتا ملتا ہوا اپنے آخری جرم کی طرف بڑھ گیا۔ یہ شخص گرا۔ دودھ، پنیر، شہد اور روغنِ زیتون اور تازہ خرمے سے پلا ہوا اس کا بدن امامؑ کے تصدّق ہو گیا۔
اور پھر وہ آخری جرم سر زد ہوا جس نے ترائی سے چمکنے والے سورج کو سیاہ کر دیا اور رات آگئی۔ اور رات میں کسی وقت بلند قامت گھوڑوں پر سوار حر بن ریاحی کے قبیلے والے آئے اور صرف اپنے آدمی کا لاشہ اٹھا لے گئے۔
اور پھر زمرد اور یاقوت اور مشک اور عنبر کے بہتّر تابوت لے کر تاریخ آئی، جس نے بہتّر آسماں شکوہ لاشے سنبھالے۔ ان میں ایک سربریدہ لاشہ صبر و رضا والے اور استقامت والے امامؑ کا تھا، کہ جن کا قدم بلندی پر تھا، سوانھیں بادلوں پر جگہ ملی۔
پھر سگانِ دنیا کے ورثا اپنے مسخ شدہ حرام مردے کھینچ لے گئے اور میدان خالی ہو گیا۔
مگر یہ آدمی (کہ جس کی کہانی میں نے سنانی شروع کی ہے) یہ وہیں پڑا رہا۔ شمر کے گھوڑے کی لید سے سَنے ہوئے اس کے سری پائے، بھیجا اور قیمہ وہیں پڑا رہ گیا؛ جسے صبح دم چیونٹیوں کی پہلی قطار نے دریافت کیا اور آہستہ آہستہ منہدم کرنا شرو ع کر دیا اور یہ انہدام تادیر جاری رہا۔
تو ایک ایسے آدمی کا تصور کیجیے جس نے امامؑ کو خط لکھا ہو، اور خط لکھنے کے بعد گھر جا کر سو گیا ہو؛ مگر آخری لمحے میں اپنے باطن کی سچائی اور اپنی وابستگی کا اظہار کرے اور عجیب طرح سے مقبولِ بار گاہ ہو۔ ایک ایسے آدمی کا تصور کیجیے۔ یہ آدمی جیم الف ہو گا۔ (جن کی کہانی میں اس وقت سنا رہا ہوں)
مگر جسے یہ چندسطریں لکھ کر میں نے سب سے پہلے سنائیں، وہ جیم الف تو ایک چھوٹے سے ملک کے چھوٹے سے گھر میں لکھ لکھا کر اپنے چھوٹے سے کنبے کو پال رہا ہے۔ وہ تو چھوٹی چھوٹی سبک باتوں سے گاتی، گنگناتی، دکھ سہتی ہوئی غزلیں بناتا ہے اور ایک چھوٹی زبان کے چھوٹی چھوٹی اشاعتوں والے جریدوں میں چھپوا دیتا ہے۔ پکی روشنائی میں اپنا نام چھپا ہوا دیکھ کر خوش ہو لیتا ہے۔ مشاعروں میں گا بجا لیتا ہے۔ نہ کبھی اس سے بڑے گناہ سر زد ہوئے نہ اس نے خیر کا کوئی بڑا کام کیا۔ چھوٹی موٹی نیکیوں پر، اور ہلکی پھلکی معصیتوں پر اس کا گزارا ہے۔ میں نے سید الشہداءؓ کے نامِ نامی کے ساتھ اس آدمی کا تذکرہ کرنے کی جسارت اس لیے کی کہ میں اس کی وابستگیاں بتا دینا چاہتا ہوں۔
تو سنیے، بات کوئی پرانی نہیں ہے۔ یہ آدمی ایک بار کسی مشاعرے میں بلوایا گیا تو میزبانوں سے کہنے لگا’’مجھے پیسے نہ دو۔ یہاں سے بیت اﷲ قریب ہے، مجھے عمرہ کرا دو۔ تمہارا کوئی زیادہ خرچ بھی نہ ہوگا‘‘۔ پھر عمرہ کرنے گیا تو طواف کرتے ہوئے بے ڈھنگے پن سے دھاڑ مار مار کر رونے لگا (سمجھو تو اتنی عمر میں اس سے یہی ایک نیکی صادر ہوئی ہے) یا اسے اس کی بے بسی کہہ لو۔ کہہ رہا تھا:’’میں نے حرم شریف میں دنیا کے پہلے مظلوم اور مستقیم آدمی سے لے کر فلسطینیوں تک، سب کے لیے دعا کی۔ اور رونا مجھے اپنی ضلالت اور بے بسی پر آتا تھا کہ میں اگر کربلا کے سن ہجری میں ہوتا، تو اپنے گھر میں پڑا کلپتا رہتا۔ مجھ میں اتنی استقامت بھی نہ ہوتی کہ جلانے کی لکڑی کھینچ کر ہی ظالموں کے سامنے جا کھڑا ہوتا اور گھوڑوں تلے روند دیا جاتا‘‘۔ کہنے لگا، ’’دیکھ لو میں یاسر عرفات کے سن ہجری میں ہوں اور سوائے گالیاں بکنے اور دعائیں مانگنے کے کچھ نہیں کر سکتا۔ میں تو کسی جارح ٹینک کے سامنے جا کھڑا ہونے کی ہمت نہیں رکھتا۔ مجھے گھڑ گھڑاتی ہوئی لوہے کی اس پٹی سے خوف آتاہے جو لمحے بھر میں قیمہ بنا دیتی ہے۔ مگر میں ضمیر کی اس گھڑگھڑاتی ہوئی آواز سے بھی قیمہ ہوا جاتا ہوں جو ہم میں اکثر کو سنائی دے رہی ہے‘‘۔ اور آخری بات اس نے مجھ سے یہ کہی کہ بھائی!میں بھی اور تم بھی؛ اور ہم سب، اصل میں اپنی مصلحت اور منافقت کے کوفے میں آباد ہیں اور حق کے لیے جنگ کرنے والی کسی مستقیم Entityسے آنکھ نہیں ملا سکتے، خواہ وہ استقامت کی سب سے بڑی علامت حسینؑ ہوں یا ہم عصر تاریخ کے فلسطینی۔
میں اس کاشانہ اپنے قلم سے چھوتا ہوں۔ یہ نائٹ بنانے کی رسم ہے۔ پہلے اس موقعے پر قلم کی جگہ تلوار استعمال کی جاتی تھی۔ تو میں اسے مایوسی اور بے بسی کا نائٹ مقرر کرتا ہوں اور اس سے کہتا ہوں: کہ پیارے جیم الف!ہمیں ہمارے پنیر اور روغنِ زیتون اور خرمے کھا گئے اور پیارے جیم الف! چیونٹیوں کی پہلی قطار ہمیں دریافت کر چکی ہے کہ ہمارا انہدام کبھی کا شروع بھی ہو چکا۔
سو اب اپنے گھر جاؤ اور کھانا کھا کر آرام کرو۔
٭٭٭٭