عمر قیاز خان قائل
پروفیسر محمد طہٰ خان :
اْردو زبان و ادب کی ایک مقتدرامانت

پروفیسر محمد طہٰ خان اْردو کی ایک معروف علمی وادبی شخصیت ہیں، وہ ایک مشفق و مہربان اْستاد ہونے کے علاوہ ایک قادر الکلام شاعر، گیت نگار، مترجم و شارح، نقاد، قواعد دان اور محقق بھی ہیں۔
تقسیمِ ہندوستان سے پہلے طہٰ خان کے والد محمد یسین خان ایم۔ ای۔ ایس میں سرکاری ملازمت کر رہے تھے۔ کہ پاکستان بن گیا اور اْنہوں نے اختیاری طور پر ہندوستان چھوڑ کر اپنے اہل و عیال کے ساتھ پاکستان آنا منظور کیا اور پاکستان میں بھی پشاور کی سکونت کو فوقیت دی۔
یہاں آکر طہٰ خان نے :۱۹۵۲ء میں میٹرک، :۱۹۵۵ء میں ایف ۔اے، :۱۹۵۶ء میں ادیب فاضل (پنجاب یونی ورسٹی) اور :۱۹۵۸ء میں بی ۔اے کے امتحانات (پشاور یونی ورسٹی) سے پرائیویٹ طور پر امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔طہٰ خان کی شادی ۲۵ مئی :۱۹۵۶ء بہ روز جمعہ بہ مقام پشاور حشمت جہاں سے ہوئی۔
طہٰ خان کی شاعری و مقبولیت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ریڈیو پاکستان پشاور ہے۔ اس کے بارے میں طہٰ خان کہتے ہیں:''ریڈیو پاکستان پشاور کا ذکر کرتے ہوئے میرے دل میں احسان مندی کے جذبات اْبھرتے ہیں، درحقیقت میری شاعرانہ حیثیت کو تسلیم کروانے میں ریڈیو پاکستان پشاور کا بہت بڑا ہاتھ ہے''۔(بحوالہ: مواجہہ پروفیسر محمد طہٰ خان، مقام رہائش گاہ،۱۴۔اے واقع آرمی آفیسرز کالونی، پشاور ، تاریخ ۱۰ اگست: ۲۰۰۹ء )۔
:۱۹۵۴ء اور :۱۹۵۷ء کے دوران طہٰ خان ریڈیو پاکستان پشاور کے کسی نہ کسی شعبے کے لیے مسودہ نگاری بھی کرتے رہے۔ گیت، فیچر اور بچوں کی کہانیاں بھی لکھیں۔ طہٰ خان نے :۱۹۶۰ء میں شعبہ اْردو پشاور یونی ورسٹی سے بہ طور ریگولر طالب علم ایم ۔اے اْردو کیا۔
پروفیسر محمد طہٰ خان اب تک لاتعداد علمی، ادبی، تحقیقی اور تنقیدی مضامین و مقالات کے علاوہ اْردو زبان کو اچھی طرح سکھانے اور سمجھانے کی خاطر تین کتابیں لکھ چکے ہیں۔ تحقیقی و تنقیدی کتاب بھی شائع ہو چکی ہے، مزاحیہ شاعری کا دیوان ''گل پاش'' چھپ چْکا ہے۔ اس کے علاوہ پشتو سے منظوم اْردو تراجم پر مشتمل تین کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اس طرح ساڑھے تین ہزار مختلف موضوعات پر قطعات بھی کہہ چکے ہیں گیت اور بچوں کے لیے نظمیں اس کے علاوہ ہیں۔طہٰ خان حال ہی میں پشتو کے عظیم صوفی شاعر رحمان بابا کے پشتو کلام کے منظوم اْردو ترجمہ پر مبنی کتاب ''کلیات رحمان بابا'' اپنے معاون نبیل ارشد سے لکھوائی، جو ۳۶۰ غزلوں پر مشتمل ہے۔ اور جسے صوبائی حکومت کے تعاون سے پشتو اکیڈمی پشاور سے نہایت خوب صورت انداز میں زیورِ طباعت سے آراستہ کیا ہے۔پاکستان کے صوفی شعراء میں طہٰ خان، رحمان بابا کو شہنشاہِ تصوف کا نام دیتے ہیں۔ رحمان بابا کے پشتو کلام کا منظوم اْردو ترجمہ کرنے کے بعد خود کو موت کی سرحد سے بہت دور سمجھتے ہیں۔طہٰ خان فرماتے ہیں:'' اس کام کے باعث میں انسانی ذہنوں اور دلوں میں ہمیشہ یاد بن کر زندہ رہوں گا''۔(بحوالہ: روخان یوسف زئی، پروفیسر محمدطہٰ خان کے سفر زیست پر ایک نظر، روزنامہ ایکسپریس، پشاور ۴، اپریل ۲۰۰۷ء )۔
طہٰ خان مشاعرات پڑھنے امریکہ، دوبئی، کراچی، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ اور آزاد کشمیر جا چکے ہیں۔ جب کہ اْن کی مستقل سکونت پشاور کینٹ صوبہ خیبر پختو ن خوا، پاکستان ہے۔سب سے پہلے طہٰ خان نے لکھنؤ میں اسکول میگزین اور اخبار ''قومی آواز'' میں لکھنا شروع کیا۔ اْن کی مادری زبان اْردو ہے۔ اس کے علاوہ فارسی، انگریزی، ہندی اور پشتو زبان سے واقف ہیں اور قواعدِ عربیہ سے بہ طورِ خاص شغف ہے۔
پروفیسر طہٰ خان اپنی پہلی ملازمت سے سبک دوش ہو چکے ہیں لیکن ریڈیو اور ٹیلی وژن سے اب بھی ناطہ جڑا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شعبہء اْردو جامعہ پشاور میں بھی جزو قتی پروفیسر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں خوشحال خان خٹک کی پشتو رْباعیات کا منظوم اْردو ترجمہ کرنے میں بھی مصروف ہیں۔
طہٰ خان باغ و بہار طبعیت کے مالک ہیں، بینائی جانے کے بعد بھی ان کی طبیعت میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔ وہ آج بھی ہنستے مسکراتے ہیں اپنے فرائض پورے لگن سے ادا کرتے ہیں۔طہٰ خان ایک فطری اْستاد ہیں، آپ نے اپنی پوری زندگی درس و تدریس کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ لگن اور توجہ سے پڑھاتے پورے دل جمعی سے طلبہ کے علمی پیاس کو بجھانے کی کوشش کی۔
پروفیسر محمد طہٰ خان صوبہ خیبر پختون خوا کے علم و ادب کا ایک بڑا نام ہے۔ بل کہ آپ علم و ادب کی دنیا میں ایک الگ باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے مزاحیہ شاعری، گیت نگاری، سنجیدہ شاعری ، مسودہ نگاری، فیچر نگاری، قواعد نگاری اور ترجمہ نگاری کے علاوہ اْنھوں نے تحقیق و تنقید کا بھی قابل قدر سرمایہ اْردو ادب کو دیا ہے۔
پروفیسر محمدطہٰ خان کی تصنیفات اور تالیفات کی فہرست کچھ یوں بنتی ہے:
۱۔ '' قواعدِ خوش خطی''۔ قواعد کے متعلق طہٰ خان کی یہ سب سے پہلی مطبوعہ تصنیف ہے۔
۲۔ '' قواعد ِکامیابی'' قواعد اور گرامر کے متعلق طہٰ خان کی یہ دوسری مطبوعہ تصنیف ہے۔
۳۔ ''متاعِ فقیر''، (منظوم اْردو ترجمہ پشتو کلام رحمان بابا)۔
۴۔ ''کلیاتِ رحمان بابا '' پشتو کا منظوم اْردو ترجمہ (صدارتی ایوارڈ یافتہ)۔
۵۔ پشتو زبان کے شہنشاہ تصوف رحمان بابا پر تنقیدی مضامین (۹ اعدد)۔
۶۔ ''خوشحال خان خٹک کی رْباعیات پشتو ''کا منظوم اْردو ترجمہ (۸۰۰ عدد)۔
۷۔ ''قرینہ ء شعری'' ، شعر و شاعری کو سمجھنے کا آسان نسخہ ، ایک بہترین کتاب۔
۸۔ خوا جہ غریب نواز کے اقوالِ روحانی کا منظوم اْردو ترجمہ (۵۰ قطعات)
۹۔ ''گلپاش'' طنزیہ، مزاحیہ، قطعات، نظموں اور غزلوں کا ہنستا کھلکھلاتا شاہکار۔
۱۰۔ مختلف موضوعات پر طنزیہ و مزاحیہ قطعات (۳۵۰۰ قطعات)
۱۱۔ مختلف کھیلوں کی معلوماتی اور شگفتہ نظمیں (۱۵ عدد)
۱۲۔ ''داستانِ کربلا'' ، شہیدانِ کربلا کے دل دوز مصائب کا منظوم بیان۔
۱۳۔ انوارالعلوم سید انور شاہ کے پشتو کلام کا منظوم اْردو ترجمہ (زیرِ قلم)۔
۱۴۔ بچوں کی سائنسی ، نباتاتی، حیاتیاتی، اور ادبی نظمیں (۵۰عدد)۔
۱۵۔ نویں اور دسویں جماعتوں کے کیمیا اور طبیعات کے عملی تجربات کا منظوم ترجمہ (۵۸ عدد)۔
۱۶۔ پشتو لوک دْھنوں میں اْردو گیت (۷۵عدد)۔
۱۷۔ ''بنیادی اْردو'' ، اْردو کے ہر طالب علم کی بنیادی ضرورت ،ایک بہترین کتاب۔
۱۸۔ زندگی اور معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر علمی و ادبی مضامین (۵۰ عدد)۔
اب تک پروفیسر محمدطہٰ خان پر جو تحقیقی و تنقیدی کام ہو چکا ہے۔ اُ س کی تفصیل کچھ یوں ہے:
۱۔ ''طہٰ خان بہ حیثیت مزاح نگار شاعر'' مقالہ برائے ایم ۔اے اْردو ، مقالہ نگار جاوید خان آفریدی، سال: ۱۹۹۶ء شعبہ اْردو جامعہ پشاور۔۲۔''پروفیسر محمد طہٰ خان: شخصیت اور ادبی خدمات'' مقالہ برائے ایم ۔فلِ اْردو ،مقالہ نگار عمر قیاز خان قائل ،سال: ۲۰۱۱ ء شعبہء اْردو، قرطبہ یونی ورسٹی آف سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈیرہ اسماعیل خان۔
مختصر یہ کہ طہٰ خان ایک شخص نہیں مزاح نگاری کا ایک کلاسیکی عہد ہے، ایک تابندہ روا یت ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا، پاکستان اور اْردو زبان و ادب کی ایک مقتدر امانت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے درمیان رہنے بسنے والے اس بینا شخص
کو اپنی نابینائی کے باعث دیکھیں۔ اور ان کی علمی و ادبی خدمات کومحفوظ کریں۔ بہ قول ایوب صابر:
مجھے محفوظ کرلے اے زمانے
میں اِک کتبہ ہوں مٹتا جا رہا ہوں
کسی بھی ادیب کے علمی و ادبی مقام و مرتبہ کاتعین معاصرین نہیں تاریخ کیا کرتی ہے، جو کام اب تک آپ نے کیا ہے، اْسے تاریخ فراموش نہیں کر سکے گی۔ آپ کی علمی و ادبی خدمات ادب کے کئی شعبوں پر محیط ہیں۔ خیبر پختون خواہ کے ادب کے ٹھہرے پانی میں آپ کا وجود مسلسل حرکت اور برکت کا مظہر ہے۔
٭٭٭٭