نوشہ دیوار --- مفہوم اور پس منظر

ڈاکٹر محمد امین

نوشتہ دیوار سے کیا مراد ہے؟ اردو میں یہ ترکیب بالعموم ایسے مقام پر استعمال کی جاتی ہے جب کسی چیز یا واقعے کے رونما ہونے کے امکانات قوی تر تقریباً یقینی ہوں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اب تو یہ بات دیوار پر لکھی جا چکی ہے، اس کا وقوع پذیر ہونا یقینی ہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ نعرے اور مطالبات (خاص طور پر سیاسی) دیواروں پر لکھے جاتے ہیں اور یہ تحریریں عوامی خیالات کا اظہار ہوتی ہیں ۔ جب ان میں سے کوئی بات سچ ثابت ہو جائے تو نوشتۂ دیوار کہلاتی ہے۔
بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں نوشتۂ دیوار اور کسی واقعے کے رونما ہونے میں کیا تعلق ہے۔ یہ ترکیب کیسے معرض وجود میں آئی۔ یہ تخیلاتی ہے اور کسی ادیب کی تخلیق ہے، تلمیح ہے، ضرب المثل ہے یا محاورہ ہے۔ دیواروں پر لکھنے کا عمل ماضی قریب کی بات ہے۔ اس کی تاریخ پچاس ساٹھ سال سے زیادہ نہیں۔ قدیم زمانے میں کوئی شخص بھی دیوار پر لکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی انسان کو ایسی آزادی حاصل تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نوشتۂ دیوار کسی واقعے کی طرف اشارہ ہے جو نوشتۂ دیوار ہوا۔
تاریخ میں ایک واقعہ ملتا ہے بائیبل میں دانی ایل کے باب میں مذکور ہے ۔ بابل کے بادشاہ بتوکد نضر نے یروشیلم پر حملہ کر دیا اور وہاں سے سونے چاندی کے قیمتی برتن لوٹ کر لے آیا۔ یہ برتن خاص طور پر مذہبی تہواروں پر کھانے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ یہ قیمتی برتن صرف اور صرف ان ہی کھانوں کے لیے مخصوص تھے۔ بتوکدنضرکی سلطنت کے اختتام پر اس کا بیٹا بیلشضر تخت نشین ہوا ۔ بیلشضر نے امرأ کی بہت بڑی ضیافت کی۔ بیلشضر نے ان برتنوں میں جو اس کا باپ بتوکد نضر یروشیلم سے لوٹ کر لایا تھا مے نوشی کی۔ جس سے ان برتنوں کا تقدس پامال ہوا۔ بیلشضر نے نشے میں بتوں کی تعریف کی ۔یوں وہ گناہ گار ہوا۔ اسی دوران غیب سے ایک ہاتھ نمودار ہوا، اور اس نے دیوار پر لکھا، مئے مئے تقیل و فرسین۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ خدا نے تیری سلطنت کا حساب کیا اور اسے تمام کر ڈالا۔ اس تحریر سے بیلشضر خوف زدہ ہوگیا اور اس نوشتہ ٔ دیوار کو حضرت دانیال علیہ السلام نے پڑھا۔ بیلشضر کی سلطنت جلد ہی ختم ہو گئی۔
اس واقعے کے پس منظر میں نوشتۂ دیوار کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے یعنی اس سے مراد کسی سلطنت، حکومت اور اقتدار کا زوال یا اختتام ہے۔ حالات و واقعات اس قدر خراب ہو جائیں کہ حکومت کا جانا یقینی نظر آنے لگے۔ تو کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کا جانا نوشتۂ دیوار ہے۔ میرے خیال میں یہی مناسب اور موزوں معانی ہیں۔ میرا قیاس ہے کہ یہی واقعہ نوشتۂ دیوار کا پس منظر ہے۔ ممکن ہے ایسا نہ ہو۔ کوئی اور واقعہ اس کا محرک ہو، یا یہ ترکیب محض تخیلاتی ہو۔ فرہنگ آصفیہ اور فیروز اللغات میں یہ ترکیب نہیں ملتی۔ البتہ وارث سرہندی کی علمی اردو لغت میں موجود ہے اور اس کے معانی میں اشارۂ غیب کے معنی بھی درج ہیں۔ اشارۂ غیبی کے حوالے سے متذکرہ پس منظر کو تقویت ملتی ہے۔
٭٭٭٭
ادبی جریدہ روشنائی کراچی کا پچاسواں شمارہ

ادبی جرائد پر آجکل بہار آئی ہوئی ہے ۔رن برنگے اور ادبی مواد سے لدے پھندے ادبی جرائد ملک بھر سے شائع ہورہے ہیں۔یہ اردو ادب کے لئے ایک اچھا اور حوصلہ افزا شگون ہے لیکن مسلسل اور معیار کو قائم رکھتے ہوئے طویل عرصے تک پرچہ شائع کرنا بے حد مشکل کام ہے۔اس مرحلہ سے ''روشنائی'' کراچی کے احمد زین الدین سرخ رو ہوئے ہیں کہ اُن کے سہ ماہی جریدے کا جولائی تا ستمبر ۲۰۱۲ کا شمارہ اِس جریدے کا پچاسواں شمارہ ہے۔روشنائی کا اجراء احمد زین الدین نے اپریل۲۰۰۰ء میں سہ ماہی ادبی جرید ے کے طور پر کراچی سے کیا۔روشنائی نے اپنے ہر شمارے میں ایک ادیب پر گوشہ شائع کرنے کی روایت کو قائم کیا اس طرح سے گمنام ادیبوں و شعرا کے کام کو اور اُن کے شخصی کوائف کو منظر عام پرلانے کا فریضہ انجام دیا ہے۔احمد زین الدین نے روشنائی کے جو اہم شمارے شائع کیئے ۔اِن میں شمسں الرحمان فاروقی نمبر (شمارہ نمبر ۱۴ جولائی تا ستمبر۲۰۰۳ صفحات ۳۸۴) افسانہ صدی نمبر تین جلدیں ،شمارہ ۲۷ تا ۳۱،قرۃالعین حیدر نمبر(شمارہ نمبر ۳۴ صفحات ۵۶۰)جولائی تا ستمبر ۲۰۰۸ کے نام شامل ہیں ۔تازہ شمارے میں معروف و سینئر شاعرہ ادا جعفری کا گوشہ شائع کیا گیا ہے۔جس میں ان کے سوانحی خاکہ اور تصانیف کی تفصیل کے علاوہ ان کی شاعری پر اردو کی اہم ادبی شخصیات مثلا احمد ندیم قاسمی،مشفق خواجہ ا ور محمود ہاشمی کے مضامین شائع کئے گئے ہیں ۔گوشہ نما کے تحت گوشہ نشیں شاعروں ادیبوں کے تعارفی سلسلہ میں پروفیسر ہارون الرشید کا تعارف اور ان کی علمی ادبی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔''بابِ ادب بنگلہ دیش'' کے عنوان سے بنگلہ دیشی ادیبوں کی تخلیقات کو بھی نمایاں جگہ دی گئی ہے۔یہ ایک مفید سلسلہ ہے اس سے بنگلہ دیش میں اردو کو زندہ رکھنے والے ادیبوں کی تخلیقات ان کے معیاراورشخصیات سے قارئین کو تعارف حاصل ہوگا۔ ''روشنائی'' کے تمام مستقل سلسلے ''حرفِ نقد''بیاد رفتگان ،خصوصی مطالعہ،کتھا کہانی،شعلہ شبنم،زندہ تحریریں، اب اس کی پہچان بن چکے ہیں۔
……اسد فیض