رئیس فاطمہ
''گنجے فرشتے '' اور ''لاؤڈاسپیکر''

ایک وہ وقت تھا جب لوگ اس کی جان کے در پے تھے، نفرت، تعصب اور بے رحمی کی حد تک سنگدلی کا مظاہرہ کرنے والے اسے اس کے افسانوں کے حوالے سے معتوب قرار دیتے تھے لیکن آج اسی کا سو سالہ جشن پیدائش منایا جا رہا ہے۔ جس نے اپنے اوپر چلنے والے مقدمات میں اپنی صفائی میں صرف اتنا کہا تھا کہ ''میں نے تو بس اتنا کیا ہے کہ چادروں اور قالینوں کے نیچے چھپی گندگی پر سے کپڑا ہٹا دیا ہے۔ میرے افسانوں میں جو تعفن اور غلاظت آپ کو دکھائی دیتی ہے وہ اس سماج کا چہرہ ہے جسے لیپا پوتی سے چھپا دیا گیا ہے۔''۲۰۱۲ء کا سال سعادت حسن منٹو سے منسوب ٹھہرا لیکن زیادہ تر بات ہمیشہ اس کے افسانوں پر ہی ہوئی، جہاں بھی ضرورت ہوئی 'نیا قانون، ممی، موذیل، ٹوبہ ٹیک سنگھ، بابو گوپی ناتھ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت اور سڑک کے کنارے' کا بار بار تذکرہ آیا۔
جس طرح قرۃ العین حیدر کے ناولوں کو ناقدین اور قارئین نے زیادہ سراہا اور انھی پر زیادہ تر بات کی گئی اور ان کے بہترین افسانوں کا نظر انداز کیا گیا، اسی طرح منٹو کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ اس کے افسانوں کے سائے تلے اس کے شخصی خاکے دب گئے۔ میں یقین سے کہتی ہوں کہ منٹو اگر صرف اور صرف یہ خاکے ہی لکھتا تو بھی اتنا ہی قد آور اور نامور ہوتا جتنا کہ آج ہے جبکہ المیہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو منٹو کے شیدائی ہیں وہ بھی لے دے کے صرف ایک خاکے کا ذکر کرتے ہیں جس کا عنوان ہے ''میرا صاحب'' جو محمد علی جناح کا خاکہ ہے اور جس کا راوی تھا کیریکٹر اداکار محمد حنیف آزاد جو قائد اعظم کا ڈرائیور تھا۔ جبکہ منٹو نے چوبیس شخصیتوں کے خاکے لکھے جن میں اس کے قریب ترین دوست اور دیگر شخصیات شامل ہیں ۔ یہ خاکے دو مجموعوں پر مشتمل ہیں، گنجے فرشتے ، لاؤڈ اسپیکر۔ یہ حقیقت ہے کہ منٹو کے قلم کی سفاکی اور بے رحمی ان خاکوں میں بھی جلوہ گر ہے۔ اس نے کسی کو بھی نہیں بخشا ہے خواہ وہ اس کا کتنا ہی قریبی دوست کیوں نہ ہو۔ اس نے جس شخصیت کو جیسا دیکھا ویسا ہی لوگوں کے سامنے پیش کر دیا۔ گویا منٹو کے قلم نے ایکسرے مشین کا کام کیا ہے نہ کہ مصور کا جو خراب تصویر کو اپنے ہنر اور رنگوں سے جاذب نظر بنا دیتا ہے۔
''گنجے فرشتے ''کے دیباچے میں منٹو نے خود کہا ہے۔
''میرے اصلاح خانے میں کوئی شانہ نہیں، کوئی شیمپو نہیں، کوئی گھونگر پیدا کرنے والی مشین نہیں، میں بناؤ سنگھار کرنا نہیں جانتا۔ آغا حشر کی بھینگی آنکھ مجھ سے سیدھی نہیں ہو سکی، اس کے منہ سے گالیوں کے بجائے میں پھول نہیں جھڑا سکا۔ میرا جی کی ضلالت پہ مجھ سے استری نہ ہوسکی۔ اس کتاب میں جو فرشتہ بھی آیا اس کا مونڈن ہوا ہے اور یہ رسم میں نے بڑے سلیقے سے ادا کی ہے''۔
ان چوبیس شخصیات پہ لکھے جانے والے تمام خاکے انتہائی دلچسپ، کھردرے اور حقیقت سے قریب ہیں۔ کوئی خاکہ بھی ایسا نہیں کہ آپ سرسری گزر جائیں لیکن وہ خاکے جنہیں کمال کے خاکے کہنا چاہیے ان میں اداکار شیام کا خاکہ (جو پی ٹی وی کی ذہین پروڈیوسر ساحرہ کاظمی کے والد تھے) کلدیپ کور، پری چہرہ نسیم بانو، آغا حشر، باری علیگ (جو صحیح معنوں میں منٹو کے استاد (MENTOR) تھے) اشوک کمار، رفیق غزنوی، نور جہاں، نرگس، انور کمال پاشا، اختر شیرانی اور پراسرار نیناں کے خاکے شامل ہیں۔ آخر الذکر خاکہ جس کو منٹو نے ''پر اسرار نیناں'' کا نام دیا ہے، دراصل خاکے کی تعریف میں تو نہیں آتا کیوں کہ اس میں ''نیناں'' کا ذکر تو برائے نام ہی ہے البتہ ڈبلیو زیڈ احمد اور نیناں کے شوہر محسن عبداﷲ کا زیادہ ہے۔ اب یہ بھی جا ن لیجیے کہ یہ نیناں تھی کون جسے ڈبلیو زیڈ احمد نے پردہ سیمیں پہ پر اسرار بنا کر پیش کیا۔ دراصل نیناں کا اصل نام شاہدہ تھا، یہ ایک سیدھی سادی گھریلو خاتون تھی جس کی شادی ڈاکٹر رشید جہاں اور بیگم خورشید مرزا (رینوکادیوی) کے بھائی محسن عبد اﷲ سے ہوئی تھی۔ شاہدہ اپنی نندوں کی طرح آزاد خیال نہیں تھی جبکہ محسن فلمی دنیا میں رائج تمام خرابیوں کا عادی تھا۔ ہر جائی طبیعت کی بنا پر وہ شاہدہ کونظر انداز کرتا رہا، اسی دوران محسن عبد اﷲ کی بے رخی کی کمی ڈبلیو زیڈ احمد نے پوری کر دی جوکہ ''ادبی دنیا'' کے ایڈیٹرمولانا صلاح الدین احمد کے بھائی تھے۔ ڈبلیو زیڈ احمد نے بعد میں نیناں سے شادی کر لی تھی جبکہ ان کی پہلی بیوی صفیہ سے، جوکہ وزیر اعلیٰ سندھ غلام حسین ہدایت اﷲ (مرحوم) کی بیٹی تھیں، سبط حسن نے شادی کر لی۔ یہ بہت دلچسپ خاکہ ہے جس میں بڑے بڑے انکشافات ہیں۔
اسی طرح پری چہرہ نسیم بانو (سائرہ بانو کی ماں ، دلیپ کمار کی ساس) کا خاکہ بھی اس کی ذاتی زندگی سے پردہ اٹھاتا ہے کہ نسیم ایک گھریلو قسم کی عورت تھی جو اپنی پکچر کے لیے ملبوسات اپنی پرانی ساڑیوں ، غراروں اور قمیضوں سے خود تیار کرواتی تھی۔ فلم ساز پہ بلاوجہ کا بوجھ نہیں ڈالتی تھی۔ وہ اس حد تک کفایت شعار تھی کہ ایک دن گوالے سے اس بات پر بحث کر رہی تھی کہ اس نے آدھ سیر کا ہیر پھیر کیا ہے۔ منٹو لکھتے ہیں کہ ''آدھ سیر دودھ، اور پری چہرہ نسیم بانو جس کے لیے کئی فرہاد دودھ کی نہریں نکالنے کے لیے تیار تھے''۔
رفیق غزنوی جیسے ماہر موسیقار ، گلوکار اور اداکار کے خاکے ہیں، انکشافات ہی انکشافات ہیں کہ سلمیٰ آغا، نیلی آنکھوں والی شاہینہ، خیام سرحدی ، طاہرہ، زبیتا آغا اور زرینہ آغا سے ان کا نہایت قریبی رشتہ تھا۔
نورجہاں کا خاکہ بھی اسی طرح بھر پور دلچسپی لیے ہوئے ہے۔ شوکت حسین رضوی کے علاوہ دیگر کردار بھی آپ کو اس خاکے میں ملیں گے۔ اس خاکے کو پڑھ کر ایک بہت مختلف نور جہاں کی تصویر ابھرتی ہے جو قدم قدم پر آپ کو چونکاتی ہے۔ باری علیگ صحیح معنوں میں منٹو کی زندگی اور اس کی کامیابی میں ایک اہم حیثیت رکھتے ہیں، ان کے لیے لکھے گئے چند جملوں سے آپ کو خاکے کا اندازہ ہو جائے گا۔
''باری صاحب ہمیشہ اپنی زندگی کی کوئی نہ کوئی کھڑی کھول کر باہر کود جاتے رہے۔ یہ کھڑکی کھلی رہتی مگر پھر وہ کسی کو اپنی شکل نہ دکھاتے۔ باری صاحب قبر میں ہیں معلوم نہیں اس میں بھی کوئی ایسی کھڑکی ہے جس سے وہ کود کو باہر نکل سکیں۔''
''مرلی کی دھن'' اداکار شیام کا خاکہ ہے جس کی زندگی میں تاجی (ممتاز) اور کلدیپ کور بہت اہمیت رکھتی تھیں۔ البتہ تاجی اس کے بچوں کی ماں بھی بنی کہ شیام نے اس سے شادی کر لی تھی۔ تاجی فلمی دنیا کی بڑی مشہور ہیروئن تھی۔ منٹو نے خود اپنا خاکہ بھی لکھا ہے اس میں وہی سفاکی اور سچائی ہے جو دوسروں کے خاکوں میں موجود ہے لیکن خود اپنے خاکے میں منٹو نے ان نام نہاد نقادوں کو بھی رگیدا ہے جو مغربی مفکرین، فلاسفر اور ادیبوں کے حوالے کے بغیر لقمہ نہیں توڑتے''۔
''وہ ان پڑھ ہے اس لحاظ سے کہ اس نے کبھی مارکس کا مطالعہ نہیں کیا، فرائیڈ کی کوئی کتاب آج تک اس کی نظر سے نہیں گزری، ہیگل کا وہ صرف نا م ہی جانتا ہے، ہیبو لاک ایلس کو وہ صرف نام سے جانتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ میرا مطلب ہے تنقید نگار یہ کہتے ہیں وہ ان تمام مفکروں سے متاثر ہے جہاں تک میں جانتا ہوں منٹو کسی دوسرے کے خیال سے متاثر ہوتا ہی نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ سمجھانے والے سب چغد ہیں۔ دنیا کو سمجھانا نہیں چاہیے اس کو خود سمجھنا چاہیے۔ '' سچ تو یہ ہے کہ یہ تمام خاکے اس نے قلم برداشتہ لکھے ہیں ان شخصیات کے جو جو پہلو اس کے سامنے آتے گئے وہ اپنے قلم کی نوک سے اس میں ٹانکے لگاتا گیا۔ منٹو پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ اس نے ان خاکوں میں نہایت سنگدلی اور بے رحمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس بارے میں منٹو خود کیا کہتا ہے یہ سنیے۔
''دنیا کے ہر مہذب ملک اور مہذب سماج میں یہ اصول مروج ہے کہ مرنے کے بعد خواہ دشمن ہی کیوں نہ ہو اسے اچھے الفاظ کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے، اس کے صرف محاسن بیان کیے جاتے ہیں اور عیوب پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔ ویسے میں ایسی مہذب دنیا پر، ایسے مہذب ملک پر، ایسے مہذب سماج پر ہزار لعنت بھیجتا ہوں ، جہاں اصول مروج ہو کہ مرنے کے بعد ہر شخص کا کردار اور تشخص لانڈری میں بھیج دیا جائے۔ جہاں سے وہ دھل دھلا کر آئے اور رحمتہ اﷲ علیہ کی کھونٹی پر لٹکا دیا جائے۔''
''گنجے فرشتے'' اور ''لاؤڈاسپیکر'' میں صرف چند خاکوں کو چھوڑ کر تمام خاکے فلمی دنیا کی ان شخصیات کے ہیں جن سے منٹو کا قریبی تعلق رہا۔ یہ تما م خاکے(چند باتوں کو نظر انداز کر کے) اپنی خاص اہمیت رکھتے ہیں ایک لحاظ سے یہ ایسے زندہ خاکے ہیں جن میں ہر کردار ہنستا، بولتا اوربھر پور زندگی گزارتا نظر آتا ہے۔(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
٭٭٭٭
ذکر ان ناولوں اور فلموں کا جو پاکستان میں نہیں چلتیں
: ہمارے ملک کے جو ادبی سرکاری ادارے ہیں وہ جنم میں کرم اگر کوئی تقریب بپا کرتے ہیں تو اپنے سارے اسٹاف اور چپڑاسیوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ کرسیوں پر براجمان ہو جائیں۔ ان بے چاروں کو مابعد الطبیعیات اور وجودیت پر تقریریں سننی پڑتی ہیں۔ اس کا علاج ہندوستان میں ساھتیہ اکیڈ می نے یہ ڈھونڈا ہے کہ ادیبوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ فلاں فلاں مہمان ادیب کے ساتھ شام منائی جارہی ہے۔ آپ تشریف لائیے ، آپ کو زادسفر کے طور پر پانچ سو روپے عطا کیے جائیں گے۔ جب ادیب ہال میں داخل ہوتا ہے تو اس کو ایک عدد لفافہ پکڑا دیا جاتا ہے۔ منتظم بھی خوش اور ادیب بھی خوش۔
کشور ناہید