!ڈاکٹر انوار احمد
ہاجرہ مسرور، تاریخِ افسانہ کا ایک بڑا حوالہ

اس صدی کے تیسرے اور چوتھے عشرے میں خاتون افسانہ نگاروں نے اپنے تخلیقی جوہر سے کہیں بڑھ کر داد سمیٹی کیونکہ ایک گھٹے ہوئے ریاکار معاشرے میں یہی بات بڑے تعجب کی تھی کہ عورت بھی جنسی اور نفسی الجھنوں کا ذکر کرنے پر قادر ہے یہی وجہ ہے کہ اس دورمیں کئی خواتین نے چٹاخ پٹاخ زبان کے زور پر یا ' بے باکی'کے منہ زور گھوڑے پر سوار ہوکر قارئین کو ناظرین ہونے کا آرزو مند بنادیا۔
ہاجرہ کے ابتدائی افسانوں میں جذباتیت ، کڑواہٹ اور جھنجھلاہٹ کا غلبہ ہے ،تاہم صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک اچھی افسانہ نگار کی اٹھان ہے ، مثلاً 'چراغ کی لو' پرپریم چند کے 'کفن ' کے اثرات صاف محسوس ہوتے ہیں، جب وہ لکھتی ہیں : ''روٹیوں کو ترستی ، کپڑے کو بلکتی اور حکیم صاحب کا نسخہ پینے کو سسکتی ہوئی اچھن کی ماں ایک دم پچیس روپے کاکفن پہن کر ،زمین میں جاچھپی۔(ہائے اﷲ، ص۱۱۸۔ ۱۱۹) 'بندر کا گھاؤ'میں تلخی کلبیت کے درجے پر پہنچ جاتی ہے ، تاہم ایسے میں بھی خالص نسوانی لہجہ ابھرتاہے: ''تھک کراسے خیال آیا کہ اﷲ میاں اپنی دنیا کو آسمان کے ڈھکنے سے ڈھک کر بالکل اس طرح مطمئن ہوگئے ہیں جس طرح وہ ایک دن کٹورے میں بچی کچھی دال رکھ ڈھک کر مطمئن ہوگئی تھی ، لیکن ایک گرم دوپہر گزرنے کے بعد اسے دال کا خیال آیا تو دیکھا دال سڑ کر بجبجا رہی تھی۔'' (ہائے اﷲ ،ص ۴۳) انورعظیم کے 'لڑھکتی چٹان ' کی طرح اس افسانے میں بے رحمانہ انداز اختیار کیاگیاہے جو ترقی پسند تحریک کے عروج پر لوگوں کے احساس کو کچوکے لگانے کے لیے شعوری طور پر اپنایا گیا تھا۔'چھپے چوری'کے افسانوں کا اسلوب طنزیہ ہے اور بیشتر مواقع پر افسانوی دنیا ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے ، بہرطور 'ایک بچی' اور 'سرگوشیاں ' میں ہندو مسلم منافرت پرشدید ردِعمل ظاہر کیا گیاہے انہوں اس عہد کی معروف 'قوم پرست ' سوچ کااظہار کیا ہے:''جی میں آیاکہ بے تحاشہ برطانوی ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگاؤں، تاکہ میرے پڑوس میں بسے ہوئے مختلف سیاسی عقائد کے لوگ اک دم چونک پڑیں __ میں اپنا نعرہ بلند اور بلند کرتی جاؤں ،سڑکوں پر گلیوں میں شہروں شہروں __یہاں تک کہ گاندھی جی کو اپنے اکھنڈ ہندوستان اور مسٹر جناح کو اپنے پاکستان کی ایک حقیقی اور ٹھوس شکل نظر آجائے۔'' (ایک بچی،چھپے چوری،ص ۲۳) ''حکومت ِ برطانیہ کو مہذب ملکوں کے طعنوں کا ڈر ہے اس لیے نیم وحشی ہندوستان کو نہیں چھوڑ سکتی کہ کہیں یہ ملک پتھر کے زمانے کی طرف نہ لوٹ جائے، کانگریس اور مسلم لیگ الیکشن کے دانہ پر چونچیں لڑائے ہوئے ہیں۔ ''(ایضاً ،ص ۲۴) 'بڑے انسان بنے بیٹھے ہو' قحط کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے انسانوں کے سرہانے کھڑے دو ذخیرہ اندوز اس تشویش کا اظہار کرتے ہیں تو کرشن چندر یاد آتے ہیں : ''مولانا اگر برما کا چاول آگیا تو بنگال کا لاکھوں من چاول میرے اور تمہارے تہ خانوں میں پڑے پڑے سڑجائے گا۔'' (چھپے چوری، ص ۱۸۱) پر اس کے فوراً بعد ہاجرہ کی افسانویت ، خطابت کے بوجھ تلے دب جاتی ہے: ''ہزاروں عصمتوں ، بے شمار غیرتوں اور لاکھوں جسموں کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ ان کا دشمن کون ہے ؟ میرے کانوں میں مختلف جواب گونجے گوری حکومت ، غیر ملکی حملہ آور اور ذخیرہ اندوز ، لیکن ہر جواب پر تمہارا ابنِ آدم کا ہیولا اچانک بلی کے پنجوں کی طرح خراشیں ڈال دیتاہے۔ '' (ایضاً، ص۱۸۷)
قیامِ پاکستان کے بعد رفتہ رفتہ ہاجرہ کے فن میں ٹھہراؤ پیداہوا عام طور پر انہوں نے توازن اور تحمل سے کہانیاں لکھیں سوائے 'سندباد جہازی کا نیاسفر 'کے ، تاہم اس افسانے کی محرک جذباتیت اپنا ایک پس منظر رکھتی ہے ، قیام ِ پاکستان کے فوراً بعد مقتدر سیاسی قوتوں کی جانب سے ترقی پسند عناصر کے لیے مخاصمانہ رویہ اختیار کیاگیا ، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتاگیا ، اس لئے ہاجرہ نے اس افسانے میں سرمایہ دارانہ نظام کو اپنی دانست میں تمثیلی انداز میں ہدف ِ تنقید بنایا ہے یہ اور بات ہے کہ افسانہ صحافتی درجے کی چیز بن کر رہ گیا ہے چند حصے دیکھئے : '' ملک میں ہائے بے روزگار ی ، وائے بھوک کے نعرے شورش پسندوں کی ایجاد ہوئی، ہمارے ہاں غیر ملکیوں تک کو بڑے بڑے عہدے مل جاتے ہیں۔''(ایضاً،ص۱۱۰) 'پرانامسیح ' میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کے ماخذوں کو کمیونسٹ فوبیا میں مبتلا دکھایاگیا ہے کچھ اس طرح کہ ایک آدھ جگہ مصنفہ کا سماجی نقطۂ نظر کرداروں کے منہ سے زبردستی اظہار پاتاہے: ''میرے ہاں ایک ایسا حرامزادہ گھسا تو تھا ، مگر میری سی آئی ڈی سے بچتا؟میں نے اسے ایک جھوٹے الزام میں جیل بھجوادیا __مجھے یقین ہے کہ میرے مزدوروں پر سرخی ورخی کا کوئی اثر نہیں۔'' (اندھیرے اجالے، ص۱۳۱)
'اُمتِ مرحوم' زیادہ سنگین صورتحال کا افسانہ ہے ، اس میں قیامِ پاکستان کے فوراً بعد والٹن میں مہاجرین کے کیمپوں کو بالائی متوسط طبقے کے افراد کی نظر سے دیکھا گیا ہے ، رقت اپنا جلوہ دکھاتی ہے مگر حقیقی زخموں پر اپنوں کی نمک پاشی کے مقابلے میں یہ رقت غنیمت دکھائی دیتی ہے: ''ڈاکٹر نے سینڈویچز کی پلیٹ اس کی طرف بڑھائی اور شہنی کی آنکھوں کے سامنے چیتھڑوں اور گدڑوں کی کئی گٹھڑیاں گھوم گئیں۔'' (اندھیرے اجالے،ص ۱۷۲) میرے خیال میں قیام ِ پاکستان کے بعد ہاجرہ مسرور نے جو افسانے لکھے ان میں 'راجہ ہل' ایک شاہکار افسانے کا درجہ رکھتا ہے پاکستان کی افسر شاہی 'عوامی فلاح' کے کیسے منصوبے تیار کرتی ہے ، دیہی معاشرت کے اجارہ داروں سے مل کر 'زیادہ غلہ اُگاؤ'کے جو اقدامات کیے جاتے ہیں ذرائعِ ابلاغ مسلسل ان کے بارے میں یہ پروپیگنڈاکرتے ہیں کہ یہ انقلابی اقدامات ہیں اور اگر کسی کسان کی خوشحالی کا بدحالی میں بدلنا انقلاب ہے ، تو بلا شبہ اس افسانے میں بھی اس سرکاری پالیسی کے نتیجے میں گاؤں میں انقلاب برپا ہوجاتاہے۔جسے تشکیل دینے والوں کا اپنی مٹی ، اپنی ہوا اور اپنے پانی سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا،جن کے مشیر غیر ملکی ہوتے ہیں جن کی تعلیم بھی انہی کے ہاتھوں مکمل ہوتی ہے اور جن کی آنکھوں میں خواب بھی غیر ملکی قرضوں سے بندھے ہوتے ہیں ۔شہری رہن سہن میں پروان چڑھنے والی کسی اہل خاتون کی جانب سے پنجاب کی دیہی معاشرت کو اپنی تخلیقی روح میں جذب کرنا بہت بڑی فنی ریاضت بھی ہے اور کومٹ منٹ کا فیض بھی۔
بہر حال ہاجرہ مسرور کے افسانوں میں عورت کی مظلومیت کا اس طور ذکر ہوتاہے کہ بے اختیار افسانہ نگار کی صنف کا احساس نمایاں ہوجاتاہے ۔
انتخاب از''اردو افسانہ ،ایک صدی کاقصہ''