محمد اسلم الوری
پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل اور مقتدرہ قومی زبان
کے تعاون و اشتراک کا امکانی جائزہ

زرعی شعبہ پاکستان کی معیشت میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ صنعتی شعبہ کے لیے ۲۳فیصد خام مال اور مجموعی قومی پیداوار کا ۲۱ء۵ فیصد زراعت سے حاصل ہوتا ہے نیز ۴۵ فیصد افرادی قوت اس شعبہ سے وابستہ ہے۔ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں، آبی و زمینی وسائل میں مسلسل کمی، شہروں کے پھیلاؤ اورتیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خوراک کے سنگین مسائل اور قومی سلامتی کے حوالے سے زراعت کا شعبہ ایک تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔ زرعی ترقی زرعی علوم و فنون میں بھرپور سرمایہ کاری ، معیاری تعلیم و تربیت، مسلسل تحقیق اور رمؤثر توسیعی نظام کا تقاضا کرتی ہے۔ متعلقہ علوم و فنون میں جدید ترقیات کی قومی و دیگر پاکستانی زبانوں میں منتقلی اور نچلی ترین سطح پر معلومات کی ترسیل، ترویج اور نفوذ کی راہ میں لسانی مسائل و مشکلات بری طرح حائل ہیں۔ ایک جانب روزانہ سینکڑوں جدید الفاظ و اصطلاحات انگریزی و دیگر ترقی یافتہ زبانوں کو مزید ثروت مند بنا رہے ہیں اور دوسری جانب پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشروں کی دیہی ثقافت، مقامی بولیوں میں زرعی معیشت سے متعلق پیداواری لوازمات و طریق کار، اشیاء و آلات، احوال و آثار، مقامی وسائل و استعمالات، زرعی اراضی کی تفصیلات ، لین دین کے آداب، غمی خوشی کے اظہار، تنازعات کے حل کے طریق کار، تجربات و کیفیات، سماجی رسوم و رواج، امراض و ادویات، علاج و معالجہ، افزائش حیوانات، فصلوں، پھلوں، سبزیوں، پیشوں اور مہارتوں وغیرہ کے لیے صدیوں سے مروجہ الفاظ و اصطلاحات وار محاورات و ضرب الامثال سے روز بروز تہی دامن ہوتی جارہی ہے۔ تیزی سے متروک ہوتے الفاظ و اصطلاحات کے باعث مقامی ثقافت روبہ زوال اور دیہی ذہانت پر مبنی ثقافتی و تاریخی ورثہ شدید خطرات کی زد میں ہے۔
درایں حالات زرعی تعلیم و تحقیق اور توسیع سے وابستہ افراد و اداروں، پاکستان کے مختلف اور دور دراز خطوں میں بسنے والے اور مختلف ثقافتی و لسانی پس منظر کے حامل چھوٹے بڑے کاشتکاروں، زرعی معیشت سے وابستہ صنعتی، تجارتی اور کاروباری افراد،اداروں اور تنظیموں، اختیارات کی مختلف سطحوں پر فائز سرکاری حکام اور پالیسی سازی و منصوبہ بندی پر مامور ماہرین اور دیگر اسٹیک ہولڈرز درج ذیل امور سے متعلق درست معلومات کی فراہمی انتہائی ضروری ہے:
اہم زرعی امور ومسائل
٭ زرعی تعلیمی، تحقیقی و توسیعی اداروں اور ان کی سرگرمیاں
٭ زرعی تحقیقی سرگرمیوں سے پیدا شدہ نتائج و ثمرات
٭ زرعی تحقیق کی روشنی میں وضع کردہ سفارشات
٭ مختلف بیماریوں، حشرات اور قدرتی آفات سے تحفظ کے لیے مدافعتی تدابیر
٭ معیاری پیداوار کے لیے تجویز کردہ تدابیر و اقدامات
٭ دستیاب زمینی آبی اور انسانی وسائل کے تحفظ و ترقی کے لیے جدید تحقیقات پر مبنی
۔ اصلاحی طریقے، موثر میکانیے اور آزمودہ ٹیکنالوجیاں
۔ برسہا برس کی تحقیق اور جانچ کاری کے بعد تیار کردہ زرعی مشینری و آلات
لائحہ عمل
جدید زرعی علوم و فنون کی قومی و دیگر پاکستانی زبانوں میں تیزی سے منتقلی اور اس راہ میں حائل لسانی رخنوں کو دور کرکے ہی ہم تعلیم و تربیت ، تخلیق و اختراع اور تحقیق و توسیع کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ زرعی شعبہ میں پیشرفت کے لیے مذکورہ بالاامور و اشیاء کی دستیابی سے متعلق اہم و کلیدی نوعیت کی مفصل اور مستند معلومات و اعداد و شمار کی آسان، قابل فہم، عمل انگیز اور دلچسپ انداز میں موثر، موقر ، کم خرچ، تیز رفتار مگر معتبر مطبوعہ و غیر مطبوعہ ذرائع ابلاغ سے درج ذیل اسٹیک ہولڈرز تک بروقت اور ہر وقت ترسیل اور ان پر عملدرآمد کے لیے منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی تشکیل کو متعلقہ اداروں کی اہم ذمہ داری ہے۔
زرعی شعبہ سے وابستہ افراد و ادارے/اسٹیک ہولڈرز
۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کے ادارے
۔ نجی و سرکاری زرعی انجینئرنگ ورکشاپس
۔ زرعی کلیات و جامعات
۔ فارمرز فیلڈ اسکولز
۔ زرعی قرضے فراہم کرنے والے ادارے
۱۔ کاشت کار اور کاشت کاروں کی انجمنیں
۲۔ اجناس اور سبزی منڈیوں سے وابستہ افراد
۳۔ ایوان ہائے صنعت و زراعت و تجارت
۴۔ زرعی مشینری و آلات بنانے والے افراد و ادارے
۵۔ کھاد ، بیج ، ادویات اور دیگر زرعی مصنوعات تیار و فروخت کرنے والے ادارے
۶۔ غیر سرکاری تنظیمیں
۷۔ کسانوں کی نمائندگی کرنے والے افراد/ادارے
۸۔ زرعی تعلیم، تحقیق و تربیت اور توسیع کے ادارے اور ان سے وابستہ اساتذہ ، طلباء، غیر تدریسی عملہ
۹۔ وفاقی و صوبائی وزارتیں، محکمے، نیم سرکاری ادارے، نجی ادارے وغیرہ
۱۰۔ عوامی نمائندگی کے ادارے اور منتخب اراکین
۱۱۔ بین الاقوامی ادارے/تنظیمیں
۱۲۔ صحافتی ادارے اور زرعی صحافت سے وابستہ افراد
۱۳۔ دیہی معیشت اور مسائل میں دلچسپی رکھنے والے افراد/ادارے
تجویز
مذکورہ مقصد پاکستان زرعی تحقیقی کونسل اور مقتدرہ قومی زبان کے تاسیسی مقاصد سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ لہذا قومی وسائل سے چلنے والے ہر دو وفاقی اداروں کے مابین مشترکہ مقاصد کے لیے علمی و تکنیکی تعاون و اشتراک زرعی شعبہ میں پیشرفت کی رفتار تیز کر کے مجموعی قومی ترقی میں قابل قدر اضافے کے لیے مہمیز کا کام دے سکتا ہے۔ دونوں ادارے فوری طور پر درج ذیل امور میں باہمی تعاون و اشتراک کا عزم کر سکتے ہیں:
۱۔ دونوں اداروں کے ماہرین کے مابین مشترکہ مقاصد و منصوبوں کے لیے تعاون و تعامل
۲۔ مختلف زرعی علوم و فنون خاص کر کونسل کے ماہرین کی تحقیقی نگارشات کو عوام و خواص تک پہنچانے کے لیے اقدامات
۳۔ کونسل اور مقتدرہ کے تعاون سے جدید زرعی علوم و فنون کو قومی و دیگر پاکستانی زبانوں میں جلد از جلدمنتقلی کے لیے دارالترجمہ کا قیام
۴۔ زراعت کے مختلف شعبوں میں کثرت سے مستعمل الفاظ و اصطلاحات کی تعلیم، تفہیم اور توسیع کو سہل بنانے کے لیے مختلف علوم و فنون کے کشاف کی تیاری طباعت
۵۔ زرعی معلومات و پیغامات آسان، قابل فہم اور دلچسپ انداز میں قارئین، سامعین اور ناظرین تک پہنچانے کے لیے کتب و رسائل ، عملی رہنما کتابچوں، ریڈیو، ٹی وی اور ویب سائٹس کے لیے تربیتی و دستاویزی پروگراموں کی تیاری و نشر و اشاعت
۶۔ دونوں اداروں کے متعلقہ شعبوں کے مابین تعاون و اشتراک کا فروغ
پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل اور مقتدرہ قومی زبان کے مابین مفاہمت کی یادداشت پر دستخط سے دونوں اداروں کے وسائل و سہولیات کو مشترکہ مقاصد کے لیے بروئے کار لانے میں بے حد مدد ملے گی اور ماہرین کی سطح پر مسلسل تعاون و تعامل ترقی کی نئی راہ ہموار کرے گا۔
٭٭٭٭