اندھیرا ہونے سے کچھ پہلے  


نجمہ سہیل نے اپنی وفات سے عین پہلے یہ ناول کیوں لکھا؟ یا کم از کم اپنی وفات سے ایک ماہ پہلے مجھے پڑھنے کے لئے کیوں دیا؟۔مجھے یہ سوال پریشان کر رہا ہے۔ انھوں نے اس سے پہلے ’’آگہی کا درد‘‘ (شعری مجموعہ) ’’لفظ آئینہ بنے‘‘ ، ’’جانے پہچانے(خاکے ،مضامین) اور تین افسانوی مجموعے ’’زندگی کے تعاقب میں‘‘ ، ’’گم شدہ ہندسہ‘‘ اور ’’اس خرابے میں‘‘ شائع کرائے تھے۔ ’’اندھیرا ہونے سے کچھ پہلے‘‘ انھوں نے مجھے اگست کے آخر ی ہفتے میں بھجوائی تھی جسے میں نے پڑھنا شروع کر دیا تھا مگر ان کی وفات (۲۳۔ ستمبر۲۰۱۱ء) کے بعد میں اس ناول کو نم ناک آنکھوں سے پڑھتا رہا۔
ناول کا آغاز ایک معمر مگر متمول بیٹے کے باپ آفتاب عالم کی طرف سے شائع ہونے والے اشتہار سے ہوتا ہے۔’ میرانام آفتاب عالم ہے۔ میں زندہ ہوں اگر میرے پرانے دوستوں میں سے کوئی زندہ ہے اور میں اسے یاد ہوں تو مجھ سے رابطہ کرے‘ اور پھر اس اشتہار کے نتیجے میں اس سے وہ شمی رابطہ کرتی ہے جو نصف صدی قبل اسے بتائے بغیر اس کی جذباتی زندگی سے نکل گئی تھی۔ شمی کے ساتھ ہی اسے تین پرانے دوست ملتے ہیں یا وہ انھیں ڈھونڈ نکالتا ہے۔ ان تینوں کا تعلق کم وسیلہ بستیوں سے ہے جہاں غالباً معاشی دباؤ کے باعث بیٹے اکھڑ اور بہوئیں بدمزاج ہو جاتی ہیں۔ نجمہ سہیل نے ان سب کو زندگی کی آخری منزل میں یکجا کر دیا ہے۔ ایک ایسے سٹیج پر جس پر ناگزیر روشنائی کے ساتھ لکھا ہے ’’اندھیرا ہونے سے کچھ پہلے ‘‘
’’
رفعیہ کا پوچھ رہے ہو۔ اس کو تو گزرے مدتیں ہوئیں۔ ویسے یار یہ عورتیں بھی خدا نے کیا شے بنائی ہیں۔ ویسے تو ساری زندگی اردگرد بھنبھناتی پھرتی ہیں اور جب ان کی ضرورت ہوتی ہے تو چپکے سے آگے نکل جاتی ہیں‘‘۔ (ص۔۲۱ )
پھر ایک دن رفعیہ ختم ہوگئی۔ رات کو سوئی تو صبح اُٹھی ہی نہیں۔ سوتے سوتے میں ہارٹ فیل ہوگیا۔(ص۔۷۵ )
تم اس طرح اچانک بغیر بتائے کیوں چلی گئیں سارے ناطے توڑ کے ’‘ جانا تو تھا‘۔ شمی پُر خیال لہجے میں بولی۔ (ص۔۸۱ )
کیوں ، امریکہ جا رہے ہو؟ کھلا ویزہ ہوگا۔
اُوپر جانے کا ویزہ بھی ہمارا لگ چکا ہے۔ (ص۔ ۱۲۲ )
شادی اس سے کرو جو تم سے محبت کرتا ہو نہ کہ اس سے جس سے تم محبت کرتے ہو۔ (ص ۔ ۱۳۵ )
ایک بار بغیر بتائے چلی گئی تھی نا! سوچا اب بتا کر جاؤں گی۔ (ص۔ ۱۵۵ )
نارمل سے زیادہ عمر پانے کا فائدہ؟ جو ساتھی بچھڑ گئے کیا وہ اچھے نہ رہے۔ (ص۔ ۱۷۱ )
نجمہ سہیل کی بطور تخلیق کار یہ خواہش تھی کہ انھیں اپنے نامور شوہر ڈاکٹر سہیل احمد خان مرحوم کے حوالے سے ہی نہ پرکھا جائے مگر کیا کیا جائے یہ لکھنے والے لاہور کے بے مثال استاد کم و بیش ایک ساتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور ہمارا میڈیا اپنی خبروں کو عہدوں کی نسبتوں سے شہ سرخی بناتاہے یانظرانداز کرتا ہے۔ لاہور میں ڈینگی وائرس نے ایک بہت بڑی تخلیق کار اور اردو ادبیات کی استاد کو اپنا نشانہ بنایا ،جسے تخلیقی سطح پر چند قدم دور کھڑی موت کا ادراک تھا تبھی اس نے لکھاہے ’’اندھیرا ہونے سے کچھ پہلے‘‘۔
(
انواراحمد )
’’
وہ ایک صحافی تھا ، ایک افسانہ نگار تھا ، ایک ادبی رسالے کا مدیر تھا ۔ اس کا رسالہ ’ نیا ورق ‘ عصری جرائد میں بالکل الگ پہچان کا حامل تھا ، جس میں ساجد نے ہماری زندگی پر اثر انداز ہونے والے سیاسی ، سماجی اور مذہبی مسائل پر فکر انگیز اور چشم کشا بحثیں چھیڑیں تو دوسری طرف چرکین کی ہزلیات اور امیرحمزہ وعمر وعیار کی صاحب قرانی اور عیاری کی داستانوں سے بھرے اور ماضی کی پناہ گاہوں میں منہ چھپانے والے ادبی جریدوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ درحقیقت زندگی آمیز اور زندگی آموز ادب کیا ہوتا ہے۔ ساجدکو شکایت تھی کہ اُردو ادب میں ہمارے زوال پذیر تہذیب کی ملمع سازی یا پھر پر تصنع شہری زندگی کی دل فریب ترجمانی کیوں زیادہ نظر آتی ہے؟ جب کہ اصل سماج دیہات میں بستا ہے۔ شہروں میں تو اس کی حقیقی صورت اپنی سمائی سے زیادہ آبادی کو سموئی ہوئی بستیوں ، تنگ وتاریک گلیوں اور گندگی چالیوں میں رونما ہے ، جن سے ہمارے ادیبوں نے کم ہی سروکار رکھا ہے۔ ہمارے لکھنے والوں کی اکثریت خواص پسند اور جاگیردارانہ روایتوں کی ذ ہنی غلام رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فیوڈل کلاس کے تہذیبی زوال کے ماتم سے ہنوز فارغ نہیں ہوسکی ہے۔ ‘‘
ساجد رشید کی کتابیں
*
رگوں میں جمی برف (ناول ) ۱۹۷۶ء *ریت گھڑی (افسانے ) ۱۹۹۰ء *نخلستان میں کھلنے والی کھڑکی (افسانے ) ۱۹۹۰ء *سونے کے دانت (ہندی کہانیاں) ۲۰۰۲ء *ایک چھوٹا سا جہنم۲۰۰۴ء*زندگی نامہ (اخباری کالموں کا انتخاب) *ایک مردہ سرکی حکایت (زیر طبع )
مقتدرہ میں کتاب بینک کے قیام کا اعلان
طلبہ ، اساتذہ اور سکالروں کے لیے مقتدرہ کے کتب خانے کے اوقات کار میں سہولت
مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے کتب خانے میں طلبہ ، اساتذہ اورسکالروں کے لیے اوقات کار میں خصوصی سہولت مہیا کی گئی ہے۔ اس بات کوعرص�ۂ دراز سے محسوس کیاجا رہاتھا کہ مقتدرہ کا کتب خانہ دفتری اوقات میں ہی کھلا رہتا ہے جبکہ طلبہ ، اساتذہ اور سکالروں کی بہت بڑی تعداد اپنی روزمرہ کی ذاتی مصروفیات ختم کرکے دفتری اوقات کے بعد کتب خانے سے استفادہ کرنا چاہتی ہے۔ اس علمی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مقتدرہ کے صدرنشین ڈاکٹر انوار احمد نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ مقتدرہ کا کتب خانہ شام پانچ بجے تک طلبہ، اساتذہ اور سکالروں کے لیے ہفتہ کو کھلا رہے گا۔ اس کتب خانے میں اخبار اردواور مقتدرہ قومی زبان کی شائع کردہ کتب کی سافٹ کاپی (CDs) بھی رعایتی نرخوں پر دستیاب ہوں گی۔