غزلیات

غزل
خود چل کے قریب آ گیا تھا
میں دُور سے جس کو دیکھتا تھا

گزری ہوئی بُلبُلوں کا سایہ
اک شاخِ گلاب پر پڑا تھا

سبزہ ہو مراقبے میں گویا
خاموش تھا اور جُھکا ہوا تھا

بیٹھا تھا کوئی مِرے مقابل
اور آپ سے آپ ہنس رہا تھا

دِل صبح سے مضطرب ہے میرا
یہ خواب اگر نہ تھا تو کیا تھا
احمد مشتاق
غزل
دل کو حسرت ہی رہی نغمہ گری کرنے کی
صرصرِ شب کو نسیمِ سحر کرنے کی

اپنی جانب ہی اُن آنکھوں نے لگائے رکھا
کبھی رخصت ہی نہ دی خود نگری کرنے کی

کہیں جاتا تھا تو ہم چھوڑنے جاتے تھے اُسے
ایک صورت تھی یہی ہم سفری کرنے کی

مانگتا پھرتا ہے وہ دن کوئی پوچھے دل سے
یہ تری عمر ہے دریو زہ گری کرنے کی
احمد مشتاق
غزل
کسی گرداب کی پھینکی پڑی ہے
لبِ ساحل جو اک کشتی پڑی ہے

حقیقت میں وہی سیدھی پڑی ہے
مجھے اک چال جو الٹی پڑی ہے

سفر الجھا دیئے ہیں اس نے سارے
میرے پیروں میں جو تیزی پڑی ہے

وہ ہنگامہ گزر جاتا ادھر سے
مگر رستے میں خاموشی پڑی ہے

ہوا ہے قاتل بے داری کا جب سے
یہ بستی رات دن سونی پڑی ہے

یہ مصرعہ میں ادھورا چھوڑتا ہوں
میرے بستے میں اک تختی پڑی ہے

پتنگ کٹنے کا باعث اور ہے کچھ
اگرچہ ڈور بھی الجھی پڑی ہے

ذرا کویل کا پنجرہ کھل گیا تھا
ابھی تک خوف سے سہمی پڑی ہے

مکمل ایک دنیا اور بھی ہے
جو اک دنیا کی، ان دیکھی پڑی ہے

بڑی بنجر تھی یہ کھیتی لیاقت
مگر کچھ روز سے سینچی پڑی ہے
لیاقت جعفری
غزل
یہ رات اپنے لہو کو جمائے دیتی ہے
ہوا کے ریڑھ کی ہڈی گھلائے دیتی ہے

بڑی ادا سے جھکی ہے کسی کی پیشانی
یہ میرا نقش کف پا سجائے دیتی ہے

میں اس کو جیتنے آیا تھا زندگی لے کر
مگر یہ موت تو مجھ کو ہرائے دیتی ہے

کچھ اور کر نہیں سکتی تو موت آخر کار
ہماری عمر ذرا سی بڑھائے دیتی ہے

میں یہ ہی سوچ کے جسم اس طرف اتار آیا
کبھی کبھی تو مری جان رائے دیتی ہے
تصنیف حیدر
غزل
رونقیں کم نہیں ہوں گی مرے مرجانے سے
دشت آباد رہے گا کسی دیوانے سے

اک نہ اک طور سے زندہ ہی رہے گا ترا ہجر
مسئلہ حل نہیں ہونا ہے تجھے پانے سے

جم گیا اس پہ اداسی کا گھنیرا سایہ
تونے سر اپنا اٹھایا جو مرے شانے سے

تو کہ برسا ہی نہیں مجھ پہ کبھی جی بھرکے
فائدہ کچھ بھی نہیں ایسی گھٹا چھانے سے

بس یہ ہوسکتا ہے ہم خود سے الگ ہوں کچھ دیر
اور تو کچھ نہیں ہوگا ترے آجانے سے

خود کو تعمیر کیا میں نے بڑی دیر میں اور
مجھ میں رہنے چلے آئے ہیں یہ ویرانے سے

ہم بھی تاریخ کے ملبے میں دبے ہوں گے کہیں
کون ڈھونڈے گا ہمیں وقت کے تہہ خانے سے
تصنیف حیدر
غزل
میں اپنے آپ سے جو سادگی سے لڑتا رہا
انا کی جنگ بڑی تازگی سے لڑتا رہا

مرا حصار تھا کیا اور میرا محور کیا
تمام رات میں آوارگی سے لڑتا رہا

مجھی سے لڑتی رہیں رات بھر مری سانسیں
یہ اور بات کہ میں زندگی سے لڑتا رہا

مرے خلاف تھے ظلمات کے سبھی سایے
میں اک دیا ہی سہی تیرگی سے لڑتا رہا
مرے بدن میں تو روحیں قیام کرتی رہیں
میں اپنے جسم کی بے مایگی سے لڑتا رہا

مرے مزاج سے ہم زاد مختلف تھا مرا
یہی سبب ہے کہ ہم سایگی سے لڑتا رہا
معیدرشیدی
غزل
آج کچھ صورت افلاک جدا لگتی ہے
دیکھتا ہوں تری جانب تو گھٹا لگتی ہے

زندگی ہم ترے کوچے میں چلے و آئے تو ہیں
تیرے کوچے کی ہوا ہم سے خفا لگتی ہے

شب کی آہٹ سے یہاں چونک گیا ہے کوئی
یہ بھی شاید مرے دل ہی کی خطا لگتی ہے

میں زمینوں کی لکیروں میں الجھتا کیسے
آسمانوں سے مری گردش پا لگتی ہے
کیا ملے گا تجھے میلے میں بھٹکنے والے
ان دکانوں میں فقط ایک صدا لگتی ہے
معیدرشیدی
وہ اک صنوبر سا آدمی ہے
( سید عباس زیدی کے نام)

وہ اک صنوبر سا آدمی ہے جو زرد موسم کے راستوں پر مجھے ملا ہے
سخن کی روشن رفاقتوں کا امیں رہا ہے
وہی جو گزری رُتوں کے سائے میں بکھرے پتوں کو گِن رہا ہے
مہکتی صُبحوں کی نم ہوائوں کا چھونے والا
شبِ ہُنر کا رفیق و یاور
دیّوں کی رونق میں پلنے والا
عمیق جذبوں سے شعر و معنی کے آئینوں میں سُبک روی سے اُترنے والا
وہ اک صنوبر سا آدمی ہے
سفید کلیوں کے راستوں پر نفیس قدموں سے چلتے چلتے
خزاں کی وادی میں آ گیا ہے
خزاں کی وادی میں دیکھتا ہے چمکتی آنکھوں سے دھندلے چہرے
جو شامِ فرقت کی چادروں میں چُھپے ہوئے ہیں
وہ دھندلے چہرے
جنہیں شفق کے سنہرے پنچھی کہیں اُڑا کر چلے گئے ہیں
اُنہی کتابوں کے بکھرے اوراق دل کی پلکوں سے چُن رہا ہے
ورق ورق پر لکھی حکایت مقامِ عجلت میں کہنے والا
وہ قہقہوں کی تہوں میں ڈوبے غموں کے موتی لٹانے والا
مجھے ملا ہے تو ایک شامِ اُفق کی رِہ پر
جہاں سے آگے زمیں پہ راہیں کُھلی نہیں ہیں
عزیزِ جاں ہے رُتوں کا زیدی ،ہزار دل ہوں نثار اُس پر
کہ وہ جو میری مشامِ جاں میں اُتر گیا ہے
ادب کے زینوں پہ شمعیں لے کر رُکا ہُوا ہے
وہ اک صنوبر سا آدمی ہے جو زرد موسم کے راستوں پر مجھے ملا ہے
علی اکبر ناطق
سوات کی بیٹی کی پکار
میرے لہو کی قیمت چکا دو کوئی
مجھے دیس کی رانی بنا دو کوئی

علم کی شمع ہر سو جلا دو کوئی
میری تھمتی سانسیں بڑھا دو کوئی

اُجڑے گھر بسا دو کوئی