پروفیسر غازی علم الدین

پوپ کہانی …… مقصود الٰہی شیخ کی تخلیقی اُپَج

پاکستانی ادیب، صحافی مقصود الہٰی شیخ دیارِ غیر میں اردو کے سفیر ہیں وہ ایک عرصے سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ حال ہی میں ان کی نئی کتاب ''پوپ کہانی' شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب ان کی معنوی اولاد کی سی ہے،اہلِ قلم اردو ادب میںپوپ کہانی کو ایک نیا اور خوب صورت اضافہ قرار دے رہے ہیں۔ شیخ صاحب نے 'پوپ کہانی' کی صنف ایجاد کرکے اردو فکشن کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایاہے۔ ان کی یہ تخلیقی اُپَج ایک مثبت اور تعمیری رویہ ہے لیکن بعض اہل قلم اور ادیبوںنے اسے اردو ادب میں رخنہ اندازی سے تعبیر کیاہے۔ شیخ صاحب کی ہمت قابلِ داد ہے کہ وہ ادبی اجارہ داروں کی سنگ باری میں استقامت سے ڈٹے ہوئے ہیں ۔ اختلاف کرنے والے اس حقیقت کا ادراک نہیں کررہے کہ ہر نئی صنف کی اختراع کا پس منظر، مقصد اور جواز ہوتاہے۔ شوروغوغا کرنے کے بجائے اسے وقت اور حالات پر چھوڑ دینا ہی مثبت رویہ ہے۔ اس نوزائیدہ صنف کی بنیادیں ٹھوس اور گہری ثابت ہوئیں تو یہ باقی رہے گی ورنہ وقت اور حالات کے گزرنے اور بدلنے سے ادبی منظرنامے سے محو ہوجائے گی۔
'پوپ کہانی' شیخ صاحب کے بڑھاپے کا عشق اور جنون ہے۔ ان کی پوپ کہانیاں افکار و حوادث ، معاشرتی رویوںاور انسانی نفسیات کی عکاس ہیں۔ انسان کی سیرت اس کے باطن کا پتادیتی ہے اور تحریر اس کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔اس قاعدے کلیے کے مطابق مصنف کی سوچ ، فکر، آدرش، نصب العین اور پیغام ان کی پوپ کہانیوں سے عیاں ہے۔ متنوع موضوعات پر مشتمل یہ کہانیاں ان کی گہری نظر اور مشاہدے کا نتیجہ ہیں جن میں مشرق و مغرب کے طرزِ زندگی، سوچ، فکر و عمل اور مغرب میں مقیم پاکستانی نژادِ نو کے نفسیاتی مسائل کا خوب صورت تجزیہ پیش کیا گیاہے۔
مصنف کی زندگی کا ایک معتدبہ حصہ مغربی معاشرت میں گزرا۔ اس حوالے سے ان کا تجربہ طویل اورمشاہدہ خاصا گہراہے۔ اس فطری امر کے تحت وہاں کی معاشرت ، اقدار، ماحول اور فکرکی جھلک ان کی پوپ کہانیوں میں عیاں ہے۔ شیخ صاحب کو اپنی بات کم سے کم لفظوں میں کہنے کا ہنر خوب آتاہے۔ ذومعانی اختصار 'پوپ کہانی' کی خصوصیت ہے۔ مختصر کہانی کو جہانِ معانی عطاکرتے ہوئے تیکھی مگر بڑے پتے کی بات کہہ دیتے ہیں۔'پوپ کہانی' کا تانا بانا چھوٹے چھوٹے جملوں سے بُنتے ہیں۔ جوبات زیادہ صفحات کی متقاضی ہو اُسے ایک آدھ صفحے میں سمو دیتے ہیں۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے زبان پر قدرت، مشاہدے اور تخیل میں وسعت ہونی چاہیے۔ شیخ صاحب ماشاء اللہ اس صلاحیت سے بدرجہ اتم متصف ہیں۔
شیخ صاحب اپنے معاشرے کو خوردبین سے جانچتے ہیں۔ گردوپیش میں موجود خیر اور شر کے نمائندہ کرداروں کو تلاش کرکے کہانی بُنتے ہیں۔ ان کرداروں کا تجزیہ کرتے ہیں اور نتائج قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ سلگتے مسائل، معاشرے میں پل رہے ناسور ،فکری تضادات اور قدروں کے زوال ان کی 'پوپ کہانی' کا موضوعِ خاص ہیں۔ ان کی نظر اور قلم یک طرفہ نہیں ہیں بلکہ زندگی کی خوب صورتیاں اور بد صورتیاں دونوں اجاگر ہوتی ہیں۔ تجسّس اور ندرتِ خیال شیخ صاحب کی' پوپ کہانی' کا لازمہ ہے۔ وہ عصری زندگی کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے کڑوی سچائیوں کو واضح طورپر بیان کرتے ہیں۔ ان کی کہانی کا یہ اعجاز ہے کہ جب اسے ختم کرتے ہیں تو قاری کی سوچ کے کئی زاویے کھول جاتے ہیں۔
شیخ صاحب بچپن، جوانی ، بڑھاپا الغر ض زندگی کے ہر ہر مرحلے کا مشاہدہ کرکے تجزیہ پیش کرتے ہیں۔' پوپ کہانی' کے موضوعات میں سے بچے ایک اہم موضوع ہے۔ شیخ صاحب بچوں کی نفسیات کو سمجھنے میں اچھاخاصا درک رکھتے ہیں۔ بچے کتنے معصوم اور سچے ہوتے ہیں کہ جو کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں ،بڑی سادگی سے اس کا اظہار کردیتے ہیں۔
شیخ صاحب کی نثری 'پوپ کہانی' میں نظم کاحظّ اٹھایاجاسکتاہے۔ ابتدائیہ ''جنگل اداس نہیں '' میں 'پوپ کہانی' کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کے جواب میں اتنا ربط، نظم اور غنائیت ہے کہ قاری اسے آزاد نظم سمجھنے لگتاہے۔
'پوپ کہانی' کے موضوعات کو سمیٹ کر تجزیہ کیاجائے تو یہ انسانیت کی زبوںحالی، برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژادِ نو کے گھمبیرمعاشرتی و نفسیاتی مسائل، ٹوٹتی اقدار، وطنِ عزیز کے مسائل، منافقت، نفسانفسی، بھوک ننگ اور افلاس پر بھرپور شہرآشوب معلوم ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ہم اسے مزاحمتی ادب سے تعبیرکرسکتے ہیں جس کے ذریعے نفاق بھری معاشرت، نام نہاد دانش وروں، بداطوار اور نااہل قیادت کا محاکمہ کیا گیاہے۔
'پوپ کہانی' اور اس کے مصنف کے بارے میں میراآخری تاثر یہ ہے کہ جناب مقصود الٰہی شیخ علمی و ادبی لحاظ سے قد کاٹھ کے آدمی ہیں۔ وہ جسمانی اعتبار سے غیرمعمولی طویل القامت نہیں ہیں جس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان کی آنکھیں زمین پر بسنے والوں کے قریب تر ہیں۔