پروفیسر فرزانہ خان
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
محقق ، ادیب ، صحافی ، مترجم اور دانشور سید قاسم محمود

بھارتی پنجاب کے ضلع روہتک کے قصبہ کھر کھودہ کے مکین سید ہاشم علی کے گھر ۱۷ نومبر ۱۹۲۸ء کو جنم لینے والے بچے کا نام سید قاسم علی رکھا گیا جسے عالم علم میں سید قاسم محمود ، بے بدل کے نام سے سب جانتے ہیں ۔ دلی سے شمال مغرب میں ۲۸ میل کے فاصلے پر کھر کھودہ سادات کی ایک شریف و شائستہ بستی تھی جو پرانی اسلامی تہذیبی اقدارکی آبرو لیے ہوئے تھی اور یہاں تقریباً ڈھائی ہزار مسلمان اور تین ہزار ہندو آباد تھے ۔ قصبے کے گر دفصیل تھی لیکن وہ جگہ جگہ سے شکستہ اور چار اطراف چار دروازے بھی منہدم ہوچکے تھے صرف نشان باقی تھے ۔ ہجرت کا کرب اور آزادی کا لمس کیا ہوتا ہے یہ تو وہی بتا سکتا ہے جس نے اپنوں کا لہو بہتے اور اپنے قدموں کو آزاد سرزمین پر رکھنے کے ساتھ ہی اپنی جبیں کو اس کی مٹی پر رکھ کر، رب کریم کے حضور سجدۂ صبر و شکر کیا ہو ۔
۲۲ اگست ۱۹۴۷ء کی شب آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی موسلا دھار بارش تھمنے کا نام نہیں لیتی تھی لگتا تھا کہ قیامت آگئی ہے۔ گلیوںمیں گھٹنوں گھٹنوں پانی ، دفاع کے لیے موجود اسلحہ جس میں غرق ہوچکا تھا۔ اہل بستی پر مرگ کا سناٹا طاری تھا ، اکابرین میں باہمی صلاح مشورے کے بعد ، قافلہ دہلی کی طرف ہجرت کے لیے روانہ ۔۔۔ بستی سے دو ڈھائی میل کے فاصلے پر جب قافلہ بارش میں بھگتا ہوا ، کیچڑ میںلت پت ، نہر گوپال پور کے پل سے گزرنے لگا تو جاٹوں اور سکھوں کے گھڑ سوار دستوں نے انہیں گھیر لیا ۔ باپردہ سید زادیوں ، معصوم سید زادوں اور بے گناہ سیدوں کو قطاروں میں کھڑا کیا گیا سب کو آنکھیں کھلی رکھنے کا حکم صادر ہوا ، اور پھر ایک سرے سے فائرنگ شروع ہوگئی جب آخری گولی چلی تو تمام سفید برقعے لال ہوچکے تھے ، تمام زبانیں دانتوں تلے کٹ چکی تھیں ، تمام گردنیں ڈھلک چکی تھیں اور تمام وجود نعشیں بن چکے تھے۔ اگلے روز سورج جب ان معصوم شہیدوں کی قدم بوسی کے لیے میدان میں اترا تو وہاں صرف ایک انیس سالہ سید زادہ زخموں سے چور ، جسے حملہ آور مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے زندہ بچا اور وہ ہمارے سید قاسم محمود تھے۔
غیر معمولی اور باصلاحیت انسانوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جسے انگریزی میں "UNSUNG HEROES" کہا جاتا ہے یہ لوگ ان ہیروز سے مختلف ہوتے ہیں جنہیں قدرے دیر سے بعد از مرگ شہرت ملتی ہے اور جن کے بارے میں اردو شاعری اس طرح کے مصرعوں اور شعروں سے بھری پڑی ہے کہ
مرگئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
یا
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
محقق ، اخبار نویس ، افسانہ نگار ، قاموس نگار ، ڈرامہ نگار ، مصنف و مؤلف ، تدوین کار اور ناشر کتنی ہی جہتیں اس ایک شخص سے وابستہ ہیں ۔ ان کے علمی اور ادبی سرمایہ کا حق ادا کرنا بحیثیت قوم بھی مشکل ہے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سید قاسم محمود کا ، علمی و ادبی مقام اگر مینار پاکستان جتنا بلند اور پر شکوہ نہیں تو اس سے کم بھی نہیں ہے ۔ ان کے چہرے مہرے ، چال ڈھال اور بات چیت سے یہ اندازہ کرنا بہت ہی مشکل تھا کہ یہ شخص اس قدر محنتی ، بہادر ، مستقل مزاج اور کمیٹڈ ہے کہ تن تنہا اردو زبان و ادب میں وہ کچھ کردکھایا جس کے لیے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہزاروں افراد پر مشتمل ادارے ہوتے ہیں جن میں ہر سہولت مسیر اور آسودگی معاش کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا ۔ لیکن قاسم محمود کا حال یہ رہا کہ کبھی گھر کا کُل سامان بیچ کر قرض اتارا اور پھر رزق کی تلاش میں نوکری کی۔ جو وقت بچ نکلا اس میں علمی کام کیا ، کبھی بجلی ہے تو کبھی لالٹین یا موم بتی ، لیکن قلم اور کاغذ کا رشتہ بدستور قائم رکھا ۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ پاکستان کے ہر فرد کو اعلیٰ کتابوں کے مطالعہ کا رسیابنادیں جن لوگوں نے ان کی جاری کردہ ''شاہکار ''جریدی کتب کے ضمن میں شائع ہونے والی دنیا کی عظیم کتابیں انتہائی سستی قیمت میں خرید کر پڑھی ہیں ، وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ اعلیٰ ادب کی اردو زبان میں اشاعت کے حوالے سے یہ سلسلہ اپنی مثال آپ تھا اور ان کتابوں نے ایک پوری نسل کے ذہن اور دل کے دریچوں کو کھولنے کا کام جس خوش اسلوبی سے انجام دیا اس کا سارا سہرا صرف ایک خاموش اور انتھک رضاکار ِ اردو زبان سید قاسم محمود کے بلند سر پر ہی بنتا ہے ۔ اس اشاعتی سلسلے میں کتب کے انتخاب ، ترجمے کے معیارات ، طباعتی نفاست اور انتہائی ارزاں قیمت میں علم کی مسلسل فراہمی وہ سنگ میل ہے جنہیں آج تک کوئی دوسرا فردتو کیا ، ادارہ بھی پار نہیں کرسکا۔
ان کے مرتب کردہ معرکۃ آراء تحقیقی و علمی ''انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا '' ۔ ''اسلامی انسائیکلو پیڈیا '' اور ''قرآنیات کا انسائیکلو پیڈیا '' کا تعلق ہے ، ان کے موضوعات کے تنوع اور پھیلائو کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ سارا کام کسی فرد واحد کا ہے۔ تحقیق و تدوین کے ساتھ ہی دیگر تخلیقات اور تراجم کی فہرست اس قدر طویل اور بھاری بھرکم ہے کہ بے شمار لوگو ں نے تو شاید پوری زندگی میں اس قدر لفظ پڑھے بھی نہ ہوں جتنے اکیلے اس درویش زبان و ادب کے قلم سے تخلیق یا تدوین کے حوالے سے نکلے یا شائع ہوئے ۔ ان کی نثر نگاری درجہ کمال کی تھی جن کی زندہ تصویریں ان کے افسانوی مجموعے (۱) دیوار پتھر کی (۲)قاسم کی مہندی اور (۳)قاسم محمود کے افسانے ۔ اسی طرح ناول ''چلے دن بہار کے '' اور ناولٹ ''پنڈت جلال الدین نہرو'' اور اس کے علاوہ بے شمار مغربی قلم کاروں کے رواں اور معیار ی تراجم ان کی نثر نگاری کی صورت میں موجود ہیں ۔
۳۱ مارچ ۲۰۱۰ء بروز ِ بدھ ، عظیم محسن اردو ادب ، میدان تحقیق و تدوین کے سکندر نے جب اس فانی عالم سے کوچ کیا تو ہاتھ خالی اور نہ سینے پر کوئی درباری تمغہ اور نہ عیال کے لیے کوئی سرکاری مراعات و پلاٹ ، البتہ اپنے ترکہ کو قوم میں بانٹ چلا۔ پڑھے جائو بڑھے جائو کہ تم زندہ قوم ہو اوریا مقبول جان نے سچ ہی لکھا تھا ''منوں مٹی تلے اس ملک کا ایک محسن دفن ہوچکا '' وہ جس عشق سے سرشار تھا ، اس کی منزل اسے مل ہی چکی ہوگی ۔ لیکن ہم کتنے بدنصیب ہیں کہ ان سولہ کروڑ لوگوں ، ان کے حکمرانوں ، ادباء اور ذرائع ابلاغ کے سرخیلوں کو اس کے جانے کے غم سے بھی محروم کردیا گیا جو قومیں اپنے صاحبانِ علم کے اٹھ جانے پر افسردہ نہیں ہوتیں جنھیں اپنے محسنوں کے چلے جانے کا احساس تک نہیں ہوتا ان پر مستقبل کی خوشیاں کبھی دستک نہیں دیا کرتیں ۔
٭٭٭٭