دستگیر شہزاد

رشیدۃ النسأ بیگم … اُردو کی پہلی ناول نگار

اردو کی پہلی ناول نگار خاتون رشیدۃ النسأ بیگم ہیں جنھوں نے ۱۸۸۱ء میں ایک اصلاحی، سماجی اور مقصدی ناول ''اصلاح النسا'' لکھا۔ اس ناول میں مسلمانوں کے عہد سے لے کر لحد تک کے رسم و رواج کا ذکر ہے اور تقریباً یہ تمام رسم و رواج اسلامی نقطۂ نگاہ سے غیر شرعی ہیں۔ رشیدۃ النسأ نے ان رسم و رواج کے خلاف وہ ضرب کاری لگائی ہے جس کا اعتراف نہ کرنا بے انصافی اور احسان فراموشی کے زمرے میں داخل ہو گا۔ ناول سے اس بات کی بھی نشان دہی ہوتی ہے کہ تقریباً ایک سوچوبیس سال قبل ایک عورت کی نظر احکام شرعی اور اسلامی تعلیمات پر کتنی گہری تھی۔
''اصلاح النسأ'' کا جائزہ لینے سے پیشتر پس منظر پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈال لینی ضروری ہے۔ پس منظر جان لینے کے بعد ناول کے مقصود کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ پس منظر کی ایک جھلک دکھاتا چلوں۔
سید احمد بریلوی نے تحریک ''اصلاح مذہب'' تقریباً ۱۸۲۴ء سے چلائی اور یہ تحریک ایک عرصے تک چلتی رہی۔ جس کامقصد احیائے اسلام تھا۔ اس تحریک سے شعوری یا غیر شعوری طو رپر مسلمانان ہند متاثر ہوئے۔ مولوی نذیر احمدنے دہلی سے ''مراۃ العروس'' ۱۸۶۹ء میں اور ''نبات النعش'' ۱۸۷۲ء میں چھاپا۔ الطاف حسین حالی نے'' مجلس النسأ'' لکھی۔ شاد عظیم آبادی نے ''صورت الخیال'' اور نواب افضال الدین نے ''فسانۂ خورشیدی'' پیش کیا۔ مولوی نذیر احمد کے ناول ''مراۃ العروس'' سے متاثر ہو کر رشیدۃ النسأ بیگم نے پٹنہ صوبہ بہار سے ''اصلاح النسأ'' شائع کیا۔ جس کا اعتراف مصنفہ نے ان الفاظ میں کیا ہے۔
''اللہ مولوی نذیر احمد صاحب کو عاقبت میں بھی بڑا انعام دے۔ ان کی کتاب پڑھنے سے عورتوں کو بڑا فائدہ پہنچا۔ جہاں تک ان کو معلوم تھا۔ انھوں نے لکھا اور اب جو ہم جانتے ہیں اس کو انشاء اللہ تعالیٰ لکھیں گے۔ جب اس کتاب کو لڑکیاں پڑھیں گی تو مجھے خدا سے امید ہے کہ انشاء اللہ سب اصغری ہو جائیں گی۔ شاید سومیں ایک اپنی بدقسمتی سے اکبری رہ جائے تو رہ جائے۔ میرے لکھنے سے عمدہ بات یہ ہوگی کہ اس کتاب کے پڑھنے سے عورتوں پر اثر زیادہ ہو گا اور سمجھیں گی کہ اس نے عورتوں کی رسموں کو جہاں تک لکھا ہے آنکھ دیکھی بات لکھی ہے اور جب لڑکیاں شائستہ اور تعلیم یافتہ ہو جائیں گی تو لڑکوں کا تعلیم پانا مشکل نہ ہو گا۔''
رشیدۃ النسأ بیگم نے جو دعویٰ کیا ہے کہ میرے لکھنے میں عمدہ بات یہ ہو گی کہ اس کتاب کے پڑھنے سے عورتوں پر اثر زیادہ ہو گا۔ اس میں کوئی شاعرانہ تعلی نہیں۔ مولوی نذیر احمد نے چمنستان اردو میں جو پھول کھلایا اس کی خوشبو کو سارے ہندوستان کے مسلمانوں نے محسوس کیا۔ رشیدۃ النسا بیگم نے بھی اس سے فیض حاصل کیا اور نذیر احمد نے اردو کے باغ میں جو سدا بہار پھول لگایا اس میں رشیدۃ النسا بیگم نے اضافہ کیا۔ ''اصلاح النسأ'' میں رسم و رواج اور اوہام کی جتنی تفصیل ہے وہ مراۃ العروس میں نہیں اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عورتوں کے رسم و رواج اور گھریلو زندگی کی جتنی اچھی فلمی تصویر عورتیں کھینچ سکتی ہیں مرد اس پہلو کو اس حسن و خوبی سے اجاگر نہیں کر سکتا اور یہی وجہ ہے کہ بعض باتوں میں رشیدہ النسأ بیگم مولوی نذیر احمد سے سبقت لے گئی ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ''مراۃ العروس'' کو جو شہرت ملی وہ ''اصلاح النسأ'' کے حصے میں نہ آئی۔ اس کے باوجود اس میں کچھ ایسی خصوصیات ہیں جو اس کی اہمیت کی ضامن ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ اردو میں ایک خاتون کا لکھا ہوا ناول ہے۔ دوسرے رسم و رواج کے متعلق اتنی تفصیل اور کہیں نہیں ملتی ہے اور تیسرے اردو میں کسی مسلمان خاتون کا یہ پہلا ناول ہے۔ رشیدۃ النسأ بیگم کی گھریلو زندگی پر بڑی گہری نظر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے مشاہدات سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اپنے ناول میں کردار نگاری اور جزئیات نگاری میں توازن برقرار رکھا اور جو کردار پیش کیا ہے وہ اسی آب و گل اور ہمارے معاشرے کے جیتے جاگتے کردار ہیں اور اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ کردار فطری ہیں۔ اس کے برعکس مولوی نذیر احمد نے جو کردار پیش کیے ہیں وہ آئیڈیل ہیں اور ایسے کردار ہمارے معاشرے میں ملنا ناممکن ہیں اور ان کے کرداروں میں حرکت اور زندگی کی چہل پہل نہیں۔ ان کے اکثر کردار جامد معلوم ہوتے ہیں۔
رشیدۃ النسا بیگم کی ایک منفرد حیثیت ہے۔ انھوں نے نچلے طبقوں کے بے شمار کردار پیش کیے ہیں اور ان کرداروں کی اپنی انفرادی حیثیت ہر حال میں برقرار رہتی ہے۔ اس کے برعکس مولوی نذیر احمد کے یہاں نچلے طبقے کے اتنے کردار نہیں ملتے ہیں۔
''اصلاح النسا'' ایک آئینہ ہے جس میں اس زمانے کی رسمیں اور اوہام کو آسانی سے ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔ بہت سی رسمیں متروک ہو چکیں ہیں اور کچھ رسمیں آج بھی جاری ہیں اور اس کتاب کی حیثیت ایک دستاویز کی سی ہے۔ رشیدۃ النسا بیگم نے ان رسموں کو حماقت کے نام سے تعبیر کیا ہے اور تجزیہ کر کے بتایا ہے کہ مسلمان خاندانوں میں جو رسموں کی بدعت چل نکلی ہے ان کا منبع کہاں ہے؟ ناول کے ایک کردار کی زبانی سنیے:
''بہت باتیں ہندوئوں کے مذہب کی مسلمانوں میں ایسی داخل ہوگئی ہیں کہ آج کل کے مسلمان خالص مسلمان نہیں کہے جا سکتے بلکہ نام کے مسلمان ہیں۔ بہت کم گھر ایسے ہوں گے جو ان رسومات کی آفت سے بچے ہوں گے۔ عورتیں ان رسومات کو مذہبی امور جانتی ہیں۔ اس لیے اس کے ادا کرنے میں دل سے مصروف ہوتی ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ عورتیں بے علمی کی وجہ سے ہندوئوں کے ہاں کے ٹونے ٹوٹکے کی باتوں کو ان کی دیکھا دیکھی خود کرنے لگتی ہیں۔ جب کوئی مرد اس گھر کا ان کو سمجھاتا اور منع نہیں کرتا ہے تو عورتیں سمجھتی ہیں کہ ان رسموں کا کرنا گناہ نہیں ہے بلکہ جائز ہے۔ اسی وجہ سے ایسی ایسی مہمل اور ناجائز باتیں جن کو مذہب اسلام سے کچھ سروکار نہیں ہے۔ ہندوئوں کی دیکھا دیکھی مسلمانوں میں عقیدۃً ہوتی ہیں۔ فرق اسی قدر ہے کہ ہندوئوں میں یہ سب رسمیں ان کے دیوتائوں کے نام سے انجام پاتی ہیں اور مسلمانوں میں پیر پیغمبر اور اللہ کے نام سے ہوتی ہیں۔ ان سب رسومات سے مواخذۂ عقبیٰ کے علاوہ دنیاوی ضرر جوہوتا ہے وہ کیا کم ہے۔ خیال فرمائیے کہ بیماریوں میں بجائے علاج کے ہزاروں روپے دُعا، تعویذ، جادو و سحر، جھاڑ پھونک، فالوں میں برباد ہوتے ہیں''۔
اب ان ہندوانہ رسموں کی سیر کیجیے کہ اس قسم کی باتیں مسلمانوں کو زیب دیتی ہیں! شادی کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے برہمن کو بلانا۔ جس کو رشیدۃ النسا بیگم نے اس طرح بیان کیا ہے۔
''ایک ماماجا کر محلہ کے پانڈہ کو دروازہ پر بلا لائی۔ سوپ میں اروا چاول پانچ سیر ، پانچ گرہ ہلدی، تھوڑی دوبہ پانچ روپے۔ یہ پروتا آیا۔ پانڈہ۔ ہم بہت مدت سے آسرا لگائے ہوئے ہیں۔ پرمیشر نے یہ دن دکھایا ہے۔ امے ہی پرسو روپیا کر جا (قرض) لے کر کھا چکے ہیں۔ ہماری برت ہے پانچ روپیہ ہم نہیں لیں گے۔ غرض بڑی رد وکد سے پچاس روپیہ پر تصفیہ پایا۔ پانڈہ جی نے پترا دیکھ کر اور خوب بچار کر کے اکیسویں کو خواجہ معین الدین کے برات کی تاریخ ٹھہرائی''۔
اگر دینی نقطۂ نگاہ سے دیکھیے تو غلط اور دنیاوی زاویہ سے دیکھیے تو روپے کی بربادی۔ جب دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے نقصان ہو تو ایسی رسم سے کیا فائدہ؟ خیر خدا کا فضل ہے کہ اب مسلمانوں میں یہ رسم نہیں۔
شادی کی تاریخ مقرر ہونے کے بعد اور برات آنے کے پندرہ بیس دن قبل دلہن کو مائیوں بٹھایا جاتا ہے۔ جس کو مسلمانوں کی رسم میں ''مانجھا'' کہتے ہیں۔ مانجھے بٹھانے کے دن سے برات آنے تک روزانہ دلہن کو ابٹن لگایا جاتا ہے اور کھانے میں دلہن کو صرف میٹھی چیز دیتے ہیں۔ مسلمانوں میں یہ رسم آج بھی مروج ہے مگر جتنی تیاریاں اور رسمیں اس زمانے میں ہوتی تھیں آج نہیں ہوتیں۔ اگر جاننے کی خواہش ہو تو ''اصلاح النسأ'' کا مطالعہ کیجیے۔ جس دن سے دلہن کو مانجھا بٹھایا گیا اس روز سے لے کر برات آنے کے دن تک جتنی رسمیں دلہن کی ماں (منیری بیگم) نے کیں۔ ان کا تفصیلی ذکر ''اصلاح النسا'' میں موجود ہے۔ ان میں سے کچھ کا ذکر کرنا بیجا نہ ہوگا۔ بسم اللہ (دلہن) کی ماں نے رت جگے کی تیاری گلگلہ پکانے کے لیے کیا جس کا اتنا اہتمام ہوا۔ سنیے:
''پکانا اس طرح شروع ہوا کہ سب سے جو نیا چولہا بنا کر رکھا گیا تھا اس میں کنگنا باندھا گیا۔ جسے مانجھے کے دن دولہا دلہن کی کلائی پر باندھا گیا تھا۔ زرد کپڑے میں رائی اسپند رکھ کر ایک پوٹلی بنائی گئی اور سرخ ناڑے سے اس کا منہ باندھ کر چولہے میں باندھی گئی۔ اس کا نام کنگنا ہے۔ اس وقت کی ایک رسم یہ ہے پھوپھی نیگ لیتی ہیں… کریم النسأ (دلہن کی پھوپھی) کو سو روپے بسم اللہ (دلہن) کی ماں کو بے مانگے ہوئے دیے اور گلگلے پکانے والی کو پانچ سیر چاول اورسوا سیر گڑ اور پانچ روپے پرونے کے لیے ملے۔ آج بھی رت جگا کی رسم ہوتی ہے۔ اس زمانے میں رت جگا میں ''جھڑ بھرنے کی رسم'' ہوتی تھی۔ ان رسموں میں ہندو تہذیب و تمدن کا گہرا اثر تھا۔ بہرحال اب یہ رسمیں دم توڑ چکی ہیں۔ اب ذرا برات کا حال بھی سنیے۔ برات دو قسم کی ہوتی ہیں ایک شرعی برات، دوسری عرفی برات۔ مصنفہ نے عرفی برات کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
''اس میں دستور کے مطابق بڑا تکلف کیا گیا تھا۔ مانگے کے ہاتھی گھوڑے باجے والوں کی بہت سی چوکیاں ، کاٹھ کی بندوق والے سپاہی،ابرک کے کنول، مرد نگیوں کے تختے، کاغذ کی مسہریاں، پھولوں کے تختے۔ ان چیزوں کی وجہ سے برات کی بڑی لمبی ڈوری ہو گئی تھی۔ برات روانہ ہوئی تو دستور کے موافق دولہا کے سامنے مہتاب اور دس دس قدم کے فاصلے پر انار لوگ چھوڑتے تھے۔گھوڑے کے پیچھے ابرک جگمگے کے جھاڑ فانوس تھے۔ ان چہروں کے پیچھے مامائوں اور لونڈیوں کا غول تھا۔ ان لوگوں کو نہ آرائش کے دیکھنے سے مطلب تھا نہ روشنی سے غرض یہ تو اپنے گانے کی دھن میں تھیں۔ ان احمقوں کو یہ بھی خیال نہ ہوتا تھا کہ ان باجوں کے غل میں گانے کا کیا موقع ہے۔
دیوانیوں کی طرح نوشہ کے پیچھے یہ گیت گاتی چلی جاتی تھیں:
تیری دادی بلیا لے
اے میرے لال بنے
ہاتھی بنی ہے
امباری بنی ہے
کھوب بنی بری پات
اے میرے سوگھر بنے
دولہے کی صورت عجبو بنی ہے
چندا لیا ہے چھپا
اے میرے لال بنے
جب نوشہ دلہن کے دروازے پرپہنچتا ہے، تو باجے والے انعام کے لیے دولہا کو روکتے ہیں اور دروازے پر رشتے کے سالے بھی دولہا کو روکتے ہیں اور اپنا انعام مانگتے ہیں۔ اس کو پنجاب میں گھوڑا چھیکائی کی رسم کہتے ہیں۔ آج بھی یہ رسم پنجاب میں جاری ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے یہاں بھی رائج ہے۔ یہ رسم تو غنیمت ہے مگر اس کے بعد جو رسم ہوتی ہے وہ تہذیب و اخلاق سے گرے ہوئے گیت ہوتے ہیں اور دولہا کی ماں بہنوں کو ایسی ایسی گالیاں گیت کی صورت میں دی جاتی ہیں جو ایک شریف انسان بیان نہیں کر سکتا۔ شادی بیاہ کے گیت کو تہذیب و اخلاق کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ آخر گالی گلوچ کا کیا جواز ہے؟ یہ رسم آج بھی ہوتی ہے اس زمانے میں بھی تھی۔ جس کا ذکر مصنفہ نے تفصیل سے کیا ہے۔
رشیدۃ النساء بیگم نے ان رسموں کو ان الفاظ میں یاد کیا ہے۔ ''دروازے پر یہ نوشاہ کی عزت کی گئی'' اس سلسلے کی اور بھی رسمیں ہیں۔ مصنفہ نے رسم شربت پلائی کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔
''مصری کا شربت بنا کر دولہا کو دیا گیا کہ پیو! پہلے تو دولہا نے انکار کیا۔ سب عورتیں کہنے لگیں۔ اے ہے کیسا خراب ٹرا دولہا ہے؟ شربت نہیں پیتا ہے۔ کریم النساء نے بہت سمجھایا کہ میاں پی لو۔ کوئی بری چیز اس میں نہیں ہے۔ آخر لاچار ہوکر بیچارے نے پی لیا۔ پھر ایک عورت نے یہ کہہ کرکان میں سہاگا لگایا اور کہا سونے میں سہاگہ۔ موتیوں میں دھاگا۔ بنی کا جوگ بنے کو لاگا۔ دولہا سے کہا کہو لاگا۔ دولہا چپ رہا۔ پھر لوگوں نے کہا اگر نہ کہو گے تو ہم باہر نہیں جانے دیں گے، پھر اسی پوکھرا پر کھڑا رکھیں گے مجبور ہو کر کہنا پڑا کہ ''لاگا''۔ اتنے میں ایک عورت دلہن کو گود میں لے کر دولہا کے پیچھے آئی اور دلہن کی جوتی بھرے پائوں سے ایک لات دولہا کے شانے پر لگا کر اس جوتی کو شامیانے پر پھینک کر باہر چلی گئی۔ دولہا اُدھر دیکھ کر رہ گیا۔ اتنی رسموں کے بعد اب دولہاکو باہر لے چلے''۔
دلہن کی رخصتی سے پہلے بہت سی رسمیں ہوئیں جن کے ذکر سے ''اصلاح النسائ'' کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ میں صرف نام گنانے پر اکتفا کرتا ہوں۔ چوڑی پہنانے کی رسم۔ سہاگ پُڑے کی رسم، جلوہ کی رسم، مانگ بھرنے کی رسم، سہرے باندھنے کی رسم اوررخصتی کی رسم وغیرہ۔
دلہن کی رخصتی کا منظر بہت رقت آمیز اور پُر درد ہوتاہے اور گیت بھی درد و الم سے ڈوبا ہوتا ہے۔ لہٰذا مصنفہ نے جو گیت پیش کیا ہے سنیئے!
چھوڑو دادی میرا آنچلا
دادا میاں نے مارا ہے بول
بابل میں تو پاہن تیری رے
میرے آئے ہیں لیون ہار
بابل میں تو پاہن تیری رے
یہ کتاب رسموں اور اوہام کا ایک گنجینہ ہے۔ ان رسموں کے بارے میں کہاں تک بات چیت کی جائے۔ گریز ہی بہتر ہے۔ ''اصلاح النسا'' میں تلک کے مذموم رواج کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔ ہندئووں میں تلک کا عام رواج ہے۔ ہندوئوں کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی اسے اپنے سینوں سے لگایا ۔ اپنی تہذیب و ثقافت کی مسندوں پر لا بٹھایا اور اس ''دیوی'' سے اپنے محلوں اور جھونپڑیوں کو سجایا اور آج بھی دور غلامی کی دیوی کو اپنے کندھوں پر فخریہ اٹھائے پھرتے ہیں۔ آخر کس برتے پر؟ جوں جوں علم کی روشنی اور حیرت کی درخشاں کرن پھیلتی جا رہی ہے، لوگ حقیقت پسند بنتے جا رہے ہیں اور ہر چیز کو دلیل و منطق کی کسوٹی پر کستے ہیں۔ اگر عقل و منطق کی کسوٹی پر پوری اترتی ہے تو اس کو اپناتے ہیں ورنہ دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکتے ہیں اور نقش کہن کو پاٹتے جا رہے ہیں۔ نئے نئے فیشن کو اپنانے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ ادب ، آرٹ اور لباس میں جدید سے جدید تر کی تلاش و جستجو جاری ہے۔ مگر جہیز کے معاملے میں قدامت پرست ہیں اور اس کو برتنے میں بھی دورِ غلامی کے لوگوں کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ جہیز نے سرطان بن کر معاشرے کو زہر آلود بنا دیا ہے۔
رشیدہ النسا بیگم کی دور بین نگاہوں نے جہیز کی لعنت کو محسوس کرلیا تھا اور اپنی قوم کو اس کے برے اور مہلک اثرات سے بچانے کے لیے نہایت چابکدستی سے اس پر خامہ فرسائی کی ہے۔
''بی بی (امتیاز الدین کی والدہ) میرے نزدیک تو رحیم النسا کے ہاں سب سے بہتر ہے۔ ماشاء اللہ صورت شکل کے ساتھ لڑکی پڑھی لکھی، ہنر مند، سلیقہ دار، محنتی، ادب ،تمیز سب باتیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے گھر میں دین داری بہت ہے۔ ہر چند ان تین گھروں میں بھی یہ سب باتیں ہیں لیکن ایک گھر میں دینداری بڑھی ہوئی ہے۔ مجھے ان ہی کا گھر پسند ہے مگر ایک بات ہے کہ یہ غریب ہیں۔
میاں (امتیاز الدین کے والد) غریب ہیں تو کیا ہوا۔ غریبی عیب نہیں ہے اور امیر گھر میں شادی کا نتیجہ دیکھ چکے۔ اگر تمہارے سمدھیانے میں امارت نہ ہوتی تو میرا گھر اور وہ گھر دور نہیں تھا۔ امارت کی وجہ سے تمہاری بہواپنے میاں کی کچھ حقیقت نہیں سمجھتی ہے اور مجھے اپنا بزرگ نہیں جانتی یا اور کوئی وجہ ہے؟ یہ غریب ہیں تو اور بہتر ہے۔ سسرال کی امارت بھی کوئی امارت ہے۔ لا حول ولا قوۃ انسان کو اپنی کمائی کا خیال رکھنا چاہیے۔
ماں۔ جب تم کو یہی منظور ہے تو میں نسبت ڈھونڈواتی ہوں۔ اچھی جگہ بھی تو ہونی چاہیے۔
بیٹا (امتیاز الدین) اچھی جگہ کیا؟ یعنی جہاں خوب دان جہیز ملے۔ ہاتھی گھوڑا ملے۔ یہ غرض ہے؟ ایسی شادی کا نتیجہ تو مجھے مل چکا ہے۔ اب میں ایسی جگہ شادی کرنا نہیں چاہتا ہوں''۔
اب کرداروں پر روشنی ڈالنے سے پہلے مختصر طور پر ''اصلاح النسا'' کی کہانی بیان کر دی جائے۔ جس کے ارد گرد رسم و رواج اور اوہام کے تانے بانے بُنے گئے ہیں۔ محمد معظم اور محمد اعظم دو بھائی ہیں۔ محمد معظم کی لڑکی بسم اللہ کی شادی کی بات چیت محمد اعظم کے لڑکے امتیاز الدین سے ہوتی ہے۔ منیری بیگم (بسم اللہ کی والدہ) تو ہم پرستی اور غیر شرعی رسم و رواج کی دلدادہ ہے۔ اس کے برعکس امتیاز الدین کے والدین غیر شرعی رسم اور اوہام کو برا سمجھتے ہیں مگر منیری بیگم کے سامنے کسی کی نہیں چلتی ہے۔ امتیاز الدین اور بسم اللہ کے نکاح سے لے کر شادی اور بچہ ہونے تک تمام رسم اور اوہام کا ذکر ہے۔ جو اس کتاب کی زینت ہے۔ مصنفہ کے پیش نظر اصلاح کا مقصد ہے۔ اس لیے رسموں اور اوہام کے ذکر میں جزئیات نگاری سے کام لیا ہے۔ ان باتوں کے باوجود جن کرداروں کو غیر اسلامی رسم و رواج سے نفرت ہے۔ ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ ان رسم و رواج کے خلاف علم بغاوت بلند کر سکیں۔ اس ناول کا مرکزی کردار امتیاز الدین ہے۔ جو ان رسم و رواج کو برا سمجھتے ہوئے بھی چپ چاپ سعادت مندی میں تمام خرافات اور رسومات کو پورا کرتاہے اور کہیں بھی بغاوت کا علم بلند نہیں کرتا۔
منیری بیگم میں اتنی جسارت ہے کہ جو کام کرنا چاہتی جس صورت سے بن پڑے وہ کر گزرتی ہے اور اس کی حماقتوں کی وجہ سے اس میں حرکت، چہل پہل اور زندگی ہے۔
اس کتاب میں نچلے طبقوں کے بے شمار چھوٹے چھوٹے کردار ہیں اور شادی بیاہ میں اپنے اپنے کام انجام دے کر اور اپنا نیگ لے کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ ان میں چوڑی والی، مالن، دھوبن، تیلن، کمہارن اور مامائیں وغیرہ اور مردوں میں ڈفالی، باجے والے، آتش باز، پنڈت اوراوجھا وغیرہ۔ انہی لوگوں کے دم سے کتاب میں رونق اور چہل پہل ہے اور ان لوگوں کی اپنی اپنی انفرادی شخصیتیں ہیں۔
اصلاح النساء میں سے اہم اور جان دار کردار وزیرن کا ہے۔ یہ کردار خرافات اور لغو رسموں، ٹونے ٹوٹکے ، تعویذ گنڈے وغیرہ کے سہارے زندہ رہتا ہے اور سادہ دل ان پڑھ اور توہم پرست عورتوں کو چھوٹے پیر فقیر زعفر جن اور تقتوجنات کا سبز باغ دکھا کر روپیہ کماتی ہے اور اپنا پیٹ پالتی ہے۔ یہی اس کا ذریعہ معاش ہے۔ جو آدمی بھی ایک مرتبہ اس پُر فریب جال میں پھنس گیا۔ اُس وقت تک پھندہ سے باہر نہیں نکل سکتا جب تک اس کے پیسے ختم نہ ہو جائیں اور وہ معاشرے کی یہ وہ ناگن ہے جو اپنے مالی فائدے کے لیے خاندانوں کو تباہ و برباد کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ جس کی زندہ مثال بسم اللہ ہے۔ بسم اللہ کے خاوند امتیاز الدین کو دوسری شادی کرنے پر مجبور کر دیا اور یہ سب جو کچھ ہوا صرف منیری بیگم کی حماقت کی وجہ سے ہوا۔ وزیرن کا کردار رشیدۃ النساء بیگم نے جو تقریباً ایک سو چوبیس سال قبل تخلیق کیا تھا۔ ایسی ایسی کتنی وزیرنیں آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ وزیرن کے کردار کی وجہ سے ''اصلا ح النسا'' کی اپنی انفرادیت ہے اور انفرادیت برقرار رہے گی۔ وزیرن کے جیسا کردارمراۃ العروس میں نظر نہیں آتا۔
٭٭٭٭