مسلی ہوئی پتیاں
رضوان شاہد


محرم کے آتے ہی ،قبرستان میں میلاسا لگ گیا۔ مرد ،خواتین صبح سے شام تک قبرستان کی طرف آتے جاتے دکھائی دیتے۔جن کے ساتھ زیادہ تعداد میں بچے ہوتے۔ایسا لگتا جیسے وہ سال بھر انہی دنوں کا انتظار کرتے رہے ہوں۔لوگ ٹولیوں کی شکل میں پہنچتے۔مگر قبرستان کے احاطے میں داخل ہوتے ہی ،منتشر ہوجاتے ۔ قبر وں پر ’’ روڑ ‘‘ ڈالتے، پانی کا چھڑکاؤ کرتے، توڑی ملے گارے سے لیپتے،ٹوٹی ہوئی دیواریں مرمت کرواتے۔نئے کتبے نسب کرواتے ۔قبروں پر پھول پتیاں رکھی جاتیں ۔موم بتیاں جلتیں، اگر بتیاں مہکتی ۔وہی قبرستان جو سال بھر دشت بنا رہتا ہے۔لوگوں کی آمد و رفت سے انار کلی کا منظر پیش کر تا ۔
جب گلی محلے کے بچے اپنی ماؤں ،بہنوں کے ساتھ قبرستان جانے کے لیے نکلے۔تو کاشف بھی ساتھ ہو لیا۔ کیونکہ ایک سال قبل اس کا باپ بھی وہیں دفن ہوا تھا۔ بچوں اور ان کی ماؤں بہنوں نے اپنے پیاروں کی قبروں پر پھول رکھے۔موم بتیاں جلائیں۔ یہ سب دیکھ کر اس کا دل بہت رنجیدہ ہوا،اور آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔وہ اپنے باپ کی قبر پر خالی ہاتھ کھڑا تھا۔وہ پھول پتیاں کیوں نہیں لایا؟ اس کا ابا ناراض ہو گا۔ابا کیا سوچتا ہو گا ؟ کہ اس کا بیٹا قبر پر رکھنے کے لیے ایک پھول بھی نہ لا سکا۔اس نے اپنے تئیں بہت شرمساری محسوس کی۔اس نے اپنے سنگی ساتھیوں سے چند پھول مانگے ،لیکن کسی نے ایک پتی تک نہ دی۔اسے بہت دکھ ہوا۔وہ منہ بسورتا ہوا گھر لوٹ آیا تھا۔
کریم بی بی سارا دن لوگوں کے گھروں میں کام کرتی پھرتی۔اس کے پاس اتنی فرصت نہ ہوتی کہ وہ بھی اپنے شوہر کی قبر پر جا سکے۔سب عورتیں قبرستان جاتی ہیں۔مگر اس کی ماں کیوں نہیں جاتی؟ایک دن کام پر نہ جائے تو کیا ہوتا ہے؟کاشف کو بہت تعجب ہوا۔وہ جب بھی اپنی ماں سے قبرستان جانے کا کہتا۔آج نہیں کل۔۔۔اب نہیں تب۔۔۔وہ اسی طرح برابر ٹالتی رہی۔ماں مجھے پیسے دو۔کریم بی بی نے جیسے ہی گھر کی دہلیز پر قدم رکھا،تو کاشف نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔وہ دن بھر کی تھکی ہاری ،سانس بھی درست نہ کر سکی تھی۔کہ کاشف نے پیسوں کی فرمائش کر دی۔تم نے پیسے کیا کرنے ہیں ؟یہ دیکھو تمہارے لیے چاول لائی ہوں۔ماں نے شاپر سے چاول نکال کر پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا۔میں نے چاول نہیں کھانے۔مجھے پیسے دو۔کاشف نے مچلتے ہوئے مطالبہ دہرایا۔تم نے پیسے کیا کرنے ہیں؟ماں نے سوال دہرایا۔ جیسے چھان بین کے بعد پیسے دینے والی ہو۔میں نے پھول پتیاں اور موم بتی لینی ہے۔بچے نے بڑی لجاجت سے جواب دیا۔وہ کیا کرو گے؟ماں نے دھیمے لہجے میں بڑی حیرت سے پوچھا۔ابا جی کی قبرپر پھول پتیاں رکھوں گا اور موم بتی جلاؤں گا۔ معصوم بچے کی خواہش سن کر ماں کا کلیجہ منہ کو آ گیا۔آنکھیں بھیگ گئیں۔آواز حلق میں اٹک کر رہ گئی تھی۔اس نے اپنے بیٹے کو گود میں لے لیا۔ اس کے رخسار تر ہو رہے تھے۔ میرے بچے ! جب وہ رو رو کر تھک گئی تو بولی۔جس غریب کو جیتے جی کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہ ملا ہو۔جس نے ایک موم بتی جلانے کی تمنا میں ،ساری زندگی تاریکی میں گزار دی ہو۔اس کی قبر پر موم بتی جلانے سے کیا ہو گا ؟پھول پتیاں کیا اب اس کا پیٹ بھر دیں گی؟ان سب چیزوں کی ضرورت تو جیتے جی ہوتی ہے ۔مرنے کے بعد ۔۔۔۔ان کا فائدہ ؟کاشف اپنی ماں کی دلدوز باتیں سن کر چپ ہو گیا۔بھلے میرے پلے کچھ بھی نہیں ،لیکن بچے سے ایسی بات کیوں کر کی؟ جلد ہی کریم بی بی کو یہ احساس ہو چلا تھا۔تم یہ چاول کھا لو،کل کو ایک گھر سے پیسے ملنے والے ہیں۔میں تم کو پانچ روپے دے دوں گی۔وہ کل کو پانچ روپے ملنے کی امید پر خوش ہوا۔اس نے جلدی جلدی چاولوں کے دو تین ’’پھکے ‘‘ مار کر پلیٹ کو صاف کیا ،اور گلی میں بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے نکل گیا۔
کاشف سات سال کا ہوا تو دہشت گردوں نے اس کے سر سے باپ کا سایہ چھین لیا تھا۔ وہ محنت مزدوری کر کے اپنے گھر کی طرف لوٹ رہا تھا۔ یہ دسمبر کی ایک گہری شام تھی۔ وہ ایک سیاسی جلسے کے پاس سے گزرا تو انہی لمحوں ایک زور دار دھماکا ہوا۔ جس میں اُس سمیت کئی لوگوں کی لاشیں بکھر گئیں اور اب کاشف کا بوجھ کریم بی بی کے سر پر آگیا خیر اگلے دن کریم بی بی کام پر تو گئی ،لیکن اسے مزدوری کے پیسے نہ ملے تھے۔کاشف کو جب پتا چلا تو اس کا معصوم چہرہ مرجھا کر رہ گیا ۔اس نے کچھ دیر تک پیسے لینے کی ضد کی۔جب اس کی ماں نے اسے بتایا کہ ایک ہزار روپیہ بجلی کا بل آیا ہے۔اگر وہ ادا نہ کیا گیا تو کنکشن کٹ جائے گا۔اور پھر جب تک بل کے ساتھ جرمانہ ادا نہ کیا تو کنکشن بحال نہ ہو گا۔سارا سارا دن بجلی آتی نہیں ،بل جانے کس چیز کا بھیج دیتے ہیں؟اور تیس روپے ٹیلی ویثرن کی فیس بھی ٹھونس دیتے ہیں۔ جن بے چاروں نے کبھی ٹیلی ویثرن کی شکل بھی نہیں دیکھی ان کو بھی تیس روپے دینے پڑتے ہیں۔کریم بی بی بجلی کا بل ہاتھ میں لیے اپنی بھڑاس نکال رہی تھی۔کاشف نے جب ماں کی بے بسی دیکھی۔تو خاموشی سے گلی میں نکل گیا۔وہ اپنے ہم جولیوں کے ساتھ بانٹے کھیل رہا تھا۔اس نے چودھری سکندر کو اپنے گھر سے نکلتے دیکھا۔اس کے ہاتھ میں ایک سفید رنگ کا شاپر ،پھول پتیوں سے بھر ا پکڑا ہوا تھا۔جیسے ہی سکندر نے اپنی موٹر بائیک کو کک ماری۔اس کا بیٹا فہد اپنے ہم جولیوں سے الگ ہو کر باپ کی طرف لپکتا ہے۔اور پوچھتا ہے کہ ابو آپ اتنی پھول ،پتیاں لے کر کہاں جا رہے ہیں؟وہ اپنے بیٹے کو بتاتا ہے کہ میں لیاقت باغ جا رہا ہوں۔جہاں ایک سال پہلے ہماری قائد کی شہادت ہوئی تھی۔یہ سن کر فہد کے ذہن میں ایک میلے کا سماں بندھ گیا۔اس نے باپ کے ساتھ جانے کی ضد کی۔ لیکن اس کے باپ نے ساتھ جانے کی ضد نہ کرنے پر دس روپے کی پیشکش کی۔جو فہد نے خوش دلی سے قبول کر لی تھی۔وہ دس روپے کا نوٹ لہرا لہرا کر اپنے ہم جولیوں کا منہ چڑا رہا تھا۔ اچانک کاشف کو اپنا مرحوم باپ یاد آ گیا۔اور اس کی آنکھوں میں موتی تیرنے لگے۔جانے کیا سوچ کر کاشف نے لیاقت باغ جانے کا قصد کیا۔اور اس بات کا ذکر اپنے ہم جولیوں سے بھی کر دیا۔کچھ ہی دیر میں وہ اپنے ہم جولیوں کے ساتھ لیاقت باغ پہنچ چکا تھا۔جائے شہادت پر جیالوں کا ہجوم تھا۔ایک یادگار تعمیر کی گئی تھی۔جس کے اردگرد قائد کی تصویریں لگا کر ،ان پر پھولوں کے ہار پہنائے گئے تھے۔کارکنوں نے اس پر دل کھول کر پھول پتیاں نچھاور کیں۔زمین پر ہر طرف پتیاں ہی پتیاں بکھری پڑی تھیں۔کاشف یادگار کے ایک طرف لگ کے بیٹھ گیا۔ دوستوں نے اسے گھر چلنے کو کہا ،لیکن وہ کسی صورت ان کے ساتھ واپس جانے کو تیار نہ ہوا۔دوستوں نے بارہا کوشش کی ،جو ناکام ثابت ہوئی ۔آخر وہ اسے وہیں چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو چل دیے ۔موم بتیاں جل کر راکھ ہو چکی تھیں۔صرف ایک ادھ جلی موم بتی بچی تھی۔جو بجھنے کی وجہ سے راکھ نہ ہو سکی تھی۔دو آدمی کچھ ہی فاصلے پر کھڑے آپس میں سیاسی نوعیت کی گفتگو میں مشغول تھے۔جیسے ہی وہ ادھر ادھر ہوئے،کاشف کے ہاتھ موقع لگا۔اس نے جلدی جلدی مسلی ہوئی پتیاں اکٹھی کر کے شاپر بھر لیا۔اور ادھ جلی موم بتی اٹھا لی۔وہ قبرستان کی طرف خوشی سے اچھلتا ہوا ایسے چل رہا تھا۔جیسے کائنات سمیٹے ہوئے جا رہا ہو۔
کریم بی بی تھکی ہاری گھر لوٹی ۔تو کاشف نظر نہ آیا۔کچھ دیر انتظار کیا ۔مگر بے چینی نے اسے بیٹھنے نہ دیا۔وہ اسے دیکھنے گلی میں نکل گئی۔گلی میں دو بچے بانٹے کھیل رہے تھے۔ان سے پوچھا ،مگر کچھ معلوم نہ ہو سکا۔آخر وہ مختلف گھروں سے ہوتی ہوئی ،ان بچوں کے پاس جا پہنچی ،جن کے ساتھ وہ اکثر بانٹے کھیلا کرتا تھا۔وہاں سے اسے معلوم ہوا کہ کاشف لیاقت باغ گیا تھا۔مگر لوٹا نہیں۔واہموں نے اس کو آن گھیرا۔بچوں نے اسے تسلی دی کہ وہ زندہ ہے۔لیکن وہیں بیٹھا ہے۔واپس آنے کو کہا مگر نہیں مانا تھا۔یہ سن کر کریم بی بی کو کچھ حوصلہ تو ہوا،مگر پھر بھی اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔بے چارہ اوہاں بیٹھا سوچتا ہو گا۔کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں اس کا باپ مرا تھا۔ گیا تو وہ اپنے پاؤں پر تھا۔کریم بی بی لیاقت باغ کی طرف جاتی ہوئی سوچ رہی تھی۔اس نے وہاں پہنچ کر دیکھا،تو کاشف نہ تھا۔پھول پتیوں ،اوراگر بتیوں کی مہک ابھی تک آ رہی تھی۔وہ کہاں جا سکتا ہے ؟ اس نے ایک لمحے کے لیے رک کر سوچا۔پھر نہ جانے کیا سوچ کراس کے پاؤں خود بخود ہی قبرستان کی طرف اٹھ گئے۔جو چند ہی قدموں کے فاصلے پر ہے۔قبرستان کے بیچوں بیچ ہوتی ہوئی ، سیدھی اپنے شوہر کی قبر کی طرف گئی۔ کاشف اپنے باپ کی قبر کے سرہانے ہاتھ اٹھائے کھڑا تھا۔مسلی ہوئی باسی پتیاں قبر پر بڑی ترتیب سے رکھی ہوئی ہیں۔ قبر کے سرہانے کی طرف کچی اینٹ پر ایک ادھ جلی موم بتی جل رہی ہے۔اس کے چہرے پر ایک مسکان بکھر رہی ہے۔لیکن اچانک پیچھے سے کانوں میں پڑنے والی پاؤں کی آہٹ نے اس مسکان کو غائب کر دیا۔اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کریم بی بی اس کے سر پر پہنچ چکی تھی۔وہ گھبرا گیا ،جیسے ماں نے اس کی چوری پکڑ لی ہو ۔کریم بی بی نے ایک نظر کاشف کو دیکھا۔ایک نظر قبر پر رکھی ہوئی پتیوں پر ڈالی،ادھ جلی موم بتی کو دیکھا ۔کاشف کے چہرے پر خوف اور خوشی کے تاثرات ملے جلے تھے۔ ماں نے آگے بڑھ کر کاشف کو اپنی گود میں لے لیا،اس کی چیخیں نکل گئیں۔
****