ادبیات
مرتب ": علی اکبر ناطق
غمگین شہزادی
خواجہ حسن نظامی
شہزادی کا موجودہ گھر :


اس گھر کی کچی دیواریں ہیں جن کا ایک حصہ اسی برسات میں گر گیا ہے اور خراب ہو گیا ہے۔ دروازہ پر ٹاٹ کا ایک پھٹا ہوا پردہ لٹکا ہواتھا۔ میں نے آواز دی تو نوکر بڑھیا باہر آئی اور شہزادی صاحبہ نے مجھے اندر بلا لیا۔ اس مکان کا صحن بہت چھوٹا ہے، دوچار پائیاں مشکل سے آتی ہوں گی۔ دالان بھی اتنا مختصر ہے کہ دوچار پائیوں کی بھی گنجائش نہیں معلوم ہوتی۔ دالان کے شمال میں ایک چھوٹی سی کوٹھڑی بھی ہے۔ جب میں اندر گیا ، شہزادی صاحبہ بوریہ پر بیٹھی تھیں۔ دالان میں ایک طرف چارپائی پڑی ہوئی تھی اور اس کے سامنے ایک بوریہ بہت پرانا تھا اور جگہ جگہ سے ٹوٹا ہوا تھا۔ پیوند لگی ہوئی ایک سفید چادر بھی چارپائی پر بچھی ہوئی تھی۔ تکیہ چھوٹا تھا اور ذرا میلہ تھا۔ شہزادی صاحبہ کے سامنے مٹی کی ایک بدھنی رکھی تھی، جس میں مٹی بھری ہوئی تھی ۔ شہزادی صاحبہ اس سے اگالدان کا کام لیتی ہیں۔ ان کے دائیں طرف پٹاری رکھی تھی جو اگرچہ بد قلعی تھی لیکن اس پر پان کے دھبے نہیں تھے۔ دالان کی کڑیاں بہت بوسیدہ تھیں ،گلہریوں اور چوہوں نے تختوں کو خراب کر رکھا تھا۔
شہزادی صاحبہ کا حلیہ :
شہزادی صاحب کا سر بالکل سفید ہے۔ پلکیں اور بھویں بھی سفید ہو گئی ہیں۔ جوانی میں ان کا قد لمبا ہو گا ۔ اس واسطے اب بہت جھک گئی ہیں۔ ان کا لباس ستھرا تھا لیکن ہر کپڑے میں کئی کئی پیوند لگے ہوئے تھے۔ ان کی آواز بہت صاف اور مضبوط ہے اور ان کی بول چال نہایت میٹھی اور موثر اور خالص اردو میں ہوتی ہے۔ وہ نہایت تمکنت اور وقار کے ساتھ بات کرتی ہیں۔ ان کے چہرے پر جھریاں بہت زیادہ ہیں اور جسم بھی بہت کمزور ہے۔
بات چیت :
جب میں ان کے سامنے گیا تو آداب عرض ہے کہا، بولیں جیتے رہو میاں جب سے آنکھیں خراب ہوئی ہیں، درگاہ شریف میں حاضر نہیں ہو سکی تم کو کبھی دیکھا نہیں لیکن مدت سے نام سنتی ہوں۔ اب بڑی بی نے نام لیا کہ خواجہ صاحب آئے ہیں اور ملنا چاہتے ہیں تو میں بہت خوش ہوئی کہ جن کا نام سنتی تھی وہ خود میرے گھر میں آ گئے ہیں۔ میرے بزرگوں کو تمہارے بزرگوں سے بڑی عقیدت تھی اور میں بھی ہمیشہ سترہویں کے عرس میں جایا کرتی تھی۔ اب آنکھیں جاتی رہیں۔ ہاتھ پاؤں سے معذور ہو گئے ۔بتائیے کیوں کر آنا ہوا؟ ‘‘ میں نے کہا :’’ آنے کی غرض!ابھی ظاہر کروں گا مگر پہلے یہ بتائیے کہ آپ کو اس مکان میں کچھ تکلیف تو نہیں ہوتی ، یہ تو بہت چھوٹا مکان ہے اور چھت میں جگہ جگہ سوراخ ہیں، مٹی جھڑتی ہو گی۔ ‘‘
بولیں:’’ارے میاں! تم نے بھلا فکر کیا جب تقدیر نے قلعے اور محل چھٹوا دیے تو اب جو کچھ بھی میسر آجائے غنیمت ہے۔ ڈیڑھ روپیہ مہینہ کرایہ کا مکان اس سے اچھا اور کیا ہو گا ۔ چھت سے مٹی جھڑتی ہے اور کوئی رات ایسی نہیں آتی کہ دوچار دفعہ پلنگ کی چادر صاف نہ کرنی پڑے ۔ ایک وقت تھا کہ لال قلعہ کے اندر اپنے محل میں سوتی تھی چھت میں کسی چڑیا نے گھونسلا بنا لیا تھا اس کے کچھ تنکے میرے بچھونے پر گر پڑے تو رات بھر نیند نہ آئی۔ یا ایک یہ وقت ہے کہ رات بھر مٹی جھڑتی ہے اور اس تکلیف کو سہنا پڑتا ہے۔
میں نے پوچھا :’’ سرکار سے کچھ پنشن ملتی ہے۔ ‘‘ بولیں: جی ہاں دس روپیہ مہینہ مدت سے مل رہا ہے۔‘‘ میں نے کہا:‘‘کچھ اور آمدنی بھی ہے۔ ‘‘بولیں جی ہاں ایک مکان ہے جس کا کرایہ سات روپیہ آتا ہے ۔ میں پہلے اس میں رہتی تھی مگر جب سے آنکھیں گئیں تو دس میں گزارہ نہ ہو سکا، اس واسطے مکان کرائے پر دے دیا اور میں خود کم کرایہ کے مکان میں آگئی۔اب ہم دوآدمی ہیں ایک یہ بڑی بی ہیں، ایک میں ہوں ۔ مکان کا کرایہ اور کھانے کپڑے میں ہم دونوں کا گزارہ سترہ روپیہ میں ہو جاتا ہے۔ پان چھالیہ کا بھی خرچ ہے۔ نذر نیاز کا بھی خرچ ہے۔ میں نے کہا:’’میرے آنے کی وجہ تو یہ ہے‘‘۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے بعد میں نے شیوا جی اور ان کی قوم کا قصہ سنایا۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے حالات مجھے بتائیں تاکہ میں ان کو کتاب میں لکھوں کیونکہ میں نے آپ کے خاندان کے بہت سے مردوں اور عورتوں کے حالات شائع کیے ہیں۔‘‘ یہ بات سنتے ہی شہزادی صاحبہ نے پان کو کوٹنا چھوڑ کر میری طرف رخ کیا اور کہا ’’نامیاں محھ کو یہ منظور نہیں کہ میرا نام گھر گھر ، گلی گلی ، کوچہ بہ کوچہ اچھلتا پھرے۔ ‘‘
میں نے کہا :’’میں آپ کا نام شائع نہیں کروں گا۔صرف حالات شائع کروں گا ۔‘‘ جواب دیا:’’ وہ حالات ہی کیا ہیں فقط دو باتیں ہیں۔ ہم بادشاہ تھے اور ہم فقیر ہو گئے۔ اس سے زیادہ پوچھو تو یہ جواب ہے کہ اب ہم مر بھی جائیں گے۔ مگر یہ تو بتاؤ کہ یہ شیوا جی کون تھا اور ہندؤں نے ایسی جھوٹی بات کیوں کر لکھی؟ کیا وہ سب کے سب ایسے جاہل ہیں کہ ان کو بیٹی اور بہن کی بھی تمیز نہیں ہے اور کیا وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ روشن آراء بیگم حضرت شاہجہان کی بیٹی تھیں۔ حضرت اورنگزیب کی بیٹی نہیں تھیں، بلکہ ان کی بہن تھیں۔ پہلے توجھوٹو ں کو موت آتی تھی، اب ان کو بخار بھی نہیں آتا۔ اے سبحان اللہ کیا بات بنائی ہے کہ روشن آرا بیگم شیوا جی کے ساتھ بھا گ گئیں۔ یہ بات ا س وقت کہتے جب ہم اس ملک کے بادشاہ تھے تو ذرا مزا آتا ،مرے کو مارے شاہ مدار ، اب کہا جب ہم ختم ہو چکے۔ مگر خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی ۔ دیکھ لینا ایک نیک اور بے گناہ شہزاد ی پر جھوٹی تہمت لگانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ ان پر خدا کی مار پڑے گی اور آسمانی قہر ٹوٹے گا۔ ‘‘
شہزادی صاحبہ کو اتنا غصہ آیا کہ وہ یہ باتیں کہہ کر چپکی ہو گئیں اور بہت دیر تک خاموش بیٹھی رہیں۔ اس کے بعد ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور انھوں نے رونے کی آواز میں کہا : یا اللہ !ہم سے ایسی کیا خطا ہوئی تھی کہ تو نے تاج و تخت بھی چھنوایا اور اب ایسی باتیں سننی پڑتی ہیں۔ ‘‘
اس کے بعد مجھ سے مخاطب ہو کر کہا:’’ کیا سب ہندو مسلمانوں کی غیرت مردہ ہو گئی ہے جو یہ اپنے پہلے بادشاہوں کی عورتوں کو ایسی باتیں سنواتے ہیں اور کوئی اس کی روک تھام نہیں کرتا۔ ‘‘ میں نے کہا:’’ اب سب نیک خیال ہندو مسلمانوں کو اس کی خبر ہو گئی ہے اور وہ ضرور کوشش کریں گے اور ان بہتانوں کی اشاعت رک جائے گی ۔ آپ کے خاندان کی طرف سے بھی ایک محضر نامہ سرکار کے پاس جانے والا ہے اور میں اسی واسطے آیا تھا کہ آپ بھی اس محضر پر انگوٹھے کا نشان ثبت کر دیں۔ بولیں’’ یہ کام مردو ں کا ہے ، میرے انگوٹھے کے نشان سے کیا ہو گا ۔ میں نشان وشان نہیں کرتی۔ ‘‘
سر گزشت :
میں نے کہا:’’تو اپنے حالات بتا دیجئے میں نام اور پتہ شائع نہیں کرو ں گا ۔ ‘‘مگر شہزادی صاحبہ کو اس قدر غصہ آگیا تھا کہ وہ بہت دیر چپکی بیٹھی رہیں اورپٹاری اپنے قریب سرکا کر میرے لیے ایک پان کاٹکڑا بنایا اور ٹھنڈا سانس لے کر بولیں:’’میاں غدر میں میری عمر دس گیارہ سال کی تھی۔ ہم قلعہ کے اندر رہتے تھے۔ بادشاہ سلامت ہمارے خاندان سے کچھ ناراض تھے۔ لیکن ہماری تنخواہ مہینہ کے مہینہ مل جاتی تھی۔ حالانکہ میری اماں بھی زندہ تھیں اور اس بڑھاپے کی شادی کی وجہ سے میری اماں اور سوکن میں بھی لڑائی جھگڑا رہتا تھا اور ہم تینوں بہن بھائی بھی سوتیلی ما ں سے لڑتے جھگڑتے رہتے تھے مگر مجھ سے سوتیلی ماں کو بہت محبت تھی اور میں اپنی سگی اماں اور سوتیلی اماں کی لاڈلی بیٹی کہلاتی تھی۔
ہمارے گھر میں کئی عورتیں اور کئی مرد خدمت گاری پر نوکر تھے ۔ غدر سے چھ مہینے پہلے میری سوتیلی ماں کو ہیضہ ہو ا وہ مر گئیں اور میرے دو بھائی بھی اسی زمانہ میں ہیضہ سے مر گئے اور جب غدر ہوا ہے تو ہم صرف دو بہن بھائی اور ایک ابا اور ایک اماں حضرت موجود تھے۔
بادشاہ سلامت قلعہ سے نکل کر ہمایوں کے مقبرہ میں چلے گئے اور بھی سب قلعہ کے رہنے والے باہر نکل گئے اور قلعہ خالی ہو گیا مگر ہمارا مکان قلعہ کی عمارتوں سے ذرا الگ تھا اور بہت مضبوط تھا اس لیے ابا حضرت راضی نہیں ہوئے اور انھوں نے کہا : باہر جائیں تو وہاں بھی مریں گے اور باہر کا مرنا بے غیرتی کا مرنا ہو گا۔ اس واسطے یہیں گھر میں رہو۔ جو خدا کو منظور ہو گا اسی گھر میں ہو جائے گا۔ باد شاہ سلامت کے جانے کے بعد دو دن تک ہمارے گھر میں کو ئی نہیں آیا ۔ باہر کے نوکر اور گھر کی مامائیں سب بھاگ گئے تھے ۔ ہم نے گھر کے دروازے بند کر لیے تھے۔ ڈیوڑھی میں تین چار دروازے تھے اور موٹی موٹی کنڈیاں ، بھاری کواڑ ان میں لگے ہوئے تھے۔ تیسرے دن مکان کے باہر گھوڑوں کی ٹاپوں اور بہت سے آدمیوں کے بولنے کی آوازیں آئیں اور کسی نے دروازے توڑنے شروع کیے ۔ میرے بھائی کی عمر سولہ برس کی تھی۔ ابا حضرت نے فوراً وضو کیا اور بھائی سے کہا: میاں اٹھو تم بھی وضو کرو کہ مرنے کا وقت آگیا۔ یہ بات سن کر میرا دل دہل گیا اور میں اماں حضرت کو جا کر لپٹ گئی۔ وہ رونے لگیں اور مجھ کو پیار کیا اور کہا: گھبراؤ نہیں ، اللہ مدد گار ہے شاید کوئی صورت جان بچنے کی نکال دے ۔ اس کے بعد ان سب نے وضو کیا اورترت ہم سب مصلے بچھا کر اسی وقت سجدے میں سر جھکا کر اللہ میاں سے دعائیں مانگنی شروع کیں۔
دروازے توڑنے کی آوازیں برابر آرہی تھیں۔ ہم سب سجدے ہی میں تھے کہ دس بارہ گورے اور دس بارہ سکھ بندوقیں لیے ہوئے جن پر سنگینں چڑھی ہوئی تھیں، گھر کے اندر آگئے ۔ ابا حضرت اور بھائی سجدے سے فوراً کھڑے ہو گئے ۔ اماں حضرت نے مجھ کو گود میں لیکر چادر سے منہ چھپا لیا۔ ایک سکھ نے ابا حضرت سے پوچھا تم کون ہو اور یہاں کیوں بیٹھے ہو۔ ابا حضرت نے جواب دیا۔ یہ میرا گھر ہے اور میں اسی میں رہتا ہوں ۔ شاہ عالم بادشاہ کی اولاد میں ہوں۔ اس سکھ نے انگریز افسر کو یہ بات سمجھائی ۔ انگریز افسر نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کچھ کہا جسے میں نہیں سمجھی ۔ تو پھر اس سکھ نے ابا حضرت کو سمجھایا کہ صاحب کہتے ہیں کہ بادشاہ بھاگ گئے اور سب لوگ بھاگ گئے تم کیوں نہیں بھاگے ۔ ابا حضرت نے کہا: بادشاہ ہم سے کچھ ناراض تھے اس واسطے نہ وہ ہمیں اپنے ساتھ لے گئے نہ ہم ان کے ساتھ گئے اور ہم نے سپاہیوں کے بلوہ میں بھی کچھ حصہ نہیں لیا اور ہمیں یقین تھا کہ انگریز سرکار بے گناہ آدمیوں کو نہیں ستاتی۔ ہم بے گناہ ہیں اس واسطے نہیں بھاگے۔انگریز افسر نے کہا : تم کو پہاڑی پر چلناہو گا ، ہم تحقیقات کریں گے، اگر تم بے گناہ معلوم ہوئے تو تم کو جان کی امان ملے گی۔ ابا حضرت نے کہا : میرے ساتھ میری بیوی اور ایک چھوٹی بچی ہے اور یہاں کوئی اور سواری نہیں ہے اور ان عورتوں کو پیدل چلنے کی عادت نہیں ہے ۔ انگریز افسر نے جواب دیا اس لڑائی کے وقت ہم تمہارے لیے سواری کا انتظام نہیں کر سکتے اگر تم یہاں ٹھہرے رہو گے تو ڈر ہے کہ دوسرے سپاہی یہاں آئیں گے اور بے خبری میں تم کو مار ڈالیں گے ۔ اس واسطے تم کو جلدی یہاں سے روانہ ہو جانا ضروری ہے ۔ ہم دو سپاہی تمہارے ساتھ کریں گے اگر راستہ میں کوئی سواری مل جائے گی تو تمہاری عورت اور تمہاری لڑکی اس میں بیٹھ جائیں گی ۔ نہیں تو ان سب کو پیدل چلنا ہو گا۔
مجبوراً ابا حضرت تیار ہوئے اور انھوں نے کچھ قیمتی زیورات اور جواہرات اپنے ساتھ لے کر باقی کا سامان گھر میں چھوڑد یا اور فوج والوں کے ساتھ گھر کے باہر نکلے۔ اماں حضرت ہمیشہ بیمار رہتی تھیں اور بہت کمزور تھیں۔ مجھ کو بھائی نے اٹھا لیا اور ابا حضرت نے اماں حضرت کا ہاتھ پکڑ لیا اور ہم نے اپنے بھرے پرے گھر کو حسرت کے ساتھ ایک نظر اٹھا کر دیکھا کہ پھر ہم کبھی یہاں نہیں آئیں گے اور ایسا ہی ہوا کہ ہم پھر کبھی وہاں نہیں گئے۔
جب ہم گھر سے باہر نکلے تو وہ انگریز اور سکھ گھوڑوں پر سوار ہو گئے اور دو سکھ سواروں کو ہمارے ساتھ پہاڑی کی طرف بھیج دیا اور خود کسی اور طرف گھوڑے دوڑا کر چلے گئے۔ قلعہ کے دروازے تک تو وہ سکھ سوار آہستہ آہستہ چلتے رہے اور انھوں نے ابا حضرت اور اماں حضرت سے کچھ نہ کہا، کیونکہ اماں حضرت سے چلا نہ جاتا تھا اور وہ ہر دس قدم کے بعد بیٹھ جاتی تھیں اور رعشہ سے ان کا بدن کانپ رہا تھا۔ جب اماں حضرت بیٹھ جاتیں تو وہ سکھ سوار بھی ٹھہر جاتے۔ لیکن جب ہم قلعہ کے دروازے کے باہر پہنچ گئے تو ان سواروں نے سخت کلامی شروع کی اور کہا : اس طرح تو شام ہو جائے گی تم جلدی جلدی کیوں نہیں چلتے۔ والد نے نرمی سے جواب دیا کہ بھائی تم دیکھ رہے ہو میرے ساتھ ایک بیمار اور کمزور عورت ہے جو ساری عمر کبھی پیدل نہیں چلی ۔ ہم شرارت اور سر کشی سے ایسا نہیں کر تے عورت اور بچہ کی وجہ سے مجبور ہیں۔ سوار یہ سن کر خاموش ہو گئے مگر میرے بھائی کے منہ سے بے اختیار یہ بات نکلی کہ تم ہمارے ملک کے ہو تم کو ہم پر رحم نہیں آتا۔ اس پر ایک سکھ نے کہا : ہم کیا کریں حاکم کا حکم ہے۔ بھائی نے کہا حاکم نے یہ نہیں کہا کہ ہم پر ایسی سختی کرنا ۔ سکھ سوار نے جواب دیا۔ ہم نے کون سی سختی کی ،لیکن اب سختی کرنی پڑے گی تم لوگ جان کر چلنے میں دیر لگاتے ہو۔ یہ کہہ کر ایک سوار ہمارے پیچھے آگیا اور ایک آگے ہو گیا۔ اماں حضرت گھوڑے کو اپنے پیچھے دیکھ کر گھبرا گئیں۔ ان کو اختلاج کا مرض تھا اور یکا یک اختلاج کا دورہ شروع ہو گیا اور وہ نڈھال ہو کر گر پڑیں اور ان کے منہ سے بے اختیار ہائے ہائے نکلنی شروع ہوئی۔ سکھ سوار یہ حالت چپ چاپ کھڑا دیکھتا رہا اور کچھ دیر کے بعد اس نے ابا حضرت سے کہا: میں پیدل چلتا ہو ں تم اس بیمار عورت کو لے کر گھوڑے پر سوار ہو جاؤ ۔ آخر ابا حضرت نے اماں حضرت کو گودمیں اٹھا لیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر چلے اور وہ بے چارہ سکھ سوار پیدل پہاڑی تک گیا اور میں بھائی کی گود میں پہاڑی پر پہنچی۔
پہاڑی پر انگریزوں کی فوج چاروں طرف ٹھہری ہوئی تھی۔ ہم کو بھی ایک طرف خیمہ میں ٹھہرادیا گیا۔ اور ان سکھ سواروں نے فوجی لانگری سے روٹی لا کر دی اور وہ رات ہم نے اسی خیمہ میں گزاری ۔ دوسرے دن صبح فوج کے جرنیل نے ہم سب کو اپنے سامنے بلایا۔ دلی کا کوئی مخبر اس انگریز کے پاس کھڑا تھا اس سے پوچھا کہ تم ان کوجانتے ہو ۔ اس مخبر نے کہا: ہاں میں جانتا ہوں یہ بادشاہ کے خاندان سے ہیں اور جب لال قلعہ کے اندر انگریز مردوں اور عورتوں اور بچوں کو قتل کیا گیا تو اس شخص نے ان کے قتل کرانے میں بڑا حصہ لیا تھا۔ یہ سن کر جرنیل نے ابا حضرت کی طرف بہت غصہ کی نظر سے دیکھا ۔ ابا حضرت نے جواب دیا کہ یہ شخص جھوٹ کہتا ہے ۔ یہ پہلے میرے ہاں نوکر تھا اور چوری کے الزام میں مَیں نے اس کو ایک دفعہ بہت پٹوایا تھا اور نوکری سے موقوف کر دیاتھا ، اس واسطے دشمنی سے یہ ایسا کہتا ہے۔ آپ اس سے اتنا پوچھیے کہ بہادر شاہ بادشاہ کتنے سال سے مجھ سے ناراض تھے اور میرا سلام کتنے عرصے سے بند تھا۔ مخبر نے جواب دیا: یہ ٹھیک ہے کہ ان کے ہاں نوکر تھا مگر یہ غلط ہے کہ مجھے چوری کے الزام میں انھو ں نے پٹوایا تھا۔ میں نے خود ہی ان کی نوکری چھوڑی تھی کیونکہ تنخواہ کم دیتے تھے او ریہ بھی ٹھیک ہے کہ بادشاہ ان سے ناراض تھے، لیکن جب غدر ہوا تو انھوں نے بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے ان کے پاس جانا آنا شروع کیا اور جس دن انگریز قتل کیے گئے تو یہ اور ان کا لڑکا دونوں بہت کوشش کر رہے تھے اور لوگوں سے حجت بازی کر تے تھے جو انگریزبچوں اور عورتوں کے قتل کے خلاف رائے دے رہے تھے کہ یہ بات اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ اس وقت ان دونوں نے یہ کہاکہ سانپ کو مارنا اور اس کے بچوں کو چھوڑ دینا عقل مندوں کا کام نہیں ہے۔ اور محض انہی دونوں کے کہنے سے ان بچوں اور عورتوں کو قتل کیا گیا۔ یہ سن کر جرنیل غصہ سے آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے پھر ابا حضرت کی کچھ بات نہ سنی ، حالانکہ وہ برابر کہتے رہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے مگر جرنیل کی آنکھیں لال ہوگئی تھیں اس نے کوئی بات نہ سنی اور حکم دیا کہ ابھی ان دونوں کو گولی سے اڑا دو اور پھر یہ کہا کہ اگر ان دونوں نے ہماری عورتوں اور بچوں کو قتل کرایا مگر ہم ان پر رحم کرتے ہیں اور اس کی عورت اور بچہ کو چھوڑ دیتے ہیں ان دونوں کو چھاؤنی سے نکال دو یہ جہاں چاہیں چلی جائیں۔
قتل کا وقت :
سپاہی گورے اور دیسی آگے بڑھے اور انھوں نے بھائی اور ابا حضرت کے ہاتھ پکڑ کر کمر کے پیچھے باندھے۔ ابا حضرت مجھ کو دیکھ کر رونے لگے مگر بھائی چپکے کھڑے رہے۔ اماں حضرت نے ایک چیخ ماری اور بے ہوش ہوکر گرپڑیں۔ میں دوڑی کہ ابا حضرت کو چمٹ جاؤں مگر ایک سپاہی نے مجھ کو زور سے دھکا دیا اور میں اماں حضرت کے اوپر گر پڑی اور میں نے دیکھا کہ اباحضرت اور بھائی کو سپاہی کھینچے ہوئے دور لے گئے اور ان کے سامنے پانچ چھ بندوقیں لے کر کھڑے ہو گئے اور ان کے پاس جرنیل بھی کھڑا ہو گیا ۔ اور اس نے کچھ زور زور سے باتیں کیں جن کو میں سمجھ نہ سکی ۔ اس کے بعد سپاہیوں کو اشارہ کیا اور سپاہیوں نے بندوقیں اپنی چھاتی پر رکھیں اور بندوقوں کا منہ ابا حضرت اور بھائی کی طرف کیا۔ اس وقت ابا حضرت کی آواز آئی اور انھوں نے میرا نام لے کر پکارا اور کہا : لو بیٹی ‘اللہ بیلی! ہم دنیا سے جاتے ہیں، اور بھائی کی آواز آئی:اماں!اماں!اماں !مجھ سے تمہاری تنہائی دیکھی نہیں جاتی ، سلام میں مرتا ہوں۔
بندوقوں کی آواز آئی اور بہت سا دھوا ں نکلا، میں نے دیکھا بھائی اور ابا خاک میں لوٹ رہے ہیں۔ میں رو رہی تھی اور میرا دل ڈر کے مارے بیٹھا جاتا تھا۔ اماں کو ذرا ہوش آیا اور میں نے ان سے کہا : بھائی کو اور ابا کو مارڈالا ، دیکھو وہ خاک میں تڑپ رہے ہیں، اے ہے اماں جان ان کے سینہ سے خون ابل رہا ہے ۔ اب میرے بھائی اور ابا مجھ سے بچھڑ گئے اب وہ مجھ سے کبھی نہیں ملیں گے۔ بابا نے مجھے پکارا بھی تھا اور بھائی نے تم کو پکارا تھا ،اچھی اماں اب کیا ہو گا کیا یہ ہم کو بھی مار ڈالیں گے ۔ کیا یہ ہم کو قیدی بنا لیں گیں۔ اماں دونوں ہاتھوں کو ٹیک کر سہارے سے اٹھیں اور انھوں نے بھائی کی اور ابا حضرت کی لاشوں کو غور سے دیکھا ۔ان کا کانپنا بند ہو گیاتھا اور بے تاب ہوکر کہا ، میرا بیٹا !میرا لال! ! میری سولہ برس کی محنت!!!میری بیوگی کا سہارا !!!!!میرا دولھا مجھ سے چھن گیا ، میں مٹ گئی میرا اس دنیا میں کچھ نہیں رہا ۔ میں دنیا میں آئی تھی ، میں دنیا میں نہیں آئی تھی ۔یا اللہ یہ خواب ہے یا سچ مچ مجھ پر مصیبت آئی ہے۔ میرا سر تاج بھی خاک میں مل گیا وہ بھی جوان بیٹے پاس خون میں نہایا ہوا پڑا ہے۔ اے مخبر خدا تجھ کو غارت کرے تو نے بالکل جھوٹ بولا یہ دونوں توغدر کی شروعات سے آخرتک گھر سے نہیں نکلے، ارے تو نے کس دن کا بدلہ لیا مجھ بیمار دکھیا پر بھی تجھ کو رحم نہ آیا، تونے اس معصوم بچا کا بھی خیال نہ کیا اور ہمارے وارثوں کو بے خطا اور بے قصور خون میں ڈبو دیا۔ اماں یہ کہہ رہی تھیں کہ دیسی فوج کے سپاہی پاس سے گزرے ۔ گولیاں سینوں پر اور چہروں پرلگی تھیں۔ خون نے سب کو چھپا دیا تھا اور لاشیں چپ چاپ پڑیں تھیں۔ سپاہی ہم کوکشاں کشاں لیے جارہے تھے۔ نہ اماں چل سکتی تھیں نہ میں چل سکتی تھی مگر وہ رسیوں کی طرح ہم کو کھینچے لیے جارہے تھے۔ پہاڑی کے پتھروں سے ہمارے پاؤں لہو لہان ہو گئے تھے اور میں نہیں کہہ سکتی کہ دنیا میں جیسی تکلیف اس وقت ہمیں تھی ایسی تکلیف اور بھی کسی کو پیش آسکتی ہے۔
فوجی چھاؤنی سے باہر لا کر سپاہیوں نے ہم کو چھوڑ دیا ۔ اماں بالکل بے ہوش پڑی تھیں اور میں ان کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں ایک گھسیار اگھاس کی گھٹڑی لیے ہوئے وہاں سے گزرا اور میرے پاس آیا اور اس نے گھٹڑی سر سے اتار کر اماں کو دیکھا اور کہا یہ عورت تو مر گئی ۔ وہ ہندو تھا مجھ کو وہاں چھوڑ کر چھاؤنی میں گیا اور و ہاں سے دو تین مسلمان گھسیاروں کو لایا اور ان سب سے کہا ، یہ عورت مر گئی ۔ انھوں نے میرے اور میری اماں کے ہاتھوں سے اور گلے سے زیور اتار لیا اور کہا کہ جب ان کے مرد مارے گئے تو ان کے پاس سے بہت سے جواہرات نکلے اور وہ سب سرکاری خزانہ میں گئے مگر یہ ہمارا حق ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے گڑھا کھود کر اماں کو دبا دیا اور دو آدمی مجھ کو اٹھا کر اجمیری دروازہ کی طرف لائے اور یہاں چھوڑ کر چلے گئے ۔ میں اکیلی بیٹھی رو رہی تھی کہ خانم کے بازار کے مسلمان سنار اپنی عورتوں کولیے ہوئے وہاں آئے جو قطب صاحب جا رہے تھے اور وہ مجھ کو بھی اپنے ساتھ قطب صاحب لے گئے۔
اور جب شہر میں امن چین ہو گیا اور وہ مسلمان سنار بھی دہلی میں واپس آئے تو مجھ کو میرے رشتہ کے چند شہزادوں کے حوالے کر دیا اور میں انھیں کے پاس رہ کر بڑی ہوئی اور انھیں میں میری شادی ہوئی اور شادی کے بعد ہی میری پنشن ہو گئی۔ خدا نے مجھے کئی بچے دیے مگر کوئی زندہ نہ رہا۔ یہاں تک کہ شوہر کا بھی انتقال ہو گیا اور اب چار سال سے آنکھیں بھی جاتی رہیں۔
سن لیا میاں ، مجھ دکھیاغم زدہ کی یہ کہانی ۔ میرے رونگ رونگ سے ہائے کی آوازیں آتی ہیں۔ میں نے اس دنیا میں بس دس برس کی عمر تک عیش دیکھا اور ستر برس مصیبتیں اٹھائیں۔ اب قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ہوں ، آ، مری کل دوسری دن۔ یہ بڑی بی بے چاری مل گئی ہیں ، بازار سے ضرورت کی چیزیں خرید لاتی ہیں اور رات دن پاس بیٹھی رہتی ہیں اور ہم دونوں آخری عمر کے یہ غمگین دل مل جل کر ،بول چال کر ، جس طرح ہوتا ہے گزار رہی ہیں۔ ‘‘
****