خبر نامہ
مقتدرہ کے زیر اہتمام ۱۰۰ کتابیں ، ۱۰۰ مہمان کی شاندار تقریب


حسب سابق مقتدرہ قومی زبان کے زیر اہتمام قومی کتاب دن کے حوالے سے کتاب میلہ ’’ ۱۰۰ کتابیں۱۰۰ مہمان ‘‘ منعقد ہوا۔اس شاندار تقریب میں جڑواں شہروں کے تعلیمی اداروں، نمل یونیورسٹی ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ، اُردو یونیورسٹی کے اساتذہ وطلبہ کے علاوہ دیگر شہروں سے بھی کثیر تعداد میں اہل علم ودانش نے کثیر تعداد میں شرکت کر کے کتاب دوستی کا حق ادا کیا۔ جس میں چار مصنفین کی کتب کی تقریب رونمائی کی گئی ۔ پہلی نشست میں پرتو روہیلہ کی کتاب ’’ غالب اور غمگین کے فارسی مکتوبات ‘‘ اور شاہدہ رسول کی کتاب ’’ اقبال کا تصورِ کشف ‘‘ کی رونمائی کی گئی ۔ کتاب غالب اور غمگین کے فارسی مکتوبات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مہمان خصوصی ڈاکٹر نجیب جمال نے کہا ہے کہ پرتوروہیلہ نے غالب اور غمگین کے دس فارسی مکتوبات کواُردوترجمہ کے ساتھ شائع کر کے ایک قابل تحسین کام ہے اور اس کتاب میں غالب شناسی کے نئے پہلو سامنے آئے ہیں۔ کتاب’’ اقبال کا تصورِ کشف‘‘ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر نجیب جمال نے کہا کہ مصنفہ نے اقبال شناسی کے حوالے سے ان پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جن پر اب تک کوئی تحقیقی وعلمی کام نہ ہوا ہے اور بلاشبہ یہ شاہدہ رسول کی ایک بہترین کاوش ہے۔تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر انوار احمدنے کہا کہ پرتوروہیلہ کا غالب پر کام بلاشبہ ایک نیا انداز ہے اور غالب پرتحقیقی کام کرنے والوں کے لیے نئے راستوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ شاہدہ رسول کی کتاب’’ اقبال کا تصور کشف‘‘ پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر انوار احمد نے کہا کہ شاہدہ رسول جو کہ بصارت سے محروم ہیں مگر انھوں نے اپنی اس محرومی کے باوجود اقبال شناسی کے حوالے سے ایسا کام کیا ہے جو انتہائی قابل تحسین ہے اور اقبال پر تحقیقی کام کے حوالے سے نئے انداز متعین کرتا ہے۔ کتب کی رونمائی کی دوسری نشست میں حمیرا اشفاق کی کتاب ’’ نثر رشید جہاں اور ڈاکٹر صلاح الدین درویش کی کتاب ’’ فکر اقبال کا المیہ ‘‘ کی رونمائی کی گئی ۔ تقریب کی صدارت کرتے ہوئے معروف دانشور احمد سلیم نے کہاکہ حمیرا اشفاق کی کتاب نثر رشید جہاں ایک اچھی کوشش ہے۔ برصغیر میں ترقی پسندانہ نسوانی تحریک میں ان کا نمایاں نام ہے تاہم کتاب میں ابھی ان کے کام کے کافی گوشے شامل ہونے سے رہ گئے۔ امید ہے اگلے ایڈیشن میں انھیں شامل اشاعت کیا جائے گا۔ تقریب کے مہمان خصوصی نامور ادیب، دانشور اشفاق سلیم مرزا نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صلاح الدین درویش نے یہ کتاب لکھ کر ایک اجتہاد کیا اور اقبال کے بارے میں جو مؤقف اختیار کیا ہے وہ روایت سے ہٹ کر ہے حمیرا اشفاق کی کتاب پربات کرتے ہوئے اشفاق سلیم مرزا نے کہا کہ رشید جہاں برصغیر میں ترقی پسند کی پہلی نسواں آواز بن کر ابھریں۔ اس کتاب میں ان کی تحریروں کے حوالے سے سیاسی اور سماجی مطالعہ کا تفصیلی ذکر موجود ہے اور رشید جہاں بیسویں صدی کی توانا اور حقیقت پسندانہ آواز ہیں۔کتاب کے بارے میں ڈاکٹر نجیب جمال نے کہا کہ اقبال کے کلام پر جدید نظریات اور تصورات کے مطابق بحث ہونی چاہیے تاکہ اقبال کے کلام اور جدید علوم میں مطابقت تلاش کی جاسکے۔ نثرِ رشید جہاں کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں کہاکہ اس کتاب میں وہ تحریر یںیکجا ہوگئی ہیں جس نے ۱۹۳۰ء کی دہائی کی ترقی پسند ادبی فکر کے فروغ میں بہت اہم کردار کیا ہے۔تقریب میں فرید اللہ خان ، پرتوروہیلہ، شاہدہ رسول ،ڈاکٹر انجم حمید ، حمیرا اشفاق اور صلاح الدین درویش نے بھی اظہار خیال کیا۔ پہلی تقریب کی نظامت ڈاکٹر راشد حمید جبکہ دوسری تقریب کی نظامت ڈاکٹر روش ندیم نے کی۔
کتاب میلوں کا انعقاد وقت کی ضرور ت ہے ، فرید اللہ خان
سابق وفاقی سیکرٹری وزارت قومی ورثہ ویکجہتی فرید اللہ خان نے مقتدرہ قومی زبان کے زیر اہتمام ۱۰۰ کتابیں ۱۰۰ مہمان کی تقریب میں شرکت کر کے شرکاء اور منتظمین کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا ۔ انھوں نے تقریب میں پرتو روہیلہ اور شاہدہ رسول کی ۳۰ کتابیں خرید کر احباب میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا۔ انھوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کتاب کی دوستی کا حق کتاب خرید کر پڑھنے سے ادا ہوتا ہے اور ہمارے معاشرے کے اندر اس تبدیلی کو فروغ دینے کے لیے اس طرح کے کتاب میلوں کے مسلسل انعقاد کی ضرورت ہے۔ مقتدرہ قومی زبان کے کتاب میلے کا انعقاد اور اس میں چار مصنفین ڈاکٹر صلاح الدین دریش کی کتاب ’’ فکرِ اقبال کا المیہ ‘‘ ، حمیرا اشفاق کی کتاب’’ نثرِ رشید جہاں ، ‘‘ شاہدہ رسول کی کتاب ’’ اقبال کا تصور کشف‘‘ اور پرتو روہیلہ کی کتاب ’’ غالب اور غمگین کے فارسی مکتوبات ‘ ‘ کی رونمائی کرنا قابل تحسین اقدام ہے۔
اکادمی ادبیات پاکستان کے تحت اسلام آباد میں ’’قومی کتاب میلہ‘‘ کا انعقاد
کتاب کلچر کو فروغ دیا جائے تاکہ نوجوان نسل کتاب بینی کی طرف راغب ہو سکے۔ اکادمی کا یہ میلہ اسی مقصد کے لیے منعقد کیا گیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار عبدالحمید چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان نے اکادمی کے زیر اہتمام منعقدہ کتاب کے دن کے حوالے سے پانچ روزہ ’’قومی کتاب میلہ‘‘ کا افتتاح کرتے ہوئے کیا۔ افتتاحی تقریب میں ڈاکٹر انوار احمد صدرنشین مقتدرہ قومی زبان مہمان خصوصی تھے۔انھوں نے کہا کہ کتاب کلچر کے فروغ کے لیے اکادمی کے تحت قومی کتب میلے کا انعقاد ایک انتہائی احسن قدم ہے۔ ہمیں چاہیے کہ بچوں کی سالگرہ میں انھیں کتاب کا تحفہ دیں جو کسی بھی تحفہ سے بہترین ہو سکتا ہے۔ عبدالحمید نے کہا کہ اس میلے کے انعقاد کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں انٹرنیٹ اور چینل کے سبب کتاب بینی کا جورجحان کم ہوتا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ کتابوں کی قیمتوں میں اضافے کے سبب کتاب قاری کی پہنچ سے دو ر ہوتی جا رہی ہے۔ اس کمی کو دور کیا جا سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کتاب میلے میں ملک بھر سے شریک ہونے والے پبلشرز رعایتی نرخوں پر قاری کو کتابیں فراہم کریں جس سے کتاب کلچر فروغ پائے گا۔ تقریب میں ڈائریکٹر پشتو اکیڈمی ڈاکٹر سلمیٰ شاہین نے بھی اظہار خیال کیا۔ اس تقریب کی نظامت نورین طلعت عروبہ نے کی۔ اس میلے میں مقتدرہ سمیت ملک بھر سے ناشروں نے شرکت کی۔
صحافت میں شاندار خدمات پر صحافیوں کے لیے اے پی این ایس ایوارڈ
بائیسویں اے پی این ایس کی ایوارڈ تقریب اسلام آباد میں ایوان صدر میں ہوئی جس میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے بہترین کارکردگی پر ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں سمیت اور ۱۷ صحافیوں کوبہترین کارکردگی پر اے پی این ایس ایوارڈ دیے۔ صدر آصف علی زرداری نے ایوارڈ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آزاد ی کے لیے جمہوری حکومت کے پختہ عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ آزاد ذرائع ابلاغ انسانی حقوق، آزادیوں اور اظہار رائے کا ضامن ہے، ہم جمہوریت کے فروغ میں ذرائع ابلاغ کے ناگزیر کردار کا اعتراف اور احترام کرتے ہیں۔تقریب میں صحافتی شعبہ میں بہترین تحقیقاتی رپورٹنگ پر روزنامہ امت کراچی کے ندیم محمود، بہترین ماحولیاتی، صنعتی رپورٹ پر روزنامہ جنگ کراچی کے رازیہ فرید، بہترین بزنس/اکنامک رپورٹ پر روزنامہ ڈان اسلام آباد کے مبارک زیب خان، اردو میں بہترین کالم نگاری پر روزنامہ نوائے وقت کے سید سردار احمد پیرزادہ، صوبائی زبان میں بہترین کالم پر روزنامہ کاوش کے اشفاق اظہر انگریزی زبان میں بہترین کالم نگاری پر ماہنامہ نیوز لائن کی زہرا یوسف، انگریزی میں بہترین فیچر پر ماہنامہ ہیرالڈ کے مقبول احمد، اردو میں بہترین فیچر پر روزنامہ ایکسپریس کے عقیل عباس جعفری(عقیل عباس جعفری اخبار اردو کے مدیر اور مقتدرہ میں افسر تحقیق کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں)صوبائی زبان میں پندرہ روزہ عبرت میگزین کے واحد پارس حسبانی ، بہترین کو سٹوری (پیریاڈیکل) پر ماہنامہ ہیرالڈ کے عمر فاروق ، بہترین فوٹو گرافی پر روزنامہ دی نیوز انٹرنیشنل کے ایم زاہد رحمن، بہترین کارٹون پر روزنامہ عبرت کے مراد علی شاہ اور ۲۰۰۳ء کے لیے بہترین تحقیقی رپورٹ پر حامد میر کو ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے علاوہ روزنامہ وحدت پشاور کے پیر سفید شاہ ہمدرد ، ماہنامہ ہمدرد کراچی کے مسعود احمد برکاتی ، روزنامہ بزنس رپورٹ فیصل آباد کے مرحوم عبدالرشید غازی، سابق سیکریٹری جنرل اے پی این ایس مقصود حسین شاہ اور سینئر صحافی ضیاء الدین ٹی کسٹ کولائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔
مدیر اعلیٰ اخبار اردو سید سردار احمد پیرزادہ اے پی این ایس ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے نابینا صحافی بن گئے
صدرنشین مقتدرہ ڈاکٹر انوار احمد ، معروف شاعر و دانشور افتخار عارف، ملک بھر سے اہل علم و دانش، معتمد مقتدرہ ، نائب معتمد اور دیگر افسران و عملہ نے مدیر اعلیٰ اخبار اردو سید سردار احمد پیرزادہ کو بہترین کالم نگاری پر ’’اے پی این ایس‘‘ کی طرف سے بہترین ’’اردو کالم نگار‘‘ کا ایوارڈ ملنے پر مبارک باد دی ہے۔ صدرنشین نے کہا کہ ان کا اعزاز مقتدرہ کا اعزاز ہے۔ سید سردار احمد پیرزادہ اور مقتدرہ بلاشبہ اس شاندار کامیابی پر مبارباد کے مستحق ہیں۔سید سردار احمد پیرزادہ کو اے پی این ایس بہترین اردو کالم نگار کا ایوارڈ اے پی این ایس کی ایک پروقار تقریب میں صدر پاکستان آصف علی زرداری نے ایوان صدر میں دیا۔ وہ روزنامہ نوائے وقت میں ’’صاف صاف‘‘ کے نام سے کالم لکھتے ہیں۔ سید سردار احمد پیرزادہ ممتاز کالم نگار، سینئر صحافی اور پاکستان کے پہلے نابینا صحافی ہیں۔ اس سے قبل انھیں صحافت میں اعلیٰ خدمات کے عوض ’’چولستان ایوارڈ‘‘ بھی مل چکا ہے۔ سردار پیرزادہ نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے شعبہ صحافت میں ایم اے صحافت کا امتحان اعلیٰ درجے میں پاس کیا اور یونیورسٹی میں امتیازی پوزیشن حاصل کی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے سب ایڈیٹر ، رپورٹر اور ایڈیٹر کی حیثیت سے مختلف صحافتی اداروں میں کام کیا۔ انھوں نے اسلام آباد میں سفارت کاروں کے لیے ایک خصوصی ثقافتی انگریزی ماہنامے ’’ڈپلومیٹک‘‘ کا اجراء بھی کیا اور نئی طرز کے ساتھ ایک میڈیا آرگنائزیشن کی بنیاد بھی رکھی جس کا نام "Research and Information Services Emporium (RISE 24)" رکھا۔ آج کل وہ اخبار اردو کے مدیر اعلیٰ کے ساتھ ساتھ ریڈیو ’’سن رائز نائنٹی سیون‘‘ کے میزبان بھی ہیں۔ ان کی حال ہی میں ’’صاف صاف‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی شائع ہو چکی ہے ۔ انھوں نے اپنی اس کامیابی اور پذیرائی پر مجید نظامی اے پی این ایس اور ان تمام احباب و اہل علم ودانش کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے ان کا حوصلہ بڑھایا۔
مظہر جمیل کی نئی کتاب ’’ محمد ابراہیم جویو ایک صدی کی آواز ‘‘ شائع ہوگئی
معروف دانشور مظہر جمیل کی نئی کتاب ’’محمد ابراہیم جویو ایک صدی کی آواز ‘‘ شائع ہوگئی ہے جس کے متعلق ڈاکٹر فہمیدہ حسین کا کہنا ہے کہ مظہر جمیل نے سندھی کے لیجنڈ شخصیت پریہ کتاب لکھ کر ایک بار پھر سندھ کے لوگوں کے دل جیت لیے ہیں ، یہ کتاب جسے محکمہ ثقافت سندھ نے شائع کیا ہے پر سراج میمن ، ڈاکٹر غلام علی الانہ ، مہتاب اکبر راشدی نے اظہار خیال کیا ہے کتاب میں عظیم سندھی دانشور محمدا براہیم جویو کی زندگی ، سیاسی منظرنامہ ، عائلی زندگی ، سندھی ادب کی مزاحمتی تحریک ، چند اولین تحریریں کے عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ تراجم کی روایت اور ابراہیم جویو کے تحت ان کے تراجم بھی کتاب میں شامل ہیں۔ مشہور ادیب ودانشور ، مسلم شمیم نے اسے سندھ دھرتی کے عشق کی تازہ واردات قرار دیا ہے۔ کتاب کے مصنف مظہر جمیل نے مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد میں ایک حالیہ تقریب میں کہا ہے کہ مجھے اس کتاب کی محنت کا صلہ اسی وقت مل گیاجب محمدا براہیم جویو صاحب نے اس کتاب کو دیکھ کر بے حد خوشی کا اظہار فرمایا ، میرے نزدیک ابراہیم جویو صاحب پورے پاکستان کی دانش کا اثاثہ ہیں۔
گرمانی مرکز لمز لاہور میں منٹو کے حوالے سے تقریب
ادبی دنیا میں ۲۰۱۲ء کو منٹو کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس روشن ستارے کے فن پاروں اور تخلیقات پر تحقیق کے دروازے کبھی بند نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ادبی محفل اور تعلیمی ادارہ اس حوالے سے منٹو صدی کو منانے کے لیے مختلف تقریبات کا اہتمام کر رہاہے۔ اسی سلسلے کی ایک تقریب گرمانی مرکز زبان و ادب لمز لاہور میں منائی گئی۔ اس تقریب میں ملک بھر کے علاوہ بھارت سے بھی قابل ذکر اساتذہ، نقاد اور افسانہ نگاروں نے شرکت کی۔ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد اس موقع پر موجود تھی۔ ’’نیا اردو افسانہ، بیاد سعادت حسن منٹو‘‘ کے نام سے سعید سہگل آڈیٹوریم میں یہ تقریب دن بھر جاری رہی۔ افتتاحی تقریب میں انتظار حسین کو صدر تقریب کی حیثیت سے مدعو کیا گیا جبکہ لمز کے وائس چانسلر عادل نجم نے شرکاء کو خوش آمدید کہا۔ اس نشست میں منٹو اور افسانے کے حوالے سے مختلف رجحانات اور پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ شمیم حنفی جو بھارت سے تشریف لائے انھوں نے ہندوستانی ، پاکستانی منٹو کے افسانے پر جامع گفتگو کی۔ بانو قدسیہ علالت کے باعث شرکت نہ کر سکی مگر ان کا ریکارڈ شدہ پیغام ناظرین کو سنایا گیا۔ دوسری نشست ’’اردو افسانے کے نئے رجحانات‘‘ کے حوالے سے تھی جو اپنے موضوع اور مقالہ نگاروں کی وسیع النظر کے حوالے سے نہایت اہمیت کے حامل تھی۔ اس نشست میں اردو افسانے کے مختلف رجحانات کے حوالے سے نہایت عالمانہ اور بصیرت افروز گفتگو کی گئی۔ اس نشست میں اسد محمد خان جو کراچی سے تشریف لائے تھے ، نے ’’اردو افسانے۔ امکانات‘‘ پر گفتگو کی۔ جبکہ مسعود اشعر نے ’’جدیدتنقیدی مباحث‘‘ اور اردو افسانے کے تناظر میں صورت حال پر روشنی ڈالی۔ عطیہ سید نے ’’علامت ‘‘ اور نیا افسانہ پر اپنے خیا لات کااظہار کیا۔ کراچی سے تشریف لائے آصف فرخی نے ’’جدیدیت کے مباحث اور نیا اردو افسانہ ‘‘ پر بات کی اور جدیدیت کے مباحث کی الجھی صورت اور افسانے پر اس کے اثرات کے حوالے سے نہایت مفصل گفتگو کی۔ اس نشست میں نجیبہ عارف نے ’’تصوف اور نیا افسانہ ‘‘کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ تصوف کی چار صورتیں جو افسانے میں برتی گئی ہیں۔ انھوں نے ان کا نہایت خوبصورتی سے جائزہ پیش کیا ۔ وہ اسلام آباد سے تشریف لائی تھیں۔ لاہور کی اس ادبی محفل کی تیسری نشست اپنے موضوع اور فکر کے اعتبار سے نہایت اہمیت کی حامل تھی۔ جس کا عنوان ’’نئے افسانہ نگار‘‘ تھا ۔ اس میں اردو کے اہم افسانہ نگار وں نے اردو کے ان قابل قدر ناموں پر اظہار خیال کیا جو ہماری توجہ کے معاملے کے منتظر ہیں۔ جنھیں خصوصاً نئی نسل سے متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ انہی اہم ناموں میں ایک بڑا نام ’’اسد محمد خان ‘‘ کا تھا جن کے فن، اسلوب اور موضوعات کو ڈاکٹر انوار احمد نے نہایت چابکدستی سے متعارف کروایا۔ کلام سے اخذ شدہ حصوں سے ناظرین نے خوب حظ اٹھایا۔ مرزا اطہر بیگ نے خالدہ حسین جیسی باکمال مصنفہ سے اہل علم و فن کی بے توجہی کا شکوہ کیا اور ان کے فن پر سیر حاصل بحث کی۔ امجد طفیل ، حسن منظر کی افسانہ نگاری کے اہم عناصر کو سامنے لائے اور ان کی بحیثیت افسانہ نگار پہچان بننے والے پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا۔ اس نشست میں نئیر مسعود کے فن اور اسلوب پر حمید شاہد نے گفتگو کی ۔ انہوں نے نیر مسعود کی افسانہ نگاری کے نمایاں عناصر اور موضوعات کو موضوع بنایا۔ مبین مرزا نے شمس الرحمن فاروقی کی تخلیقات اور ان کے اسلوب و موضوعات کا تجزیہ کیا ۔ تیسری نشست کے ساتھ مکالموں کادور ختم ہوا۔ چائے کے وقفے کے بعد سعادت حسن منٹو کے مضمون، افسانوں کے حوالے سے ایک کھیل پیش کیا گیا جس کے بعد یہ رنگا رنگ محفل اختتام پذیر ہوئی۔ امید ہے کہ یہ تقریب افسانے اور منٹو کے حوالے سے ایک نہایت قابل قدر اضافہ ثابت ہو گی ۔ اہل علم منتظر ہیں کہ یہ عالمانہ مقالے کتابی صورت میں جلد از جلد سامنے آئیں تاکہ اس سے وہ لوگ بھی مستفید ہو سکیں جو اس محفل میں شرکت سے محروم رہے ۔
(
رپورٹ :ڈاکٹر صوبیہ سلیم )
پاکستان میں پرائمری تعلیمی نظام مؤثر نہیں: ڈاکٹر انوار احمد
صدرنشین مقتدرہ قومی زبان ڈاکٹر انوار احمد نے کہا کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم میں درپیش مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ زبان کا ہے۔ قومی زبان اردو میں تعلیمی مواد کی کمی کی وجہ سے طالب علموں کو کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور پاکستان میں پرائمری تعلیم کا نظام اتنا مؤثر نہیں کہ وہ طالب علموں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرسکے، ان خیالات کا اظہار انھوں نے انٹر یونیورسٹی کنسورشیم فار دی پروموشن آف سوشل سائنسز ، آرٹس اینڈ ہیومنیٹیز کے زیر اہتمام مقتدرہ میں ’’پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کو درپیش مسائل‘‘ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، تقریب میں پروفیسر ڈاکٹر اسلم سید نے اپنا خصوصی مقالہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کو چند بنیادی مسائل کا سامنا ہے جن میں سے ایک مسئلہ مالی وسائل کی عدم فراہمی اور تعلیمی بجٹ کا کم ہونا ہے۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر سہیل نقوی ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کہا کہ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور پاکستان کا آئین اس کا پورا پورا حق فراہم کرتا ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول بہت ضروری ہے اس کے بغیر بین الاقوامی معیار کو پورا نہیں کیا جا سکتا۔
شعبۂ اردو، اورئنٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی ،لاہورکے زیر اہتمام کل پاکستان مشاعرہ
مشاعروں کی روایت رہی ہے کہ یہ عموماً شام کو منعقد کیے جاتے ہیں۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اوریئنٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ۱۲؍اپریل ۲۰۱۲ء کو شام ۰۰:۸ بجے شعبۂ اردو نے ’’کُل پاکستان مشاعرہ‘‘ کا اہتمام کیا۔مشاعرے کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران نے کی۔ نظامت کے فرائض بالترتیب ڈاکٹر محمد کامران اور جناب مرغوب حسین طاہر نے انجام دیے۔استاد شعبۂ عربی، ڈاکٹر قمر علی زیدی نے ’’تلاوت سے محفل کا آغاز کیا۔ بعدازاں شعبۂ اردو کی سابق طالبہ حنا نصراللہ نے نعت رسول ﷺ پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ حسبِ روایت میرِ مشاعرہ ڈاکٹر مجاہد کامران نے شمع فروزاں کرکے مشاعرے کا باقاعدہ آغاز کیا۔ صدرِ شعبۂ اردو پروفیسر ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری نے استقبالیہ کلمات ادا کیے۔اس کے بعد مشاعرے کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اگرچہ بنیادی طور پر مشاعرے کو دو ادوار یعنی میزبان شعرا کا دور اور مہمان شعرا کا دور، میں تقسیم کیا گیا تھا تاہم دونوں ادوار آپس میں کہیں کہیں ایک دوسرے میں داخل ہوتے رہے۔ میزبان شعراے کرام میں ڈاکٹر محمد کامران سمیت جناب ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، جناب عصمت اللہ زاہد، ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری، جناب ناہید شاہد، جناب مرغوب حسین طاہر، ڈاکٹر زاہد منیر عامر، ڈاکٹر ضیاء الحسن، جناب شعیب احمد اور محترمہ عارفہ شہزاد شامل تھیں جبکہ مہمان شعرا میں ظفر اقبال، شہزاد احمد، خورشید رضوی، انور مسعود، اسلم انصاری، سحر انصاری، عطاء الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، خالد احمد، نجیب احمد، خالد شریف، انعام الحق جاوید، خالد مسعود، صفدر سلیم سیال، شریف اشرف، عباس تابش، علی اصغر عباس، بشریٰ اعجاز، سعد اللہ شاہ، فرحت عباس شاہ، صوفیہ بیدار، حمیدہ شاہین، شاہین عباس، عمران نقوی، صائمہ کامران، شناور اسحاق، راحیلہ رباب اور طارق کریم کھوکھر شامل تھے۔
الخیر یونیورسٹی آزاد کشمیر میں کتابوں کی نمائش
آزاد جموں و کشمیر کے نوجوانوں کے لیے الخیر یونیورسٹی(اے جے کے) نے جدید تعلیم فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ شعبہ تعلیم میں ڈاکٹر بشیر گورایاکی خدمات قابل تحسین ہیں۔ ہماری حکومت الخیر یونیورسٹی میں بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی بنانے میں بھرپور تعاون کرے گی۔ ان خیالات کا اظہار وزیر جنگلات وائلڈ لائف حکومت آزاد جموں و کشمیر سردار جاوید ایوب نے الخیر یونیورسٹی (اے جے کے) کے نئے تعلیمی سال بہار ۲۰۱۲ء کی اور یئنٹیشن ورکشاپ اوریونیورسٹی میں لگائی گئی کتابوں کی نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ دور حاضر میں جدید علوم کاحصول وقت کا تقاضا ہے۔ الخیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر/ریکٹر ڈاکٹر اے کیو انصاری نے کہا ہے کہ ہم نے طلبہ کے لیے ہر تعلیمی سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسوسی ایٹ پرووائس چانسلر ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے کہا کہ یونیورسٹی میں چار فیکلٹیز قائم کی جا چکی ہیں۔ ہم ٹیکنیکل تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ انٹلیکٹ کے چیئرمین ظہیر الدین احمد نے کہا کہ مجھے بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ الخیر یونیورسٹی میں ملک بھر سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے طلبہ /سکالرز اکٹھے ہوئے ہیں۔ تقریب میں ڈاکٹر محموداعوان ، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز، ڈاکٹر عبدالصمد پیرزادہ، ڈاکٹر طاہر مسعود قاضی، ڈاکٹر حمید نواز اور ڈاکٹر اشفاق حسین بخاری نے بھی اظہار خیال کیا۔کتابوں کی اس نمائش میں مقتدرہ قومی زبان، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اکادمی ادبیات، دعوۃ اکیڈمی، شریعہ اکیڈمی، ادارہ تحقیقات اسلامی شامل تھے۔
پروفیسرسارہ معین کی ٹورانٹو آمد
پاکستان کی معروف و ممتاز قاریہ اور نعت خواں‘ اسسٹنٹ پروفیسر کیمسٹری، گورنمنٹ ڈگری سائنس اینڈ کامرس کالج کراچی،سارہ معین ان دنوں کینیڈا کے مطالعاتی دورے پر ٹورانٹو آئی ہیں۔وہ درجنوں ایوارڈ،اسناد اور نقدانعامات حاصل کرچکی ہیں جبکہ پی ٹی وی کے کل پاکستان مقابلۂ نعت خوانی۱۹۸۵ء میں پہلی پوزیشن کی بھی حامل ہیں۔ ان کی نعتوں کی متعدد آڈیو کیسٹس بھی جاری ہوچکی ہیں ،جن کی مقبولیت کی بنیاد پر انہیں ’’بیسٹ کیسٹ میلوڈی ایوارڈ ۹۶۔۱۹۸۵ء‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ٹورانٹو میں انہوں نے معروف ادبی اسکالر اور اردو ٹی وی کینیڈاکے سر براہ تسلیم الٰہی زلفی سے ملاقات کی۔ بعد ازاں ٹی وی کے لیے ان کا طویل دورا نیے کاتفصیلی انٹرویو،قرأت اور نعتیں ریکارڈ کی گئیں۔
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر کے زیر اہتمام اورنگ زیب کے افسانوی مجموعہ ’’براقش ‘‘ کی تقریب رونمائی
اورنگ زیب کے افسانوی مجموعہ براقش کی تقریب رونمائی ۱۳؍ اپریل کو ’’پنجاب کیفے‘‘ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچرلاہور میں منعقد ہوئی جس کی صدارت ڈاکٹر اجمل نیازی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر صغرا صدف ڈائریکٹر پلاک نے ادا کیے۔ دیگر مقررین میں اعزاز احمد آذر، افتخار مجاز، نیئر اقبال، ناصر بشیر، عبدالکبیر ہاشمی، علی قاسمی اور نائلہ صدف شامل تھیں۔ ناصر بشیر نے اورنگ زیب ملک کے افسانوں کا فنی اور تکنیکی جائزہ لیتے ہوئے اُنہیں ایک بے باک افسانہ نگار قرار دیااور اُن کے متعدد افسانوں کے افتتاسبات پیش کیے۔ اعزاز احمد آذر نے ان افسانوں کو پاکستان کے سماجی مسائل کا بہترین آئینہ دار قرار دیا۔ ڈاکٹر اجمل نیازی نے اپنے صدارتی خطاب میں مصنف کی تحریروں کو سراہتے ہوئے اُنہیں مستقبل میں انہی موضوعات پر بے باکی کے ساتھ لکھنے کے لیے کہا۔ تقریب میں شہر کی نمایاں علمی، ادبی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔






ڈاکٹر مزمل حسین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تعارف
پروفیسر بشری قریشی
ملک کے دور درازعلاقوں میں بسنے والے علم و فن کے بے شمار ایسے گوہر نایاب تلاشے جا سکتے ہیں جن کی ذرائع ابلاغ تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے پس پردہ ہیں۔ ’’اخبار اردو‘‘ میں ایسے لوگوں کے لیے صفحا ت حاضر ہیں۔
ڈاکٹر مزمل حسین کا شمار سرائیکی وسیب کے ان لکھاریوں میں ہوتا ہے جنھوں نے معاصر سرائیکی اور اردو ادب کومتاثر کیا۔ تحقیق تنقید اور کالم نویسی میں ان کا نام نہایت احترام سے لیا جاتا ہے۔ خاص طور پر فن بلاغت کے پس منظر میں ان کا کام بنیادی نوعیت کا تصور ہوتا ہے۔ وہ ۱۹۸۳ء سے باقاعدگی کے ساتھ لکھ رہے ہیں ۔ ان کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں آغاز ہی میں پروفیسر نواز صدیقی ،پروفیسر سعید احمد، ڈاکٹر سجاد باقررضوی، ڈاکٹر سہیل احمد خان، ڈاکٹر فخر الحق نوری اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا جیسے اساتذہ سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا اور یونیورسٹی کے دنوں میں ہی ڈاکٹر مہر عبدالحق جیسے نابغہ روز گار شخصیت کی رفاقتوں کا شرف حاصل ہوا تو ان کے اندر علم و ادب کا تجسس بڑھتا ہی گیا۔ دوستوں میں مہر اختر وہاب ، حمید الفت ملتانی، پروفیسر اکرم میرانی، منور بلوچ ، سہیل عباس خان جیسے نمایاں ادباء اور دانشوروں کی انہیں صحبت میسر رہی۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر خیال امروہوی ،ڈاکٹر انوار احمد ،ڈاکٹر طاہر تونسوی ،ڈاکٹر روبینہ ترین اورڈاکٹر ظفر عالم ظفری ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ۔ جس کی وجہ سے اب تک بارہ کتب ، درجنوں تحقیقی مقالات اور مضامین اور کالم لکھ چکے ہیں۔ ادبی مذاکرے اور مباحثے ان کے سوا ہیں۔
کمپیوٹر کے اس دور میں شعر و ادب کی ضرورت کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ پوری تاریخ انسانی پرنگاہ ڈال کے دیکھ لیں ، شعر وادب کی ضرورت ہر عہد میں رہی ہے ۔ کمپیوٹر کا بخار عارضی ہے۔ انسانی جذبات و احساسات، تہذیب ، انسانی کی بنیاد ہیں او رشعر وادب کا مخاطب انسان کا باطن ہوتا ہے اس لیے اس کی اہمیت بھی ختم نہیں ہو سکتی ۔ جب تک کرۂ ارض پر انسان موجود ہے تب تک شعر و ادب تخلیق ہوتا رہے گا۔ کیونکہ انسان جتنا مرضی مشینی بن جائے اس کے باطن کو شعرو ادب اور فنون لطیفہ کی ضرورت ہر حال میں رہے گی۔ سرائیکی ہونے کے باوجودان کا زیادہ کام اردو میں ہے وہ کہتے ہیں کہ سرائیکی میری ماں کی،میری دھرتی کی اور میرے لوگوں کی زبان ہے اس لیے مجھے اپنی اس زبان پر فحر ہے لیکن سوائے تین کتب اور چند مضامین اور کچھ کالموں کے علاوہ میں سرائیکی زبان میں اپنا زیادہ اظہار نہیں کر سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرائیکی میں پڑھنے والوں کا دائرہ ابھی محدود ہے لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ ابھی مجھے زیادہ اظہار اردو میں کرنا ہے ۔ کیونکہ اردو ایک قومی زبان ہے اور اس میں علم کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ڈاکٹر مزمل کا زیادہ کام فن بلاغت کے حوالے سے ہے ۔ ان کے مطابق فن بلاغت ، بطور خا ص مشرقی شعریات و ادبیات کے پرکھ کے حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مگر بد قسمتی سے یا ہمارے ناقدین کی عدم دلچسپی کے حوالے سے اس (بلاغت) کی جانب توجہ نہیں دی گئی ۔ بلاغت کی تعریف و توضیع پر عابد علی عابد نے بنیادی نوعیت کا کام کیا ہے ۔ مگر اردو میں بلاغت کی تاریخ کا شعبہ ابھی خالی تھا۔ نیز اس کی ضرورت اور اہمیت پر بھی نہیں لکھا گیا تھا میں نے اس کام کو خوش اسلوبی سے کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ معاصر تخلیق کاروں کو بلاغتی امور کا شعور ضرور ہونا چاہیے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہماری جامعات کے لسانی اور ادبی شعبہ جات میں بلاغتی ادوار کے حوالے سے کوئی باقاعدہ پرچہ رکھا ہی نہیں گیا۔معانی، بیان اور بدیع کو جانے اور سمجھے بغیر کوئی بھی شاعر فن کی بلندی تک نہیں پہنچ سکتا۔ حالانکہ ناول اور افسانے میں اسلم انصاری، ڈاکٹر انوار احمد، ان سے پہلے عرش صدیقی ، لیاقت علی ، ڈاکٹر مزمل بھٹی ، بشریٰ قریشی، سجاد حیدر پرویز، جہانگیر مخلص ، باسط بھٹی ، مسرت کلانچوی، خالد اقبال ، ناصر ملک ، احمد اعجاز ، حفیظ خان، عامر فہیم اور بہت سے دوسرے ادیب ایسے ہیں جو تواتر کے ساتھ افسانہ ، بغرنامہ ، ناول اور نثر لطیف لکھ رہے ہیں۔


انڈس انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ ڈیرہ غازی خان
ایک تعارف
ڈیرہ غازی خان کی زرخیز زمین وسائل سے مالا مال اور اعلیٰ صلاحیتوں سے بھرپور ہے۔یہ ڈویژن چاروں صوبوں کا سنگم ہے۔مگر بدقسمتی سے یہ ضلع ہمیشہ محرو میوں کا شکار رہا ہے۔ا قتدار کے ایوانوں میں اس شہر کے مقتدر لوگوں نے پہنچ کر بھی اسے نظرانداز کر دیا۔اس ڈویژن کے احساسِ محرومی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے۔ کہ یہاں اعلیٰ تعلیم کے لیے کوئی بھی معیاری ادارہ موجود نہیں ہے۔ جہاں سے تشنگانِ علم اپنی پیاس بجھا سکیں۔ ایسے گھپ اندھیرے میں روشنی کی ایک کرنّّّّّّّّ انڈس انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ ہے۔جسے ایک خطیر رقم سے حافظ عبدالکریم صاحب نے تعمیر کیا ہے۔ جس کے مدِمقابل ڈیرہ غازی خان میں کوئی بھی حکومتی یا غیر حکومتی ادارہ نہیں ہے۔۱۰ ایکڑ پر مشتمل اس بلڈنگ میں اکیڈمک بلاک کے ساتھ ساتھ۲۰۰ طلباء کے لیے ہاسٹل بھی موجود ہے۔ جدید ترین کمپیوٹر لیب کے ساتھ ساتھ ۲۵۰۰کتب پر مشتمل ایک لائبریری بھی قائم ہے۔جبکہ مسجد کی تعمیر بھی مکمل ہو چکی ہے۔ تین کروڑ کی لاگت سے ایک شاندار آڈیٹوریم اور جدید لائبریری کی تعمیرکا افتتاح جلد ہی متوقع ہے۔ادارہ کا الحاق وفاقی اُردو یونیورسٹی برائے فنون ، سائنس اور ٹیکنالوجی سے کیا گیا ہے۔چار شعبے منیجمنٹ سائنسز، میڈیا سائنسز اوراکنامکس ڈیپارٹمنٹس میں اس وقت ۱۸۰طلباء اور طالبات کا داخلہ موجود ہے۔جبکہ سالِ نو میں مزید شعبہ جات کا اجراء متوقع ہے۔ ادارہ ہذا میں بیرونِ ممالک سے سند یافتہ اور تعلیم یافتہ اساتذہ موجود ہیں۔ تین پی ایچ ڈی پروفیسرز ڈاکٹر نجیب حیدر ،ڈاکٹر شہاب الدین اور ڈ ا کٹر راشدہ قاضی موجود ہیں جبکہ تین پی ایچ ڈی اور ایم فل سکالرز اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔۱۱ دسمبر ۲۰۱۱ء کو وزیرِاعلی پنجاب محمد شہباز شریف نے ادارہ ہذا کا باقاعدہ افتتاح کیا۔اور خود مختار یونیورسٹی کا درجہ دلانے کا وعدہ کر لیا۔۸مارچ ۲۰۱۲ء انڈس انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے لیے ڈاکٹر انوار احمد صدر نشین مقتدرہ نے ڈاکٹر راشدہ قاضی کی کتاب ۔"پہلی سی محبت" کا افتتاح کیا۔ یوں انڈس یونیورسٹی نے علم دوستی اور ادب شناسی کی روایت میں اپنا حصہ ڈالا۔ ندیم اقبال اس ادارے کے ذمہ دار اور روح رواں ہیں اور اس تقریب کی کامیابی کا سہرا بھی اُنہی کے سر سجاہے۔