کچھ یادیں کچھ باتیں
عارفہ شمسہ


۱۹۷۱ء میں ؛ سوھنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد: کو نصاب میں شامل کیا گیا،ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر ،ہرچینل پر آ ج تک یہ سدا بہار نغمہ ہمہ وقت سناجاتا ہے،۱۹۶۵ء کی جنگ میں : اپنی جاں نذر کروں:نے پڑوسی ملک کے چھکے چھڑا دیے تھے ،قو م کے جذبات بڑھا دیے تھے وطن کی مٹی گواہ رہنا؛جگ جگ جئے میرا پیارا وطن؛ہر دھڑکن کی ہے ایک دعا ،میرا سوھنا پاکستان جئے؛اللہ میرے پاکستان کو پھولوں مہکائے رکھنا؛ائے وطن کے جوانوں سلامت رہو؛ وغیرہ بے شمار ملی نغمے مسرور کی ملک و قوم سے جذباتیت کی غمازی کرتے ہیں۔
کوکو کو رینا، کوکوکورینا، میرے خیالوں میں چھائی ہے ایک صورت متوالی سی، معصوم سی بھولی بھالی سی، کوکوکو رینا، شادیوں کی تقریب ہو ،سا لگرہ ہو یاکوئی بھی تفریحی موقع یہ سدا بہار گانا نہ صرف زورو شور سے گایا جاتا ہے۔بلکہ ہر عمر کے ساتھیوں کے ہاتھ کوکوکورینا پر بے ساختہ تالیاں بجاتے نظر آتے ہیں،اس سدا بہار گانے کا نغمہ نگار مسرور انور،خود بھی معصوم سا بھولا بھالا سا نوجوان تھا۔ہاں اسی موڑ پر لے آئے ہیں حالات مجھے،یہ تو وہی جگہ ہے گذرے تھے ہم جہاں سے،بھولی ہوئی ہوں داستاں،اکیلے نہ جاناہمیں چھوڑ کر،مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہومجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے، ، جو بھی مانگنا ہے در مصطفےٰ سے مانگ؛ اللہ ہی اللہ کیا کرو؛ ٹوٹے دلوں کا سہارا میرے اللہ تیرا نام؛ یہ سب نغمے مسرور انور کی شاعری کی معراج ہیں ۔
شاعری کسی دور کی، کسی بادشاہ کی ،کسی حاکم وقت کی میراث نہیں ہوتی،لیکن بد قسمتی سے جب کوئی حکمراں کوئی کام کرتا ہے تو آنے والے کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کے اس کے پہلے عمل کو بدلے(ویسے حکمرانوں کو تو بعض اوقات بلکہ اکثر پتہ بھی نہیں ہوتا ان کے حالی موالی یہ حرکتیں کرتے ہیں) سوھنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد ؛ بیرون ملک آئے ہوئے وفدکے سامنے بچے یہ ملی نغمہ گارہے تھے توذوالفقارعلی بھٹو اس زمانہ کے وزیراعظم بھی گا نے میں شامل ہوگئے تھے، تو اس کے بعد شہنشاہ وقت نے اس نغمہ کو پس پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ تو ہر دور کے ، ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے،لیکن افسوس کی بات کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی آل کے دور میں بھی اس شاعر کے ساتھ انصاف نہ ہوا۔
مسرور انور ۱۹۴۱ء کو شملہ میں پیدا ہوئے، کراچی جیکب لائن تیکنیکل اسکول سے میٹرک کیا دوران تعلیم ہی ریڈیو پاکستان کراچی سے بچوں کی کہانیاں اور ڈرامے لکھنا شروع کردیں ، اس زمانہ کے بچوں کے پروگرام کے عبدل ماجد، ظفر صدیقی، منی باجی اور بعد میں پروڈیوسر شمس الدین بٹ، مس فاروق جہان تیموری نے ہمت افزائی کی اور جیسے ہی پاکستان میں پہلی مرتبہ کمرشل سروس شروع ہوئی تو پہلے ڈائریکٹر شمس الدین بٹ صاحب نے مسرورانور کو بہ حیثیت اسکرپٹ رائٹر اور پرودیوسر ریڈیو سے وابستہ کرلیا۔
کراچی میں فلم بنجارن کے لئے ایک نغمہ ؛ ماسٹر جی مجھے سبق پڑھادو؛ لکھا، موسیقی دیبو بھٹاچارجی نے بنائی اور طلعت صدیقی اور سلیم شہزاد کی آواز میں ریکارڈ ہوا، جو اپنے وقت کا مقبول گانا تھا۔اسکی مقبولیت سے ہی اقبال شہزاد نے اپنی فلم بدنام میں مسرور انور سے گانا لکھوایا ؛بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا؛ ثریا ملتانکر کاپہلا گانا جس نے انھیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ لیکن افسوس وہ اپنے ہر انٹرویو میں یہ تو اعتراف کرتی ہیں کے اس گانے نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا،لیکن کبھی بھی مسرور انور کا ذکر نہیں کرتی ہیں۔
پرویز ملک اسی زمانہ میں امریکہ سے اسکرین پلے اورڈائریکشن کی تربیت لے کر آئے تھے، ان کے بچپن کے دوست وحید مراد اس زمانہ میں کراچی یونیورسٹی میں انگلش میں ایم اے کررہے تھے( فلموں میں ہیرو آنے لگے تھے) ، مشہور شاعر رعنا اکبر آبادی کے صاحبزادے سہیل رعنا نے آرٹس کے نام سے ادارہ بنایا جس میں مسرور بھی شامل ہوگئے۔ اس کے بینر تلے پہلی فلم ہیرا اور پتھر تھی جس نے بے پناہ شہرت پائی،اسکے بعد تو جو فلم بھی بنی سپر ہٹ ہوئی، ارمان، دوراہا،احسان کے گانوں نے تو جیسے تہلکا ہی مچا دیا۔ اور کچھ عرصہ بعد مسرور نے ریڈیو کی نوکری کو خیرباد کہا اور یہ سب ساتھی بہتر سے بہتر فلم بندی کے لیے سر جوڑے نظر آتے رہے۔اکیلے نہ جانا، پہلے فلم کا نام رکھا تھا، اور ا سے وحید مراد بنا رہے تھے،پھر پرویز ملک صاحب نے اس گانے کوفلم ارمان کے لئے پسند کیا، دیکھتے دیکھتے ان کے سب نغموں نے دھوم مچا دی جس میں ،بھولی ہوئی ہوں داستان؛ اک نئے موڑ پہ لے آئے ہیں حالات مجھے؛یہ تو وہی جگہ ہے؛ مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو؛ کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے؛ میں جس دن بھلادوں ترا پیار دل سے ، ٹوٹے دلوں کا سہارہ، اور کوکوکو رینا،، وغیرہ ان سب گانوں پر مسرور کو ایوارڈ ملے، پرویز ملک کا کہنا تھا کہ میری فلموں میں سنگر بدلے موسیقار بدلے لیکن نغمہ نگار ہمیشہ مسرور انور رہے، احمد رشدی کی آواز وحیدمراد کی اکٹنگ پرزبردست تاثر دیتی تھی ۔ کراچی میں فلموں کے بننے کا اسکوپ کم تھا تو یہ لوگ لاہور شفٹ ہوگئے ، احمد رشدی کو مسرور کا یہ نغمہ ؛ائے ابر کرم آج اتنا برس ۔ فلم نصیب اپنا اپنا، میں بہت پسند تھا ۔چونکہ اس سے پہلے احمد رشدی پر صرف طربیہ گانوں کی چھاپ تھی، اب گیارا( ۱۱)اپریل کو احمد رشدی کی برسی آرہی ہے۔ اسی طرح رونا لیلیٰ مسرور کی بڑی گرویدہ ہیں فلم انجمن میں انھوں نے بہت شوق سے یہ نغمہ ریکارڈ کرایاتھا۔آپ دل کی انجمن میں حسن بن کے آگئے؛ فلم بوبی کے نغمے ؛ اک بار ملو ہم سے سو بار ملیں گے؛ پر نہ صرف پاکستان میں ایوارڈ ملا بلکہ بھارت نے گولڈ ڈسک دی۔کامیابیاں مسرور کے قدم چوم رہی تھیں ۔ اب انہوں مکالمہ نگاری، کہانی نویسی بھی شروع کردی کہنے کو جو عروج کا دور تھا اسی میں صبح فلمانے کے ڈائلاگ لکھے، لیکن وہ صبح مسرور کی زندگی نہ آپائی، پہلی اپریل ۱۹۹۶ء اسے اپنے چاہنے والوں سے دور بہت دور لے گیا ہم نہ ہونگے تو تمہیں اے جان وفا یاد آئیں گی ہماری باتیں۔ آجکل ہر موسیقار، ہر نغمہ نگار، ہر صداکار پر بڑے بڑے پروگرام ہر چینل کر رہا ہے لیکن مسرور انور پر ابھی تک کوئی پرو گرام مجھے نظر نہیں آیا آخر کیوں، جبکہ اسکے لکھے ہوئے نغمے روزانہ کسی نہ کسی چینل پرضرور نشر ہورہے ہوتے ہیں۔شکر خدا کامسرور نے بھر پورانداز میں زندگی گزاری، افسوس یہ رہا کہ زندگی میں صدارتی ایوارڈ ملتا تو بات ہی کچھ اور ہوتی، لیکن اب بھی سارے دوست احباب چاہنے والوں کی آرزوہے کہ کوئی شاہراہ، کوئی سڑک کوئی مقام مسرور انور کے نام سے مخصوص کیا جائے، ایک زمانہ میں سوہنی دھرتی بہت اچھے انداز میں مینار پاکستان کے سامنے لکھاہوا تھاجو چاروں طرف سے نظر آتا تھا لیکن وہ بھی ہٹا دیا گیا تھا ۔ جہاں وہ رہتا تھا وہاں اب اس کا اکلوتا بیٹا احمد فراز رہتا ہے، گارڈن ٹاون کو اسکے نام سے منسوب کردیا جائے،،یہ ا س کی بے حد لاڈلی بیوی زاھدہ مرحومہ کی بھی خواہش تھی، کاش کوئی ارباب حل وعقد اس خواہش کو یہ سمجھے کہ مسرور ملک و قوم کا ہیرو تھا یہ صرف خواہش نہیں ریاست پر ایک قرض بھی ہے ۔