رضیہ رحمن
اسسٹنٹ پروفیسر اردو،گورنمنٹ کالج برائے خواتین ،جہانیاں

استاد، ماہر لسانیات پروفیسر محمد یحییٰ عزیز کی یاد میں

تیری چاہت نے مری ذات مکمل کر دی
تو میرے ساتھ رہے گا مری سانسوں کی طرح
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بعض اوقات ہمارے پاس خیالات کا ایک ہجوم ہوتا ہے ، کاغذ اور قلم بھی میسر ہوتے ہیں ، ہم بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن الفاظ ہمارا ساتھ نہیں دیتے بالکل یہی حال اس وقت میرا ہے۔ کاغذوں کا ڈھیر موجود ہے ، ذہن میں ان کہی باتوں کا ایک سیل رواں ہے لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ اپنے شریک حیات ، شریک مسرت و غم جنہیں لوگ پروفیسر محمد یحییٰ عزیز کے نام سے جانتے ہیں (اور اب ان کے نام کے ساتھ ایک اضافہ کیا کریں گے ''رحمتہ اللہ علیہ'' کا) ، کی شخصیت کا کون کون سا پہلو بیان کروں اور کس طرح بیان کروں کہ سورج کو چراغ دکھانا میرے لیے کارِ محال ہے۔
لکھتی ہوں تو تم ہی اترتے ہو قلم سے
پڑھتی ہوں تو لہجہ بھی تم آواز بھی تم
ہماری شادی کی تاریخ کے تعین کا وقت آیاتو کہنے لگے شوال کی کوئی تاریخ رکھنی ہے ان شاء اللہ کیونکہ خاتم المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح شوال میں ہوا تھا۔ شوال کے ساتھ دن جمعرات یا پیر کا ہو یہ بھی لازمی ہے لہٰذا۲۲ دسمبر ۲۰۰۳ء بروز پیرہماری شادی کی تاریخ مقرر ہوئی۔
ہماری شادی پر لوگوں نے بہت وا ویلا کیا کہ عمر کا فرق بہت زیادہ ہے ۔ یہ ''بابا'' کتنے سال جیئے گا ؟ شادی کے وقت میری عمر ۳۷ سال اور یحییٰ عزیز صاحب کی عمر ۵۷سال تھی۔ ۲۰ سال کا یہ فرق میں نے اس لیے نظر انداز کردیا کہ میں نے شادی کے لیے جو شرائط طے کر رکھی تھیں وہ ان پر ہزار فیصد پورا اترتے تھے۔ میں نے اپنے والدین سے کہا تھا کہ میں ایسے شخص سے شادی کروں گی جو عقیدہ توحید پر سختی سے کاربند ہو۔ شرک کو ظلم عظیم سمجھتا ہو،جہیز سے مجھے نفرت ہے وہ جہیز بالکل نہ لے، علم میں مجھ سے زیادہ نہ سہی لیکن کم بھی نہ ہو ۔
میرے لیے بہت سے تعلیم یافتہ اور صاحب ثروت لوگوں کے رشتے آئے لیکن توحید کی کمی کے ساتھ ۔ اگر عقیدہ درست تھا تو جہیز نہ لینے پر رضا مندی نہ تھی۔الحمد للہ ، ثم الحمدللہ میں اس لحاظ سے بھی ''خوش بخت '' ٹھہری کہ مجھے ''جہیز'' ''بری'' میں ملا اور ''حق مہر'' میں میری پسند کے زیورات کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک سے خریدی گئی کتب کا ہمیشہ رہنے والا ''علم کا خزانہ'' بھی ملا ۔ جس کے چوری ہونے کا خدشتہ نہ Out of Fassion ہونے کا ڈر ۔ کتابوں کا یہ ذخیرہ ان کے لیے بھی ''صدقہ جاریہ'' اور میرے لیے بھی ، خریدنے والے کے لیے بھی ثواب بلکہ رہتی دنیا تک ''ثواب''۔
شادی کے بعد۲۰۰۴ء میں، عمرہ کی سعادت حاصل کرنے گئے ایک مہینہ ہم وہاں رہے، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ ، جدہ تینوں شہروں کی خوب سیر کی۔ مدینہ یونیورسٹی اور رابطہ عالم اسلامی کے دفتر سمیت بہت سے تاریخی مقامات کی سیر کی۔ عبادت بھی کی اور سیر بھی۔ہم عربی اور انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھتے تھے ''پاکستانی لباس'' میں فرفر عربی بولتے شخص کو ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔ کسی چیز کی قیمت پوچھتے دکان دار قیمت بتاتا کچھ اور تھا لیکن لیتا کچھ اور تھا۔ مثلاً مدینہ منورہ سے ایک چھتری خریدنا چاہی تو پندرہ ریال کی تھی جب اسے پندرہ ریال دیئے تو اس نے دس ریال رکھ لیے اور پانچ ریال واپس کردیئے۔ عربی زبان اور عربی کے ''عاشق'' کے طفیل اللہ تعالیٰ نے ایک ''پنجابن'' کو بھی اس مقدس سرزمین پر ''معتبر'' کردیا۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ ۔
یحییٰ عزیز صاحب کو عربی زبان سے بے انتہا ''عشق'' تھا۔ عربی زبان و ادب ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ عربی زبان و ادب بالخصوص گرامر پر انھیں مکمل عبور تھا ۔ طالب علموں کوعربی گرامر دلچسپ پیرائے میں سکھاتے ۔
عربی زبان سے ''عشق'' کیوں نہ ہوتا کہ وہ ۱۸ اکتوبر۱۹۴۵ء کو سعودی عرب کے مقدس شہر مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والدین شاہ عبدالعزیز آل سعود کے شاہی مہمان کے طور پر ٹھہرے ہوئے تھے۔ شاہ عبدالعزیز آل سعود نے یحییٰ عزیز صاحب کو اپنے بیٹے کا درجہ دیا ۔ انھوں نے دو سال تک ان کے زیر سایہ پرورش پائی۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر، زبان اور عقیدہ سے محبت گویا ان کی گھٹی میں شامل تھی۔ وہ کہا کرتے تھے عربی زبان و ادب اور گرامر کی وجہ سے مجھے انگریزی ، فارسی اور دیگر زبانوں کی گرامر سیکھنے میں سہولت ہوئی۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ مجھے اس دنیا میں جو عزت و وقار اور احترام ملا وہ عربی زبان اور دین سلام سے عشق کی وجہ سے ملاورنہ میں بھی بہت سے لوگوں کی طرح عام سا ، بے کار، گمنام شخص ہوتا۔ عربی کا شوق رکھنے والوں سے بہت پیار اور احترام سے ملتے ، انھیں سرآنکھوں پر بٹھاتے ۔
یحییٰ عزیز صاحب کے والد حاجی جان محمدّ صاحب نے شاہ عبد العز یز آل سعود رحمتہ اللہ علیہ سے کیا ہوا وعدہ نبھاتے ہوئے انھیں پرائمری پاس کرنے کے بعد ماموں کا نجن ضلع لائل پو ر (مو جودہ فیصل آباد ) کے ایک چھوٹے سے گائوں ''اوڈاں والا'' کے ایک مقتدر ادارے ''مدرسہ دارالعلوم تعلیم الاسلام'' میں داخل کر وادیا جہاں سے انھوں نے ۱۹۶۴ء میں درس نظامی کا چھ سالہ کورس مکمل کیا ۔لاہور بورڈ سے۱۹۶۲ء میں ادیب عربی ، ۱۹۶۳ء میں عالم عربی ، ۱۹۶۴ء میں فاضل عربی کے امتحانات نمایاں حیثیت سے پا س کیے۔ ساتھ ساتھ میٹرک ،ایف اے ،بی اے کے لازمی پرچوں کے امتحانات بھی اپنی ذاتی کوشش سے پاس کیے۔ ان دنوں پورے پنجاب کا ایک بورڈ، لاہور بورڈ تھا، میٹرک میں انگریزی میں پورے بورڈمیں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ بعدازاں جامعہ اسلامیہ بہاول پور سے ۱۹۶۶ء میں اسلامیات میں ایم اے کیا ۔ اس کے بعد ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی ہجر ت کی اور ملک کی سب سے بڑی درس گاہ جامعہ کراچی سے ۱۹۷۰ء میں ایم اے عربی کا امتحان نمایاں پوزیشن سے پاس کرنے پر سونے کا تمغہ حاصل کیا اور پھر ۱۹۷۴ ء میں جامعہ کراچی ہی سے ایم اے تاریخ اسلام کی سند حاصل کی۔ ۱۹۷۵ ء میں کا لج آف ایجو کیشن کراچی سے بی ایڈکیا۔ ۱۹۷۲ء میں امریکن کلچرل سنٹر کراچی سے انگر یز ی بو ل چال کا اور ایران کلچر ل سنٹر کراچی سے فارسی بو ل چال کا دو، دو سالہ کو رس مکمل کیا ۔ غر ضیکہ پاکستان میں پر ائمر ی سے لے کر ایم اے تک جتنے بھی عربی کے کورس ہیں وہ سب انہوں نے کیے۔ عر بی میں پی ایچ ڈی کررہے تھے کہ نائیجیر یا کے لیے ان کا انتخاب ہو گیا ۔ اور دس سال(۸۵۔۱۹۷۵)بعد واپس آکر جب انہیں پتہ چلاکہ ان کا منتخب کردہ مو ضو ع کسی اور طالب علم کو دے دیا گیا تھاتو انھوں نے پی ایچ ڈی کا ارادہ ملتوی کردیا ۔
اندرون ملک تدریسی خدما ت
جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں ایک سال (۶۸۔۱۹۶۷) مختلف کلاسوں کو عربی اور انگریز ی پڑھائی ۔ گورنمنٹ سیکنڈری سکول لیا قت آباد کراچی میں ایک سا ل شام کی کلا سیں پڑھا ئیں ۔ فیڈرل گورنمنٹ اردو کا لج کراچی میں ایک سال (۷۴۔۱۹۷۳) ڈگری کلاسوں کو اسلامیات پڑھائی ۔ جامعہ ابی بکرکراچی میں تین سال(۸۶۔۱۹۸۳ ) اسلامیات اور عربی کی تدریس کی ۔ تین سال (۸۹۔۱۹۸۷ )عر بک ماڈل سکو ل و کالج کراچی میں عربی اور اسلامیات کی تدریس کے فرائض انجام دیئے ۔ ۱۹۹۸ء میں خانیوال میں خواتین عربک کالج کی بنیاد رکھی جہاں بانی پرنسپل کے علاوہ ایم اے عر بی ایم اے اسلامیات ، عربی فاضل ،ایف اے ، بی، اے ، انگریزی بول چال اور عربی بول چال کی کلا سو ں کو تد ریس کے فرائض بھی انجام دیے۔
بیرون ملک تدریسی خدمات
چارسال (۷۸۔۱۹۷۵ )گورنمنٹ عربک ٹیچر ز کا لج گونبے نائیجیر یا میں عربی اور اسلامیات کی انگریزی اور عربی میں تدریس کی ۔ چھ ماہ (۱۹۷۸) ایڈوانسڈ ٹیچر ز کالج ازارے نائیجیریا میں عربی زبان اور میتھوڈ ولوجی کی تدریس کی تین سال (۸۱۔۱۹۷۹ ) اسلامی لاء کی کالج آف لیگل اینڈاسلامک سٹڈ یز مسائو بائوچی سٹیٹ نائیجیر یامیں تدریس کی ڈیڑھ سال (۸۳۔۱۹۸۱ ) تک ایڈ وانسڈٹیچرز کالج بائوچی نائیجیریا میں پڑھا یا ۔ چھ ماہ (۱۹۸۴ )بائوچی کالج آف آرٹس اینڈ سائنس نائیجیر یا میں اسلامیات اور عر بی کی تدریس کی ۔ دو سال (۸۵۔۱۹۸۳)تک یحییٰ عزیز صاحب نے سنٹر ل مسجد شیخ ابی بکر غومی نائیجیر یا میں عشاء کی نماز کے بعد گورنمنٹ کے افسران اور با لغوں کو عقیدہ اور عر بی زبان کی تعلیم دی ۔
ترجمہ: ہم راضی ہیں اس فیصلہ پر جو اللہ جبار نے ہمارے لیے کیا کہ ہمارے حصّہ میں علم آیا اور جاہلوں کے حصّہ میں مال آیا ۔
ترجمہ: تو بے شک مال ہی جلدی ختم ہونے والا ہے اور یقینا علم ہی ہمیشہ باقی رہنے والا ہے ۔
ّْجامعہ کراچی میں شعبہ عربی کی عربی سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری رہے اور شعبہ عربی سے مجلہ''النخلہ'' شائع کیا ۔ عربی سوسائٹی (النادی العربی) کے سیکریٹری جنرل کے طور پر ماہانہ اجلاسوں کی رپورٹیں لکھیں جو کراچی کے اخبارات میں باقاعدگی سے چھپتی رہیں ۔یحییٰ صاحب نے مشہور اشاعتی ادارہ تاج کمپنی میں بطور عربی مترجم کام کیا اور بہت سی عر بی تحریروں کا انگریزی اور اردو ترجمہ کیا ۔ ادارہ فروغ عربی وتر جمتہ القرآن الشیخ آصف قاسمی کراچی میںبطور استاد اور مترجم فرائض انجام دیئے ۔ روزنامہ جنگ میں تین سال تک صفحئہ طلبہ کے نائب مدیر کے طور پر کام کیا ۔ تین سال تک جماعت مجاہدین پاکستان کے ڈائر یکٹر نشرواشاعت کے فرائض انجام دیئے ۔ ہلال احمر سعودی مو سستہ الحرمین الشریفین کراچی کے مدیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں ۔ world conference on Religion and Peace Pakistan chapter ) ( کے اسسٹنٹ سیکرٹری کے فرائض بھی بخوبی نبھائے ۔ مرکزالثقافۃ الاسلامیہ واللّغتہ العربیہ پاکستان Islamic Culture and Arabic Language Centre Pakistanکے چیئرمین کے طور پر کراچی اور خانیوال میں باقاعد ہ ادارے چلائے۔ نائیجیر یا میں (۸۵۔۱۹۷۵ ) تک مختلف تعلیمی اداروں میں صدر شعبہ عر بی واسلامیات ، ہائوس ماسٹر اور Maintainance Officer کے فرائض بھی احسن طریقے سے انجا م دیئے۔ Muslim Intelectual Forum Nigeria کے چیئرمین بھی رہے ۔ جامعہ اسلامیہ بہاول پور میں ایم اے اسلامیات کے دوران دوکتابوں ، تحقیق علم السجرفی ضوء القرآن اورتاریخ تدوین حدیث کی بطورمحقق تدوین کی ۔ سیّد اسماعیل شہید رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب تقویتہ الایمان کی جماعت مجاہدین پاکستا ن کے ڈائریکٹر کے طور پر تدوین واشاعت کی۔ خانہ کعبہ کی اہمیت ومرکز یت پر عربی زبان میں ایک کتاب لکھی جس کا مسودہ محفوظ ہے جس کی اشاعت کی مہلت نہ ملی ۔ (ان شاء اللہ اب میں اسے شائع کروائوں گی )
کتابیں خریدنا ، پڑھنا اور انہیں ذخیرہ کرنا بلکہ ''پالنا'' ان کا بہترین مشغلہ تھا۔ جہاں جاتے واپسی پر کتابوں کا ڈھیر ساتھ ہوتا۔ نائیجیر یا میں دس سال ( ۱۹۷۵تا۱۹۸۵ ) کا لجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا اور جب واپس آئے تو لوگوں نے ان کی عقل پر ''ماتم'' کیا کہ لوگ تو باہر سے ٹی وی ، وی سی آر ، گاڑی اور نہ جانے کیا کیا لاتے ہیں اور یہ ''پاگل'' کتابوں کا ڈھیر اٹھا لایا ہے۔ تقریباً ہر کتاب پر خریدنے کی تاریخ یا ڈاک سے وصول کرنے کی تاریخ درج کرتے اور جو کتاب پڑھتے عموماً اس پر لکھتے کہ کس تاریخ کو پڑھنا شروع کی اور کس تاریخ کو ختم کی ؟
فی البدیہہ تحریر و تقریر کی خدا داد صلاحیت رکھتے تھے۔ جو لکھتے اس میں سے شاید ہی کوئی لفظ کاٹنے مٹانے یا بدلنے کی ضرورت پڑتی۔ان کے پاس طالب علم ان کے پاس عربی ، انگریزی ، اردو کا کوئی موضوع لے کر آتے ۔ آنکھیں بند کرکے چند لمحے سوچتے اور پھر ایسے بولتے چلے جاتے جیسے ''الہام'' ہورہا ہو۔ لکھنے والے کے یہ الفاظ ''آمد'' میں خلل ڈالتے کہ سرجی انگلش کے سپیلنگ کا مسئلہ ہے یا Writing Spead کا مسئلہ ہے اس لیے ذرا ''آھستہ آھستہ'' لکھوائیں۔ دنیا کا کوئی موضوع ایسا نہ تھا جس پر ''بے تکان'' نہ بول سکتے ہوں۔ نائیجیریا میں تدریس کے دوران انھوں نے وہاں مسجدوں میں جمعہ کے خطبات پر بھی بے حد داد پائی۔ گفتگو کے فن میں عالمانہ مہارت کی وجہ سے نائیجیر یا ٹی وی نے اہم اسلامی مواقع مثلاً رمضان المبارک ، عید الفطر ، عید الاضحی وغیرہ کے موضوعات پر ان کے لیکچر ریکارڈ کیے جو ہر سال ''نشرِ مکرر'' کے طور پر دکھائے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں ، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
۲۰۱۱ء میں ترقی کے بعد جب میرا جہانیاں تبادلہ ہوا تو ہم نے وہاں کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کی وہاں حکیم عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ کی قائم کردہ ''سلیمانی مسجد'' میں بھی جمعہ کے عالمانہ خطبات دے کر بہت داد پائی ۔
دل موہ لینے کافن انہیں خوب آ تا تھا ۔ جو ایک دفعہ مل لیتااُن کامداح بن جاتا اور دوبارہ ملنے کے لیے کھنچا چلا آتا،سرجی،انکل جی آپ سے ملے ہوئے بہت دن ہو گئے تھے سوچا حاضر خدمت ہو کر آپ کی ''خوشی گفتاری '' سے لطف اٹھائوں اور سرجی دلچسپ واقعات، قرآنی آیات ،احادیث اور ذاتی تجربات و مشاہدات کے ذریعے نہ صرف گراں بہا معلومات بہم پہنچاتے بلکہ باتوں باتوں میں ان کی شخصیت کے منفی پہلوئوں اور بالخصوص عقیدہ کی اصلاح بھی کر دیتے۔سینکڑوں لوگوں کو ان کی تعلیمات سے ایمان اور عقیدئہ توحید پر پختگی کی نعمت ملی۔ نوجوانوں سے بہت بے تکلفی سے ملتے۔ان کے مسائل اور الجھنوں کو بھانپنے اور چٹکیوں میں حل نکالنے میں انھیں مہارت حاصل تھی ۔نوجوان کہتے انکل جی ،سرجی کاش ہمارے گھر میں موجود بزرگ اپنے اور ہمارے درمیان عمر کی'' خلیج''اور بزرگی کا ''حوّا'' کھڑا نہ کیا کریں اور آپ کی طرح شفقت اور محبت سے ہمارے مسائل سنیں اور حل بتائیں تو بے شمارے نوجوان رہنمائی اور مشورہ کے فقدان کی وجہ سے بھٹکنے اور بگڑنے سے بچ سکتے ہیں۔
ہر لفظ میں محبت ، ہر لفظ میں دعا
؎مقروض کر دیا ہے ہمیں تیرے خلوص نے
وقت کی پابندی ان کی ایک بہت بڑی خوبی تھی۔ان کے قریبی ساتھی اور شاگرد بر ملا اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ وقت کے اس قدر پابند تھے کہ لوگ ان کو دیکھ کر اپنی گھڑیوں کا وقت ٹھیک کیا کرتے تھے۔
ان کو جو عزت و احترام اور امتیازات ملے اگر کوئی عام شخص ہوتا تو اس کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا لیکن یہاں یہ حال کہ بلا کی سادگی اور عجزو انکسار البتہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بعض نعمتوں، صلاحیتوں اور مواقع پر اظہار افتخار ضرورکرتے مثلاً ان کا کہنا تھا کہ امام خانہ کعبہ عبداللہ بن سبیل رحمتہ اللہ علیہ کی میزبانی اور مہمانداری میرے لیے باعث فخرہے ۔ یحییٰ عزیز ہلال احمر سعودی کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹرتھے اور ابوبکر یونیورسٹی کراچی میں بھی استاد کے علاوہ کلیدی عہدوں پر فائز ہونے اور عربی بول چال پر عبور کی وجہ سے عرب مہمانوں کا استقبال و مہمان نوازی ان کی بنیادی ذمہ داری تھی۔امام خانہ کعبہ جب کراچی آئے تو انھیں پر فضاء مقام زیارت بلوچستان میں ٹھہرایا گیا۔جہاں ان کی پہلی بیوی مہرالنساء بیگم او رسب سے چھوٹی صاحبزادی صباء عزیز ان کے ساتھ گئیں اور امام صاحب کے کھانے پینے وغیرہ کا انتظام سنبھا لا ۔امام خانہ کعبہ و امام مسجد نبویؐ ڈاکٹر سعود الشریم اور عبدالرحمن السدیس اوررابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل عبداللہ محسن الترکی سے بالمشاقہ ملاقات کو بھی باعث اعزازسمجھتے تھے۔
علاوہ ازیں انھوں نے اقوام متحدہ کی طرز پر مسلمانوں کے لیے ایک الگ پلیٹ فارم (اسلامی اقوام متحد ہ) کانہ صرف تصور پیش کیا بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات اٹھائے ۔اس سلسلہ میں اس وقت کے سعودی حکمران شاہ فہدبن عبدالعزیز سے خط و کتابت بھی کی انھوں نے بھی اس نظریے کو بہت سراہا اس وقت کے گورنر مکہ اور دیگر وزراء سے بھی خط و کتابت ہوئی اور شاہ فہد سمیت تمام شخصیات نے انھیں اپنے دستخطوں سے شخصی خطوط لکھے۔ ایٹمی دھماکوں کے سلسلے میں وزیر اعظم محمد نواز شریف صاحب اور صدر مملکت محمد رفیق تارڑ صاحب کو بھی ایٹمی دھماکے پرا بھارنے کے لیے خطوط لکھے جن کے جواب میں ان دونوں شخصیات نے ستائشی خطوط ارسال کیے۔ تعلیمی پالیسیوں کے سلسلے میں بھی انھوں نے بہت سی اہم شخصیات کو تجاویز ارسال کیں جن کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ بہت سی تجاویز کو پالیسیوں میں شامل کیا گیا بالخصوص دینی مدرسوں کے نصاب میں عصری علوم کو شامل کرنے کی تجویز پر عمل درآمد بھی کیا گیا ۔
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے
وہ حق و صداقت کی علامت تھے جس مسئلے کا حق ہونا ان پر واضح ہو جاتا اس پر ڈٹ جاتے او ردنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنے مؤقف سے نہ ہٹا سکتی ۔وہ دوستی اور دشمنی دونوںکی بنیاد عقیدہ توحید پر رکھتے وہ کہا کرتے تھے کہ وہ لوگ ہر گز دوستی کے قابل نہیں جو اللہ تعالیٰ کو وحدہ' لاشریک مانتے اور جانتے نہیں ،جو اللہ کو چھوڑ سکتے ہیں وہ ہر رشتہ سے منہ موڑ سکتے ہیں لہٰذا وہ ایسے لوگوں سے منہ موڑ لیتے اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے بقول
اپنے بھی خفا مجھ سے ، ہیں بے گانے بھی نا خوش
میں زہر ہلا ہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ نہ لینے کا انھیں ہمیشہ افسوس رہا۔ہوا کچھ یوں کہ انھوں نے مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ کے لیے درخواست دی جو ان کی تعلیمی قابلیت او رعربی زبان میں مہارت کی بناء پر منظور کرلی گئی لیکن ڈاک کا پتہ کیونکہ اُن کے آبائی گائوں پیرووال کا تھا۔ڈاک کا نظام سست ہونے کی وجہ سے خط تب موصول ہوا جب داخلہ کی تاریخ گزر چکی تھی۔
میں نے ان سے شادی کے بعد باقاعدہ ''شرعی '' پردہ شروع کیا تو لوگوں نے سوچا کہ رضیہ رحمن تو بس اب گئی کام سے ۔شاید یہ اب کوئی کام بھی نہ کرے لیکن انھوں نے پردے کومیرے لیے اعتماد اور خوش بختی بنادیا۔سیر و تفریح ،گھومنا،پھر نا،ہرجگہ ساتھ لے جانا یہاں تک کہ گھر کی تعمیر میں اینٹ ،پتھر ، ٹائلیں اور پینٹ کے رنگوں تک ہر جگہ مجھے محمد عبداللہ یحییٰ اور محمد عبدالرحمن یحییٰ کو ساتھ لے جا کر پسند کروانے کے بعد خریداری کی۔ گھر کا نام ''بیت الحمد'' رکھنے کی نیت تھی۔ ان شاء اللہ اس نیت وارادے پر نیکی ان کا مقدر بنے گی ۔عبداللہ اور عبدالرحمن ان سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی باتیں سن کر کہنے لگے با با ہمیں بھی وہاں جانے کا شوق ہے کہنے لگے اس سال تو گھر مکمل کریں گے۔ان شاء اللہ اگلے سال ہم سب حج کرنے جائیں گے اور آپ کا شوق پورا کریں گے۔ عمر کے بیس سالہ فرق کے باوجود الحمدللہ ہماری بلاکی ذہنی ہم آہنگی تھی ۔میری ہر خواہش کی تکمیل کو اپنا فرض سمجھتے ۔میں غمزدہ ہوتی تو ان کا کندھا غم ہلکا کرتا، کوئی راز ،کوئی دل کی بات کرنا ہوتی تو وہ میری ''سہیلی'' ہوتے ،میں عقیدے یا عمل کے معاملہ میں کوئی غلطی کر بیٹھتی تو وہ بزرگ '' بن جاتے ، جہاں علمی مشکل درپیش ہوتی تو ''استاد'' موجود۔ مجھے غصہ آجاتا اور میں غصہ کا کھل کر اظہار کر چکنے کے بعد معافی مانگتی تو انتہائی فراخ دلی سے کہتے مجھے پتہ ہے آپ کا غصہ پیار والا غصہ ہوتا ہے اس لیے مجھے آپ کے غصہ پر غصہ نہیں آتااس لیے آپ معافی نہ مانگا کریں۔مسکراہٹ کے پیچھے دکھ ،غصے کے پیچھے پیار اور چپ رہنے کے پیچھے وجہ کو ان کی ذہانت فوراً بھانپ لیتی۔حال ہی میں ہم دو نو ں نے اکٹھے پی ایچ ڈی کر نے کا ارادہ کیا تھا کہ زیر تعمیر گھر کی تکمیل کے بعد حج پر جائیں گے اور پھر واپس آکر اکٹھے ایک ہی جامعہ سے پی ایچ ڈی کر یں گے …مگر موت نے انھیں مہلت نہ دی۔ مگر گھرکی تکمیل سے پہلے دو جنوری۲۰۱۴ء مطابق یکم ربیع الاوّل ۱۴۳۵ھ بروز جمعرات اپنے حقیقی گھر منتقل ہوگئے۔
شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا
اک روشن دماغ تھا نہ رہا
٭٭٭٭