مہرِ حرا از: محمد آصف قادری
مبصر: پروفیسر ڈاکٹر ریاض مجید


نعتِ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا زیر نظر مجموعہ''مہر حرا'' واہ کینٹ کے نعت گو شاعر محمد آصف قادری کا ہے۔ واہ کینٹ کی نعتیہ محفلیں برادرم سید منظور الکونین اقدس کے لب و لہجہ سے نعت کا گلزار بنی ہوئی ہیں۔ نعت کے حوالے سے ان کی خدمات چھ دہائیوں سے زائد عرصے کو محیط ہیں۔ اس عرصے میں انھوں نے نہ صرف سامعین نعت کے دلوں کو گرمایا بلکہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ معروف صوفی شخصیت مارٹن لنگز (ابوبکر سراج الدین) نے تصوف کیا ہے؟ (What is Sufism?) میں بعض فیض رساں لوگوں کو ''شجر الاشجار'' سے تشبیہ دی ہے۔ سید منظور الکونین اقدس بھی ایسے لوگوں کی مثال ہیں جن کا سایۂ اثر ارد گرد کے لوگوں، بستیوں اور آبادیوں پر ہوتا ہے۔ لہٰذا واہ کی نعت کا ذکر کرتے ہی سید منظور الکونین اقدس کی خدمات پر توجہ کا جانا فطری امر اور احترام و ادب کا تقاضا ہے۔ محمد آصف قادری بھی انہی کے شاگردوں میں سے ہیں۔ خدا انھیں صحت و تندرستی سے خدمات نعت کی مزید توفیقات سے نوازے۔ آمین۔
محمد آصف قادری کی نعت کا نمایاں وصف ان کی سادہ بیانی ہے۔ ان کی نعت کی جملہ صفات کا سبب ان کی نعت گوئی کا یہی محوری وصف ہے۔ اس کی وجہ ان کی خوش لحنی بھی ہے۔ جس نے ان کے الفاظ، بحورِ نعتیہ، زمینوں اور بحیثیت مجموعی ان کے ماحول نعت میں شیرینی اور غنا کے عناصر کو ملحوظ رکھا ہوا ہے۔ ان کے ہاں سلاست ، اخلاص اور تاثیر کے دھارے اسی سادہ بیانی کی عطا ہیں۔ تراکیب اور شعری زمینوں کی تلاش و جستجو میں انھیں کسی تکلیف کے تجربے سے گزرنا نہیں پڑتا۔ بے ساختگی ان کی سادگی کی ہم رکاب ہے۔ ''از دل خیز بردل ریزد'' والی کیفیات اسی بے ساختگی اور فطری سادگی کی پیدا کردہ ہیں۔ علامہ اقبال نے ''والدہ مرحومہ کی یاد میں'' نظم لکھتے ہوئے ایک شعر کہا ہے:
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
الفتِ مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم
یہ ایک حقیقت ہے ایسی محبت میں عقل و دانائی ، دنیا کے مال و منال اور رتبہ و شہرت کی کیا حیثیت؟ آدمی اپنے آپ کو جتنا حقیر، بے مرتبہ اور سادہ و عاجز سمجھے اتنا ہی اس کے لیے بہتر ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی بار گاہ جہاں نواز میں جاتے ہوئے آدمی ''الفتِ مادر'' والے جذبے کو اور ہزار گنا گہرا اور شدید کر لے۔ اسی میں اس کی عظمت اور بہتری ہے اس کی عقیدت کی اصلاح اور اس کے فن کی فلاح کے سبھی راستے اس کے ''طفل سادہ'' رہ جانے ہی میں ہیں۔ نعت نگاری میں جس نے جو کچھ پایا اسی عاجزی اور سادگی کے سبب پایا۔ بڑے بڑے نامور فارسی اور اردو شاعروں کی قادر الکلامی کے اظہار کے نمائندہ، فنی صنعتوں سے مرصع ، تراکیب و تشبیہات کی ناد رکاری پر مشتمل نعتیہ قصیدوں کا مطالعہ کیجئے تشبیب کی مہارتِ سخن، پایان قصیدہ میں دعا و التجا کے مقام پر پہنچتے پہنچتے سلاست فن بن جاتی ہے۔ اس کی بھی اگلی ساعت خموشی اور گریہ ہے۔ خوش قسمت ہے وہ نعت گو جس کا فن ان اخلاص زاد اور تاثیر نژاد کیفیات تک پہنچ جائے۔ بقول خورشید رضوی:
شان ان کی سوچئے اور سوچ میں کھو جائیے
نعت کا دل میں خیال آئے تو چپ ہو جائیے
''مہرحرا'' میں غزل کی ہیئت میں نعتیہ کلام کے علاوہ قطعات کی صورت میں بھی نعت کا نمایاں اثاثہ موجود ہے۔ اسی طرح اس کتاب میں منقبت کے بھی خوبصورت نمونے موجود ہیں۔ بحیثیت مجموعی یہ ''نعتیہ مجموعہ'' آج کے نعتیہ منظر نامے میں ایک منفرد اضافہ ہے۔ جس کا ظہور واہ کینٹ کی سر زمین سے ہو رہا ہے۔ جس کو برادرم سید منظور الکونین جیسے نعت کاروں کی سکونت کا شرف حاصل ہے اور جوار دوکی دنیائے نعت میں اپنی خوش الحانی کے سبب ایک معتبر مقام رکھتے ہیں۔
عصر حاضر میں اردو نے پوری شاعری کے اندر جو مقام و مرتبہ حاصل کیا ہے۔ اس میں بڑے شاعروں کے علاوہ چھوٹے شہروں کے ایسے باکمال نعت گو بھی سامنے آئے ہیں جنھوں نے اپنے لب و لہجہ، لحن اور تخلیق کی کارکردگی سے نعت کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ آج کے منظر نامے میں علاقائی مطالعات کے حوالے سے ''واہ'' کو ایک انفرادیت حاصل ہے۔ جناب سید منظور الکونین اقد س اور ان کے دوسرے رفقائے کار کی مساعی جمیلہ سے اردو نعت کو جو فروغ واہ میں حاصل ہوا ہے اس میں پرانے نالوں کے ساتھ ساتھ کئی نئے نام بھی ہمارے سامنے آتے ہیں۔ قادری صاحب ایک ایسے ہی ابھرتے ہوئے نعت کار ہیں جنھوں نے اپنی آواز کے ساتھ اور اپنی مساعی کے ساتھ اردو نعت کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔
ان کی نعت دراصل ایک روحانی سفر کی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ جس میں مدینے کی تمنا، وہاں جاکررہنے کی خواہش، وہاں کی برکات سے پوری طرح فیضیاب ہونے کے ارمان اور پھر مدینہ کی دوری میں پیدا ہونے والے وہ حزینہ جذبات جو ہراس شخص کی آنکھوں میں آنسو بن کے چمکتے ہیں جو مدینہ شریف سے محبت کرتا ہے اور وہاں جا کر رہنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ ان کی نعت کے اندر نعت کی شائستگی کو محلوظ رکھا گیا ہے، اس بات کی اس لیے بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ بعض لوگ عقیدت کے اظہار میں عقیدے کی بھی حدوں کو پار کر جاتے ہیں لیکن قادری صاحب کی نعت کے اندر ایک ایسا سنبھلا ہوا انداز ہے جس میں انھوں نے عقیدے کے پورے احترام کے ساتھ اپنے نعتیہ جذبات کو نعت کے اندر پیش کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا پہلا مجموعہ نعت ہے جیسے جیسے وہ مزید نعت کی طرف مزید محنت کریں گے اور زیادہ نعتیں لکھیں گے آنے والے مجموعے ان کی بہتر نمائندگی کا فریضہ سر انجام دیں گے۔ میں نعت کے حوالے سے ان کی کوششوں کو احترام کی نظر سے دیکھتا ہوں اور انھیں مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے ایک مجلسی اندازمیں نعت کو جس سادگی کے ساتھ عقیدت کے جذبے کو ملحوظ رکھتے ہوئے پیش کیا ہے اس سے نہ صرف واہ کینٹ کی نعت کو فروغ ملا ہے بلکہ اس کے اثرات واہ سے باہر کے شہروں کی نعت کو بھی تقویت دے رہے ہیں۔
عرضِ حب و وِلا مبارک تجھ کو
یہ جذب عقیدت و ثنا مبارک تجھ کو
مقبول ہو بار گاہ آنحضرت میں
آصف مہرِ حرا مبارک تجھ کو
ناشر: زمیل ہائوس آف پبلیکیشنز، اقبال مارکیٹ کمیٹی چوک ، راولپنڈی
……O……