غزلیات
غزل
دیوارِ شب صحیفۂ رنج و ملال ہے
وہ حبس ہے کہ سانس بھی لینا محال ہے

کاندھے پہ گمرہی کی صلیبیں لیے ہوئے
ہر فکر آج ایک مجسم سوال ہے

دہلیزِ جاں ہے منتظرِ ذوقِ آگہی
بے سمت سوچ نوحہِ صبحِ وصال ہے

شامِ الم وہ درد کی دلداریاں نہ پُوچھ
یوں ہے کہ آرزو بھی تری اب محال ہے

وہ شور ہے کہ دِل کی صدا بے اثر ہوئی
اب کے عجیب سِلسلۂ ماہ و سال ہے

تازہ بلندیوں پہ نظر کیا کریں کہ اب
اپنے مقام پر کھڑے رہنا محال ہے
۔۔۔ فاروق احمد
غزل
کہاں کی منزلِ جاناں، کہاں کی راہبری
سِتم کی دھوپ میں کجلا گئی ہے دیدہ وری

دِل شکستہ کو اب حاجتِ رفو بھی نہیں
بہت اُجڑ چکیں راتیں بنامِ بخیہ گری

وہی ہے حلقۂ یاراں، وہی ہے درد کا رنگ
کہ مدّتوں سے ہے معتوب رسم تیشہ گری

چلے گئے ہو جو ٹھکرا کے تو گِلہ کیسا
کہ راس آتی نہیں ہر کسی کو دربدری

کبھی تو صبحِ درخشاں کی بھی بشارت دے
بہت اُداس ہے دِل، اے ستارہ سحری
۔۔۔ فاروق احمد
غزل
اس کا یہ حکم زباں کاٹ کے رکھ دی جائے
میرا اصرار، مری بات تو سن لی جائے

پیر کہتاہے یہ آسیب نہیں جائے گا
میں یہ کہتا ہوں کہ ترکیب توسوچی جائے

آؤ خیمے کا دیا پھر سے جلا کر بیٹھیں
بات چاہے نہ کریں رات تو کاٹی جائے

میرا راوی مرا دشمن ہی نہیں، جھوٹا ہے
میری تاریخ مرے سامنے لکھ دی جائے

آگ سے راستہ رکتا نہیں دریاؤں کا
شاخ پھلنے سے کسی طور نہ روکی جائے

میں چراغوں کو سر شام بجھا دیتا ہوں
میری عادت ، مرے حالات سے سمجھی جائے
۔۔۔ سحر صدیقی
غزل
رات میں چاند سے باتیں کرنا ہولے ہولے
آنکھ کے رستے دل میں اُترنا ہولے ہولے

تتلی پھول ہوا اور خوشبو، رات اور جگنو
جُھوم کے ساز بجائے جھرنا ہولے ہولے

دھڑکن دھڑکن رقص کیا ہے، عکس لیا ہے
البم یاد کی دیکھ سنورنا ہولے ہولے

موسم پھر تبدیل ہُوا ہے، تیز ہوا ہے
گلی سے اُس کی آج گزرنا ہولے ہولے

تم نے سچ میں جھوٹ مِلایا ، پھر الجھایا
اپنی بات سے آپ مُکرنا ہولے ہولے

مٹی میں جب زور بہت ہے، شور بہت ہے
پریم کے باغ میں جا کے بکھرنا ہولے ہولے

دشت سے جب سورج گزرا تھا، منظر دیکھا
خون کے رنگ شفق میں بھرنا ہولے ہولے
۔۔۔ منظر نقوی
غزل
بیاضِ دل پہ لکھے جو قلم، لکھا جائے
بخطِّ رقص ، طوافِ حرم لکھا جائے

اتر رہی ہیں زمانوں کی وسعتیں دل میں
ازل سے سر ہے کسی در پہ خم لکھا جائے

ہماری شام بھی ہو روکشِ سحر ، اے دل !
ہمارے جام کو بھی جامِ جم لکھا جائے

عجم میں رنگِ عرب گوندھیے ذرا اور پھر
بساطِ ریگِ عرب پر عجم لکھا جائے

کشید کیجیے مٹّی سے اعتبارِ نمو
اور آگہی کے تسلسل کا غم لکھا جائے

چراغ سینچتے لمحوں کی رایگانی پر
ہوائے شامِ تمنّا کو سم لکھا جائے

لہو میں ناچتی وحشت کی اک گواہی پر
غزالِ شب کے مقدّر میں رم لکھا جائے

ہمارے ہونے نہ ہونے کے سلسلے ہیں عجب
وجود، یعنی عدم کو عدم لکھا جائے

صدائے کن فیکوں کے ہر ایک لہریے پر
عطاؔ حدوث میں ڈھلتا قِدم لکھا جائے
۔۔۔ عطاء الرحمن قاضی
غزل
حرمِ وہم سے آگے، درِ ادراک سے دور
ایک دنیا ہو مگر خیمۂ افلاک سے دور

کون رکھتا ہے ستاروں کی تمنّا مجھ میں
کون کرتا ہے مرا جذبِ دروں خاک سے دور

نقش ابھرا نہ کوئی مجھ میں بقا کا اب تک
کوزہ گر دیکھ!نہ کر مجھ کو ابھی چاک سے دور
دل جسے بھول گیا عالم نادانی میں !!!
عکس اس کا نہ ہوا دیدۂ نم ناک سے دور

قریۂ ہجر میں اب آگ لیے پھرتا ہے
وہ جو رہتا تھا بہت عشق کے پیچاک سے دور
۔۔۔ ارشد محمود ناشاد
غزل
طَلب غیر میں جو خود کو بھلائے ہوئے ہیں
جانے کس خاک سے وہ لوگ اٹھائے ہوئے ہیں

اب رہائی تجھے ہم سے نہیں ملنے والی !
زندگی تو نے بہت زخم لگائے ہوئے ہیں

بندشِ ضبط ذرا دیر کی مہلت دے دے
اشک اب آنکھ کی دہلیز تک آئے ہوئے ہیں

جن کے ذروں کو بھی سورج کا سلام آتا ہے
ہم انھی راہ گزاروں کے ستائے ہوئے ہیں

ان پہ اب رنج سفر کھینچنا ہوگا تم کو !
یہ تو وہ رستے ہیں جو تیرے دکھائے ہوئے ہیں

ہوسِ راحت و عشرت نہیں کھینچی ہم نے
ہاں ترا درد کہ سینے سے لگائے ہوئے ہیں
۔۔۔ ارشد محمود ناشاد
غزل
وہ لوگ جو کہانیوں میں گم ہوئے
انھیں ملے تو کیوں اُداس تم ہوئے

تمام چیزیں دوسروں کے پاس ہیں
تو کیا ہوا، ہمارے پاس تم ہوئے

وہ حسن تھا، گھڑی رُکی بھی، چل پڑی
وہیں کہیں، مرے حواس گُم ہوئے

یہ جان لو، کہ تم سے پہلے، تم سے بعد
کوئی نہیں تھا، جتنے خاص تم ہوئے

جو ٹھیک ٹھاک جا رہے تھے کاروبار
اسی گلی کے آس پاس گُم ہوئے

خزانوں سے تمہارے ہاتھ خالی ہیں
اسی لیے تو محوِ یاس تم ہوئے

ڈرا ڈرا میں زندگی تک آ گیا
تمام خوف اور ہراس گُم ہوئے
۔۔۔ ادریس بابر
ریلی
یہ جان کر کہ سب غریب لوگ ہیں
ستانے آ گئے، عجیب لوگ ہیں
بتا جتا کے ہم تو اُن کو تھک گئے
دل و دماغ نعرے سن کے پک گئے
وہی پرانے پاپی، ان کا پند ہے

یہی جو ام ری کا اس را ایل ہے
یہ ایک گدھ ہے، تو دوسرا یہ چیل ہے
اور اِن ڈیا؟ تو وہ ہمارا اصلی، نسلی
عدو ہے، کر دیں ایک اس کی ہڈی، پسلی !
لہو کے حق میں زہر، ان کا قند ہے

جنونی جلسہ گاہ میں بھرے دھرے
زیادہ تر جوان و طفل، بے گھرے
وہ کام پر نہ یہ سکول جائیں گے
سو تالیاں بجا کے بھول جائیں گے
کہ ان کے چاروں سمت کتنا گند ہے

چلو، لڑیں مریں!گرج برستے ہیں
خدا کے بندے ان کو کتنے سستے ہیں
ادارے،مہنگے لاڈلے، جو سو رہے ہیں
وجود کا جواز تھا جو کھو رہے ہیں
’’
صراط مستقیم‘‘ روڈ بند ہے
۔۔۔ادریس بابر
غزل
آنکھ سے خواب لے گیا اور وہ اشک بھر گیا
عشق تھا یا خمار تھا وقت کے ساتھ اتر گیا
خوشبو کو تازگی ملی، رنگوں کو روشنی ملی
آئی بہار تو ہر ایک پھول سنور سنور گیا

شام ہوئی تو اس کی یاد روح میں جلوہ گر ہوئی
ہم ہوئے در بدر تو کیا کوئی تو اپنے گھر گیا

کِشتِ سراب کھِل گئی، منزلِ خواب مل گئی
میں نہ پہنچ سکا وہاں پر مرا ہم سفر گیا

تیری صدا کا جوش ہے، عرش اُدھر خموش ہے
دیکھ لے اے دریدہ دل تیرا بھی اب اثر گیا

کاسۂ زہر اس کے ہاتھ، شہر کا شہر اس کے ساتھ
جان عزیز تھی بہت ملنے اسے مگر گیا

دار پہ سر بلند ہوں، شاعرِ دل پسند ہوں
لے کے عروج پر مجھے ساتھ مرا ہنر گیا

شوقِ سوال کی قسم، رنگِ جمال کی قسم
تیرے جلال کی قسم میں وہ نہیں جو ڈر گیا

تیرا مرا ہے ربطِ خاص، بس میں نہیں مرے حواس
تُو نے کہا تو جی اٹھا، تو نے کہا تو مر گیا
۔۔۔ علی یاسر
غزل
عہدِ صد مصلحت اندیش نبھانا پڑے گا
مسکرانے کے لیے غم کو بھلانا پڑے گا

جانتے ہیں کہ اجڑ جائیں گے ہم اندر سے
مانتے ہیں کہ تمہیں شہر سے جانا پڑے گا

آمدِ فصلِ بہاراں پہ کوئی جشن تو ہو
دوستو دل پہ کوئی زخم کھلانا پڑے گا

چشمِ بددور! یہی اک مرا سرمایہ ہے
تیری یادوں کو زمانے سے چھپانا پڑے گا

تمہیں جانا ہے، چلے جاؤ مگر شرط یہ ہے
کہ بلاناغہ تمہیں خواب میں آنا پڑے گا
خود کو پہچان نہیں پائیں گے چہروں والے
انہیں آئینۂ اوقات دکھانا پڑے گا

نظر انداز بھی کرسکتے ہو اخلاص مرا
یہ کوئی قرض نہیں ہے جو چُکانا پڑے گا

شاعری ہو تو نہیں سکتی ترا متبادل
کیا کریں دل تو کہیں اور لگانا پڑے گا

تھک نہ جائے وہ کہیں ہم پہ ستم کرتے ہوئے
یاسرؔ اس کا بھی ہمیں ہاتھ بٹانا پڑے گا
۔۔۔ علی یاسر
غزل

خواب میں ان سے ملاقات ہوئی، بات ہوئی
روشن و شوخ و حسیں رات ہوئی، بات ہوئی

مل کے آتا ہوں جب ان سے تو سبھی پوچھتے ہیں
کیا ہوا کچھ تو کہو بات ہوئی؟ بات ہوئی؟

ان کا اندازِ ستم پہلے تو ایسا نہیں تھا
جتنی بھی تلخیِ حالات ہوئی، بات ہوئی

آہ پر آہ کھنچی، سانس رکی، نبض تھمی
اشک بہتے رہے برسات ہوئی، بات ہوئی

دَہنِ کانِ گہر بار نے برسائے گہر
دامنِ گوش کو خیرات ہوئی، بات ہوئی

ضبط کی سِل کو مری یاد نے سرکا ہی دیا
ان کے دل سے جو انھیں مات ہوئی، بات ہوئی

خامشی رشکِ خزاں پھول تھے برباد سبھی
رنگ و خوشبو انھیں سوغات ہوئی، بات ہوئی

دونوں آوازیں ملیں اک نئی آواز بنی
آج تو جیسے کرامات ہوئی، بات ہوئی
۔۔۔ علی یاسر
نظم
چہار سمت آسمان قامتیں
شکوہ جھاڑتی نگاہ روندتی
زمیں پہ بار ڈالتی
نحوستوں کی ہمر ہی میں پائے جبر گاڑتی ہوئیں
فقط ستون ہیں
ہزارہا نہیں، وہ اَن گنت ستون
سنگ و سیسہ کے خمیر سے اُٹھے ہوئے
بغیر بام و در
نہ اِن کو بارِ سقف سے نیاز ہے
نہ ڈاٹ کی خمیدگی سے آشنا

گداز گردنیں اُٹھائے،
ریشمی پروں کو پھڑپھڑاتے
نیلگوں فلک کے راستوں کے
رہگزار، نازنیں،
صبا رفیق پنچھیوں کو ٹھوکریں
ستونوں کی بلند قامتیں

غریب و سرد، خشک تر
سیاہ لاشیں برف کے نصیب
خاک پر لعین صورتیں
پناہ مانگتا ہوں مالکِ زمین و آسماں
پناہ میرے قلب کے رفیق
میری روح کے امین
سرد لاشوں کے حصار سے نکال
۔۔۔ علی اکبر ناطق
نظم
یہ زر دپتے جو موسموں کاحصار ہوں گے
گریں تو سارے حصار ٹوٹیں
یہ زر دپتے گریں جہاں پر
تو زندگی کی پھوار برسے
خنک ہواؤں کے اک سفر میں
یہ چلتے چلتے وہیں رُکے تھے
جہاں پہ مانوس رتجگے تھے،
مہکتے پھولوں کے لب سلے تھے
یہ زرد پتے یہیں گرے تھے
محبتوں کے سفر میں اک دن وفاؤں کی اک کرن جوپھوٹی
شفق کی اجلی شفیق وادی سے شبنمی کی صبح جاگ اُٹھی
تو نفرتوں کی سیاہ مٹی میں گُل کھِلے تھے
یہ زرد پتے یہیں گرے تھے
اُٹھے ہوئے ہیں جو ہاتھ میرے چلو کہ اب ہم دُعا کریں سب
کہ زرد پتے ہماری تربت پہ آ گریں
۔۔۔ سعید ساعی
غزل
نظارگئ شوق نے دیدار میں کھینچا
پھر میں نے اسے اپنے ہوس زار میں کھینچا

کھلتی نظر آتی ہے قبائے کل مقصد
احساسِ طلب نے جو اسے خار میں کھینچا

ہے دیدنی گل کارئ احساس و تخیل
کیا عارضِ گل کو لبِ اظہار میں کھینچا

تصویر سی اک بن گئی کیا جانیے کس کی
قطروں نے نم اپنا مری دیوار میں کھینچا

تاحدِ نظر کھلتی گئی زلفِ دو عالم
احساس یہ کس کا دلِ بیدار میں کھینچا
۔۔۔سید تالیف حیدر