راہوں کے ساتھی
یشار کمال
ترقی سے ترجمہ: کرنل  ) ر ( مسعود شیخ
اس نے گھوڑوں کی باگیں یکّے کے بم سے باندھیں اور شلوار کا گھیرا اپنے آگے پھیلا کر جیب کی ساری نقدی اس پر ڈھیر کر دی۔ گھوڑوں کی گردنیں لٹکی ہوئی تھیں اور وہ آہستہ آہستہ اونگھتے اونگھتے سڑک کی دھول میں پاؤں گھسیٹتے آگے بڑھ رہے تھے۔ گھوڑے، یکہ اور کوچوان سبھی گرد سے اٹے پڑے تھے۔ گرد کی وجہ سے گھوڑوں کا اصلی رنگ دکھائی دے رہا تھا نہ یکے کا۔ کوچوان کے گرد آلود وجود میں صرف اس کی آنکھیں اور دانت ہی تھے جو چمکتے نظر آ رہے تھے۔
’’
چھ بوریاں‘‘ کوچوان نے اپنے آپ سے کہا۔ ’’چھ بوریاں دو لیرے کے حساب سے کل کتنے لیرے بنے؟ بارہ لیرے۔ ‘‘
پھر اس نے شلوار کے گھیر پر بکھرے پیسوں کو بار بار گنا۔
’’
پورے نو لیرے ۔ باقی تین لیرے کیا ہوئے؟ ‘‘
ذرا سوچ کر بولا۔ ’’شربت، برف، روٹی۔ لیکن اتنی رقم تو نہیں بنتی۔ ‘‘
پھر جھلا کر بولا’’چلو نہیں بنتی تو نہ بنے۔ ‘‘
اس نے پیسے سمیٹ کر دوبارہ جیب میں ڈالے۔ ایک کاغذ میں آہستہ آہستہ تمبالَو لپیٹ کر سگریٹ بنایا۔ ماچس پر نگاہ ڈالے بغیر دیا سلائی جلائی اور بے اعتنائی سے ہونٹوں میں لرزتا سگریٹ سلگا کر لمبا کش لیا۔ اس کے چہرے سے جی بھر کر بیزاری ٹپک رہی تھی۔
سڑک کے کنارے کنارے کپاس کے پودوں کو بھی گرد نے ڈھانپ رکھا تھا۔ پوری فصل مرجھائی مرجھائی سی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں کہا ۔ ’’بارش ہو جائے تو کتنا اچھا ہو۔ بیچارے پودوں کی گردنیں بھی جھک گئی ہیں۔ ‘‘
اب سڑک کے دونوں طرف ایسے کھیت تھے جن میں سے فصل کاٹی جا چکی تھی۔ فصل کے ٹھنٹھ گرد میں ڈوبے ہوئے تھے۔ دھوپ کی تیزی کے باوجود ان کی چمک پھیکی پھیکی سی تھی۔ سڑک کی دائیں جانب سورج مکھی کا ایک کھیت تھا۔ یکہ اس کھیت کے قریب پہنچا۔ سورج مکھی کے تمام پھول سورج کی طرف منہ پھیرے کھڑے تھے۔ سورج خاصہ خشمگیں تھا۔ ہوا نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ بہت آہستہ چلنے کے باوجود گرمی کی شدت نے گھوڑوں کو پسینے میں نہلا دیا تھا۔
سورج مکھی کے کھیتوں کے آگے والی زمین میں مکئی بیجی ہوئی تھی۔ گہرے سبز رنگ کے بُھٹوں میں سے سنہرے اور سرخ رنگ کے پھندنے لٹک رہے تھے۔ دھوپ کی تیزی میں تازہ کٹے ہوئے گھاس کی بساندرچی ہوئی تھی جو کسی دلدل کی یاددلاتی تھی۔ گھوڑے گردنیں بڑھا بڑھا کر سڑک کے ساتھ ساتھ کھڑی مکئی کی فصل پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔ وہ بھول چکے تھے کہ یکے میں جُتے ہوئے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے رکتے اور پھر خود بخود آگے بڑھ جاتے۔ کوچوان کبھی کبھی باگیں کھینچ کر ’’چلو بچو چلو، کی آواز لگا دیتا۔ دوپہر ہوئی تو دھوپ کی تیزی مزید شدت پکر گئی۔ گھوڑوں کی طرح کوچوان بھی پسینے میں نہانے لگا۔ پسینے کے قطروں نے اس کے گرد بھرے چہرے پر راستے تراشے اور پھر نیچے کو سرکنا شروع ہو گئے۔ یکدم یکہ رک گیا۔ کوچوان نے ’’چلو بچو چلو‘‘ کی صدا لگائی اور پھر سر ہلاکر سڑک پر نظر دوڑائی۔
ایک عورت آنکھیں ڈھانپے سڑک کے بیچوں بیچ چلی جا رہی تھی۔ کوچوان کی آواز سن کر سڑک کے کنارے ہو گئی۔ یکہ پھر چل پڑا۔ عورت ننگے پاؤں تھی۔ سڑک کی مٹی بھٹی کی ریت کی طرح گرم تھی۔ عورت کی چال اس کے جلتے پاؤں کی نشاندہی کر رہی تھی۔
کوچوان نے سڑک کے کنارے چلتی عورت کو اشارہ کیا۔ عورت قریب آئی اور پیچھے سے یکے پر سوار ہو گئی۔ کوچوان کے پیچھے کمر کر کے جا بیٹھی۔ کوچوان نے ’’چلو بچو چلو‘‘ کی ایک اور آواز لگائی مگر گھوڑوں نے کوئی توجہ نہ دی۔ پہلے کی طرح مردہ چال چلتے رہے۔
سڑک کے قریب ایک کھیت میں شہتوت کا اکلوتا پیڑ نظر آ رہا تھا۔ گھوڑے خود بخود سڑک چھوڑ کر اس کے سائے میں جا کھڑے ہوئے۔ شہتوت کا درخت بھی اوپر سے نیچے تک مٹی سے لدا ہوا تھا۔ چلچلاتی دھوپ میں اس کا سایہ کچھ زیادہ ہی گہرا دکھائی دے رہا تھا۔ اتنا گہرا کہ انسان کو اندھیرے کا گمان ہونے لگے۔ کوچوان یکے کے ایک طرف سے پھٹے سے کمر لگائے بیٹھا تھا۔ گھوڑے رکے تو وہ بھی سیدھا ہوا بیٹھا۔ اس نے پہلی بار عورت پر اچٹتی نگاہ ڈالی۔ عورت کے جسم کاکوئی بھی حصہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے اپنے آ پ کو یوں ڈھانپ رکھا تھا کہ آنکھیں تک دکھائی نہیں دیتی تھیں۔
کوچوان نے یکے کے دراز سے ایک پوٹلی نکالی۔ پوٹلی میں حلوہ تھا۔ میدے کی ایک ڈبل روٹی بھی تھی۔ اس نے ’’آؤ جی‘‘ کہہ کر عورت کو دعوت دی۔
عورت نے سر ہلا کر ’’نہ‘‘ کا اشارہ کیا۔ کوچوان نے آہستہ آہستہ سارا حلوہ اور ڈبل روٹی ختم کر دی۔ پھر اس نے دراز سے ایک بھورے رنگ کا لفافہ نکالا۔ لفافہ کھولا تو کچلے ہوئے آڑوؤں پر نظر پڑی۔ اس نے وہ آڑو اٹھائے جو ذرا اچھی حالت میں تھے۔ اور اس کی طرف کمر کر کے یکے میں بیٹھی عورت کے آگے رکھ دیئے۔ عورت نے کچھ کہے بغیر آڑو لے لیے۔ ایک ہاتھ سے چہرے کی چادر تھامی اور دوسرے ہاتھ سے آڑو کھانے لگی۔ کوچوان نے کچلے مسلے تمام آڑو چٹ کرنے کے بعد آنکھیں موند لیں۔ کمر کو پھریکے کے پھٹے کا سہارا دیا اور وہیں ڈھیر ہو گیا۔ جب آنکھ کھلی تو شہتوت کے پیڑکا سایہ مشرق کو سرک چکا تھا۔ گھوڑوں پر دھوپ آ چکی تھی۔
’’
چلو ۔۔۔۔۔۔بچو۔‘‘ اس نے لمبی سی صدا لگائی۔ یکہ آہستہ آہستہ روانہ ہوا۔ اس دوران میں کوچوان پیچھے نظر ڈالنے سے رہ نہ سکا۔ عورت اسی طرح بے حس و حرکت بیٹھی دکھائی دی۔ اس کی کمر اب بھی کوچوان کی طرف تھی۔
یکّہ سڑک پر آیا تو کوچوان نے پہلی بار گھوڑوں پر چابک چلائی۔ ’’چلو بچو چلو‘‘۔ یکہ معمولی سا تیز ہوا۔ پیچھے تھوڑی دھول چھوڑی۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد پھر پرانی رفتار پر آ گیا۔
کوچوان نے پھر اپنی گرد آلودہ شلوار کا گھیر آگے پھیلایا، جیب سے پیسے نکال کر اس پر ڈھیر کیے اور پھر گننا شروع کر دیا۔ گہری خاموشی میں پیسوں کی جھنکار کچھ زیادہ ہی گونج رہی تھی۔
اس نے پیسے گن کر پھر جیب میں بھرلیے۔ گھوڑوں کو ہلکی سی چابک لگائی، پھر پیچھے بیٹھی ہوئی عورت سے یوں مخاطب ہوا :
’’
باجی کہاں سے آ رہی ہو؟ کدھر جانا ہے؟ ‘‘
عورت نے ہلکی سی آواز میں جواب دیا: ’’قصبے سے۔ ‘‘
دور دور تک کھیت ہی کھیت نظر آ رہے تھے۔ بعض کھیتوں میں ہل چلایا جا چکا تھا، بعض بالکل ہرے بھرے، بعض سنہرے اور اکثر گرد سے اٹے پڑے تھے۔ کھیتوں کو سفید فیتے کی طرح کاٹتی سڑک پر گھٹنے گھٹنے مٹی کا دریا بہہ رہا تھا۔ یکہ مردہ چال سے آگے بڑھ رہا تھا۔ سورج اب خاصہ ڈھل چکا تھا۔
’’
اور کس گاؤں جا رہی ہو؟ ‘‘
’’
سکھو چک۔ ‘‘
’’
میرا گاؤں حمید یہ ہے۔ ‘‘
’’
تمہارا گاؤں ہمارے گاؤں سے دو گاؤں اس طرف ہے ناِ؟ ‘‘
’’
ہاں دو گاؤں ادھر۔ ‘‘
پھر خاموشی چھا گئی۔ کچھ دیر بعد کوچوان نے پھر پوچھا :
’’
قصبہ میں کیا کام تھا؟ ‘‘
عورت خاموش رہی۔ کوئی جواب نہ دیا۔ کوچوان کو حیرت سی ہوئی۔ اس نے دوبارہ پوچھا :
’’
کیا کام تھا قصبہ میں؟ ‘‘
عورت نے پھر کوئی جواب نہ دیا کوچوان کا تجسس اور بڑھا۔ تھوڑی دیر غصے سے خاموش رہا۔ لیکن پھر اپنے تجسس پر قابو نہ پا سکا۔
’’
باجی کیا بات تھی؟ کوئی راز دارانہ معاملہ تھا کیا؟ ‘‘
آخر عورت نے جواب دیا :
’’
نہیں میرے بھائی، ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ ‘‘
ناٹے قد کا دبلا پتلا کوچوان بجلی کی طرح تیز تھا۔ اس کی پتلی سی گردن کی رگیں ابھر کر باہر نکل رہی تھیں۔ موٹی موٹی بھنوؤں کا رنگ کالا سیاہ تھا۔ اس نے سیاہ رنگ کی شلوار اور پیلے رنگ کی صدری پہن رکھی تھی۔ سر پر نئی ٹوپی تھی جو دائیں جانب سر کی ہوئی تھی۔
عورت نے بات جاری رکھی: ’’اللہ اسے اندھا کرے، اس نے مجھے طلاق دے دی تھی نا۔ میں حکومت سے اپنے کاغذ لینے گئی تھی۔ لے آئی ہوں۔ ‘‘
’’
اچھا تو یہ بات تھی۔ ‘‘
دور بحیرہ روم کے اوپر دودھ کی طرح سفید بادل بادبانوں کی شکل میں آسمان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ مغرب سے ہلکی سی ہوا چلی اور معمولی دھول اڑا کر غائب ہو گئی۔ کوچوان نے سلسلہ کلام جاری رکھا :
’’
تم تو اس گرمی میں مرگئی ہو گی۔ یہ چہرے کی چادر ہٹا کیوں نہیں دیتی؟وہاں کون ہے جو دیکھے گا تمہیں؟ اس اجاڑ بیابان علاقے میں کون بیٹھا ہے؟ چلواتاروا سے۔ ‘‘
عورت نے چہرے سے چادر ہٹا دی۔ پہلو بدل کر منہ چوان کی طرف کر لیا۔ موٹی سیاہ آنکھیں، آگ کی طرح دہکتا لال سرخ چہرہ، موٹے موٹے ہونٹ، چوڑے چہرے کے مقابلے میں پتلی اور نوکدار ٹھوڑی، مختصر یہ کہ خاصی خوبصورت عورت تھی۔ اس کی کلائیاں موٹی اور کولہے بھرے بھرے سے تھے۔ لمبی گردن پر مٹی کی تہہ اور اس پر موتیوں کی طرح پسینے کے قطرے جمع تھے۔
کوچوان پیچھے مڑ مڑ کر عورت کو دیکھتا اور پھر منہ آگے کر کے آنکھیں بند کر لیتا۔ ’’چلو بچو چلو‘‘۔ اس بار جو وہ پیچھے مڑا تو عورت کو دیر تک گھورتا رہا۔ عورت نے اس کی چبھتی نظروں سے شرما کر آنکھیں جھکالیں۔ کوچوان نے پوچھا :
’’
باجی، تمہارا نام کیا ہے؟ ‘‘
’’
آمنہ۔ ‘‘
’’
آمنہ یہ تمہارا خاوند جو تھا نا، بیوقوف تھا۔ ‘‘
’’
واقعی بیوقوفوں کا بیوقوف تھا۔ خدا اندھا کرے اسے۔ ‘‘
اب پچھوا تیز ہو چکی تھی۔ سڑک پر جتنی مٹی تھی ساری کی ساری اڑ کر ہوامیں مل رہی تھی۔ گھوڑے، یکہ، ہر شَے مٹی میں چھپ گئی تھی۔
کالی ندی پہنچ کر کوچوان نے باگیں کھینچیں۔ گھوڑے خود بخود رک گئے۔ ندی کے پل کے دوسری طرف سڑک کے دونوں جانب سرکنڈوں کے گھنے جھنڈ تھے۔ سڑک ان سرکنڈوں کے بیچ میں سے گزر کر کالا گاؤں کوجاتی ہے لیکن یہاں پر آمدورفت اتنی کم تھی کہ مٹی کے ڈھیروں نے سڑک کو چھپا لیا تھا۔ بعض جگہوں پر تو سڑک کے عین بیچ میں چھوٹے چھوٹے سرکنڈے اگ آئے تھے۔ کوچوان نے اس سڑک پر چلنے کے لیے گھوڑوں کو چابک لگائی۔ گھوڑوں نے اگلے پاؤں ہوا میں اٹھائے اور سرکنڈوں کے بیچ میں جا گھسے۔ یکہ ڈولنے لگا۔ عورت پیچھے کو یوں پھسلی جیسے ابھی گری کہ گری۔ یکہ سرکنڈوں کے ایک بڑے سے جھنڈ میں جا پھنسا اور پھر آگے نہ جا سکا ۔ اس کے چاروں طرف سرکندوں کی دیوار کھڑی تھی۔ کوچوان کی سانس پھول رہی تھی۔ اس نے عورت سے کہا ’’چلو گھوڑوں کو ذرا دم لینے دیں۔ تھوڑی دیر بعد چلتے ہیں۔ ‘‘
اس نے عورت کے چہرے کی طرف دیکھا۔ عورت خاموش تھی۔ گویا وہاں موجود ہی نہ ہو۔
کوچوان پھر بولا :
’’
جونہی گھوڑے ذرا تازہ دم ہو جاتے ہیں۔۔۔ ‘‘
عورت نے پھر زبان نہ کھولی۔ کوچوان رک گیا۔ تلملاتے ہوئے تھوک نگل کر بولا :
’’
وہ تمہاراخاوند تھاناں۔۔۔۔۔۔‘‘یہ کہہ کر کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر بولا :
’’
وہ بھی بڑا احمق تھا۔ یعنی اگر وہ انسان ہوتا ناں۔۔۔۔۔۔ ‘‘
عورت نے اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی رائے دی :
’’
نرا جنگلی کا جنگلی ہے، بھائی میرے۔ دوسروں کے کام کرتا ہے اوردوسروں ہی کی عقل پر چلتا ہے۔ ‘‘
کوچوان نے یکے کے ارد گرد چکرکاٹے۔ پھر ہاتھ میں ایک سر کنڈا اٹھایا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔ ان ٹکڑوں کو زور سے زمین پر پٹخا اور بجلی کی طرح کو ندکر عورت کو کلائی سے پکڑ لیا۔
عورت چلائی:’’کیا کر رہے ہو کمبخت، کیا کر رہے ہو؟ ‘‘
کوچوان نے عورت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر منت کی:’’شورنہ کرو۔ ‘‘
عورت نے جھک کر اس کے ہاتھ سے کلائی چھڑائی۔ یکے سے نیچے کودی اور پیدل سڑک کی جانب بڑھنے لگی۔ کوچوان نے بھاگ کر پیچھے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے۔ عورت نے مڑ کر کہا :
’’
پاگل تو نہیں ہو گئے کہیں؟ کمبخت تم پاگل تو نہیں ہو؟ ‘‘
اپنے آپ کو کوچوان کی گرفت سے چھڑا کر وہ پھر سڑک کی طرف بڑھی۔ پیچھے سے کوچوان نے آواز دی :
’’
آمنہ’میرا کوئی نہیں ہے۔ نہ ماں، نہ باپ، نہ بیوی۔ یہ گھوڑے اور یہ یکہ میرے اپنے ہیں۔ گاؤں میں تین ٹکڑے زمین بھی ہے میری۔ ‘‘
عورت رکی۔ کوچوان نے آگے بڑھ کر اسے پھر کلائی سے جا پکڑا۔ کلائی کو زور سے بھینچا۔ جذبات کے تلاطم میں اس کا سر چکرا رہا تھا۔ اسے ارد گرد کی دنیا اور سر کنڈے گھومتے نظر آ رہے تھے۔ عورت نے پوچھا :
’’
واقعی؟ ‘‘
’’
واقعی یہ گھوڑے میرے اپنے ہیں۔ گائیں بھی ہیں۔ ‘‘
’’
کیا تمہارا کوئی رشتہ دار نہیں؟ ‘‘
’’
کوئی نہیں۔ کوئی بھی نہیں۔ کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔ ‘‘
جب و ہ سرکنڈوں سے نکل کر سڑک پر آئے تو پچھوا اپنی پوری تندی سے چل رہی تھی۔ کوچوان نے عورت کے گاؤں پہنچ کر ہوا میں اڑتے گھوڑوں کی باگیں کھینچیں۔ یکہ جہاں تھا وہیں رک گیا۔ کوچوان نے پیچھے مڑ کر دھول میں اٹی عورت کی طرف دیکھا۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں۔ عورت کی کسی حرکت سے اس کے نیچے اترنے کے ارادے کا اظہار نہ ہوا۔ جہاں بیٹھی تھی وہیں بیٹھی رہی۔
کوچوان نے یاد دلایا: ’’آمنہ تمہارا گاؤں آ گیا ہے۔ ‘‘
عورت نے بیٹھے بیٹھے جواب دیا۔ ’’ہاں، میرا گاؤں۔ ‘‘
اور کوچوان نے پھر گھوڑوں کو چابک لگائی۔ یکہ سیدھی سڑک پر گرد و غبار کے بادل اڑاتا کوچوان کے گاؤں حمیدیہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔