کتاب میلہ
حیات صدیق از : سید محمد صدیق شاہ
رائیٹرز فاؤنڈیشن پاکستان ،راولپنڈی۔ ۲۰۱۱ء
حیاتِ صدیق‘ کی معنویت لمحہ بہ لمحہ یا ورق بہ ورق تب عیاں ہوتی جاتی ہے جب ایک محنتی ، سادہ دل اور راست باز استاد کی یہ آ پ بیتی ہم پڑھتے جاتے ہیں جن کی زندگی میں غیر معمولی واقعات بھی آئے مگر وہ اپنے عقیدے اور استقامت سے ان کو معمول کے واقعات کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت کم آپ بیتی لکھنے والے اپنی سوتیلی والدہ کی تعریف کرتے ہیں مگر اس کتاب میں ایسا بھی ہوا ہے ۔ یہ اور بات کہ وہ بڑی معصومیت سے یہ بھی لکھ دیتے ہیں :
’’
میری ہمشیرہ زبیدہ بی بی کو اپنی دوسری والدہ سے کبھی کبھی شکایت پیدا ہوجاتی تھی۔ وہ ہمیشہ گھر میں رہتی اور تعلقات کازیادہ موقع ملتا ۔ اس لیے کبھی کبھی ایسی شکایت کا پیدا ہوجانا قدرتی امر تھا‘‘۔ (ص: ۲۵ )
اپنی اسی والدہ کی وفات کا ذکر بھی وہ بڑے مؤثر انداز میں کرتے ہیں :
’’
وہ اپنی والدہ کو بھابی کہا کرتی تھیں۔ عالم بے ہوشی میں بھابھی بھابھی کہتی تھیں۔ جب حالت زیادہ خراب ہوگئی تو بھابی کا لفظ زباں سے نہیں نکلتا تھا اور بھابھی کی بجائے بھاگی کہتی تھیں۔ تمام رات میں انہیں گود میں لے کر بیٹھا رہا۔ صبح ہونے پر ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی‘‘ ۔ (ص : ۲۵ )
مصنف نے اگرچہ ترک موالات میں اپنی سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا اور پھر وہ جلد ہی قیادت کی بے تدبیری سے آزردہ بھی ہوئے مگر انہوں نے اسے بھی حرزِ جاں نہیں بنایا :
’’
میں نے استعفیٰ کی درخواست میں لکھا کہ پیشوایانِ قوم نے چونکہ عدم تعاون کا حکم دے دیا اور گورنمنٹ کی ملازمت کو حرام قرار دیا ہے۔ اس لیے میں اپنی ملازمت سے مستعفی ہوتا ہوں۔ چند روز کے بعد میرا استعفیٰ منظور ہوگیا۔ اب میں نے مولانا شوکت علی کو لکھا کہ مجھے کام بتایا جائے تو ان کا خط آیا کہ راولپنڈی میں مرزا قطب الدین ایڈووکیٹ ہیں۔ آپ ان سے ملیں وہ آپ کو کوئی کام بتا دیں گے۔ میں مرزا صاحب موصوف کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے کہا کہ آپ فی الحال گھر چلے جائیں جب کوئی کام آپ سے لینا ہوا تو ہم آپ کو لکھ دیں گے۔ چنانچہ ان کے کہنے کے مطابق میں گھر آگیا مگر مرزا کی طرف سے مجھے کوئی کام نہ بتایا گیا۔ آخر کار مجھے گزراوقات کے لیے کام کی تلاش ہوئی۔ (ص: ۳۸ )
ایک ایسا شخص جو دو دفعہ موذی وبا کا شکار ہوا ، کبھی محکمے میں باہمی رقابت کے طفیل پیشہ ورانہ ملازمت میں تموّجات بھی پیدا ہوئے مگر ان کے ہاں خوش عقیدگی اور اپنی صلاحیت پر اطمینان انہیں دیگر لوگوں کی طرح واویلا کرنے سے روکتے ہیں۔ پھر ایک خاص بات یہ ہے کہ جیسے جیسے انہوں نے اپنی تعلیمی استعداد میں اضافہ کیا ویسے ویسے انہیں مختلف شہروں ، درس گاہوں اور منتظمینِ تعلیم سے واسطہ پڑا،جس سے اس کتاب کی فضا یک رنگ نہیں رہتی۔ انہوں نے اس بات کو کہیں نہیں چھپایا کہ ان کے نزدیک قرابت داری زندگی کی اہم قدر ہے۔ اسی طرح اربابِ اختیار تک پہنچنے کے لیے کوئی وسیلہ تلاش کرنا بھی مفید نتائج پیدا کرتا ہے۔ ان کے ہاں ایک خاص طرح کی بشاشت بھی ہے جو انہیں ایک پیدا گیر منتظمِ تعلیم کی حرکات و سکنات سے لطف اندوز ہونا بھی سکھاتی ہے جنہوں نے سکول میں تنخواہ کے منتظر عملے سے روپوش ہونے کی ٹھانی اور اساتذہ سے کہا کہ میں دو ٹرک خریدنے جا رہا ہوں ان کی آمدنی سے سکول چلاؤں گا۔ پھر کبھی کبھار مختلف شہروں سے ان کا خط آجاتا کہ وہ سکول کی خاطر کچھ تجرباتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں مگر وہ ان خطوں میں اپنا پتہ درج نہیں کرتے۔ جناب محمد صدیق شاہ نے ایسے موقع پر اپنے ایک رفیق کار گلزار نبی کی پنجابی نظم کے کچھ شعر درج کر کے اسے اپنی زندگی کا مرکزی حادثہ ماننے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اس بات کو بھی نہیں چھپایاکہ ان کی خواہش رہی ہے کہ ان کے قریبی عزیز اور برادری کے لوگوں کو ایک ہی جگہ پر اچھی زمینیں الاٹ ہوجائیں یا وہ کم از کم زندگی کے آخری مرحلے پر ایک ساتھ آسودہ زندگی بسر کر سکیں مگر انہیں شکوہ ہے :
’’
آہستہ آہستہ ملاپ میں کمی واقع ہورہی ہے۔ بعض اصحاب اپنی ضعیفی کو بہانہ بنا کر ایسے مواقع پر حاضر نہیں ہوتے اور بعض دوردراز علاقوں میں رہنے کے باعث حاضری سے معذور سمجھے جاتے ہیں۔ دیکھیں یہ تھوڑے بہت تعلقات بھی کب تک قائم رہتے ہیں۔ ان تعلقات کے منقطع ہوجانے کے اندیشہ کے پیش نظر ہی یہ کتاب لکھی جا رہی ہے‘‘۔ (ص: ۵۹ )
اسی کتاب میں سات مستورات کے ساتھ او ر بھاری بھر کم سامان کے ساتھ بحری جہاز کے ذریعے حج کے سفر کا ذکر بھی ہے اور ہمارے تعلیمی نظام کی بنیادی کمزوریاں سمجھنے کا کافی مواد بھی۔ مصنف نے اقبال کی سات طویل نظموں کی شرح بھی لکھی تھی مگر اس کی فرمائش جس ناشر نے کی تھی اس کا جائیداد کی تقسیم پر اپنے بھائیوں سے جھگڑا ہوگیا اور یہ کتاب نہ چھپ سکی۔ لگتا ہے کہ ناشر کے بھائیوں کا دل اس سوز سے خالی تھا جو اقبال مسلمانوں میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔
نقشِ رہگزر ، راؤ سخاوت علی خان از :ڈاکٹر روشن آرا راؤ
انجم پبلشر ،راولپنڈی، ۲۰۱۲ء
راؤ سخاوت علی خان کی سعادت مند بیٹی ڈاکٹرروشن آراء راؤ نے ان کے شعری مجموعے ’’ نقشِ رہگزر‘‘ کی تدوینِ نو کر کے اسے دوبارہ شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ جس میں احسان دانش ، ڈاکٹر نجیب جمال اور راؤ عبدالرشید خان کے ساتھ خود ڈاکٹر روشن آرا راؤ کے تاثرات بھی شامل ہیں، سرور انبالوی نے اپنے تاثرات نظم کی صورت میں پیش کیے ہیں ، خود مَیں نے اس کے لیے یہ لکھا : ’’ یہ محض ایک شعری مجموعہ نہیں بلکہ اس میں ایک خود دار اور مصلحت سوز قومی کارکن کی تخلیقی روح اور سماجی ، سیاسی شعور کے زخم بھی عیاں ہورہے ہیں۔ ان کی بیٹی ڈاکٹر روشن آراراؤ نے اس مجموعے کے نقش ثانی کے لیے جو محنت کی ہے اور مرحوم شاعر کے بھائی راؤ رشید نے جو نقش راؤ سخاوت علی خان کا کھینچا ہے ’ وہ نقش رہگزر‘کو ایک دلآویز فیملی ساگا بھی بناتا ہے اور ناانصافی کے نظام کے استحکام کے اسباب سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ ڈاکٹر روشن آراء کی اپنی نثر اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ انھیں اپنے ادبی ورثے کو ترتیب وتدوین کے بعد اپنی حیرت انگیز یادداشتوں کو بھی قلم بند کرنا چاہیے۔ ‘‘
------
مبصر: انوار احمد
نظم اسا نوں لکھنا چاہوے از نوید شہزاد
مقصود پبلشرز ، لاہور۔ ۲۰۱۱ء
"
نظم اسانوں لکھنا چاہوے" نوید شہزاد کی پنجابی نظموں کا مجموعہ ہے جو پنجابی غزل اور گیت کے ممتاز اور صاحب اسلوب شاعر ہیں۔ اس سے پہلے ان کے نصف درجن پنجابی شعری مجموعے چھپ چکے ہیں۔ پیش نظر شعری مجموعے میں تقریباً ڈیڑھ سو نظمیں شامل ہیں جن کے موضوعات ہی سے جدید لب و لہجے کی خوشبو آ رہی ہے۔ پنجابی ادب جس قدر ثروت مند ہے جدید عہد میں اُسی قدر نظر انداز بھی ہو رہا ہے۔ آج پنجابی لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کی جیسی کمی ہے اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ ایسے میں جدید پنجابی غزل کے میدان میں قدم رکھنا یقیناًدل گردے کا کام ہے اور اس جرأت کے لیے نوید شہزاد کی استقامت کی تعریف تو کرنی ہی پڑتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے معیار اور اسلوب کی داد نہ دینا یقیناًنا انصافی ہو گی۔ نمونے کے طور پر یہ نظم ملاحظہ فرمائیے :
بھرنیوا
اوہدیاں خطاں اتوں
حرف چگن دا جرم
اج وی ساڈے سراے
خاباں نے ساڈے نال ، بے انصافی کیتی
ہن اسیں تعبیراں کراہے پاواں گے
سانبھے حرفاں نوں ایہناں دے
گل دا ہار بناواں گے
انج نہ کریے
تیری ساڈی وتھ وچ ایہناں
حرفاں نوں چن دیئے
برف اتار پہاڑاں اتوں
وتھاں وچ پہاڑاں دے آ
برفاں نوں چن دیئے
تیری ساڈی وتھ تاں پگھلے
تیری ساڈی وتھ تاں جمے
مکی ونی واج کسے دی
تیرا ناں سبھناں توں آخری
تے ساڈا پہلا ناں جمے
خورے ساڈی وتھ تاں جمے
اوہدیاں خطاں اتوں ، حرف چگن دا جرم
اج وی ساڈے سر اے
یہ کتاب جہاں مذکورہ بالا حوالوں سے قابل تعریف ہے وہاں متن کی ہندی رسم الخط میں بھی فراہمی اس کی افادیت میں اضافہ کرتی ہے، یقیناًاس اقدام سے کتاب کی ترسیل اور ابلاغ میں غیر معمولی اضافے کی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ اس کتاب کو چھاپنے پر ناشر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
بُکل دے وچ چور از : ڈاکٹر نجیبہ عارف
الفیصل ناشران، لاہور۔ ۲۰۱۲ء
نام سے تو یہ پنجابی کی کتاب لگتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یا تو یہ شعری مجموعہ ہے یا پھر افسانوں کا مگر سو فیصد ایسا نہیں۔ ایک تو یہ اُردو کی کتاب ہے جب کہ کہنے کو تو اردو افسانوں کا مجموعہ ہے مگر یہ افسانے ڈاکٹر نجیبہ عارف کے نہیں بلکہ ممتاز افسانہ نگار ممتاز مفتی کے ہیں۔ڈاکٹر نجیبہ عارف کے مقدمے کا عنوان ہے : " تم کہاں کے صوفی تھے؟ کس طرح کے باباتھے؟ " جو کہ بے حد دل چسپ ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے عام طور پر ممتاز مفتی کے افسانوں ، سوانح عمری اور اسلوب حیات کے حوالے سے اٹھائے گئے اعتراضات اور سوالات کو موضوع بناتے ہوئے طویل بحث کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مرتب نے تصوف کو بنیادی نکتہ مان کر اس کے مالہ و ماعلیہ کو اپنے مقدمے میں سمیٹنا چاہا مگر یہ موضوع اپنی نوعیت کے اعتبار سے جہاں مشکل اور پیچیدہ ہے وہاں لمبے سانس کا مطالبہ بھی کرتا ہے لہذا تشنگی تو بہر طور رہنی ہی تھی۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ممتاز مفتی کے متصو فانہ افسانے جمع کر دیے ہیں اور ان افسانوں کا تعارف اور تجزیہ کرنے کے لیے طویل دیباچہ تحریر کیا ہے۔ مشرق و مغرب میں تصوف کے حوالے سے مختلف تصورات اور رائج رویوں پر مرتب کی بحث یقیناًبے حد وقیع اور قابل توجہ ہے ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے شیخ اکبر کے حوالے سے دل چسپ اور فکر انگیز بحث کو مقدمے کا حصہ بنایا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرتب نے تصوف کی تاریخ اور ارتقا کا مطالعہ بالا ستیعاب کیا ہے اور آنے والے دنوں میں شاید تصوف کے حوالے سے کوئی کتاب ان کی جانب سے پڑھنے کو مل سکے۔
ڈاکٹر نجبیہ عارف نے تصوف کے حوالے سے ممتاز مفتی کے انیس افسانے منتخب کیے ہیں اور اپنے تفصیلی مقدمے میں تاریخ تصوف پر گفتگو کے بعد ان انیس افسانوں کو بھی ایک ایک کر کے کھنگالاہے۔ مرتب نے ان انیس افسانوں میں متصوفانہ رجحانات کی کار فرمائی اور نمود کے شواہد پیش کر کے اپنے انتخاب کو حق بجانب قرار دیا ہے۔ ان حوالوں سے مرتب کا استدلال خاصا وزنی ہے۔ مرتب نے جس انداز میں پیش نظر افسانوں پر تبصرہ کیا ہے، ضرور ممتاز مفتی کی زندگی کے اسرار کی جانب توجہ مبذول ہوتی ہے۔ اشفاق احمد، قدرت اللہ شہاب ، عزیز ملک سمیت کتنے ہی دوسرے صاحبانِ دانش ایسے ہیں، جن کے ساتھ ممتاز مفتی کے تعلقات کی گھمبیر تا اور بابوں کی کہانیاں پھر تازہ ہونے لگتی ہیں۔ قارئین کے لیے یہ کتاب یقیناًافسانہ نگار کے حوالوں سے کلید کی حیثیت سے تو شاید سامنے نہ آئے مگر ممتاز مفتی کو سمجھنے کے لیے تفہیم کا ایک دریچہ ضرور ثابت ہو گی۔ یہ کتاب الفیصل لاہور نے شائع کی ہے۔
اردو افسانہ : فن، ہنر اور متنی تجزیے
از : ڈاکٹر اقبال آفاقی
فکشن ہاؤس ، لاہور ، ۲۰۱۲ء
اردو افسانہ : فن ، ہنر اور متنی تجزیے " معروف نقاد اور محقق پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفاقی کی کتاب ہے۔ قبل ازیں ڈاکٹر صاحب کی دو کتابیں معنیٰ کے پھیلتے آفاق ، اوراق کے اداریے ، منشا یاد کے منتخب افسانے اور ایک انگریزی کتاب چھپ چکی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب فلسفے کے استاد ہیں اور اردو ادب کے تنقید نگار اور محقق کی حیثیت سے معتبر مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی پیش نظر کتاب میں شامل مختلف مضامین دوسرے دانش وروں کی تنقید و تنقیص کی کٹھالی سے گزر چکے ہیں اور ڈاکٹر اقبال آفاقی صاحب نے نہ صرف یہ کہ اسے برداشت کیا بلکہ خندہ پیشانی سے اسے کسی حد تک تسلیم بھی کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس میں شامل مضامین کے عنوانات پڑھ کر بخوبی ہوتا ہے، ملاحظہ کیجیے :
جواز، اردو افسانہ : فن اور کرافٹ کے مسائل ، نیا افسانہ : تھیوری اور فن پر ایک نظر ، تاریخ ، متھ اور کہانی ، منٹو ، پیراڈاکس اور کہانی، کرشن چندر: چاند اور چکوری سے کچرا بابا تک ، بیدی کے افسانے : ایک مابعد جدید تجزیاتی مطالعہ ، انتظار حسین : تہذیب ، معانی اور تجزیہ، کہانی اور منشا یاد ، احمد داؤد اور ہم عصر : تجزیہ و تقابل اور کافکا ۔ کاک روچ اور ہسٹری ۔
ان میں سے کچھ مضامین ملک میں اور بیرونِ ملک وقیع رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس کتاب کا مواد گزشتہ ربع صدی کے عرصے میں مختلف حوالوں سے تحریری شکل میں آتا رہا ،لہٰذا اسے ڈاکٹر اقبال آفاقی کی ربع صدی کی ذہنی سرگزشت بھی کہا جا سکتا ہے ۔ اردو ادب کے لیے ڈاکٹر صاحب ایک غیر معمولی حیثیت کے حامل دانش ور ہیں۔ فلسفے کے استاد کی حیثیت سے کئی عشرے تدریس کے فرائض سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ لسانیات اور تنقید و تحقیق کے شعبوں سے وابستگی نے ان کی تحریروں میں کمال درجے کی پختگی اور فکر انگیزی کا عنصر پیدا کر دیا ہے۔ ان کی تحریریں جس گہرے مشاہدے اور علمی تبحر کی کٹھالی سے نکلی ہیں، شاید اردو ادب کا دامن اگر خالی نہیں تو خلا کاشکار ضرور ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی فکشن کی جانب توجہ بھی اردو ادب کی خوش قسمتی ہے کہ کم از کم پاکستان کی حد تک یہ شعبہ اس درجے کے بڑے دانش ور کا متقاضی تھا۔ جناب اشفاق سلیم مرزا ، ڈاکٹر اقبال آفاقی اور پیش نظر کتاب کے حوالے سے لکھتے ہیں :
"
ڈاکٹر اقبال آفاقی پاک و ہند کے معروف رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کی تحقیق و تدقیق کا میدان عملی اور نظری تنقید ، قدریات تہذیب و تاریخ اور مابعد جدیدیت تک پھیلا ہوا ہے ۔ اردو فکشن کے نقاد کے طور پر بھی ان کو منفرد مقام حاصل ہے۔ ماہنامہ 'انشاء' کو لکتہ کے ادبی تبصرہ نگار نے ان کے زیر نظر کتاب میں شامل ایک مضمون " اردو افسانہ : فن اور کرافٹ کے مسائل کے بارے میں لکھا کہ یہ مضمون نہ صرف لائق مطالعہ ہے بلکہ گہرے ادبی شعور کا پتہ بھی دیتا ہے۔ مزید یہ بھی کہ یہ مضمون تقلید کی بجائے تخلیق کی نوید سناتا ہے اور اُردو تنقید کو آگے بڑھاتا ہے۔ پروفیسر آفاقی ادب، لسانیات اور فلسفے کا امتزاج پیش کرنے میں کمال دسترس کے حامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب میں ان کا ہر ایک مقالہ نئی راہیں تلاش کرتا نظر آتا ہے۔ روایتی اور بے معنی تنقید سے انہوں نے گریز کیا ہے۔ منفرد اور مشکل راستوں پر چلنا ان کا امتیازہے۔ مجھے امید ہے آپ ان کی معیت میں ان راستوں پر سفر کرتے ہوئے یقیناًنشاط دانش سے سرشار ہوں گے۔ "
فکشن ہاؤس ، لاہور یقیناًہمارے شکریے کا مستحق ہے کہ اس نے اردو اد ب کے لیے اس قدر اہم اور ضروری کتاب شائع کی۔
وادئ گل پوش میں از : ڈاکٹر ظفر حسین
ڈاکٹر ظفر حسین ظفر کا سفر نامہ " وادئ گل پوش میں " چھپ گیا ہے۔ یہ سفر نامہ جموں اور سری نگر کے ایک سفر کی روداد ہے جو ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے ایک کانفرنس میں شرکت کی غرض سے کیا۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے یہ سفر کسی ایسے علاقے کا نہیں کیا جس سے وہ واقف نہ ہو۔ اسے تو اس کی قدیم اور جدید تاریخ کا شعوری ادراک حاصل تھا۔ اس نے اپنے اس سفر میں تاریخ کی پٹاری بھی ہمراہ رکھی اور حال کو ماضی سے ملا ملا کر دیکھتا چلا گیا ، بلکہ مستقبل کی صورت گری بھی کرتا رہا۔ سفر نامے کے مطالعے کے دوران میں مجھے بار بار یہ احساس ہوا کہ ظفر حسین ظفر نے جموں اور سری نگر کا احوال کم دیکھا مگر ماضی کے جھروکوں میں مستقل جھانکتا رہا۔ ظاہر ہے کہ اس تا کا جھانکی میں کرب مسلسل ہی سے دو چار ہونا تھا، سو وہ ہوتا رہا۔ ماضی میں جھانکنے سے اس وقت حال کی اہمیت ذرا کم ہوتی چلی جاتی ہے سو ظفر حسین ظفر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ ایک نظر باہر کا منظر دیکھتا تو گھنٹوں تاریخ کی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتا ۔ کبھی تاریخ کے جھروکوں میں جھانکتا کبھی اپنے اندر اتر جاتا رہا ۔لہٰذا وہ اپنے تمام ہم سفر دوستوں سے الگ تھلگ اور بالکل جدا سفر کرتا رہا۔ اس سفر نامے کے دوران میں برصغیر کی تاریخ پلٹ پلٹ کر سامنے آتی ہے اور آزادی کی تحریک کی جھلکیاں صاف دکھائی دینے لگتی ہیں۔ انگریزوں اور ہندوؤں کی جانب سے برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکیوں کا ذکر سفر نامے کو تفریحی دستاویز کے بجائے سبق آموز تاریخی کتاب بنائے دے رہا ہے۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے تاریخی حوالوں کو ایسی سنجیدگی سے برتا ہے کہ سفر نامے کا ہلکا پھلکا تفریحی تصور عنقا ہوتا ہوا نظر آتاہے ۔ ظفر حسین ظفر نے اس سفر نامے میں مسئلہ کشمیر سمجھانے کی شعوری کوشش کی ہے جس میں وہ بہت حد تک کامیاب رہا ہے۔ "وادئ گل پوش میں " کو منشورات ، ملتان روڈ،لاہور نے شائع کیا ہے۔
------
مبصر:ڈاکٹر راشد حمید
’’
اردو تنقید‘‘(منتخب مقالات ) از: اشتیاق احمد
مکتبہ تعمیرِ انسانیت،اردو بازار ،لاہور
عہدِ حاضر کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ادب کی قلبِ ماہیت بھی تبدیلی کے عمل سے گز ر رہی ہے۔ ادب، معاشرے کے تحرک سے متاثر ہوئے بغیر اپنا وجود بر قرار نہیں رکھ سکتا اس لیے سماج کی ہر تبدیلی ادب پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ایسے میں ادب کو پرکھنے کے پیمانے بھی تغیرات سے دو چار ہو رہے ہیں ۔ نئے فلسفے ادب کی تفہیم میں کئی جہتوں کو جنم دے رہے ہیں ۔متن اپنی شکست و ریخت سے نئے جہانِ معنی پیدا کر رہا ہے۔اس لیے اس عہد میں تنقید کا کردار سمجھنے کی از سرِ نو ضرورت کو محسوس کیا جا رہا ہے۔ اس وقت تنقید کے نظری اور فکری مباحث کی روشنی میں دور جدید کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ایسے میں ’’اشتیاق احمد‘‘ کی مرتبہ کتاب ’’ اردو تنقید ‘‘میں شامل منتخب مقالات ،تنقیدکی ضرورت اور اہمیت کو سمجھنے اور اس کا ازسر نو مطالعہ کرنے کے لیے راستہ ہموار کر دیتے ہیں۔اس کتاب میں ناقدین کی ادب پر رائے نہیں بلکہ تنقید کی ضرورت، منصب اور کردار کا احاطہ کرتے ہوئے معاصر تنقید کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔کتاب میں جن ناقدین کے مقالات کو شامل کیا گیا ہے ان کے نام نقد و ادب میں انتہائی معتبرمانے جاتے ہیں ۔ابتداء میں تفصیلی مقدمہ درج ہے جس میں اردو تنقید کے ارتقاء کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کی گئی ہے۔ :
اردو نقد و ادب کو ’’ما قبل ‘‘ اور ’’ما بعد ‘‘کے مطا لعاتی تنا ظرمیں رکھ کے دیکھنے سے اگر کچھ قابلِ قبول با معنی نتا ئج استخراج کی صورت پیدا ہو تو اس نوع کی مساعی یقیناًقابلِ تحسین ہیں۔البتہ اس ضمن میں متعیّنہ عمومی کلاسیکی اصول و ضوابط اور مسلّمہ صنفی معیارات کو مع تہذیبی سیاق و سباق کے ملحوظِ خاطر رکھنا بھی ضروری ہے۔( ص۷ )
مرتّب ،تنقید کے مسائل اور میلانات کے حوالے سے ہونے والے کاموں کا ذکر کرتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ اس کتاب میں شامل تقریباََ تمام مضامین پہلے سے شائع شدہ مجموعوں کا حصہ نہیں رہے۔یہ مقالات علمی اور موضوعاتی افادیت کے ساتھ ساتھ قاری کے لیے فکر اور دانش کے کئی نئے در بھی وا کرتے ہیں۔مشرقی تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے کلیم الدین احمد،حسن عسکری،ڈاکٹر وزیر آغا،شمس الرحمان فاروقی اور گوپی چند نارنگ سمیت تمام ناقدین کی آراء کی روشنی میں معاصر صورتِ حال کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
کتاب کا پہلا حصہ’’تنقید ۔۔۔۔نظری مباحث‘‘ کے عنوان سے قائم کیا گیا جو کہ تنقید اور اس کے منصب سے بحث کرتے ہوئے مضامین پر مشتمل ہے۔دوسرے حصے میں ’’اردو تنقید‘‘ کی ذیل میں پروفیسر آل احمد سرور،نظیر صدیقی،جیلانی کامران،مظفر علی سید اور دیگر کئی معتبر ناقدین کے مضامین کو شامل کیا گیا ہے۔کتاب کا تیسرا حصہ ’’تنقید۔۔۔۔معاصر صورتِ حال‘‘ کے ساتھ بحث کرتے ہوئے فکر انگیز مضامین پر مبنی ہے۔جس میں عبادت بریلوی کا مضمون ’’اردو تنقید کی موجودہ صورتِ حال‘‘،ممتاز حسین کا مقالہ’’پاکستانی معاشرہ اور اردو تنقید‘‘ اور شمیم حنفی کا مضمون ’’اردو تنقید کا المیہ ‘‘ بھی شامل ہے۔
مجموعی طور پر یہ کتاب تنقید کے منصب اور موجودہ صورتِ حال میں مغربی فلسفے کی ذیل میں ادب کی پرکھ، اس کے مقام و مرتبے کے تعین میں اس کے کردار سے بحث کرتی ہے۔ایسے میں مرتب خود کتاب کا حصہ بنے بغیر کئی مباحث کو سامنے لاتا ہے۔یہ کتاب ادب کے قارئین اور طالب علموں کے لیے بہترین اضافہ ہے۔
------
مبصر : حمیرا اشفاق
فیض کی شاعری میں پنجاب رنگ از:ڈاکٹر اصغر علی بلوچ
فیض احمد فیض اپنی تخلیقات کے باعث ایک legendکی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ وہ استاد اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے نقاد ،مدیر اوریونین لیڈر بھی تھے۔ انھوں نے جہاں بیسویں صدی کے سیاسی و معاشی بحرانوں کو شاعری کا حصہ بنایا وہاں تہذیبی و ثقافتی زندگی کو بھی اپنی شاعری میں منعطف کیا۔ انھوں نے اپنا بچپن کالا قادر اور سیال کوٹ کی گلیوں میں کھیلتے گزارا جس کی بدولت انھوں نے پنجاب کی تہذب وثقافت کو قریب سے دیکھاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مادری زبان میں اظہار سے اپنا دامن نہ بچا سکے۔ پنجابی میں شعری سرمایہ کم ہونے کے بدولت ناقدین و محققین نے ان کی پنجابی تخلیقات سے عدم التفات کا اظہار کیا ہے ۔ڈاکٹر اصغر علی بلوچ نے فیض کے اس پوشیدہ گوشے کا پردہ چاک کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔’’ فیض کی شاعری میں پنجاب رنگ‘‘ اصغر علی بلوچ کی ایسی تنقیدی وتخلیقی کاوش ہے جس میں انھوں نے فیض کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اردو شاعری میں نمایاں ہوتے پنجاب رنگ کی بھی بازیافت کی ہے بقول ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری :
’’
ان کی اس کاوش میں تحقیق‘ تفہیم اور تجزیہ۔۔۔ سبھی کچھ شامل ہے ‘‘
یہ کتاب ۲۰۱۱ء میں مثال پبلشرز فیصل آباد سے محمد عابد نے شائع کی ہے۔ زیرِنظر کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب ’’فیض احمد فیض ‘سوانحی منظر نامہ‘‘ کے زیرِعنوان احاطہِ تحریر میں لایا گیا ہے۔ جیسا کہ عنوان سے عیاں ہے اس میں مصنف نے فیض کے حالات زندگی، تعلیم، خاندان ،ملازمت اور ادبی خدمات کے حوالے سے معلومات فراہم کی ہیں۔
دوسراباب ’’کالا قادر کے گڈریے کا بیٹا‘‘ کے عنوان کے تحت تحریر کیا گیا ہے اس باب میں مصنف نے فیض کے والد کی جدوجہداور پنجاب کی تہذیب وثقافت سے فیض کے لگاؤ کی وجہ دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔اس باب کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ مصنف کے نزدیک اپنے لوگوں سے محبت، ان کے دکھ درد،مسائل کو حل کرنے کا بے پناہ جذبہ، سیاسی بصیرت، طبقاتی شعوراور عوامی آگہی ایسے خصائص فیض کو اپنے والد اور اپنے ارد گرِد کے ماحول سے ودیعت ہوئے تھے۔
تیسرا باب ’’پنجاب، پنجابی شاعری اور فیض احمد فیض ‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا گیا ہے۔ اس میں مصنف نے فیض کی نظموں کا فکری جائزہ لیا ہے اور انھیں سرزمینِ پنجاب کی تہذیب و ثقافت سے جوڑنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ اس حوالے سے فیض احمد فیض کی شاعری میں لوک ریت، صوفی شعرا ء سے عقیدت و احترام کا جذبہ اور اپنی زمین سے محبت اور گھر آ نگن کا احساسِ تحفظ ایسی خصوصیات کو سامنے لا کر مصنف نے یہ ثابت کرنے کیا ہے کہ فیض کی شاعری ڈرائنگ روموں، سکولوں، کالجوں سے باہر آ کر سڑکوں، بازاروں اور کھیتوں کھلیانوں میں کیسے پہنچی؟
’’
فیض کی اردو شاعری میں پنجاب رنگ‘‘ اگلے باب کا عنوان ہے۔ مصنف کے بقول فیض کی اردو شاعری میں جو مناظرِ فطرت قلم بند ہوئے ہیں ان میں پنجاب رنگ غالب ہے۔ اس حوالے سے مصنف نے سرودِ شبانہ ،شاہراہ، روشنیوں کے شہر ،یہ فصل امیدوں کی ہمدم ،شام، اے شام مہربان ہو اور گاؤں کی سڑک کو مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ پنجاب کے مظلوم کسانوں، ہاریوں، مزدوروں اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے حوالے سے ’’ فصل امیدوں کی ہمدم‘‘ اور نظم ’’ انتساب‘‘ کو بطور مثال پیش کیا ہے۔ اسی طرح پنجاب کی سیاست اوروڈیروں کے سیاہ کرتوتوں کا پردہ چاک کرنے کے حوالے سے جو عکس فیض کی شاعری میں نمایاں ہوتا ہے اس کو بھی موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ مزید برآں پنجاب کی دھرتی سے جو تصوف کی خوش بو نمایاں ہوتی ہے‘ فیض نے اس کو کس طرح قبول کیا یا اس کے فیض پر کیا اثرات پڑے اس باب میں اس حوالے سے بھی بحث کی گئی ہے۔ احمدسلیم اورماجد صدیقی نے فیض کی منتخب ٖغزلوں اور نظموں کو ’’ رات دی رات‘‘ کے عنوان سے پنجابی میں ڈھالا ہے۔ ڈاکٹر اصغر علی بلوچ نے اس پر اپنی قیمتی رائے سے قارئین کو بہرہ ور کیا ہے۔اس حوالے سے انھوں نے کچھ نمونے بھی درج کیے ہیں مثلاً :
فیض : قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو آج بہرِ خدا ذکرِ یار چلے
ماجد صدیقی: رب دا ناں جے کجھ تے آ کھو سنگیو تسی ہواواں نوں
کدوں تے بندی خانے وچ گل چھڑے کوئی یاراں دی
’’
فیض کا پنجابی کلام‘‘ کے عنوان سے باب میں فیض کی پنجابی نظمیں اور قطعات شامل ہیں۔ جب کہ آخری باب ’’ مکالماتِ فیض‘‘ کے عنوان سے شاملِ کتاب ہے۔ پہلا مکالمہ’’ ایلس کے فیض سے باتیں‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں فیض نے اپنے معاملاتِ عشق کے بارے معلومات فراہم کی ہیں۔ ایک اور مکالمہ ’’ اردو اور مقامی زبانوں( بالخصوص پنجابی) کا میل جول‘‘ کے عنوان سے کتاب میں شامل کیا گیا ہے‘ جو درحقیقت ٹیلی وژن پر ایک گفتگو ہے جو اس سے قبل سہ ماہی جریدہ’’ غالب‘‘ کے اپریل تا جون ۱۹۷۶ء کے شمارے میں چھپ چکی ہے۔ اسی طرح ’’ فیض کا پنجابی زبان میں مکالمہ‘‘ بھی کتاب میں شامل ہے جو ادب ،آرٹ ،تہذیب و ثقافت، پنجابی اور دیگر موضوعات کے حوالے تفصیلی اظہار ہے۔
ڈاکٹر اصغر علی بلوچ نے فیض احمد فیض کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ کر کے اس میں شامل پنجاب رنگ کی بازیافت بڑی خوش اسلوبی سے کی ہے۔ جس سے فیض کے ہاں تخلیقی تنوع کی بھی نشان دہی ہوتی چلی گئی ہے۔ زیرِ نظر کتاب مصنف کے اعلیٰ تنقیدی و تحقیقی شعور کی آئینہ دار ہے۔ اس بات کی نشاندہی دورِ حاضر کے نامور نقاد ڈاکٹر انوار احمد کی رائے سے بھی ہوتی ہے کہ :
’’
ڈاکٹر اصغر علی بلوچ نے ’’ فیض کی شاعری میں پنجاب رنگ‘‘ کے موضوع پر دادِ تحقیق دی ہے اور اس پر وہ خود بھی داد کے مستحق ہیں۔ ‘‘
یہ کتاب نہ صرف فیض فہمی کے حوالے سے ایک قابلِ قدراضافہ ہے بلکہ ادب کے طالبِ علموں پر نئے افق بھی وا کرتا ہے جس پرمصنف تحسین و تکریم کے مستحق ہیں۔
-----
مبصر: عبدالعزیز ملک

اک ذرا فیض تک از : ڈاکٹر محمد آصف اعوان
پورب اکادمی ، اسلام آباد۔ ۲۰۱۲ء
’’
اک ذرا فیض تک ‘‘ اپنی طرز تخلیق کے اعتبار سے منفرد اور مفید تصنیف ہے۔ اس کی تخلیق کا سفر مصنف کے لیے عرق ریزی ومحنت وکاوش کا طلب گار رہا ہے۔ اس تصنیف کے موضوعات کی کالم وار تقسیم میں جو محنت صرف ہوئی ہے بڑی ہی باریک بینی اور مستقل مزاجی کی آئینہ دار ہے۔ مؤقر مصنف نے اپنی اس عظیم تصنیف کے ذریعے مستقبل کے محققین ومبصرین فیض کے لیے فکرو خیال کے نئے دریچے وا کیے ہیں۔
ڈاکٹر محمد آصف اعوان ، استاد شعبہ اُردو، جی سی یونیورسٹی فیصل آباد جن کا شمار ملک کے نامور ماہرا قبالیات میں ہوتاہے۔ ان کے تنقیدی وتحقیقی مقالات ملک کے مؤقر جرائدمیں چھپتے رہتے ہیں۔ ’ ’ اک ذرا فیض تک ‘‘ ان کی ایسی کاوش ہے جو فیض شناسی میں مزیدممدومعاون ثابت ہوگی اور اس تصنیف کو کلام فیض کا ایک جامع اشاریہ کی حیثیت حاصل ہے۔ اس جامع اشارئیے کے ذریعے فکر فیض کے متنوع گوشوں کی نشاندہی اور سمت نمائی کر کے قارئین کو فیض کے فکرون فن کے تدریجی ارتقا کی زمانیت ومکانیت دونوں سے روشناس کرایا ہے اور ادب وشعر میں فیض کا منفرد وبلند مقام متعین کرنے میں پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ یہ تصنیف فیض ؔ کے ساتھ مصنف کے دلی لگاؤ کی مظہر ہے۔ یہ کتاب فیض پر تحقیقی مقالات لکھنے والوں کے لیے انمول خزانے سے کم نہیں۔ مؤقر مصنف نے اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کر کے پہلے حصے کو ’’ اشاریہ متعلقات کلام فیض ‘‘ کا نام دیا ہے۔ دوسرے کو اشاریہ کلام فیض ‘‘ پہلے حصے اشاریہ متعلقات کلام فیض میں فیض سے متعلق معلومات کو مختلف عنوانات کے تحت درج کیا ہے۔
دوسرے حصے ’’ اشاریہ کلام فیض ‘‘ میں مکمل کلام فیض کو حروف تہجی کے لحاظ سے ترتیب دے کر ہر مصرعے کے بالمقابل چھ کالم بنائے گئے ہیں۔ ان کالموں میں مجموعۂ کلام کا نام ، نسخہ ہائے وفا کا صفحہ نمبر ، مجموعہ کلام کا صفحہ نمبر ،نظم کا نام ، بند ، شعر نمبر اور مصرعہ کا نمبر تک درج ہے۔ ان معلومات کی مدد سے ایک محقق بغیر وقت ضائع کیے ’’ نسخہ ہائے وفا‘‘ میں موجود کلام اور مجموعہ کلام میں موجود اس غزل یا نظم تک رسائی پانے کے بعد کسی بھی مصرعہ کے مقام کا بآسانی تعین کرسکتا ہے۔ پھر مزیدخوبی یہ کہ مصنف نے فیض کے کلام میں غزلیات اور نظموں کو علیحدہ خانوں میں تقسیم کر کے قارئین وناقدین کے لئے مزید آسانیاں فراہم کردی ہیں۔ تحقیق وتنقید سے وابستہ طلبا واساتذہ کیلئے یہ اشاریہ ان کے کام میں ممدومعاون ثابت ہوگا۔
اس تصنیف کی ایک اوربڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فیض کے شعری مجموعوں کے نام ، سنہ اشاعت ، مجموعوں کے انتسابات کا الگ اندراج کرنا ، پھر ان کی فہارس عنوانات کے جداگانہ کالم بنا کر مجموعہ ہائے کلام کی ترتیب کے اعتبار سے پیش کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد اس تصنیف میں غزلوں اور نظموں اور قطعات کا گوشوارہ نہ صرف صنف کے اعتبار سے بلکہ عنوان ، مصرعہ اولیٰ ، مجموعۂ کلام کا نام وصفحہ بھی درج ہے۔ ان کے معنوں کردہ اور ناتمام منظومات کا بھی تذکرہ اسی ترتیب کے ساتھ مندرج ہے۔ اس تصنیف میں فیض احمد فیض کی دو عدد فردیات بھی مندرج ہیں اور ان کا پنجابی منظومات کا بھی حصہ شامل ہے۔ ان کی ماخوذ منظومات کا بھی اسی طرح اشاریہ موجود ہے کلام فیض میں اساتذہ (استاد شعرائے اُردو) عرفی ، نظامی ، حافظ ، سودا ، میر تقی میر ؔ ، اقبالؔ اور بیدل ؔ کے منقولہ اشعار بھی شامل تصنیف ہیں اور تضمنیات ، منظومات کی تخلیق تاریخ وشعری مجموعہ وار لکھنا خون جگر صرف کرنے کے مترادف ہے۔
کلام فیض کی تراکیب ، تلمیحات کا تذکرہ بھی ’’ اشاریہ کلام فیض میں ملتا ہے۔ غزل ونظم کے پہلے مصرعے کے پہلے لفظ کی ترتیب کے مطابق (مجموعہ شاعری کے نام ، صفحہ نمبر ، نظم کا نام ، بند نمبر ، شعر نمبر اور مصرعہ نمبر تک درج کر کے مصنف نے حروف تہجی کی ترتیب بھی ملحوظ رکھی ہے۔
انھوں نے’’ اشفاق احمد کے اس نظریے کہ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانیاں پیدا کرے گا۔ ‘‘کے مصداق اُردو ادب کی کیا خوب خدمت کا فرض نبھا یا ہے۔
-----
مبصر: مسز ثمینہ چغتائی
’’
شام و سحر کے درمیاں ‘‘ از رئیس عباس زیدی
اُردو ادب میں بیوروکریٹ ادیبوں کی ایک توانا روایت موجود ہے جنھوں نے اُردو کے دامن کو عمدہ فن پاروں سے ثروت مند کیا۔ قدرت اللہ شہاب ؔ ، مسعود مفتی ، الطاف گوہر ؔ ، مصطفی زیدی ؔ ، طارق محمود ، اوریا مقبول جان ، شوکت ہاشمی ، شوکت علی شاہ اور کئی دیگر معتبر نام۔ ان میں ایک خوبصورت اضافہ سید رئیس عباس زیدی کا ہے۔ ان کی اولین تصنیف ’’ شام وسحر کے درمیاں ‘‘ ایک خود نوشت سوانح عمری ہے۔ اسے چھوتے ہی فوراً’’ شہاب نامہ ‘‘ __ اور ’’ اجنبی اپنے دیس میں ‘‘ کاخیال آتا ہے لیکن زیدی کے مشاہدات وتجربات بھی اپنے ہیں اور اسلوب بیان بھی ۔ عاجزی میں افسری اور افسری میں عاجزی رکھنے والے اس لکھاری میں بڑا ادیب بننے کے سارے قرینے موجود ہیں۔ ایک طالب علم سے پروفیسر ادبیات ،تک ایک اسسٹنٹ کمشنر سے سیکرٹری تک اور جھنگ ، رحیم خان لاہور سے یورپ اور کینیڈا تک کے مشاہدات وتجربات کو کمالِ اختصار اور دلچسپی کے ساتھ بیان کیا ہے۔
مصنف نے رومانوی پیرائے میں ان تمام لوگوں کو اپنے تجربات ومشاہدات میں شامل کیا ہے۔ جنھوں نے گاؤں کی فطری فضاؤں کو دیکھا ہو۔ طلب علم کے لیے شہروں کا رخ کیا ہو ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سنہرے خواب دیکھے ہوں ، ’’ ٹین ایج کرش‘‘ کا مزہ چکھا ہو ، سول سروس میں کامیابی حاصل کی ہو اور پھر اسسٹنٹ کمشنر سے سیکرٹری کے گرم وسرد زمانے چکھے ہوں اور ’’ عام آدمی ‘‘ سے ’’ بڑا آدمی ‘‘ بننے تک مراحل طے کیے ہوں۔
شوکت علی شاہ کہتے ہیں :
’’
یہ آپ بیتیوں میں ایک گرانقدر اضافہ ہے۔ زیدی کا شمار عمدہ اور نفیس انسانوں میں ہوتا ہے۔ انھیں احباب، سول سروس کا سادھو ، بھی کہتے ہیں۔ ان کی مثال تپتے ہوئے صحرا میں ایک شجر سایہ دار کی ہے۔ ‘‘
نستعلیق پبلشرز لاہور کے باذوق پبلشر ، سفرنامہ نگار اور شاعرحسن عباسی نے اس کتاب کو نہایت سلیقے سے شائع کیا ہے۔
----
مبصر : ڈاکٹر مختار احمد عزمی
کیا صورتیں ہوں گی از : پروفیسر شہباز علی
وطن عزیز میں موسیقی پر لکھنے والے اصحاب کو چند بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے : اول وہ جنھوں نے ذاتی دلچسپی کی بنیاد پر کسی نہ کسی حد تک فن موسیقی کی تعلیم حاصل کی لیکن بوجوہ ریاض اور پبلک پرفارمنس جاری نہ رکھ سکے اور اس شعبے میں تصنیف و تالیف ان کا تخصص قرار پایا۔ ان اصحاب میں جناب رشید ملک (تمغۂ حسن کارکردگی بعد از مرگ) اور جناب سعید ملک سر فہرست ہیں؛ دوم وہ جنھوں نے موسیقی سیکھنے کے بعد ہر قسم کی سماجی اور مالی دشواریوں کے باوجودفن کی دنیا میں خود کو بطور گائیک منوایا اور ’’استاد ‘‘ کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور متعددمعیاری کتب تالیف کیں۔ ایسے اصحاب میں استاد بدرالزماں (تمغۂ حسن کارکردگی) اور قاضی ظہور الحق کے نام اہم ترین ہیں؛ سوم چندایسے ’’فاضل‘‘ اصحاب بھی ہیں جو اپنے تئیں فاضل بہ معنی learned خیال کرتے ہیں تاہم اُن کی تحریریں پڑھ کر سنجیدہ قاری انھیں فاضل بہ معنی extra سمجھتا ہے اور معروف انگریزی شاعر الیگزنڈر پوپ ( ۱۶۸۸ء۔۱۷۴۴ء) کے الفاظ میں بے اختیار کہہ اٹھتا ہے : Fools rush in where angels
fear to tread
پروفیسر شہباز علی کا شمار بھی اُن معدودے چند مردانِ با ہمت میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے شوق ، محنت اور لگن سے نہ صرف اپنے عہد کے جید اساتذہ سے عملی موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی بلکہ ساتھ ہی اس پر تصنیف و تالیف کو بھی آگے بڑھایا۔ حال ہی میں آپ کی نئی کتاب’’ کیا صورتیں ہوں گی‘‘ شائع ہوئی ہے جس میں انھوں نے برصغیر کی موسیقی پر چند ماہرین کے لکھے ہوئے ’’معلومات افزا اور نایاب مضامین‘‘ کو بہ حسن و خوبی جمع کیا ہے ۔ اس سے پہلے سر سنسار کے نام سے موصوف کی پہلی کتاب۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی تھی جو متعدد کلاسیکی اور نیم کلاسیکی فنکاروں کے فن و شخصیت پر لکھے ہوئے اُن کے اپنے مضامین کا مجموعہ تھی ۔ مستند معلومات اور دلکش انداز تحریر والی اس کتاب کو محکم�ۂ ثقافت و امور نوجواناں حکومت پنجاب کی طرف سے ۲۰۰۷ء میں خصوصی انعام سے بھی نوازا گیا۔ نیز اِسی برس یعنی ۲۰۰۷ء میں اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہونااس امر کی دلیل ہے کہ ہمارے ہاں موسیقی پر لکھی گئی معیاری کتب کی مانگ بہر حال موجود ہے ۔
کسی علم یا فن کے حوالے سے اہم مضامین کی ترتیب و تدوین یا محض جمع آوری بھی ایک علمی خدمت ہے لیکن ہمارے ہاں عموماً اسے کمتر درجے کا علمی کام قرار دے کر اُس جائز اہمیت سے بھی محروم کردیا جاتا ہے جس کا یہ کام ، اگر معیاری انداز میں انجام دیا گیا ہو ، بجا طور پر حقدار ہوتا ہے ۔ پروفیسر شہباز علی برصغیر کی موسیقی پر اردو اور انگریزی زبانوں میں لکھی گئی اہم کتب پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اُن کے تبحر علمی سے اندازہ ہوتا ہے کہ موسیقی کے موضوع پر اِن زبانوں میں لکھی ہوئی شاید ہی کوئی کتاب اُن کے مطالعہ سے بچ رہی ہو ۔ بیسویں صدی کے دوران اردو زبان میں لکھی گئی چند اہم کتب سے وقیع مضامین کا انتخاب کر نے کے بعد انھیں کتابی صورت میں یکجا پیش کر کے شہباز صاحب نے قارئین اور محققینِ موسیقی دونوں کے لئے ایک اہم علمی خدمت انجام دی ہے جس کے لئے وہ بجا طور پرمبارکباد کے مستحق ہیں۔
زیر نظر کتاب’’ کیا صورتیں ہوں گی ‘‘میں گذشہ صدی کے پانچ اہم مؤ لفین خان محمد افضل خان، ایم اے شیخ ، رفیق غزنوی ، قاضی ظہور الحق اور شاہد احمد دہلوی کے برصغیر کی موسیقی کے مختلف پہلوؤں پر لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے جو اُن حضرات کی اپنی کتب یا کسی مجلے میں شائع ہوئے تھے ۔ ان کتب یا مجلات کی تاریخ اشاعت سے اندازہ ہوتا ہے ان کی تألیف کا زمانہ تقریباً ستر برس پر محیط ہے۔ یوں ہمیں مرتب کی ژرف نگاہی کی بھی داد دینا پڑتی ہے کہ وہ اپنے گہرے مطالعے کی بنا پر ستر برس کے عرصے میں شائع ہونے والی سینکڑوں نہیں تو درجنوں کتب میں پانچ انتہائی اہم مضامین منتخب کر کے قارئین موسیقی کے لئے یکجا پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
کتاب کا عنوان’’ کیا صورتیں ہوں گی‘‘ اس میں شامل ایک مضمون سے لیا گیا ہے جو مرتب کے استاد گرامی قاضی ظہورالحق کی تالیف ہے ۔ برصغیر کی موسیقی کے حوالے سے ’’گرو شک پرم پرا‘‘ کی ایک تہذیبی و ثقافتی حیثیت مسلم ہے ۔پروفیسر صاحب نے بھی اسی روایت کی پیروی میں اپنے تعلیمی و اشاعتی ادارے کا نام ’’قاضی ظہورالحق سکول آف اورئینٹل میوزک ‘‘رکھا ہے اور زیر نظر کتاب اس ادارے کے اشاعتی پروگرام کی غالباً پہلی کڑی ہے ۔ کتاب میں شامل قاضی صاحب کا مضمون کلاسیکی اور فلمی موسیقی کی دنیا سے اُن کی پچاس سالہ وابستگی کی یادداشتوں پر مبنی ہے اور بعض شخصیات ، واقعات ، فنی مباحث اور موسیقی کے بارے میں تاریخی اور جغرافیائی معلومات کے حوالے سے خاصے کی چیز ہے ۔
قاضی صاحب اور محمد افضل خان کے مضامین کے علاوہ کتاب میں شامل بقیہ تینوں مضامین برصغیر کی موسیقی کی ترویج میں مسلمانوں کا کردار از ایم اے شیخ ، کلاسیکی موسیقی پر ہندوستانی یا پاکستانی لیبل از رفیق غزنوی اور پاکستانی موسیقی : مسلمانوں کی موسیقی کی روشنی میں از شاہد احمد دہلوی ، جیسا کہ اُن کے عناوین سے ظاہر ہے ، کم و بیش ایک ہی موضوع کا احاطہ کرتے ہیں ۔ یہ موضوع قیام پاکستان کے بعد پہلی ڈیڑھ دو دہائیوں تک یا بہ الفاظ دیگر جب تک محترم زیڈ اے بخاری کسی نہ کسی حیثیت میں ثقافتی یا نشریاتی اداروں سے وابستہ رہے ، خاصا گرم رہا۔ زیر نظر کتاب میں شامل رفیق غزنوی اور شاہد احمد دہلوی کے مضامین تو کم و بیش انہی برسوں میں لکھے گئے جب کہ ایم اے شیخ صاحب کا مضمون قدرے بعد کی تالیف ہے ۔ اگر چہ ان تینوں مضامین میں بالخصوص اور اگر بقیہ دو مضامین بھی شامل کرلیں تو بالعموم کیا صورتیں ہوں گی میں تکرارِ مطالب کا احساس ہوتا ہے لیکن موضوع کی اہمیت کے پیش نظر قابل قبول ہے ۔ رفیق غزنوی کے مضمون کا اصل عنوان پاکستانی موسیقی کا ڈھونگ تھاجسے مرتب نے بدل کر کلاسیکی موسیقی پر ہندوستانی یا پاکستانی لیبل کے عنوان سے کتاب میں شامل کیا ہے ۔غزنوی صاحب کے مضمون کا لہجہ خاصا تند و تیز ہے جب کہ پاکستانی موسیقی : مسلمانوں کی موسیقی کی روشنی میں از شاہد احمد دہلوی کا لہجہ نسبتاً دھیما ہے جس کی جملہ وجوہات سمجھنا چنداں مشکل نہیں ۔ غزنوی صاحب نے زیڈ اے بخاری صاحب کو بجا طور پر تنقید کا نشانہ بنا یا ہے ۔ مزیدکئی اصحاب بشمول جناب احمد بشیر( بحوالہ آپ بیتی دل بھٹکے گا ) بھی اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈال چکے ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ ریڈیو پاکستان میں موصوف کے ماتحتوں اور کسی نہ کسی بہانے چیک کے خواہشمند آرٹسٹوں کے علاوہ کوئی بھی جناب زیڈ اے بخاری کے ’’نابغہ‘‘ اور’’ عبقری ‘‘ ہونے کا ڈھنڈورچی پہلے تھا ، نہ اب ہے ۔ نوزائیدہ مملکت میں ثقافتی پالیسیوں کی غلط بنیاد رکھنے والوں میں جناب بخاری سر فہرست ہیں۔
’’
کیا صورتیں ہوں گی‘‘ پر بحث سمیٹتے ہوئے یہ نشاندہی کرنا لازم ہے کہ یہ کتاب ’’ترتیب‘‘ کے زمرہ میں آتی ہے نہ کہ ’’تالیف‘‘۔ لہٰذا سرورق پر پروفیسر شہباز علی صاحب کا نام بہ طور ’’مرتب ‘‘ آنا چاہیے تھا نہ کہ بہ طور ’’مؤلف‘‘! اسی طرح صفحہ ۷ پر پروف ریڈنگ کی یہ غلطی بھی ضروررفع ہونے کے لائق ہے جہاں خان محمد افضل خان کو ’’ایم اے ، پی سی ایس‘‘ ہونا بتلایا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ متحدہ ہندوستان میں PCS یعنی Provincial Civil Services کے ساتھ ساتھ ایک اور کیڈر بنام PES یعنی Provincial Education Services بھی ہوتا تھا جس سے اُس دور کے بڑے نامور اساتذہ وابستہ رہے ہیں۔ خان محمد افضل خان بھی اُن میں سے ایک تھے ۔ امید ہے آئندہ ایڈیشن میں ان تسامحات کی اصلاح کر لی جائے گی۔
کتاب کے آ خر میں دی گئی فہرست کے مطابق موسیقی پر جناب شہباز علی صاحب کی ایک اور کتاب اسباق موسیقی بھی زیر اشاعت ہے ۔ ہمیں اس کتاب کا شدت سے انتظار رہے گا۔
-----
مبصر : ڈاکٹرمحمد اطہر مسعود
دھمی از: عزیز شاہد
’’دھمی‘‘ عزیز شاہد سرائیکی کے ان شاعروں میں سے ہیں جو بیک وقت سامعین کے دل میں بھی اترنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور کاغذ پر بھی ان کا کلام قاری کے ساتھ ہم کلامی کی پوری وقعت رکھتا ہے۔ چھٹی اور ساتویں دہائی میں سرائیکی شاعروں کی ابھرنے والی نسل میں عزیز شاہد ، اشعر لال فقیر ، رفعت عباس ، احمد خان طارق ، اقبال سوکڑی ، عاشق بزدار اور قیس فریدی کے اپنے اپنے اقتباسات ہیں۔ یہ سب شاعر مل کر اس زمانے میں پوری سرائیکی شاعری کی روایت کو بدل رہے ہیں اور اسے اس حد تک ثروت مند بنانے میں کامیاب ہوئے کہ پچھلی صدی کے آخری تیس چالیس برسوں کی شاعری کو برصغیر کی کسی بھی زبان کی شاعری کے بالمقابل رکھا جاسکتا ہے۔ یہ اور بات کہ سرائیکی شاعری کو حفیظ خان کے علاوہ کوئی اور دھنگ کا نقاد میسر نہیں آسکا جو اس پوری روایت کی معنویت کو لوگوں کے سامنے اجاگر کرسکتا لیکن یہ بات تو طے ہے کہ تخلیقی عمل کبھی بے ثمر نہیں رہتا۔ خواہ اسے نقاد میسر آسکیں یا نہ آسکیں۔
اس بھرپور تخلیقی روایت میں عزیز شاہد کا امتیاز وہ رومانوی شاعری ہے جس میں انھوں نے خواجہ غلام فرید ؒ کی آواز کو ایک نیا عوامی آہنگ بخشا ہے۔ عام طور پر کچھ دانشور نما ناقدین یہ کہتے رہتے ہیں (شاید اب انھوں نے اپنی رائے بدل لی ہو) کہ سرائیکی شاعری مضمون کی سطح سے لے کر لفظیات واظہار کے پیمانوں تک اُردو شاعری کی نقل یا مثنیٰ ہے۔ عزیز شاہد نے اپنے علاقے کے لوک رومان کو ایک نئی جہت دی ہے۔ عشق اور محبت کے جذبات اور عشق ومحبت کے واردات کے بیان میں انھوں نے اپنے وسیب کے اندر سے چیزیں برآمد کی ہیں۔ بے شک ان کی لفظیات کلاسیکی سرائیکی شعراء سے خاصی حد تک مختلف ہے لیکن شعر وادب کے قاری جانتے ہیں کہ ہر زمانے میں شعری لغت میں ایک تخلیقی تبدیلی بے حد ضروری ہوتی ہے۔ عزیز شاہد کا تخلیقی تجربہ اپنی زبان کا انتخاب اپنے گردوپیش سے حاصل کرتا ہے اور اس کی تشبیہات اور استعارات وکتابیات جو بے حد تازگی کے حامل ہیں اس کے اپنے وسیب میں بولی جانے والی عام بول کی زبان نے اپنا تخلیقی ربط ضبط تلاش کرتے ہیں۔ ’’ دھمی ‘‘ کے نام سے ان کے اب تک کے تمام شعری مجموعے اکٹھے کردئیے گئے ہیں۔ یہ سرائیکی ادب کی ایک بہت بڑی خدمت ہے کہ ایک اہم شاعر کا پورا کلام جمع ہوگیا ہے۔ اوپر میں نے جو باتیں کی ہیں عزیز شاہد کی نظموں کے اقتباسات ان باتوں کی گواہی دیں گے ۔
دل ہے ہک شاعر دا دل اے دل پیا دل از میندے
دل والیں کوں میڈا پیا دل دے زخم ڈکھیندے
دل والو دل حاضر ہے دل ، دل دے درد سنیندے
سوچو آخر کیوں کوئی ، پیا دل نیلام کریندے
دل ہے آخر ، دل جہی شئے ، دل کول کون وچیندے
کوئی دل گھندے بھئی دل
****
کئی پل بکھرتے دل توں بھلا یانہ تیں نہ میں
مل ہوں تاک سکھڑاں مونہہ الایا نہ تیں نہ میں
رس رنج تاں پئی ڈوہیں کوں مگر جان کیا وجہ
کیتا قبول پیار، پرایا نہ تیں نہ میں
یاریں وی انیویں سمجھے جو وسدے ہوں اساں
کیویں گزر دی پئی اے ڈسایا نہ تیں نہ میں
****
شالا کوسی وا نہ لگی
توں نے کر وسواس اساڈے
شہد توں مٹھے بول لباں تے
کوڑے اک احساس اساڈے
شاہد اتنیاں تنگ (ہتھکڑیاں )
کون ء ن دست شناس اساڈے
-----
مبصر: قاضی عابد
اُردو اور عصرحاضر(عالمی اردو کانفرنس کی روداد )
اُردو ہماری قومی زبان اور دنیا بھر میں رابطے کی زبان کے طور پر جانی جاتی ہے۔پاکستان میں اس کی ترویج وترقی کے لیے بہت سارے سرکاری،غیرسرکاری ادارے کا م کررہے ہیں۔آج کے اس دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اورمیڈیا نے ایک انقلاب پربا کردیاہے۔میڈیا کسی بھی معاشرے میں آئینہ کا کردارادا کرتا ہے۔معاشرے میں پھیلی ہوئی ناانصافیوں،ناہمواریوں کی نشاہدہی کرتاہے۔جس سے حکومت کو ان سے نمٹنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔
عصرحاضرمیں بہت ساری تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔اب یہ بات بھی حقیقت بنتی جارہی ہے کہ اب جنگیں میدانوں میں نہیں تہذیبی میدانوں میں لڑی جائیں گی اوران تہذیبی سطحوں پرلڑی جانے والی جنگوں میں زبانوں کا کردارکلیدی ہوگا۔یہی وہ فکری پس منظرتھا جس کے تحت ۳۰۔ستمبرتایکم اکتوبر ۲۰۱۱ء کو ایکسپریس میڈیا گروپ نے کراچی میں’’اردو اورعصرحاضر‘‘کے عنوان کے تحت دو روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا۔اس کانفرنس میں دنیا بھر کے اہل دانش وفکراورزبان وادب کی نابغہ روزگار شخصیات کو ایک جگہ یکجا کیا گیاجس کا مقصداردو کے مقام ومرتبے کو دورحاضرکی عصری حقیقتوں کے پس منظرمیں سمجھا جائے ۔
ایکسپریس میڈیا گروپ نے اس کانفرنس کے انعقاد کے ساتھ ساتھ ایک کاوش یہ بھی کی کہ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے آئی ہوئی اہم علمی وادبی شخصیات سے ہونے والی گفتگوکو کتابی شکل میں عام قارئین تک پہنچانے کی ایک کامیاب سعی کی تاکہ وہ لوگ بھی اس کانفرنس میں ہونے والی تمام کارروائی سے مستفید ہوسکیں جو اس کانفرنس میں شامل نہیں تھے۔اس دوروزہ کانفرنس میں کل چھ اجلاس ہوئے ۔پہلا اجلاس جس کا عنوان تھا’’اردو کے عالمی مراکزکی صورتحال ‘‘جس کے مقررین میں؛محمد کبیرخان (متحدہ عرب امارات)،ڈاکٹرپروفیسرخلیل طوق ار (جمہوریہ ترکی)،رضاعلی عابدی (برطانیہ)،فیصل ہاشمی (ناروے)،اشفاق حسین (کینیڈا ) زبیررضوی (بھارت)شامل ہیں۔
دوسرے اجلاس کا عنوان تھا’’اردو کی ترویج میں ذرائع ابلاغ کا کردار‘‘اس میں احفاظ الرحمن (کراچی ) ، امینہ سید(کراچی)،زبیررضوی (بھارت)،امجداسلام امجد (لاہور)، غازی صلاح الدین (کراچی)، اشفاق حسین (کینیڈا) رضاعلی عابدی (انگلینڈ)،آغا ناصر(اسلام آباد)نے اپنے اپنے مقالے پڑھے۔
تیسرا اجلاس ’’اردو کی ہم ر شتگی پاکستانی زبانوں کے ساتھ‘‘ کے موضوع پر تھا۔ اس میں سلیم راز (پشاور)اور بشریٰ اعجاز (لاہور)،نورخان محمد حسینی (کوئٹہ) ، ڈاکٹرفرحت قاسمی (حیدرآباد)،ڈاکٹرنجیب جمال (بہاولپور ) ، ڈاکٹرسلیم اختر(لاہور) نے فکر انگیز مقالات پیش کیے۔’’عالمی ادب ،عصری تقاضے اوراردو کی صورتحال ‘‘، ’’اردو ادب میں خواتین کی حصہ داری ‘‘ ، ’’اردو کو درپیش بنیادی مسائل ۔املاء رسم الخط ،کمپوٹر‘‘جیسے موضوعات پر دوسرے دن کے اجلاس میں جیلانی بانو (انڈیا)،ڈاکٹرسیدتقی عابدی (کنیڈا ) ، انتظارحسین (لاہور)، زاہدہ حنا(کراچی)،ڈاکٹرسلیم اختر(لاہور)، زبیررضوی (بھارت)،ڈاکٹرتھانگ منگ چنگ (چین ) ڈاکٹرشکیل عادل زادہ (کراچی)نے اپنے مضامین پیش کیے جن سے محققین استفادہ کرسکیں گے۔
اس کانفرنس میں ہو نے والے مشاعرے نے کانفرنس کو چار چاند لگادیے جس میں پاکستان اوردوسرے ممالک سے آئی ہوئی شخصیات نے اپنا اپنا کلام سنا کر حاضرین کانفرنس کے دل موہ لیے۔ اس مشاعرے میں جناب جاویدضیاء ،علی حسین ،خالدحسین ،فاطمہ حسن ،سورج نارائن ، ڈاکٹرخلیل طوق ار،عباس تا بش ،بشریٰ اعجاز ،عطاالحق قاسمی،امجداسلام امجد شامل ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ کی یہ کتاب میڈیا سے متعلق قارئین کے ساتھ ساتھ محققین اُردو ادب کے ایک وسیع حلقے میں بھی پذیرائی حاصل کرے گی اس کے ساتھ ساتھ میڈیا سے متعلق دیگر گروپس کے لیے ایک تحریک بھی ثابت ہوگی۔ کتاب ۲۰۱ صفحات پر مشتمل ہے۔
-----
مبصر : محمد انور سرور
تمہارا نام لکھنا ہے از : بہار النساء بہار
بک ہوم ، لاہور۔ ۲۰۰۸ء
یہ کتاب بہار النساء بہار کے شاعرانہ فنِ کمال پر مبنی ہے جو ان کی شاعری کا ایک ایسا گلدستہ ہے جس کے ہر پھول کی علیحدہ علیحدہ پہچان اور الگ خوشبو و شناخت ہے ۔
بہار کی اردو شاعری کا پہلا مجموعہ ’’عکسِ بہار ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے ۔’’تمھارا نام لکھنا ہے ‘‘ ان کا دوسرا اُردو شعری مجموعہ ہے۔جس میں ان کی نظمیں ، غزلیں اور کچھ گیت شامل ہیں ۔بہار کی شاعری میں حقیقی عورت بولتی ہے۔ اس میں محبت کا رنگ بھی چھلکتا نظر آتا ہے۔ہر شعر سلیس لہجے میں ہے کہیں تصنع اور بناوٹ نہیں ہے ۔ بہار نے بھی کشور ناہید ، فہمیدہ ریاض اور پروین شاکر کی طرح اپنے لہجے میں بات کی ہے یہی وجہ ہے کہ مادری زبان نہ ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اردو میں اچھی اور سچی شاعری کی ہے ۔ اُن کی نظمیں اپنا ایک خاص انداز اور تاثر رکھتی ہیں ،اُن کی طویل نظمیں بھی ایسی ہی کیفیات کی حامل ہیں ۔
بہار النساء کو ان کی سرائیکی شاعری بالخصوص ’’کافی ‘‘ کی صنف کے حوالے سے سرائیکی وسیب کی ملکہ کہا جاتا ہے مگر درحقیقت اُن کی اُردو شاعری پر دسترس سے بھی یہ امر ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں سخنوری میں ملکہ حاصل ہے ۔اُن کی یہ کتاب ۸۶ نظموں ، ۷ گیتوں اور ۳۳ نثری نظموں پر مشتمل ہے جن کے مطالعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے اِس ورثے کی نہ صرف بہترین Custodian ہیں بلکہ اِس خزانے میں خاطر خواہ اضافہ کر رہی ہیں ۔ اُن کا کلام اپنے عہد کی بھرپور عکاسی کرتا ہے ۔اِس کتاب میں شاعرہ کے دادا جناب صابر ملتانی ، اُن کے والد محمد منیر الدین تمنا اور خود اُن کی شاعری و شخصیت کے بہت سے پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے جس سے قارئین پر اُن کے اسلوب اور خود اُن کی ذات کے بارے میں شناسائی و آگاہی حاصل ہوتی ہے ۔
بہار النساء اُردو ، سرائیکی اور پنجابی زبان میں بیک وقت شاعری کرتی ہیں۔مثلاً
ایک ہی منظر میں آخر اِس قدر کیوں ہے تضاد
عکس ہے اِس میں کسی کا اور کسی کا رنگ ہے
بہار النساء بہار کمٹمنٹ کی شاعرہ ہیں وہ تمام اصنافِ سخن میں اپنا مخصوص اور منفرد لب و لہجہ رکھتے ہوئے بھی روایت سے جڑی ہوئی ہے ۔اُن کی غزلیں ، نظمیں ، گیت ، ملی نغمے اور کافی سب ہی میں اُن کا اپنا مخصوص رنگ و آہنگ دکھائی اور سنائی دیتا ہے مگر یہ رنگ و آہنگ کلاسیکی ادب کی خوبصورتی اور نغمگی سے کہیں بھی متصادم نظر نہیں آتا ہے ۔ زیر نظر مجموعہ میں اُن کی ایک خوبصورت نظم ’’تمھارا نام لکھنا ہے ‘‘ ہی سے معنون ہے ۔ جس میں محبوبیت ایک خاص اٹھالائیت کے ساتھ رومان پرور خواہشات کا تقاضا کرتی نظر آتی ہے اور یہی رومان پروری نسائیت کا خاصہ ہے جو شاعرہ کو اُن کے معاصرین سے منفرد کرتا ہے ۔ اسی طرح ان کی ایک نثری نظم ’’ Economics‘‘ملنے بچھڑنے جیسے احساسات ، اپنے وجود کی کم مائیگی کا بیک وقت اظہار کرتی ہے ۔ اور ہم سب اپنے اپنے حساب کتاب میں کس طرح خود ہی ایک دوسرے کو خود ہی پلس اور مائنس کر جاتے ہیں بغیر ایک دوسرے کو جانے اور پرکھے ....’’میر حسن میرے بھائی‘‘اپنے بہنوئی کے بارے میں لکھی ہے جن کی موت دیار غیر میں ہوئی ہے۔اِس میں ان کی وفات کا دکھ اور کرب بڑی شدت سے بیان کیا گیا ہے ۔
شاعری انسانی باطن کا سچا اظہار ہوتی ہے ادب کے دیگر میڈیم ذات کو پوشیدہ رکھ کر بہترین تخلیق اور کرافٹ مین شپ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔ صرف شاعری ہی ایسا میڈیم ہے کہ جہاں جھوٹ خود اعلان کرتا ہے کہ لکھے گئے الفاظ سچے ہیں یا جھوٹے و بناوٹی مگر بہار النسأ کی شاعری میں یہ اعلان نامہ کہیں نظر نہیں آتا ہے۔ اُنھوں نے جو الفاظ بھی لکھے پوری سچائی سے ان لفظوں کے انگاروں پر چلتے ہوئے وہ اذیتیں اپنی ذات میں بھی محسوس کی ہیں جو بلاشبہ اُن جیسا حساس تخلیق کار ہی کر سکتا ہے۔ اُن کا یہ شعری مجموعہ بھی ان کی دوسری کتابوں کی طرح یقیناً قبولیت کی سند حاصل کرے گا اور اُن کے تخلیقی سرمائے میں اضافے کا سبب بنتے ہوئے اہلِ ذوق کی پیاس بجھائے گا ۔
پاکستانی زبان و ادب پرنائن الیون کے اثرات
ناشر: ہائر ایجوکیشن کمیشن ، اسلام آباد
یہ مقالات دراصل پشاور یونیورسٹی کے باڑہ گلی سمر کیمپ کے زیر اہتمام منعقدہ سیمی نار میں پیش کئے گئے جنھیں سہیل احمد نے مرتب کیا ہے۔
۱۱/۹ کے ادب پر اثرات کے حوالے سے ہندوستان و پاکستان میں منعقد ہونے والا یہ پہلا سیمینار ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ اِ س میں صرف اُردو زبان و ادب کو ہی موضوع بحث نہیں بنایا گیا بلکہ ۱۱/۹ کے ادب پر اثرات کا تجزیہ کرنے کے لئے اُردو کے ساتھ ساتھ پاکستان کی دیگر زبانوں مثلاً پشتو، ہندکو ، پنجابی ، بلوچی ، سرائیکی اور سندھی کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔
۱۱/۹ کا واقعہ جس نے پوری دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے دنیا کی سیاست، سماجیات، معیشت، اخلاقیات اور اقدار تک کو نئے مرحلے میں داخل کر دیا ہے اور کچھ پرانے منطقوں کی نفی کرکے نئے منطقوں کو جنم دیا ہے جن کاتعلق اس واقعہ کے بعد بننے والے نئے ماحول ، نئے چیلنجز اور نئے المیوں کے ساتھ ہے ۔ ۱۱/۹ کے واقعے پر بے شمار کتابیں لکھی گئی اور بہت سی جامعات میں سیمینار منعقد کئے گئے جن سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ یہ واقعہ رونما تو ہوا مگر ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت امریکی عفریت نے اسلامی دنیا کو ہڑپ کرنے کی کو شش کی ہے مگر اسے ہضم کر لینا بعید از قیاس ہے ۔ زندگی کے دیگر شعبوں مثلاً سیاسیات ، سماجیات ، معاشیات ، تہذیب و تمدن کے ساتھ ساتھ ادب بھی اِس واقعہ سے متاثر ہوا ۔
اِس کتاب میں شامل مقالات میں پوری دنیا کی زبانوں اور اُن کے ادب میں موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں اُن کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے . کیونکہ ادب محض زندگی کا ایک شعبہ نہیں بلکہ پوری زندگی کا آئینہ اور اقدار کی تبدیلی کا نقش گر ہے ۔ اِس کتاب میں کل ۲۱ مقالات پیش کئے گئے ہیں جن میں اُردو غزل ،نظم اور شاعری پر ۱۱/۹ کے اثرات ، اُردو ناول و افسانے پر ۱۱/۹ کے اثرات کے ساتھ ساتھ پشتو ، ہندکو ، پنجابی ، سرائیکی ، سندھی ، بلوچی نظم غزل اور ادب پر اس واقعہ کے اثرات کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے ۔ اِس واقعے کے بعد میں پیدا ہونے مسائل میں پاکستان نے چونکہ فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کیا ہے ۔ اِس لئے ہماری زبانوں اور اُس میں تخلیق ہونے والے ادب نے اِس واقعے کا گہرا اثر قبول کیا ہے، ادب میں نئے اشارے ، نئے استعارے ،نئی علامتیں رائج ہونے لگیں جس نے ہمارے ادب کو نئی جہتیں عطا کی ۔مقالات کے مطابق ۱۱/۹ کے واقعات کے سب سے زیادہ اثرات اردو غزل ، نظم اور شاعری پر مرتب ہوئے ۔اُردو نظم ، غزل اور شاعری میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مزاحمت ، انصاف طلبی اور امن پسندی پر مشتمل جو نئے خیالات بہ تکرار قلمبند ہو رہے ہیں اُن کی شاخیں اِسی سانحہ سہ پھوٹی ہیں ۔ اِن مقالات کے مطابق یہ سانحہ’’ خوئے بدر ابہانہ بسیار ‘‘ ، کے مصداق دنیا بھر میں خصوصاً اسلامی دنیا میں انتشار پیدا کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اِس المیے کا اظہاربین الاقوا می علاقائی اور ذاتی سطحوں پر شاعروں کی نظموں ، غزلوں میں کہیں واضح اور کہیں بین السطور جھلکتا ہے ۔اِس کتاب میں شامل مقالات کو قارئین اپنے جسم پر ہی نہیں بلکہ اپنی روح میں محسوس کریں گے۔ اُردو غزل ، نظم ہر دور میں اظہارِ بیان کا پسندیدہ اور مرغوب وسیلہ رہی ہے۔ ۱۱/۹ کے واقعہ اور اُس سے پیدا ہونے والے حالات سے مسلسل اثر پزیر ہو رہی ہے ۔ اُس دور میں شائع ہونے والے شعری مجموعوں ، علمی و ادبی رسائل و اخبارات اور جرائد میں چھپنے والی ہزاروں نظموں غزلوں میں خوف و ہراس ، تباہی و بربادی ، قتل و غارت گری ، ہجرت و مسافرت ، ہزیمت و پامردی ،شکست و ریخت کے ساتھ ساتھ ایک ایسے روشن اور پر امید مستقبل کے خواب بھی نظر آتے ہیں جو ہر حق سرشت اور صدق دوست اہلِ قلم کا اثاثہ ہوتے ہیں اور یہ کہ ۱۱/۹ کے بعد پاکستانی شاعری فکری طور پر جن موضوعات سے آشنا ہوئی ہے وہ سب سماجی حقائق کے مربوط حوالے سے عبارت ہیں جن میں بڑی مملکتوں کی بالا دستی کی خواہشوں سے پیدا ہونے والے دکھ ہیں جن میں اِستعمار کی طرف سے چھوٹے ملکوں کی تہذیبی ، ثقافتی قدروں ، مذہبی روایات اور صنعتی و اقتصادی ترقی کو روکنے کی ہمہ جہت سازشیں شامل ہیں ۔
بادشاہی کا تمہیں شوق مبارک لیکن
چھن نہ جائے کہیں دربار یہ ڈر لگتا ہے
حق کی پاداش میں منصور کی مانند آزاد
چڑھ نہ جائے تو سرِ دار یہ ڈر لگتا ہے
کتاب میں شامل چھٹا اور ساتواں مقالہ ’’اُردو ناول اور افسانہ پر ۱۱/۹ کے اثرات ‘‘ کے بارے میں ہے۔
اُردو ناول میں سب سے نمایاں ناو ل جس میں ہمیں اس واقعے کے واضح اثرات نظر آتے ہیں وہ مستنصر حسین تارڑ کا ناول ’’ قلعہ جنگی ‘‘ ہے جو اپنے نام سے لے کر اپنے پورے تخلیقی پھیلاؤ تک اس واقعہ کے گہرے اثرات لئے ہوئے ہے ۔اِس مقالے میں اِس ناول کے بارے میں بڑی تفصیل سے بیان کیاگیا ہے اور اِس One act play کے تمام کرداروں کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔ اُس دور میں بہت سے ناول اور افسانے لکھے گئے مگر تاحال اس واقع کے حوالے سے کوئی اتنا بڑا ناول یا افسانہ نہیں آیا جو اِس واقعے کے پگھلتے کھولتے لاوے کو کوئی تخلیقی شکل دے سکے ۔اِ ن مقالات میں اُردو ادب میں گیارہ ستمبر کے اثرات کو پاکستانی افسانے میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اِس میں ممتاز مفتی کا افسانہ ’’شناخت ‘‘ نیلو فر اقبال کے ’’اوپریشن مائس‘‘ اور’’ سرخ دھبے ‘‘ کا حوالہ ا س مقالے میں پیش کیا گیا ہے جو امریکی انتقام کی کہانی کی بڑی واضح عکاسی کرتے ہیں ۔ اِسی طرح باقی مقالات پشتو ، پنجابی ، سرائیکی ، ہندکو ،سندھی ، بلوچی اور دوسری زبانوں کے ادب پر ۱۱/۹ کے اثرات کا جائزہ پیش کرتے ہیں ۔
۱۱/۹کے سانحے نے مسلم دنیا کے لئے کافی مشکلات پیدا کیں بطور خاص پشتون قوم اِس کا نشانہ بنی ، بے تحاشا بم گرائے گئے ، گھروں کو تباہ کیا گیا اسی لئے پشتو ادب اس سانحے سے سب سے زیادہ متاثر ہوا اور پہلا ردِ انقلاب یعنی جہادی ادب منظر عام پر آیا ۔ اِسی طرح پشتو ناول و افسانے کے علاوہ دوسری زبانوں کے ادب پر اس واقعے کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں ۔ ادارہ ادبیات اُردو فارسی و لسانیات جامعہ پشاور کا اِس سیمینار کے ذریعے اِن غیر معمولی واقعات کو اُس لمحہ فکریہ سے آگاہ کرناتھا اور امریکی ظلم و ستم ، جبر و استبداد ، بربریت اور فسطائیت سے قارئین کو آگاہی دلانا ہی مقصود ہے۔ سہیل احمد نے ان مقالات کو مرتب کر کے کتابی شکل میں شائع کروا کے بلا شبہ قارئین کو ۱۱/۹ کے حوالے سے بہت سے پہلوؤں کو اُجاگر کیا ہے۔
خوابِ دگر از : الیاس بابر اعوان
ناشر رُمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز ، راولپنڈی۔۲۰۱۲ء
اِک خواب دگر تھا مری تعبیر سے پہلے
یہ عالمِ امکاں مری تعمیر سے پہلے
آج کل ہم جس غیر یقینی عصری صورت حال اور منفی رویوں کی آب و ہوا میں سانس لے رہے ہیں اِس میں کوئی بھی سچا تخلیق کار یہ ضرور سوچتا ہے کہ وہ اپنے ہونے کا یقین خود کو دلائے یا پھر اِن بے اماں لمحوں کو جنہیں خود اپنے وجود کی کہیں سے بھی ضمانت نہیں مل رہی ، وہ تہذیبی اقدار کا نوحہ لکھے یا پورے سچ کی تلاش میں دشواریوں ، کٹھنائیوں کے جان لیوا سفر پر چل نکلے ۔ ایسے ہی ایک ہلکان کر دینے والے سفر کا مسافر الیاس بابر اعوان بھی ہے جس کی ہر غزل میں جہاں سفر کا استعارہ جان کو آتا ہے وہاں درودیوار اور گھر کی علامتیں بھی کسی بند مکان کے درِ حیرت پر ایستادہ نظر آتی ہیں ۔الیاس بابر اعوان کی ساری تخلیق ، ریاضت اور قوت ان راستوں کی دین ہے جن پر چلتے ہوئے وہ کسی بھی لمحے بے مزا نہیں ہوتا ۔ وہ سفر کو زندگی اور زندگی کو طلسمِ سفر گردانتاہے ۔ سفر ، حرکت ، چلنا ، قافلہ ، رستے ، مسافر اور وقت سے وہ اپنی شاعری کا منظر نامہ تشکیل دیتا ہے مگر اس کے باوجود وہ گھر کا قیدی ہی محسوس ہوتا ہے اور اِس غیر محسوس مراجعت کا احساس اُس کی شاعری میں کہیں کہیں نمایاں بھی ہو جاتا ہے ۔
رہتا ہے رگوں میں کوئی بے تاب مسافر
رکھتی ہے مجھے گردشِ خونناب ، مسافر
انکارِ محبت کی سزا کاٹ رہا ہوں
رکھتے ہیں سدا مجھ کو ترے خواب ، مسافر
الیاس بابر اعوان کی آمد سے گویا اُردو شاعری کو نئی نسل کی توانا اور با شعور آواز میسر آگئی ہے جس نے شاعری کو کھلی فضا میں سانس لینے کا ہنر سکھایا ہے ۔اور اپنے جمالیاتی احساس کی لَو کو اونچا کرتے ہوئے وہ مسلسل پورے سچ کی تلاش میں ایک نہ ختم ہونے والے راستے پر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے ، اُردو اور انگریزی زبان و ادب سے آشنا الیاس بابر اعوان جب پورے سچ کی تلاش میں نکلتاہے تو لگے بندھے رستوں پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے لئے نئے راستے ہی نہیں سفر بھی تخلیق کرتا ہے ۔
ہم ایسے بادبان فطرت کہ ہاتھوں کی لکیروں میں
سمندر کے جزیروں کا سفر تخلیق کرتے ہیں
الیاس بابر اعوان کی شاعری میں مٹتی ہوئی مقامی ثقافت اور اخلاقی اقدار کی تصویر نمایاں نظر آتی ہے ۔ اُن کی شاعری کو آج کا عہد آشوب کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ روایت کے احترام میں گندھا ہوا اُن کا جدید لہجہ حیران کر دینے والا ہے ۔ اس کتاب میں اُن کی ادبی وابستگی اور عصری شعور کے ساتھ ساتھ اُن کا تخلیقی وفور بھی شامل ہے جو آج کی غزل کو معتبر رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ اُن کی غزل میں رومانیت کی صحت مند فضا اپنے منفرد اور مختلف رنگوں میں دھنک بکھیرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جو اُن کے کامل جذبوں میں سلیق�ۂ اظہار اور اس کی محبتوں کے پھولوں میں مہکار بھر دیتی ہے اور یہی وہ بات ہے جو اُن کو اپنے عصری شعرا میں نمایاں کرتی ہے ۔
کب تلک درد اکیلے میں سنبھالا جائے
اِک بدن اور مری رُوح میں ڈالا جائے
فیصلہ بعد میں ہو جائے گا سالاری کا
پہلے گرتے ہوئے پرچم کو سنبھالا جائے
ریشم کی ڈوریوں کی طرح باہم اُلجھی لہروں میں ایک عکس کی مانند سفر کرتے اور گریہ کرتے ، چاک پر نمو کرتے اور ہر تخلیق سے نامطمئن ساعتوں میں وقت گزارتے بابر اعوان اپنی شاعری میں کئی حالتوں میں جھلکتا ہے ۔ فاصلوں کے درمیان ہونے ، مزاجوں کا فرق ہونے اور پس منظر و پیش منظر مختلف ہونے کے باوجود بھی ایک ذات کا مرکزہ دوسرے وجود کے مرکزے سے جُڑ جاتا ہے۔ بہت سی شعری شریانیں اور دکھتی رگیں ایک دوسرے سے پیوست ہوتی ہیں ۔ اور ایک تخلیقی نا آسودگی ، عدم اطمینان اور اپنے خدوخال کو پھر ایک بار شکل دینے کی خواہش مستحسن بھی ہے اور ہر اُس تخلیق کار کے لئے اطمینان بخش علامت بھی ہے جو ابھی چاک پر عمل در عمل گزر رہا ہے ۔اُن کے کلام میں فصاحت ، بلاغت اور فکر کی تازگی موجود ہے۔ اُن کے اشعار سیدھے قاری سے اپنا رشتہ قائم کر لیتے ہیں ا لیاس بابر اعوان نے زیادہ تر اپنا اظہار غزل ہی میں کیا ہے اور اپنے عہد کے تقاضوں اور سچائیوں کا مکمل ادراک رکھتے ہوئے انھوں نے روایت کے برعکس جدید رویوں اور رحجانات کو اپنایا ہے اور اس عہد کی سیاسی کشمکش ، جبر و استحصال کو علامتوں اور استعاروں میں برت کر ایک نئی صورت گری کی ہے ۔ وہ ایک نمایاں ، توانا اور قدرے مختلف آواز و انداز کے ساتھ اپنے گرد و پیش کا منظر پیش کرتا ہے ۔غزل اگرچہ ایسی صنفِ سخن ہے کہ شاعروں کی ہمہ تن سپردگی کے باوجود بہت سی جگہ اپنا آپ شاعر کے سپرد نہیں کرتی لیکن الیاس بابر اعوان اس کڑی صنفِ سخن میں بھی کامیاب و کامران نظر آتے ہیں اور ادبی میدان میں اُن کی شاعری یقیناہم سب کو سرشار کرے گی ۔
-----
مبصر: شگفتہ طاہر
ترجمہ: فن اور اہمیت
ڈاکٹر رابعہ سرفراز، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں اردو کی استاد ہیں، شاعرہ ہیں، نقاد اور محقق ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ترجمہ:فن اور اہمیت ‘‘ ان کی ایک نصابی کتاب ہے جسے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے شائع کیا ہے۔
گوئٹے کا کہنا ہے کہ: ’’جملہ امور عالم میں جو سرگرمیاں سب سے زیادہ اہمیت اور قدروقیمت رکھتی ہیں۔ ان میں ترجمہ بھی شامل ہے‘‘۔ عصر حاضر میں ترجمہ نگاری کا فن خاص اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ یہ فن وہ واحد دریچہ ہے جس کے ذریعے آپ مختلف زبان و ادب کی حامل تہذیبوں کے علمی، تکنیکی، سائنسی اور ادبی تجربات سے روشناس ہو کر اقوامِ عالم کے قدم سے قدم ملا سکتے ہیں۔ اردو کو ایک جدید زبان بنانے اور اسے مقبولیت بخشنے کے حوالے سے دیگر زبانوں کے علوم و ادب کے اردو تراجم کلیدی مقام رکھتے ہیں۔ اس فن کے ذریعے زبان پھلتی اور پھولتی ہے۔ ترجمہ انسانی علوم میں اضافے کا باعث ہے اور ذہنوں کی آبیاری اسی فن سے وابستہ ہے۔ ترجمہ کسی قوم میں علم کی طلب کا شعور پیدا کرتاہے۔ یہ ایک اہم فکری عمل اور پیچیدہ فن ہے۔ یہ کتاب ترجمے کے حوالے سے بنیادی معلومات کی فراہمی کے سلسلے میں ایک نہایت عمدہ کاوش ہے اور مصنفہ کی اس موضوع میں دلچسپی اور تحقیق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
موضوعات کے اعتبار سے کتاب کو درج ذیل حصوں میں تقسیم کیاگیاہے: (۱) فن ترجمہ نگاری (۲) ادبی ترجمہ نگاری (۳) نثری تراجم (۴) تراجم۔۔۔ دیگر مباحث ( ۵ ) نثری و شعری تراجم کی عملی مثالیں۔
مصنفہ فن کے حوالے سے لکھتی ہیں: ’’فن ایک اہم شَے ہے تو ہر شخص کی اس تک رسائی ضروری ہے اور اگر عوام کی اس تک رسائی نہیں ہے تو پھر فن غیر اہم ثابت ہو جاتا ہے یا پھر وہ حقیقی شَے نہیں ہے۔ فن کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے وقت کے بلند ترین تصور زندگی سے آشنا ہو، احساس کامشاہدہ کرے اور اس میں ابلاغ کی خواہش اور استعداد رکھتا ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ فن کسی صنف کے تقاضے نباہنے کے قابل بھی ہو‘‘۔ (ص:۸ )
سائنسی اور تکنیکی اصطلاحات کے ترجمے کے حوالے سے چند لائنیں دیکھیے :
روز مرہ زبان اور گفتگو کے عام الفاظ کے ترجمے کے بعد ایک بڑا مسئلہ ان اصطلاحات کے ترجمے کا ہے جو سائنسی اور تکنیکی علوم سے متعلق ہے۔۔۔ (ص : ۴۲ ) ۔۔۔ اب سبھی علوم اپنی اپنی جزئیات میں تخصص کی طرف بڑھ رہے ہیں (ص:۴۲)۔۔۔ ایک اخباری خبر کے مطابق ایک سیکنڈ میں دنیا بھر سے قریباً دو ہزار معلومات اوسطاً کمپیوٹر معلومات میں شامل ہو رہی ہیں۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ زبانیں اس بڑھتی ہوئی معلومات کی رفتار اور ذخیرہ کا کیسے سامنا کریں؟ (ص:۴۳) ۔۔۔ اردو اہلِ قلم اور زبان دان سائنسی اور فنی اصطلاحات کے ترجموں کے لیے ملی جلی صورت حال سے دو چار ہیں بعض اصطلاحوں کے معاملے میں انھوں نے عربی، فارسی ذخیرہ الفاظ سے فائدہ اٹھایا ہے اور بعض جگہ انگریزی کے لفظوں کو بعینہٖ قبول کیا ہے (ص: ۴۴)۔
بچوں کے ادب کے تراجم کے حوالے سے ملاحظہ کیجیے :
عالمی ادب کی وہ کتب جنھیں بچے سمجھ سکتے ہیں اور ان سے محظوظ ہو سکتے ہیں نیز ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انھیں اردو میں بچوں کے لیے منتقل کرنا عصرِ حاضر کی اہم ضرورت ہے (ص: ۷۵)۔۔۔ بچوں کے لیے سائنسی موضوعات کے تراجم میں یہ ضروری نہیں کہ تمام سائنسی الفاظ و اصطلاحات کو اردو میں ترجمہ کیا جائے بلکہ آسان الفاظ و اصطلاحات کو جوں کا توں بھی لیا جا سکتا ہے (ص : ۷۵ ) ۔
کتاب کا ایک اہم حصہ قارئین کی شناسائی کے لیے مغربی زبانوں کے نمایاں اردو تراجم کی فہرست ہے۔
کتاب کے آخری صفحات میں نثری و شعری تراجم کی عملی مثالوں کے سلسلے میں مقدونیہ کی شاعری کے اردو تراجم پیش کیے گئے ہیں ۔ یہ نظمیں انگریزی سے ترجمہ کی گئی ہیں (ص: ۱۳۳ )
خاموشی میں
اگر تم اپنے ساتھ کسی ان کہی (بات) کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو۔
کسی ایسی بات کا، جو تکلیف دہ ہے اور جلاتی ہے۔
اسے خاموشی کی گہرائیوں میں دفنا دو۔
خاموشی اُسے تمہارے لیے اپنی زبان سے ادا کرے گی (ص:۱۳۷ )
IN Silence
If you carry within you something unsaid.
Some thing which pains and burns.
Bury it within the depths of silence.....
The silence will say it for you.(
ص: ۱۶۸ )
مبصر: عظمت زہراء
’’
المعقولات ‘‘فی صحف السموات
یہ کتاب نقشبند قمر نقوی بھوپانی کی تالیف ہے، جس کے سترہ باب ہیں۔ مصنف نے جسن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے وہ نہایت نازک کام تھا لیکن انھوں نے بڑے احسن طریقے سے علم و ادب کے چمنستانِ جمیل میں جو تگ و دو کی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ تخلیق کائنات، تخلیق آدم، ایمان، نبی اور پیغمبر، صراط مستقیم، الہامی کتب، خصائض رسول اللہ، فن کتابت، نزول قرآن کی کتابت، مساوات، کاتبان وحی، اعتقاد کی آزادی، برائی کا بدلہ، عدل و احسان، پارسی مذہب، معرفت اور تصوف، پیغمبروں پر الزامات، عبادت، تقویٰ اور احترام رسول اکرمؐ مختلف ادوار کے تفصیلی اور جامع حوالہ جات قاری کو اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں جس سے روح کو تازگی ملتی ہے۔ کتاب میں دل و دماغ میں ایک سیلاب رواں ہو جاتا ہے۔ مستند حوالہ جات ، احادیث پاک اور قرآن پاک کی عظمت اور احکام الہٰی کو جس دل افروز موضوعات کے حوالے سے بیان کیا وہ علم و آگاہی سے خالی دامن نہیں کر سکتا۔ ’’المعقولات‘‘ علمی معلومات کا وہ خزانہ ہے جس کی ضرورت ہر صاحب ایمان کو ہے۔ قرآن پاک میں انبساط کی زندگی ، قصہ یوسف زلیخا، حضرت داؤ دؑ ، حضرت سلیمان، حضرت ہارونؑ ، حضرت یوسف علیہ السلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔
آدم خور شیر
سیدجلال الدین جہانیاں جہاں گشت کا خانوادہ اپنی جہاں گشتی میں شروع سے ہی معروف چلا آ رہا ہے اور یہ صفت اسی خانوادے کے ایک چشم و چراغ درویش نقشبند قمر نقوی بخاری بھوپالی میں بدرجہ اتم بن کر اس وقت سامنے آئی جب انھوں نے جہاں گشتی بلکہ ’’جنگل گردی‘‘ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ بھوپال کے جنگلوں سے شکار کا آغاز کرنے والے قمر نقوی نے حیدرآباد دکن ، نیپال، ہمالیہ کی ترائی، آسام، برما، بنگلہ دیش کے بعد افریقہ اور پھر امریکہ۔ گویا شکار کا شوق انھیں دنیا بھر کے جنگلوں میں لیے لیے پھرا اور شکار بھی شیروں کا۔ ’’آدم خور شیر‘‘ قمر نقوی بھوپالی کی ایک ایسی شکار بیتی ہے جو کہ ہمیں دنیا بھر کے جنگلوں کی سیرہی نہیں کراتی بلکہ جس ہمیں ان جنگلوں کے خوفناک اور خونخوار باسیوں (درندوں) کے طرزِ بودوباش اور عادات کا حال بھی بتاتی چلی جاتی ہے۔جہاں گرزلی سیاہ ریچھ بھی ہیں، خونخوار امریکی تیندوے بھی اور قابل ذکر درندے پوما اور بھیڑیے بھی ۔ قمر بھوپالی کے بقول ’’غالباً یہ بات بہت لوگوں کے لیے ناقابل یقین ہو لیکن حقیقت ۔۔۔ گھنے د ہشت ناک، ویران، دور دراز جنگل میں رات کے وقت تنہا مچان پر بیٹھ کر رات گزارتا بہت ہمت کا کام ہے!یعنی بڑے دل گردے والا ہی ایسا کر سکتا ہے !
وہ لوگ جو کبھی جنگل میں، خصوصاً ہندوستان کے گھنے جنگلوں میں، نہیں گئے انھیں جنگل کی دہشت کا اندازہ نہیں ہو سکتا، وہ جنگل جہاں کسی بھی جھاڑی کے پیچھے سے دنیا کا عظیم ترین شکاری جانور، خون آشام درندہ، شیر برآمد ہو سکتا ہو !
بھیڑے، جنگلی کتے، گیدڑ، سیاہ گوش، چیتے، ریچھ۔۔۔کوئی جانور انسان کا دوست نہیں ہوتا، سب دشمن اور پھر سب پر مستزاد ۔۔۔سانپ !
حالت یہ ہوتی ہے ۔۔۔ پتہ کھڑکا، بندہ بھڑکا !‘‘
یہ بات خونخوار درندوں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی ، انھوں نے چرندوں اورموذی حشرات الارض کے شکار کا شوق بھی پورا کیا ہے ۔
’’
آدم خور شیر‘‘ پڑھتے ہوئے جابجا یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ نہ جانے اب مصنف کاپالا کسی خونخوار درندے سے پڑتا ہے، کسی موذی جانور سے یا کسی خوبصورت ہرن کی باری آنے والی ہے۔ کہیں شیر کی گرج دار دھاڑیں ہیں اور کہیں تیندوے کی دل دہلا دینے والی پکار تو کہیں مور کی میاؤں۔
قمر بھوپالی نے اس کتاب میں شوق اور شکار کو اکٹھا کر دیا ہے۔ پُراعتمادی کے ساتھ شکار کرنا اور ہفتوں جنگلوں میں پڑے رہنا، کوئی جنونی ہی اس مہم جوئی میں اپنے آپ کو ڈال سکتا ہے۔ پھر اپنے شوق کو یادداشتوں کے رنگ میں رنگنا یہ ایک تیسرا کام ہے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ اتنی ڈھیر ساری معلومات کو یکجا کرنے میں بے ترتیبی کا در آنا ایک فطری سی بات ہے۔ قارئین اس کتا ب کو پڑھتے ہوئے یہ نہ بھولیں کہ یہ کسی ادیب کی نگارشات ہیں بلکہ کسی شکاری کی ’’شکاربیتی’’ ہے ۔ جو جیسے بیتا ایسے ہی لکھ دیا۔ ایک کامیاب شکاری کی یہ کاوش اردو ادب میں شکاریات کے موضوع پر معلومات کا خزانہ ہے اور ایک بہترین اضافہ بھی۔ کتاب میں ضرورتاً تصاویر بھی دے دی گئی ہیں۔ انتساب پبلی کیشنز کی یہ کتاب بھارت سے چھپی ہے۔
-----
مبصر: جاوید ملک
مشاہیر اور پنجاب از : عزیز علی شیخ
پنجاب کی سر زمین اور اس پر بسنے والے عوام کے حسب و نسب ،ذات پات اور قوم قبیلہ کا گہرے تاریخی و سماجی مطالعہ کرنے سے یہ بات سورج کی اجلی کرنوں کی مانند صاف دکھائی دینے لگتی ہے کہ صوبہ سندھ کی طرح صوبہ پنجاب شاندار روایتوں ،واقعات ، حکایتوں اور کہاوتوں، بہادری،وطن دوستی ، جانثاری جیسے کارناموں سے مالا مال رہا ہے۔ ثقافتی اور تہذیبی طور پر بھی روایات دونوں صوبوں میں اکثر و بیشتر ایک جیسی ہی رہی ہیں۔ اس خطے میں صوفیا و اولیاء کرام نیک صفت اور درویش لوگ اور بزرگان دین نے حق گوئی اور تعلیمات نبوی ؑ کو عوام الناس تک اپنے اپنے طریقے سے پہنچایا ہے وہاں علم و ادب کے نایاب گوہروں نے بھی علم کی شمعوں کو روشن کر کے محققین کی جستجو کو قائم رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ان ہی اکابرین میں ایک نام عزیز علی شیخ کا بھی ہے جن کا تازہ ادبی و تحقیقی شہ پارہ ’’مشاہیر۔۔۔۔۔ اور پنجاب ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے جس میں اپنی غیر معمولی جستجو اور کئی سالوں کی محنت سے مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی پانچ سو سے زائد شخصیات کے کوائف مختصر تعارف کے ساتھ دیے گئے ہیں۔ یقینی طور پہ ایک غیر معمولی نوعیت کا کام ہے ۔ اس کتاب کو فکشن ہاؤس لاہور نے شائع کیا ہے ۔ چار سو چوبیس صفحات پر مشتمل ہے یہ کتاب ان کی پہلی کتاب ’’مشاہیر پنجاب کا انسائیکلو پیڈیا ‘‘ ہے جس میں نئی ترمیموں اور اضافوں سے مزید نکھار کر شخصیات کو حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔ یو ں کتاب کی اہمیت اور افادیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ابتدا میں مصنف کی طرف سے ایک تحقیقی مقالہ بہ عنوان ’’پنجاب‘‘ دیا گیا ہے جس سے صوبہ پنجاب کو تاریخی اعتبار سے سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے ۔ فاضل مصنف کہتے ہیں کہ ’’پنجاب کے عظیم خطہ کے جو گوہر و جوہر میرے ہاتھ آئے ہیں انہیں میں نے پوری دیانت داری سے صفحہ بہ صفحہ اس کتاب میں سجا دیا ہے ۔لیکن موضوع کی وسعت اور صفحات کی قلت کے باعث یقیناًکچھ کو تاہیاں بھی ہوئی ہوں گی۔‘‘ بغور مطالعہ کرنے سے کتاب کو کئی اہم حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ پہلا حصہ درویش صفت، صوفی بزرگ اولیاء کرام ، دینی و مذہبی شخصیات پر مشتمل ہے جن میں بہاء الدین زکریاؒ ، بابا بلّھے شاہؒ ، سلطان باہوؒ ، شاہ لطیف بری امامؒ ، خواجہ غلام فریدؒ ،وارث شاہؒ کے علاوہ کئی بزرگ شامل ہیں، دوسرا حصہ نڈر جانباز جوانوں، جنگجو سپاہیوں ،مجاہدوں، سپہ سالاروں سے لے کر وطن کے خاطر جام شہادت نوش کرنے والے جوانوں، کرنیلوں، جرنیلوں اور غازی مجاہدوں کی زندگیوں کے تذکرے سے بھرا ہوا ہے جبکہ تیسرے حصے میں اداکاروں، فنکاروں ، صداکاروں کے علاوہ سیاست دانوں، مبعد ، ڈاکٹروں ،انجینئروں ، حکیموں، کھلاڑیوں، وکیلوں، ججوں، صحافیوں ،وغیرہ کو شامل کیا گیا ہے۔ چوتھے حصے میں اہل قلم جن میں ادیب ،شاعر ، نقاد، محقق ، استاد ، مدیر، افسانہ نگار، ناول نگار روں سے لے کر رنگوں سے باتیں کرنے والے چتر کار شامل ہیں۔ جبکہ پانچواں حصہ سماجی سیاسی دینی خدمت گار ودیگر افراد سے سجا ہوا ہے۔ ادب کے افق پہ عزیز علی شیخ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ۔ وہ گزشتہ تیس سالوں سے مسلسل لکھ رہے ہیں اور آدھی دنیا کے مشاہدات و تجربات بھی حاصل کر چکے ہیں ۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ ڈھونڈنے کی مگن میں رہتے ہیں اور ادبی دنیا میں اسی وجہ سے بنیادی طور پہ سفر نامہ نگار کے طور سے پہچانے جاتے ہیں ۔ اب تک ان کے تین شعری مجموعے ’’چناب سے نیل تک ‘‘ ’’سعدی اور اتاترک کے دیس میں ’’ اور ٹوٹے رشتوں کی بحالی ‘‘ کے عنوان سے عمدہ نثر نگاری کے باعث غیر معمولی شہرت پا چکے ہیں۔
فاضل مصنف نے ’’مشاہیر ۔۔۔۔۔اور پنجاب‘‘ لکھ کر سچ میں بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے اور وہ بھی کسی تحقیقی ادارے، سرکاری سرپرستی کے سوا جبکہ ایک بات جس کی طرف مصنف کی باقی توجہ کم رہی ہے یا وسائل اتنے نہیں تھے کہ اکثر شخصیتوں کے تعارف کو بہت ہی مختصر اور ناکافی دیا گیا ہے جس کے لیے نئے ایڈیشن سے پہلے بغور مطالعہ کرنے کی ضرورت ہو گی ۔ بہر کیف ، آج کے اس کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے زمانے میں جہاں کتاب دوستی کے آثار مدھم گئے ہیں وہاں عزیز علی شیخ کا تنہا یہ ادبی کارنامہ سر انجام دینا مایوسی میں روشن اجالے کی مانند ہے جس سے آنے والی نسلوں کو بہت رہبر ی حاصل ہو گی اور قوم کے یہ سب نایاب گوہرو جو ہر ہر ایک کی نظر میں اور بھی قابل فخر بن کر رہیں گے۔
-----
مبصر : جہانگیر عباسی
***

 

 

مطبوعات مقتدرہ
نسائی شعور کی تا ریخ اردوافسانہ اور عورت
از : ڈاکٹر عصمت جمیل
یہ کتاب ڈاکٹر عصمت جمیل کا پی۔ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جس کا دوسرا ایڈیشن مقتدرہ قومی زبان کے تعاون سے حال ہی میں چھپ کر منظرعام پر آیا ہے۔ خوبصورت اور دیدہ زیب سرورق صدیوں کے ارتقائی سفر میں عورت کی زندگی کے نشیب و فراز کی داستان سناتا نظر آتاہے۔ تخلیقیت تو صفت باری تعالٰی ہے۔قرآن میںآیا ہے ’’ھوالخالق الباری المصور لہ الاسماء الحسٰنی‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنی صفت کاملہ کا ایک معمولی سا حصہ عورت کو بھی عطا کر دیا ہے ۔اس منصب عظیم کی بناء عورت کی عظمت کائنات کی تمام چیزوں پر بھاری ہے ۔لیکن قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اس منصب جلیل کی حا مل عورت ہمیشہ زمانے کی دستبرد کا شکار رہی ہے ۔اسی موضوع کو زیر بحث ہوئے مصنفہ نے پانچ مختلف ابواب کی صورت میں کتاب کی در جہ بندی کی ہے۔ باب اول میں عہد بہ عہد عورت کے ا نحطاط و استحصال کی داستان بیان کی ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ حجری دور کا انسان صفت تخلیقیت کو عورت کا معجزہ سمجھتا اور اس سے مر عوب رہتا تھا۔دوسری طرف عورت معا شی معاملات میں مرد کی معاون بھی بنی رہتی ،اس طرح معا شرے میں اسے بر تری حا صل تھی۔یہی وہ مادری تہذیب تھی ،جس میں لوگ بچے کی پیدائش میں باپ کے کردار سے لا علم تھے۔پھر جب انسانیت نے شعور کی منز لیں طے کیں مرد کو اپنی جسمانی طاقت کا ادراک ہوا ،بچے کی پیدائش میں اس نے اپنے کردار کو سمجھاتو وہ خاندان کا حاکم بن بیٹھا اور عورت کو اپنا محکوم بنا لیا۔اس پدر سری نظام نے معاشرے میں دوہرے تضاد کو جنم دیا ،یعنی ایک طرف مرد اپنے فطری تقاضوں سے مجبور ہو کر عورت کی طرف مائل،دوسری طرف اپنی بے بسی پر اس سے متنفر۔پھر تہذیبی ار تقاء کا وہ دور بھی آیاجس میں ماں اور بہن سے جسمانی تعلق ممنوع ہو گیا ،لیکن لڑکیوں کی خریدو فروخت ہونے لگی۔قر ض کی صورت میں بیوی کو رہن رکھا جانے لگا۔خاوند کی وفات پر ترکے کی طرح وارثوں میں تقسیم ہو نے لگی۔البتہ سو میر یوں اور با بلیوں کے ہاں عورت کا ایک خاص مقا م نظر آتا ہے ،لیکن جا ئداد اور وراثت کے چکر میں سلاطین مصر اپنی بہنوں سے شادی کر لیتے ۔مصر کے بعد یو نا نی معاشرے میں عورت کو کم تر درجے کی چیز سمجھا جانے لگا۔رومی معاشرے میں عورت کسی نہ کسی طرح مرد کی زیر نگرانی رہتی ،اختلاف کی صورت میں طلاق کے تکلف کی بجائے مرد اسے قتل کر دینا بہتر سمجھتا، مجوسی ، زر تشتی اور بازنطینیوں کے ہاں بھی عورت کی حالت کچھ بہتر نہ تھی۔تقریباً دو ہزار سال قبلِ مسیح آریاؤں کی آمد نے ہندوستان کے کلچر کو متاثر کیا۔ہندوؤں کی مذہبی تاریخ عورت کے بدلتے ہوئے مقام کی تاریخ بن گئی۔بعد ازاں یہودیت،عیسایت اور اسلام نے بھی اپنے عہد کے رائج شدہ طبقاتی معاشروں سے اثرقبول کیا ۔پدرانہ معاشرے کی صحیح عکاسی یہودیت میں ملتی ہے ۔اس مذہب میں عورت کی حلت سب سے زیادہ افسوس ناک رہی۔یہودیوں کے معاندانہ رویے کے رد عمل نے حضرت عیسٰی کو عورت کے بارے میں بے حد محتاط کر دیا ،ردعمل کے طور پرکم فہمی نے جنم لیا،اور عورت ایک بار پر نفرت اور ناپاکی کی علامت بن گئی۔نزول اسلام کے بعد عورت کی زندگی میں واضح انقلاب آیا،مگر افسوس کہ بہت دیر پا ثابت نہ ہوسکا۔
مختلف تہذیبوں اور مذاہب کا تجزیہ کرنے کے بعد مصنفہ نے دور حاضر کے نفسیات دانوں کے نظریات کی روشنی میں عورت کا مقام و مرتبہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔فرائڈ کے نزدیک بیٹے کی اولین ترجیح ماں ہوتی ہے ۔لڑکی باپ سے اور لڑکا ماں سے متاثر ہوتا ہے۔یونگ نے جنس کے بنیادی تصورات پر کام کیا ۔ایڈلر نے اس مطالعے کو آگے بڑھاتے ہوئے احتجاج مردانگی کا نظریہ پیش کیا۔اس طرح ہر معاشرے اور ہر دور میں مردوں کو عورتوں پر فوقیت حاصل رہی ہے۔بر صغیر پاک و ہند میں انگریزی عملداری میں عورتوں کی بہبود میں خصو صی دلچسپی لی گئی،پھر قیام پاکستان کے بعد حالات نے ایک نیا پلٹا کھایامردوں کا ایک گروہ عورت کی آزادی کا خواہا ں رہاجبکہ ’نام نہاد علما ٗ اس کے مخالف رہے،ایسے میں بہت سی تنظیمیں بنیں،قوانین پاس ہوئے لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج نہ نکل سکے۔۱۹۸۸ء میں جب بے نظیر بھٹو وزیر ا عظم بنیں تو تمام سیاسی پا رٹیوں کے منشور میں عورت کے لئے کشش پیدا کی گئی۔اس طرح پا کستانی سیاست میں متحرک اور فعال ہونے کے با وجود ہمیں پسماندہ اور دیہاتی علاقوں میں عورت کی حالت آج بھی دگر گوں نظر آتی ہے ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کے طرز معاشرت کا صحیح عکس ہمیں اس قوم کے لٹریچر میں نظر آتا ہے مصنفہ نے دوسرے باب میں ہندوستانی لٹریچر کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ ہندوستانی ادب پر ایک طویل عرصے تک مردوں کی حکمرانی رہی ہے،عورت چونکہ اپنے حق کے لئے آوازنہ اٹھا سکتی تھی ا س لئے مرد اس کے مسائل کی نوعیت سمجھے بغیر ،جو جی میں آتا لکھتارہا۔البتہ سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد سرسید اور انکے رفقائے کار نے اس سلسلے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ نذیر احمد کے بعدعلامہ راشد الخیری کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔یلدرم کی عورت کے لئے درد مندی اردوادب کے لئے قندیل بنی۔نیاز فتح پوری ،مجنوں گورکھ پوری کے بعد مرزاادیب اور قاضی عبدالغفار نے استحصال کا شکار ہونے والے طبقے کی عورت کو پیش کیا۔ ۱۹۳۲ء میں ’انگارے ‘ نے دنیائے ادب میں تہلکہ مچا دیا،۔اس کے نمایاں لکھنے والوں میں سجاد ظہیر ،احمد علی،محمود الظفر،اور رشید جہاں کے نام شامل ہیں۔بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں کرشن چندر اور حسن عسکری کے ہاں رومانویت اور ترقی پسندی کے دھارے الگ الگ کام کرتے نظرآتے ہیں۔منٹو نے طوائف میں معصومیت کو تلاش کرنے کی سعی کی۔ ممتاز مفتی انسانیت کا کوئی اعلیٰ تصور پیش نہ کر سکے ۔مصنفہ کا خیال ہے کہ
’’
ممتاز مفتی نے جنس پر بہت لکھا۔عورت صرف جنس نہیں ہے ،وہ آدھی کائنات ہے اور بعض اوقات پوری کائنات بن جاتی ہے ۔،،ص(۱۴۴ )
ضمیرالدین احمدنے متوسط طبقے کے مسلمان مرد عورت کی روح کو پیش کیا ہے۔جبکہ آغابابر ایک نئی عورت کے افسانہ نگار بن کر سامنے آتے ہیں۔ عرش صدیقی اور سلیم اختر کے جنس کا اظہار ملتاہے۔سلیم اختر کے بارے میں مصنفہ کی رائے ہے کہ :
’’
سلیم اختر کے افسانوں کا مرد جنس سے تخلیق ہواہے۔مٹھائی کی پلیٹ اور دودھ کا گلاس اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ وہ عورت کے جذبات کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔اسے عورت کے ذہن کی نہیں جسم کی ضرورت ہے۔(ص۵۵ا۔۱۵۶ )
عزیز احمد جدید خیالات کے تحت عورت کوآزاد دیکھنا چاہتے ہیں ۔عورت کے حقوق کی جنگ ترقی پسند افسانہ نگار خواجہ عباس کے ہاں بھی ملتی ہے۔ صادق حسین اور ندیم کے ہاں دیہاتی ماحول ملتاہے جبکہ اختر حسین رائے پوری معاشرے میں توازن اور حسن کی آرزو کرتے ہیں۔شوکت صدیقی نے بھی مرد کے ہاتھوں ہونے والے عورت کے استحصال کو موضوع بنایا ہے ۔غلام عباس ،قدرت اللہ شہاب، انتظار حسین،رشیدامجد،مظہرالاسلام اور منشایاد جدید لکھنے والوں میں نمایاں مقام کے حامل ہیں۔
مادی اوراخلاقی اقدار کے بدلنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں عورت کا تصور بھی بدلاہے۔ابتدا میں عورت کی حالت زار پر صرف افسوس کیاجاتاتھا پھر اس کے لئے حقوق مانگے جانے لگے۔اس کے حسن وخوبصورتی کی تعریف کر کے اسے اہمیت دی جانے لگی۔یہ تمام عوامل عورت کی شخصیت کو متاثر کرتے رہے۔قیام پاکستان کے بعد ایک نئی عورت سامنے آئی جس کا شعور پختہ جو تعلیم سے بہرہ منداور پردے کی پابندی سے نسبتاً آزاد تھی ۔اس نے معاشرے میں اپنے حقوق کی بات کی جائداد میں وراثت کا تقاضا بھی کیالیکن شہری عورت کی نسبت دیہات کی عورت آج بھی ہمیں پسماندہ نظرآتی ہے۔
تیسرے باب میں خواتین افسانہ نگاروں کی تخلیقی کاوشوں کو زیربحث لایا گیا ہے ۔مرداور عورت کے فطری تقاضے ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوتے ہیں،ایسے میں دونوں کے لئے ایک دوسرے کے مسائل کاادراک قریب قریب نا ممکن ہے۔عورت کو جب اس بات ادراک ہوا تو اس نے خود قصے کہانیوں کے ذریعے اپنے مسائل کو اجاگر کرنا شروع کردیا۔ابتداء میں کچھ خواتین نے مردانہ ناموں سے لکھنا شروع کیا،پھر جب تبدیلی کی ہوا چلی تو معاشرتی اور اصلا حی کہانیاں لکھی جانے لگیں۔اس سلسلے میں قابل ذکرنام بیگم مولوی سراج الدین،بیگم ہمایوں مرزا،نذرسجاد حیدر،اورحجاب امتیاز علی تاج کے ہیں۔ بیسویں صدی کی نمائندہ ادیب خواتین میں رشیدجہاں اور عصمت چغتائی جیسی خواتین کے نام لئے جاتے ہیں ۔انہوں نے خواتین کی بڑی تعداد کو حرف شناسی سکھائی۔بعد کے لکھنے والیوں میں اے آرخاتون،ناہید سلطانہ اختر،ایم سلطانہ رضیہ بٹ، زبیدہ خاتون، سلمیٰ کنول،ساجدہ حبیب، شائستہ رفیق، رضیہ جمیل، حمیدہ نسیم اورفردوس حیدر کے نام لئے جا سکتے ہیں۔بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں راحت آرابیگم اور مسز عبدالقادرنے بہت موثرافسانے لکھے۔ عصمت چغتائی اردوادب کا وہ نام ہے،جواپنے باغیانہ طرز عمل کی بناء پر رشید جہاں سے بھی آگے نکل گیا تھا۔پھر واجدہ تبسم ہمیں ان کی پیروی کرتی نظرآتی ہیں بعد میں خدیجہ مستورااورہاجرہ مسرورعصمت کے سیاسی شعور کو لے کے آگے چلتی ہیں۔جیلانی بانو نے اس عورت کو موضوع بنایا،جو معاشی استحصال کاشکار ہے۔ آزادی کے بعد زند گی کے با قی شعبوں کی طرح عورت کے بارے تصورات میں بھی تبدیلی آئی۔ان تبدیلیوں نے خاندانی نظام کو بری طرح متاثر کیا۔۔قرۃالعین کی کہا نیاں انکے اپنے خاندان اور اپنی ذات کے گرد گھومتی ہیں۔ بعد کی لکھنے والیوں میں الطاف فاطمہ اور بانو قدسیہ کے نام بھی توجہ طلب ہیں۔جمیلہ ہاشمی کے ہاں انتظار حسین کی طرح یادوں کا دکھ نمایاں ہے۔ اختر جمال اگر مٹتی ہوئی معاشرت کی تصویر کشی کرتی ہیں توزیر تشکیل معاشرت کا خیر مقدم بھی کرتی نظرآتی ہیں۔خالدہ حسین کے افسانوں میں قرۃالعین کا سحر موجود ہے جبکہ فرخندہ لودھی پاکستانی عورت کی تصویر کشی کرتی نظرآتی ہیں۔ نیلم بشیر صرف مغربی معاشرے کی خامیاں ہی تلاش نہیں کرتیں بلکہ انہوں نے اپنے گریبان میں بھی جھانکا ہے۔ عطیہ سید کے ہاں مشر ق و مغر ب کا تقابلی مطالعہ ملتا ہے۔زاہدہ حنا کی کہانیوں میں افسانوی تاریخ کے مختلف اوراق اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔
عصمت جمیل کے خیال میں عورت اور مرد کی تخلیقی کاوشیں ہم پلہ نظرآتی ہیں۔یہ وہ ارتقائی مراحل تھے جنہیں طے کرنے میں بہترین صلاحیتوں کو بروئے کارلایا گیا۔ آج اردو افسانہ ہمیں اس مقام پر نظرآتاہے ،جہاں افسانے کے ذریعے زندگی کے ہر گوشے کی نمائندگی کی جا سکتی ہے۔ چوتھے باب میں مصنفہ نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’
کرداروں کے بنیادی ڈھانچے ہمیشہ ایک سے رہے ہیں،صرف ان کی شکل و صورت بدلتی ہے ۔کیو نکہ انسان ہمیشہ سے ایک ہی ہے۔اس کے بنیادی رشتے بھی ایک جیسے ہیں۔عورت اور مرد کے رشتے بھی معین ہیں۔مثلاً ماں، بہن، بیٹی، بیوی، محبوبہ، طوائف،وغیرہ۔یہ سب پرو ٹو ٹائپ کردار ہیں۔ جسکے بنیادی ڈھانچے ایک جیسے رہتے ہیں صرف ان کی شکل و صورت حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے اردو افسانے میں ان کرداروں کے بہت سے روپ بیان ہوئے ہیں۔ ‘‘ (ص۲۴۸ ۔۲۴۹ )
ماں کے بعد مثالیت پسندی کی بہترین مثال بیوی کا کردار ہے۔افسانوی ادب میں عورت کا وہ روپ پیش کیا گیا جو سچ مچ مشرقی عورت کے مزاج کا حصہ ہے۔شادی وہ مقدس بندھن ہے جو نہ صرف معاشرے کو انتشار سے بچاتاہے بلکہ ایک دوسرے کا بھرم رکھنے پر آمادہ کرتا ہے۔میاں بیوی کا رشتہ باہمی خلوص اور اعتماد کا رشتہ ہے۔اس رشتے کی کامیابی سے مضبوط خاندانی نظام پروان چڑھتا ہے لیکن شد ید معاشی مسائل نے رشتو ں کے بارے معاشرتی رویے بھی بدل کر رکھ دئے ہیں ۔ یہاں مصنفہ کی رائے خاص طور پر توجہ طلب ہے وہ لکھتی ہیں کہ :
’’
عورت مجرد ہو، مطلقہ ہو یا بیوہ۔اس کی یہ حالتیں مرد سے محرومی کی صورت میں بنتی ہیں کیو نکہ معاشرے میں اس کی پہچان ہی مرد کے رشتے سے ہے۔ یہاں تک کہ اس کا اپنا نام بھی اہم نہیں،مرد کا نام اور مرد کے قبیلے کا نام ہی معتبر ٹھہرتا ہے ۔چنا نچہ مرد سے محرومی اس کے مسائل کی جڑہے،لیکن وہ عورت جو ایک سے ز یادہ مردوں سے وابستہ ہے ،بے شمار دکھوں اور مسائل کی آما جگاہ ہے۔ (ص ۲۷۲ )
آخر میں بحث کو سمیٹتے ہوئے مصنفہ نے وضاحت کی ہے کہ ظلم ہمیشہ کمزور کو نشانہ بناتا ہے ۔عورت معاشرے کا کمزور حصہ رہی ہے ۔تقسیم ہند نے عورت کو ایک بار پھر بے توقیر کردیا ۔اس حوا کی بیٹی پر ایسی حیوانیت مسلط کی گئی،کہ انسانیت کی نظریں شرم سے جھک گئیں۔ اجتماعی درند گی کا مظاہرہ کیا گیا۔یہ لٹی ہوئی عورت جب اپنے گھر کو لوٹی تو معاشرہ فیصلہ نہ کر پایا کہ اس جر م کی کیا سزا دی جائے،جس کی یہ قصوروار ہی نہیں۔اس دور کے افسانے صرف فسادات کے سنگین نتائج کی نشاند ہی نہیں کرتے بلکہ ان لو گو ں کے تصورات کو بھی ظا ہر کرتے ہیں جواس تباہ شدہ عورت کو با عزت مقام دینے کو تیار نہ تھے۔
تاریخ کے تناظر میں عورت کی زندگی کے نشیب و فراز کا جائزہ لینے کے بعدیہ نتیجہ اخذکیا جا سکتا ہے کہ یہ اقتدار کی جنگ ہے نہ حقوق و فرائض کی،یہ توطاقت ور اور کمزور کے درمیان اپنے وجود اپنی انااور اپنی ذات کو منوانے کی جنگ ہے۔اس کشمکش نے ہمیشہ دونوں کے کچھ نمائندوں کو ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار رکھا ۔کبھی مرد عورت پر تیزاب پھینک دیتا ہے اور کبھی عورت آشنا‘ کے ساتھ مل کر اپنے ’مرد‘ کا گلا دبا دیتی ہے،جسے رسم و رواج اس کا مرد قرار دیتے ہیں دنیائے ادب میں یہ قربت اور کشاکش خصوصی دلچسپی کی حامل ہے چاہے اسے کبھی تخلیق کار عصمت چغتائی لکھیں اور چاہے عصمت جمیل جیسی محقق اور نقاد،اس داستان کی رنگینی اور سنگینی کم نہیں ہو سکتی۔
-----
مصر: ڈاکٹر ارشدخانم
حزیں صدیقی :شخصیت اور شاعری از: ڈاکٹر محمدآصف
یہ کتاب ڈاکٹر محمد آصف کا تحقیقی و تنقیدی مقالہ ’’حزیں صدیقی شخصیت اور فن‘‘ پر مبنی ہے۔اس سے پہلے کسی جامعہ میں حزیں صدیقی پر کوئی کام نہیں ہوا ۔ ڈاکٹر محمد آصف نے بلاشبہ حزیں صدیقی کی غزل ، نعت ، فکری رفعت و عظمت اور فنی صناعی و کاریگری کے اعلیٰ نمونے اس کتاب میں سمو دیے ہیں ۔
حزیں صدیقی کی شاعری کو بجا طور پر نگار خان�ۂ حرف و معنی اور احساسِ لطیف کی نغمگی کہا جا سکتا ہے ۔ مقالہ نگار نے ان کی شخصیت او ر شاعری کے تمام اہم پہلوؤں کو اپنی اس کتاب میں خوبصورتی کے ساتھ سمویا ہے۔حزیں صدیقی ہمارے عہد کی شاعری میں مہذب اور شائستہ لہجے کی عمدہ مثال ہیں وہ اردو شاعری کی متصوفانہ روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے جمالیاتی رچاؤ اور عصری شعور کو ڈاکٹر محمد آصف جیسے مزاج آشنا ناقد و محقق ہی بہتر طور پر سمجھ سکتے تھے،جن کی اردو کے ساتھ فارسی پر بھی خاطر خواہ نظر ہے اور ان کے اسلوب سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بذات خود بھی کرب کی لذت سے واقف ہیں ۔
قارئین اس کتاب میں عمرانی نقطہ نظر اور طریق کار بھی پائیں گے اور تخلیقی تنقیدکی مٹھاس بھی ۔ مواد اور استناد کے اعتبار سے بھی یہ کتاب ایک معتبر حوالہ ہے ۔ حزیں صدیقی کی شخصیت اور شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے قارئین کو تہذیب و شائستگی ، لطافت و نفاست ، اعلیٰ فنی و جمالیاتی اور کلاسیکی اقدار سے لگاؤ ، درویشی و تصوف ، اخلاقیات اور فکر و فلسفہ کی متحرک اور وسیع المشرب روایات کی عملی پاسداری نظر آ ئے گی ۔حزیں صدیقی پر ویسے تو کوئی منظم کام نہیں ملتا ،بس دو چار چھوٹے چھوٹے تاثراتی مضامین ہیں یا ’’قفس رنگ ‘‘ کا مختصر دیباچہ ،اسی لئے مقالہ نگار کے ماخذات میں ان کے اپنے مشاہدات و تجربات ہی نظر آتے ہیں۔ اس کتاب میں حزیں صدیقی کی شخصیت اور فن کے سارے پہلو اس طرح سمٹ کرآئے ہیں کہ عام قاری بھی ان سے آشنا ہو جائے گا ۔
انھوں نے ایک عمرانی نقاد اور محقق کی حیثیت سے ممکنہ حد تک یہ کوشش کی ہے کہ حزیں صدیقی سے ان کی عقیدت اور جذباتی عنصر تحقیقی نتائج کو مجروح نہ کرے اس لئے ذاتی ، سیاسی ، سماجی تناظر میں داخلی اور خارجی شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے حزیں کی شخصیت اور شاعری کا سائنٹفک اور معروضی انداز میں تجزیہ کیا ہے اور غیر جانبدارانہ انداز میں نتائج اخذ کئے گئے ہیں۔ یہ کتاب تین ابواب میں تقسیم کی گئی ہے۔ ان ابواب کے علاوہ اس میں ضمیمہ جات بھی شامل ہیں ۔
باب اول : حزیں صدیقی کی سوانح ، شخصیت اور تخلیقات پر مشتمل ہے ۔جس میں حزیں صدیقی کے خاندان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ تصوف و درویشی ، اخلاص و محبت ، علمی و ادبی رحجانات اور ماحول دانش و دیانت کی دولت کے ساتھ ساتھ مناسب دنیوی شان و شکوہ کے مراتب اس خاندان کو حاصل تھے مگر ترکِ سکونت کے بعد کے حالات و واقعات کو بھی اس باب میں بیان کیا گیا ہے۔
باب دوم : مصنف نے ’’حزیں صدیقی کی نعت گوئی ‘‘ پر بات کرتے ہوئے ایسی فضا تشکیل دی ہے کہ نعت کی رسمی ، روایتی اور جدید شکلیں، اسالیب و موضوعات کے اعتبار سے تنوع اور بالیدگی لئے ہوئے ایک سر مستی ، بے خودی کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں ۔ اس باب میں حزیں صدیقی کی نعت گوئی ایک جدید نہج اور متنوع جہات سے جلوہ آرا ء ہوتی ہے ۔ حزیں صدیقی کے چند نعتیہ شعر :
نہ کیوں ثنائے محمد کروں کہ قرآن میں
خدا نے آپ یہ بابِ جمیل کھولا ہے
اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
نعت کہنے کی میرے دل میں جہاں خواہش ہوئی
در کھلے وجدان کے ،الہام کی بارش ہوئی
باب سوم: ’’ حزیں صدیقی کی غزل گوئی ‘‘ میں ان کے گوناں گوں تجربات و مشاہدات ،جذبات و احساسات اور خیالات کروٹیں لیتے ہوئے سماج کے ساتھ ساتھ ایک واضح نظریہ حیات کی دلکش شاعرانہ تصویر ملتی ہے ۔ اس باب میں حزیں صدیقی کی زندگی کی محرومیوں ، مصائب ، معاشی تنگدستی ، تجرد ، تنہائی کا احساس ، دکھ ، درد ، مسلسل محنت، حوصلہ مندی ، جستجو جیسے تمام تجربات کو بیان کیاگیاہے ۔
کیا اپنی منزلت ہے سر آستانِ دوست
جیسے ہو راہ میں کوئی پتھر پڑا ہوا
ڈاکٹر محمد آصف نے اس باب میں حزیں صدیقی کے حوالے سے جو تاثرات،تجزئیے کے نتیجے میں پیش کیے ہیں وہ اس چیز کو ثابت کرتے ہیں کہ ان کے ہاں ایک بے حد پختہ سیاسی و سماجی شعور موجود ہے ۔ موضوعات کا ایک خوش منظر میدان جو اس باب میں نظر آتا ہے وہ حزیں صدیقی کے فلسفیانہ خیالات و افکار کا بے باک اظہار ہے جو دلکش شعری لباس زیب تن کرکے سامنے آتا ہے جسے زوال و انحطاط ، انفعالیت اور فنائیت ختم نہیں کر سکتی ۔۲۶ اور ۲۷ دسمبر ۱۹۹۵ کی درمیانی شب یہ نابغہ روز گار ہستی اپنے خالق حقیقی سے جا ملی مگر محمد آصف نے اس کتاب میں ان کی سیرت و شخصیت اور سوانح کو ہمیشہ کے لئے زندۂ جاوید کر دیا ہے ۔پاکستانی ادب میں مصنف کی اس کاوش کو یقیناعزت و وقار سے دیکھا جائے گا ۔
یہ کتاب۱۳۴صفحات کو محیط ہے ۔ اس کی قیمت ۲۰۰ روپے ہے۔ مقتدرہ قومی زبان نے اس کتاب کو بہاء الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے اشتراک و تعاون سے شائع کیا ہے۔
----
مبصر : شگفتہ طاہر
مباحث شش ماہی
اردو کے نام ور تنقید نگار، محقق اور استاد ڈاکٹر تحسین فراقی کی ادارت میں شش ماہی "مباحث " کا پہلا شمارہ چھپ گیا ہے۔ یہ تحقیقی، تنقیدی اور علمی جریدہ ڈاکٹر صاحب کے جوانی میں انتقال کر جانے والے صاحب زادے عمر فارق کی یاد میں شائع کیا گیا ہے۔ مباحث کے معاون مدیروں میں ڈاکٹر رفاقت علی شاہد، ڈاکٹر اشفاق احمد ور ک اور امجد طفیل شامل ہیں۔ مجلس مشاورت میں ایران اور بھارت سے شمس الرحمان فاروقی ، ڈاکٹر شفیعی کدکنی، ڈاکٹر شمیم حنفی ، ڈاکٹر صدیق الرحمان قدوائی ، ڈاکٹر عبدالحق ، ڈاکٹر اصغر عباس، ڈاکٹر قاضی افضال حسین، ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی، ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی، ڈاکٹر محمد کیو مرثی اور ڈاکٹر علی بیات شامل ہیں جبکہ پاکستان سے انتظارحسین ، محمد سلیم الرحمان ، افتخار عارف، ڈاکٹر ممتاز احمد، ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر معین الدین عقیل ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، افضل حق قرشی ، ڈاکٹر رؤف پاریکھ ، مبین مرزا اور محمد حمید شاہد مجلس مشاورت میں شامل ہیں۔ مجلس مشاورت میں شامل فاضل اراکین میں ایک سے بڑھ کر ایک صاحب علم و فضل شامل ہے جس سے جریدے کی علمی اٹھان محسوس کی جا سکتی ہے۔
"
مباحث "کے مشمولات تو یقیناًبے حد قابل توجہ اور غیر معمولی معیار کے ہیں ہی لیکن یہ بات بے حد اہم ہے کہ مجلس مشاورت اور ادارتی عملے کے متعدد فاضل ارکان کی نگارشات اس جریدے کی زینت بنی ہیں۔ عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ مجلس مشاورت صرف نمائشی ہوتی ہے اور بعض اوقات تو ان مشیروں کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ اس رسالے کی مجلس میں شامل ہیں۔ مدیر ڈاکٹر تحسین فراقی نے اداریے میں جریدے کی پالیسی کے خدوخال واضح طور پر بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس کی شناخت کا حوالہ بہر طور تحقیق اور تنقید ہی رہے گا۔
"
مباحث " کے پہلے شمارے میں شائع ہونے والے مضامین میں زبان اور استعاراتی زبان، کلاسیکی غزل میں بعض اہم فکری وفنی انحرافات ، صبحِ کا ذب ، کچھ کذب و افترا ہے ، کچھ کذبِ حق نما ہے، فیض بحیثیت فکشن نقاد ، ۔۔۔درا حوال جہاں می نگرم ، این میری شمل بحیثیت غالب شناس ۔ چند معروضات، ایک صاحب کشف ، ہولوکاسٹ : فرض کرو یہ ساری باتیں۔۔۔، پاکستان ، جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا خطۂ خواب یا ایک نا کام ریاست ، پاکستان کا تشخص: اسلامی یا سیکولر، جنوں بریلوی سے منسوب غالب کا ایک فارسی خط، " تفسیر نظم الجواہر " کا نسخہ ہائیدل برگ، " مثنوی شاہد نشاط" ۔ ایک تعارف، " تاریخ آشام" از میر بہادر علی حسینی ، غلام رسول مہر کا حیدر آباد دکن میں قیام ، علامہ شبلی نعمانی اور عطیہ فیضی کے روابط ۔ تحقیق کے نئے تناظراور میر کے دیوان اول و دوم کا ناد اور اہم محظوطہ شامل ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معیار کے سلسلے میں سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اس وقت جب کہ معیاری علمی اور ادبی جرائد کی کمی شرم ناک حد تک محسوس کی جا رہی ہے ، "مباحث" کی نمود صاحبان علم و ادب کے لیے ہوا کے خوش گوار جھونکے کی حیثیت رکھتی ہے۔ "مباحث "کے پہلے شمارے میں ایک گوشہ "مکاتیب مشاہیر " کے عنوان سے قائم کیا گیا ہے۔ اس میں شامل مکاتیب کی فہرست کا مطالعہ کرنے سے ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ فہرست میں مکاتیب باباے اردو بنام ڈاکٹر سید عبداللہ، مکاتیب مشفق خواجہ بنام تحسین فراقی ، مکاتیب سید سلیمان ندوی بنام خواجہ عبدالوحید، مکتوبات ڈاکٹر محمد حمید اللہ بنام ڈاکٹر لئیق بابری اور فیض احمد فیض بنام ڈاکٹر لئیق بابری شامل ہیں۔
علاوہ ازیں ایک عنوان " کتاب نامہ " بھی "مباحث "کے پہلے شمارے کا حصہ ہے ۔ جو کتابیں اس بار زیر بحث لائی گئی ہیں ان میں فرہنگ کلام میر، مقالات سراج منیر ، تحقیق و تدوین ۔ مسائل اور مباحث، گوہر یکتا، شہر جنات ، کہاں سے لاؤں اُنھیں اور اُردو کلچر اور تقسیم کی وراثت شامل ہیں۔ یہاں ایک اہم بات کا ذکر ضروری ہے کہ تنقید ، تحقیق اور معاصر ادب کے ساتھ ساتھ پاکستانیات کو بھی " مباحث "میں جگہ دی گئی ہے۔ جس سے اس کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے۔ "مباحث" کے لیے نگارشات اس پتے پر ارسال کی جا سکتی ہیں۔ اردو منزل، ۳۲۵۔ اے ، جوہر ٹاؤن ، لاہور۔
-----
تبصرہ ڈاکٹر راشد حمید
اسالیب
کسی نئے ادبی پرچے کا اجراء اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ معاشرے کے اہل علم حضرات زندگی کی تصویر کو مزید رنگوں سے مزین کرنا چاہتے ہیں۔ زیر نظر سہ ماہی کتابی سلسلہ ’اسالیب ‘ کراچی سے پروفیسر سحرانصاری کی سرپرستی میں شائع ہونے والا اس ادبی سلسلے کا دوسراشمارہ ہے۔ جسے عنبرین حسیب عنبرنے ترتیب دیا ہے۔ شمارہ تمام تر عصری تقاضے پورا کرنے کے لیے روایت اور جدت کے امتزاج سے جنم لینے والا ایک ایسا ادبی پرچہ ہے جو مختلف افکار ونظریات رکھنے والے اہل قلم کو اظہار کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے ۔ عنبرین حسیب عنبر نے اداریہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ یہ آپ کا اپنا جریدہ ہے ، آپ چاہے جس نظریے یا فکر کے نمائندہ ہوں اور ’’ اسالیب ‘‘ میں شائع ہونے والی کسی تحریر پر اپنے مختلف نقط�ۂ نظر یا ردعمل کا اظہار کرنا چاہتے ہوں تو ہم اسے خوش آمدید کہیں گے ، مگر ضروری ہے کہ اس کے لیے آپ وہی شائستہ اسلوب اختیار کر یں جو اہل علم وادب کا شیوہ سمجھا جاتا ہے اور یہ بھی کہ دوسروں کے نقط�ۂ نظر کا احترام آپ اختلافِ رائے کے باوجود کریں۔ ‘‘
اس ادبی شمارے میں ادب کی تمام تر اصناف اپنی فطری خوبصورتی ورعنائی کے ساتھ جلو گرہ ہیں ۔ یہ پرچہ ایک عمدہ و بہترین انتھالوجی کا عکاس ہے جس میں نظموں ، غزلوں ، مضامین ، افسانوں ، تراجم اور تحقیقی مقالوں کو نہایت خوبصورت انتھولوجیکل ذوق کی بنیاد پر سجایا گیا ہے۔ اسالیب کے اس شمارے میں سلیم یزدانی ، مبین مرزا ، امجد طفیل ، ڈاکٹر ناصر عباس نیر، رئیس فاطمہ اور عنبرین حسیب عنبر کے مقالات شامل ہیں۔ یہ مقالات مختلف موضوعات کے حوالے سے دعوتِ فکر دیتے ہیں ۔ افسانوں میں منشایاد (واپسی) ،طاہر نقوی (اکیلا)، اخلاق احمد (فسانہ ختم ہوتا ہے )، محمد حامد سراج(موت کھلیان ) ، طاہرہ اقبال (غلاما) اور خالد محمود سنجرانی (مانوس) کے افسانے شامل ہیں۔
خصوصی مطالعے کے گوشے میں ’’ رضی مجتبیٰ کی نئی غزلیں ۔ تازہ کاری کی مثال ‘‘ کے عنوان سے پروفیسر سحر انصاری کا خوبصورت تجزیہ شامل ہے۔ اسی گوشے میں سید مظہر جمیل نے شاہدہ حسن کی تازہ غزلوں کے بارے میں ایک تجزیہ پیش کیا ہے۔
مباحث اور کتابوں پر تبصرے کا گوشہ بھی قارئین کی دلچسپی کے لیے مواد فراہم کرتا ہے جبکہ عزم بہزاد کے حوالے سے یادوں کا احاطہ ان کی شخصیت کی مختلف جہتوں کی عکاسی کرتا ہے۔
کتنے موسم سرگرداں تھے ، مجھ سے ہاتھ ملنانے میں
میں نے شاید دیر لگا دی ، خود سے باہر آنے میں
پرچے کا خصوصی گوشہ جوش کی شاعری اور شخصیت پر مفصل مواد فراہم کرتا ہے اور اس حصے کے تمام مضامین ان کی شاعری اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔
سہ ماہی’’ دستاویز ‘‘ لاہور
خوبصورت سرورق لیے ’’ دستاویز ‘‘ کا تازہ شمارہ شائع ہوگیا ہے۔ اس ادبی پرچے کے مدیران اشرف سلیم اور حبیب چوہدری ہیں۔ اس شمارے میں مختلف علمی اور ادبی موضوعات پر مضامین ومقالات اپنی اپنی جگہ منفرد ہیں لیکن کئی تخلیقات اس سے بیشتر بھی کئی ادبی رسائل میں شائع کی جاچکی ہیں۔ غافر شہزاد کا تحقیقی مضمون ’’ پاکستان میں فن تعمیر اور تاریخ نویسی ‘‘ دلچسپ معلومات کا حامل ہے۔ خصوصی مطالعہ کے گوشے میں ثمینہ راجا کی طویل تازہ نظم ہجر نامہ ‘ شامل ہے۔ مضامین کے حصے میں نو مضامین شامل ہیں جن میں شمس الرحمن فاروقی کا مضمون ’ حواس خمسہ کا باغ ‘ ،محمد حمید شاہد کا مضمون رشید امجد کی افسانہ نگاری ‘ چند اہم زاویے اور کامران کاظمی کا مضمون منٹو ایک اور مطالعہ ‘ نمایاں ہیں۔ مطالعات کے حصے میں آفتاب اقبال شمیم ،ڈاکٹر محمد علی صدیقی ، اقبال فہیم جوزی ، ڈاکٹر ارشد معراج اور رفعت مالک کی تخلیقات شامل ہیں۔
-----
مبصر: عظمت زہراء
سطور ۔ ملتان ۔ شمارہ ۷
دنیائے ادب کے آسمانِ نور پر کچھ نام ستاروں کی طرح جگمگاتے ہیں اور فیض احمد فیض کے نام کا ستارہ اپنی آب وتاب میں مایاں تر ہے۔ فیض کی تہذیبی شخصیت اور انسانی دوستی کی روح سے زندہ اُن کی شاعری کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے سالِ گزشتہ کو اس عظیم درویش صفت شاعر کے نام کیا گیا۔ بہت سی علمی وادبی مجالس منعقد ہوئیں۔ مقالات لکھے اور کتابیں شائع کی گئیں ۔ ملتان آرٹس فورم ، ملتان کے زیر اہتمام شوکت نصیح قادری ، جنید حفیظ ، قاضی علی ابوالحسن کا مرتب کردہ جریدہ ’’ سطور ‘‘ (شمارہ ۷) بھی فیض شناسی کے اس سلسلے سے منسلک ہے جو فیض کی زندگی ہی میں آغاز ہوچکا تھا۔اب یہ بات اور ہے کہ ماضی قریب تک سرکاری وحکومتی سطح پر اس عوام دوست شاعر سے معاندت کا سلوک روکھا رکھا گیا۔ اسے انقلابی افکار رکھنے کے جرم میں قید وبند کی صعوبتوں سے گزارا گیا اور اس کی وطن دوستی کو غداری کا نام دے کر مقدمے چلائے گئے لیکن اس کے باوجود خاص وعام میں فیض کی مقبولیت بڑھتی چلتی گئی ۔ سرکار دربار سے لے کر ترقی پسند تحریک کے ناقدین ومخالفین کو بھی بالآخر اعتراف فیض کرنا پڑا۔ فیض کا شاعرانہ مقام اور شخصی وقار اُردو کی ادبی روایت کے علاوہ عالمی ادبی ودانشورانہ روایت میں مسلمہ صداقت اور نمائندہ پہچان بن چکا ہے۔ ’’ سطور ‘‘ (شمارہ ۷ ) کے مندرجات اسی اجمال کی تفصیل اور اس کے عوامل کو بیان کرتے ہیں۔ ان مندرجات میں ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر صلاح الدین حیدر کے ساتھ ساتھ چند دیگر اہم ناقدین کے مضامین فیض کے چند خطوط، شاعری کے تراجم ، فیض کا ایک سفرنامہ ، شہر ملتان سے فیض کے تعلق کے معتبر حوالے ، منظوم خراجِ تحسین شامل ہے۔ معیار ومقدار کے اعتبار سے سطور کا یہ شمارہ فیض شناسی میں ایک قابل قدر اضافہ ہے جس کا دلکش ، معنی آفریں سرورق معروف فنکار پروفیسر اعجاز ملک کے ’’ مجسمۂ فیض‘‘ پر مشتمل ہے۔
مزید برآں یہ بھی ظاہر ہے کہ’’ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی ‘‘کے مصداق ترقی پسندی ،انسان دوستی ، وطن دوستی کے علم کو اٹھا کر چلنے والے عشاق کے قافلے اسی نسل کے ہیں جس کے لیے فیض نے ایک پر امن ، خوشحال انسانی معاشرے کے خواب دیکھے اور اس نسلِ نو میں سے بیشتر کے آدرش وہی ہیں جو فیض احمد فیض کے تھے ۔ وہ فیض کو اپنا رہبر ومحسن گردانتے ہیں۔ سرمد صہبائی ، ممتاز اطہر کی نظمیں اپنے تخلیق کاروں کے سماجی شعور اور مقام فیض سے آشنائی کی عکاس ہیں۔ شامل کیے گئے مضامین میں سے بعض فیض کی شخصیت وشاعری کے بنیادی پہلوؤں کو سامنے لاتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر انوار احمد کا کہنا ہے کہ :
’’
۔۔۔ اجتماعی زندگی کو تعطل اور انسانی ایمان کو تذبذب سے دوچار کرنے والی قوت کے مقابلے میں امید کا دیا جلانا اور اس کی حفاظت کرنا غیر معمولی کارنامہ ہے۔ جو فیض نے سرانجام دیا ۔ ۔۔۔ فیض کی شخصیت اور فن کی اساس ، بے کراں اور عالم گیر محبت پر ہے اور اس سے یقین اور آرزو کا چراغ جلتا ہے اور یہی سب سے بڑا سچ ہے اور اس کی قیمت ادا کرنا وہ مجاہدہ ہے جس فیض نے سرانجام دیا۔۔۔۔۔۔ ‘‘
(
شخصیت ، فیض کی عظمت کی اساس ، ص ۳۷ ، ۳۶ )
ڈاکٹر صلاح الدین حیدر کے نزدیک ’’۔۔۔ انھوں نے صدیوں کے عمل میں پروان چڑھنے والی اورئینٹل دانائی میں چھپی تبدیلی کی آرزو کو مارکس کے مادی نظریات سے مربوط کرتے ہوئے ایک نیا امتزاج پیدا کیا ۔۔۔۔‘‘ (آج کے نام چند تاثرات، ص ۵۰ )
محمد اعجاز خاور کی رائے میں فیض :
۔۔۔مخاطبت کی وسعت پذیری اور بڑے کینوس کی وجہ سے بدیسی زبانوں میں ترجمہ کیے گئے ہیں۔ ایک یہی بات ان کے میٹریل یا مواد کی فنی ومعنوی عظمت اور عالم گیریت کے حامل ہونے کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ جن زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا ہے، ان معاشروں میں طبقاتی کشمکش اور آویزش کسی نہ کسی طور پر آج بھی موجود اور جاری وساری ہے۔ فیض کے ذاتی مشاہدات کا آفاقی تناظر ، ص ۵۴۔
اسی طرح ڈاکٹر محمد ساجد خان کہتے ہیں :
’’
۔۔۔ فیض نے کبھی وطن کو ماں سے تشبیہ نہیں دی۔ وہ اپنی محبت کے اظہار کے لیے ہمیشہ نگار ، لیلیٰ اور محبوب کے الفاظ سے وطن کو مخاطب کرتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ وطن عزیز کو ابھی ماں بننا ہے۔ ماں اتنی ناانصاف نہیں ہوتی اور نہ ہی ماں کی گود میں بچہ اتنا غیر محفوظ ۔۔۔ لہٰذاس فیض نے اس جان جاں کو انہی خصوصیات سے منسوب کیا جو کلاسیکی غزل کے محبوب کی ہیں۔ ‘‘
(
کلیاتِ فیض ، ایک جائزہ ص ۱۳۶ )
ان مثالے چند سے باور کیا جاسکتا ہے کہ سطور کا یہ شمارہ اپنے مندرجات کے اعتبار سے کس قدر وقعت اور بصیرت افروزی کا حامل ہے۔
-----
مبصر: ڈاکٹر رفعت اقبال خان
مجلہ’’راول کرانیکل ‘‘
ہم سمجھتے ہیں کہ بڑے بڑے ادیب اور شاعر اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے شب و روز کوشاں رہتے ہیں یا پھر مختلف صحافتی مراکز اردو کی خدمت پر مامور ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں ایک نظر مختلف تعلیمی اداروں کے میگزین کی طرف بھی ڈالنی چاہیے۔ تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہر تعلیمی ادارہ سکول ہو یا کالج یا یونیورسٹی اپنے ادارے کے رسالے کے ذریعے اپنے حصے کا دیا جلانے میں مصروف ہے، خواہ اس ادارے کے اساتذہ کرام ہوں یا طلبہ و طالبات کی نگارشات ہوں۔ اردو زبان کی ترقی کے لیے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ طبع زاد نگارشات ہوں یا تحقیقی مقالات یا شاعری کا حصہ ہو۔ ’’راول کرانیکل‘‘ گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین راولپنڈی کی جانب سے شائع ہونے والے اس مجلہ میں ادارتی ٹیم کی طرف سے کافی اچھی کاوش کی گئی ہے کہ فروغ اردو ادب میں کچھ کردار ادا کر سکیں۔ اس کالج کی اردو لٹریری (ادبی) سوسائٹی کے تحت بھی طالبات کے مضامین کی اصلاح کر کے کالج کے رسائل میں چھپے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ کالج و یونیورسٹی کے شعبۂ اردو و انگریزی مل کر ذو لسانی ترقی کے لیے بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
------
مبصر : ثمینہ چغتائی
احوال لاہور
’’احوال لاہور‘‘ ضلعی حکومت لاہور کا ترجمان رسالہ گزشتہ پانچ سال سے شائع ہو رہا ہے اس کے مدیر ڈاکٹر سید ندیم الحسن گیلانی اورمعاون مدیر بینش سلیم خان ہیں۔ یہ رسالہ تاریخ لاہور کو زندہ رکھے ہوئے ہے جس میں لاہور کی تاریخ کے حوالے سے ایک سلسلہ وار مضمون قاری کو بھولے ہوئے سبق کی یاد دلاتا ہے۔ رسالے میں ضلعی حکومت کی سرگرمیوں کے علاوہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے پڑھنے کا مواد موجود ہے ۔ پیش نظر شمارہ اپریل مئی ۲۰۱۲میں اردو بازار لاہور،ادبیات اور گوشہ خواتین کو جگہ دی گئی ہے۔
-----
مبصر :تجمل شاہ
داستانِ اُردو
اصل و اُصول ، لفظ و معانی عظیم ہے
اُردو و ادب کی ساری کہانی عظیم ہے

ہر قوس حرف و صوت میں طوفاں ہیں موجزن
اس بحرِ بیکراں کی روانی عظیم ہے

کرتا ہے دُور پیاس ہر اک تشنہ کام کی
اس دشتِ بے کنار کا پانی عظیم ہے

لفظوں کے بست دور میں چھپے ہیں جہاں کئی
اُردو کی استعداد بیانی عظیم ہے

اس کم سنی میں بھی ہے جوانوں سے ہم سری
اس کم سخن کا جوش و جوانی عظیم ہے

پنجاب ، دہلی ، لکھنؤ ، دکن میں تھا قیام
اُردو زباں کی نقل مکانی عظیم ہے

چاروں طرف تھی دُھوم جب اُردو زبان کی
اک یاد اُن دِنوں کی پرانی عظیم ہے
غضنفر عباس سید
***