بال روم میں علم و فن کا رقص
ڈاکٹر زاہد منیر عامر
قاہرہ میریٹ کا وسیع وعریض بال روم، رقص کرتے قدموں اور مدہوش نگاہوں سے تو آشنا چلاآتاہے لیکن آج یہاں کے درودیوار علم کے سرور اور دنیا کو امن و سکون عطا کرنے کی سوچوں کے رقص کا مشاہدہ کررہے تھے۔دنیا جو انسانوں کی خود غرضی اور نفسا نفسی کے باعث ایک جنگل کا منظر پیش کررہی ہے جہاں ایک ہی قانون نافذ ہے جسے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ اسے ایک بار پھر انسان دوستی، ہمدردی اور صلاح و فلاح جیسے الفاظ میں معانی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، وہ معانی جو ایک مدت سے ان الفاظ سے جدا ہو چکے ہیں ۔جاپانی ادارے نیہو(نیشنل انسٹی ٹیوٹس فار دی ہیومینیٹی )،جاپان سوسائٹی فار پروموشن آف سائنس اور جامعہ قاہرہ کے کلیۃ الآداب نے بجا طور پر اس صورت حال کے تدارک کی راہ اسلامک ایریا سٹڈی میں تلاش کی اور ان تینوں اداروں نے مل کر ۲۰۰۹ ء میں’’ اسلامی مطالعات کے نئے آفاق ۔۔۔شناخت، بقائے باہم اورگلوبلائزیشن ‘‘کے زیر عنوان ایک دوروزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں دنیا بھر سے ۱۶۰ سکالرز شریک ہوئے ۔اس سلسلے کی پہلی کانفرنس ایک سال قبل ملائشیا کے شہرکوالالمپور میں منعقد ہوئی تھی ۔ اس کا نفرنس کے مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد بیان کیے :
۱۔اسلامک ایریا سٹڈیز کے علما کے لیے باہمی رابطے کا ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا۔ ۲۔اسلامک ایریا سٹڈیز کے علما کے لیے ثقافتی اور وطنی حدود سے بالاتر ہوکرتحقیق میں شرکت کی حوصلہ افزائی کرنا۔ ۳۔اسلامک ایریا سٹڈیز کے علما اور اداروں کے لیے باہمی تعاون اور اشتراکِ عمل کے نئے در وا کرنا ۔ ۴۔گزشتہ برس کوالالمپور میں ہونے والی کانفرنس کی کامیابیوں کی روشنی میں اس کثیر ثقافتی عالمانہ تعامل کو آگے بڑھانا۔ ۵۔اسلامک ایریا سٹڈیز کی توسیع سے متعلق نکات، تحدیات،مشکلات اور ان پر قابو پانے کے طریقوں کی نشان دہی کرنا۔ ۶۔کثیر جہتی آزمائشوں کے اس دور میں مختلف ثقافتی شناخت رکھنے والوں کی معاونت کرنا جو بطور خاص اس گلوبلائزیشن کے اس دور میں بقائے باہم میں معاون ہو سکے۔ ۷۔جاپان اسلامک ایریا سٹڈیز پروگرام اورجامعۃ قاہرہ کے کلیۃ الآداب کے جاپانی مشرقی ایشیائی مطالعات کے پروگرام (جو عرب دنیا میں مطالعات جاپان کا ایک راہ نما ادارہ ہے )میں باہمی قدری تبدیلیوں اور باہمی تعاون کی نگہداشت کرنا۔ ۸۔اس کانفرنس کے نتائج کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا۔
افتتاحی تقریب کے بعد کانفرنس کے عام اجلاسوں کا وقت ہوا۔بال روم کو ایک چوبی دیوار کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور دونوں میں الگ الگ اجلاس شروع ہوئے ۔ہر اجلاس کا الگ موضوع الگ مقررین اور صدر جلسہ اورمبصرین تھے ۔اس طرح گویا ایک روز میں چار اجلاس ہوئے ۔جن کے موضوعات یوں تھے ؛شناخت بقائے باہم اور گلوبلائزیشن،تراث کی ثروت مندی کا احیا ۔انسانیت کی تلاش ۔۔۔دانش ورانہ مساعی،مکالمہ اور تعامل۔فلسطین ۔۔۔ہجرت کے اثبات اور نفی کے درمیان۔شخصیات اور شناختیں ۔شرعی عدالتوں کا نظریہ اور عمل مقامیت اور آفاقیت کے درمیان۔گلوبلائزیشن کے عہد میں اسلامی معیشت۔اسلام اور قوم پرستانہ تحریکیں تاریخی تناظر میں ایک باز نظری ۔جاپان اور عرب معاشرے میں جدیدیت اور شناخت۔
راقم الحروف یوں تو اس کا نفرنس کے دونوں دنوں میں ہونے والے اجلاسوں میں حاضر رہا لیکن اس کی خصوصی دل چسپی’’ تراث کی ثروت مندی کا احیا ، انسانیت کی تلاش ۔۔۔دانش ورانہ مساعی، مکالمہ اور تعامل ‘‘میں تھی جس میں فارابی کے عیسائی شاگردیحیٰ ابن عدی ،سیدجمال الدین افغانی اور محمد امین العالم کے حوالے سے مقالات پیش ہوئے ۔راقم الحروف نے اظہار خیال کرتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اس موضوع پر محمد اقبال کے خیالات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جنھوں نے بیسویں صدی کے نصف اول میں سامراجی عناصر کے چنگل میں پھنسی ہوئی انسانیت کو خودی کی بیداری کا سبق دیا اور جس کے افکار نے جنوبی ایشیا میں عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت کے قیام کی راہ ہموا ر کی ۔اقبال نے انسانیت کو اسلام کے ابدی پیغام کی طرف متوجہ کیا ۔جو اہل کتاب سے مخاطب ہوکر انھیں ان امور پر توجہ مبذول کرنے کی دعوت دیتا ہے جو آسمانی ادیان میں مشترک ہیں(راقم نے اس موقع پر متعلقہ قرآنی آیت بھی حاضرین کو سنائی اور اس حوالے سے اسلام کے پیغام امن و آشتی کو واضح کیا) اور جو سلامتی اور امن عالم کی راہ ہموار کرتا ہے ۔اقبال نے کہا
کفر و دین را گیر در پہنای دل دل اگر بگریزد از دل وای دل
گرچہ دل زندانی آب و گل است ایں ہمہ آفاق آفاق دل است
اس اجلاس کی صدارت ڈاکٹر کوریتا یو شی کو نے کی وہ شیبا یونی ورسٹی جاپان میں شرق اوسط کی تاریخ کی پروفیسر اور شرق اوسط پر متعدد کتابوں کی مصنفہ ہیں جاپانی تو ان کی زبان ہے وہ انگریزی اور عربی بھی روانی سے بولتی ہیں۔سید جمال الدین افغانی پر بھی ایک کتاب لکھی ہے جو ۲۰۰۶ ء میں شائع ہوچکی ہے ۔جمال االدین افغانی پر اس سیشن میں مسٹر ہیرانو جنچی نے اپنا مقالہ پڑھا جس میں استعمار، استشراق اور دوسرے مذاہب کے بارے میں ان کے خیالات کا ذکر کیا گیا۔راقم نے اس بات کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ افغانی کے مطالعے میں اس امر کی جانب تحقیق کی ضرورت ہے کہ ایک خاص زمانے کے بعد سے آخر کیوں افغانی کی کردار کشی کی کوششیں شروع کی گئی ہیں ۔۔۔؟ شرکا کو اس جانب بھی متوجہ کیا گیاکہ افغانی کے پیغام کو آگے بڑھانے اور اس کے ایک نہایت اہم مداح کے طور پر بھی اقبال کا مطالعہ اہم ہے جس نے افغانی کو اپنی شاہ کار تصنیف جاوید نامہ میں بلند مقام دیتے ہوئے کہا ہے :
سید السادات مولانا جمال
زندہ از گفتار او سنگ و سفال
اس نشست کے ماہرین میں ڈاکٹر ریاض نوراللہ بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر ریاض نور اللہ شامی الاصل برطانوی ہیں۔
دوسرے دن کے اختتامی اجلاس میں پروفیسر ایجی ناگاساوا کے اختتامی کلمات تفکر کا خاصا سامان لیے ہوئے تھے جنھوں نے بجا طور پر حاضرین کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ اس دور میں جب کہ دنیا ماحولیات اور ایٹمی توانائی کے سوال کا سامنا کررہی ہے، اس کا نفرنس کا موضوع بے حد اہم ہے ہمیں اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس کانفرنس کے ذریعے اس ضمن میں کیا خدمت انجام دے سکے ہیں ؟لیکن جیسا کہ کسی بھی علمی سرگرمی کے نتائج اسی وقت سامنے دکھائی نہیں دیا کرتے بظاہر تو یہ کانفرنس بھی ختم ہوگئی اور مصر کے اخباروں میں اس کا کوئی چرچا بھی نہ ہوا لیکن ایسی علمی سرگرمیوں کے نقش دیرپا ہوتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتے رہتے ہیں اسی طرح یہ کانفرنس بھی جس نے بہت بڑے پیمانے پر عالمی سطح کے متعدد دانش وروں کو مل بیٹھنے اور باہم تبادلہ خیال کے مواقع فراہم کیے اور عصری اور تاریخی مسائل پر سیر حاصل بحثیں چھیڑیں اپنے دوررس اثرات کے اعتبار سے بہت اہم علمی سرگرمی تھی۔