ڈاکٹر انصار الدین کی یاد میں
محمد وحید الحسن
سفیر پاکستان دراز از بیکستان
انصارالدین ابراہیموف کی ناگہانی وفات کی خبر مجھے اسلام آباد میں حالیہ مختصر تعطیل کے دوران ملی۔ یہ اچانک خبر ایک دھماکہ سے کم نہ تھی۔ بظاہر اتنا صحت مند شخص اس طرح اچانک دنیا چھوڑ جائے گا، یقین نہ آیا۔ ذہن میں فوراً ان کا ہشاش بشاش ، مسکراتا دمکتا ہوا چہرا آگیا اور دل میں ایک غبار سا چھا گیا۔ صدمہ کم شدید نہ تھا۔ دکھ اس بات کا بھی تھا کہ اُن کی آخری رسومات میں شامل ہونے کا موقع بھی میسر نہ ہوا۔ بس انّا للہ وَ اِنّا الیہ راجعون کہہ کر صبر کیا اور اُن کی روح کے لیے زیرِ لب دعا کی کہ موت سے برحق کوئی چیز نہیں ہے۔ بے شک ہر شَے اپنی اصل کی طرف لوٹ کر جانے والی ہے۔
میں ۱۱ ستمبر ۲۰۰۹ء کے یادگار دن اپنی سفارت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے تاشقند پہنچا تو چند اولین مصروفیات میں ’’تاشقند ادارہ برائے شرق شناسی‘‘ کے قائدین سے ملاقات بھی تھی کہ وہاں پر شعبہ اردو میں حال ہی میں سفارتخانے کی مدد سے ایک ’’پاکستان سنٹر‘‘ قائم کیا گیا تھا۔ ادارہ کے ریکٹر پروفیسر عبدالرحیم منانوف اور مشہور اردو دان و محقق ڈاکٹر تاش مرزا (ستارہ امتیاز) کے ساتھ جس تیسری شخصیت نے شرفِ پذیرائی بخشا وہ ڈاکٹر استاد انصارالدین تھے۔ سب حضرات نے نہایت گرمجوشی اور تپاک سے ایسے استقبال کیا جیسے اپنا کوئی ہم وطن واپس آ گیا ہو۔ ادارے میں جاکر اور وہاں کے اساتذہ اور طالب علموں سے مل کر ان کی اپنائیت، محبت اور خلوص کا بھرپور احساس ہوا۔ ان لوگوں کی پاکستان سے محبت دیکھ کر دل بہت سرشار ہوا۔ اس احساس کو اجاگر کرنے میں بے شک ڈاکٹر مرحوم کی مسکان بھری اور شفیق شخصیت کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ انھوں نے پہلی ملاقات میں مترجم کے فرائض سر انجام دیے اور یہ ذمہ داری آخر وقت تک نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ جب بھی اس ادارے میں جانے کا اتفاق ہوا، انصارالدین میرے ناطق رہے۔ ایک دفعہ جب میں ادارے کے شعبہ اقتصادیات میں اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے بارے میں وہاں کے اساتذہ سے استفادہ کرنے گیا تو انھوں نے میرے لیے خاص طور پر وقت نکالا اور وہاں تشریف لائے۔ یہ ان کی ذمہ داری نہ تھی بلکہ محبت تھی۔
اردو زبان و ادب پر ڈاکٹر صاحب کو بے پناہ عبور حاصل تھا۔ ان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا تھا کہ اہلِ زبان سے بات کر رہے ہیں بلکہ ان کے سامنے اپنی ہی زبان میں اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا رہتا تھا۔ انھوں نے زبانِ اردو کے فروغ کے لیے بہت سی کتابیں لکھیں اور ان کے لیے بہت جستجو و تحقیق کی۔ بہت سے مضامین بھی مختلف اخبارات و رسائل اور جرائد میں شائع کروائے۔ انھوں نے اردو ادب اور تاریخ ادبیات پاک و ہند میں نہایت عمیق اور فاضلانہ کام کر کے نہ صرف اردو ادب کی خدمت کی بلکہ وسطی ایشیا اور ازبیکستان میں ادب کے شناسائیوں کو اردو ادب کے لطیف پہلوؤں سے بھی روشناس کرایا۔
مقتدرہ سے شائع ہونے والی ان کی کتاب ’’اردو۔ازبیک مشترک الفاظ کی لغت ‘‘ ڈاکٹر انصارالدین مرحوم کی شاہکار تصانیف میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں ان کی یہ کوشش اولین حیثیت رکھتی ہے، اس کتاب نے پاکستان اور ازبیکستان کو ثقافتی اور لسانی اعتبار سے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی اس رہنما کتاب اور تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ’’اردو‘‘ اصل میں ازبیک زبان کا لفظ ’’اوردا‘‘ ہے۔ پاکستان میں عام طور پر اہل علم ’’اردو‘‘ کو ترکی زبان کا لفظ مانتے ہیں جس کا مطلب ’’لشکر‘‘ ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کا خاص مرکز ’’بابرنامہ‘‘ تھا۔ انھوں نے برصغیر پاک و ہند میں سلطنتِ مغلیہ کی بنیاد ڈالنے والے تیموری شہزادے ظہیر الدین بابر کی سوانح عمری پر مختلف پہلوؤں سے بہت تحقیق کی اور اس میں نئے پہلو اور جہت تلاش کیے۔ ’’بابر نامہ میں ہندوستانی الفاظ‘‘ کے موضوع پر اُن کا پی ایچ ڈی کا مقالہ اپنی نوعیت کی ایک اعلیٰ پائے کی تصنیف سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ’’بابر نامہ کا ازبیکستان میں مطالعہ‘‘ ،’’پاکستان میں بابر شناسی‘‘، ’’ازبیکستان کے انسائیکلوپیڈیا میں اردو پر خاص مضمون ‘‘ ، ’’ پاکستان کے عظیم صوفی شعراء‘‘، ’’ازبیک ۔پاکستان ادبی تعلقات کا جائزہ ‘‘ ، ’’سندھی زبان پر مضمون اور منشی پریم چند اور کرشن چندر وغیرہ پر بے شمار مضامین ڈاکٹر صاحب کی وہ علمی اور ادبی خدمات کا حصہ ہیں جو ہمیشہ یاد رہیں گی۔
استاد انصارالدین ابراہیموف مرحوم کی زیر نگرانی شعبہ زبانانِ جنوبی ایشیا نے بہت وسعت حاصل کی۔ یہ ان کی انتھک محنت کا نتیجہ تھا کہ اس شعبہ میں سفارت خانہ پاکستان کی مدد اور تعاون سے ’’پاکستان سنٹر‘‘ بھی قائم ہوا۔ اس سے پہلے دوسری جنوبی ایشیائی زبانوں کے مراکز بھی قائم ہوئے۔ شعبہ کے کتب خانے میں بھی اضافہ ہوا اور طلباء و طالبات کی تعداد بھی بڑھی۔ زبان اردو کے فروغ اور پاکستان۔ ازبیکستان دوستی کے روابط گہرا کرنے میں ڈاکٹر صاحب مرحوم کی پاکستان میں ازبیک زبان کے معلم کے طو رپردو سالہ تعیناتی نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ ان کی خدمات پر دونوں ممالک کے عوام ان کے ممنون رہیں گے۔ زبانوں کی خلیج دور کر کے لوگوں کو قریب لانے میں بھی اُن کاکردار نمایاں ہے۔ اُن کے چلے جانے سے جو خلیج بن گئی ہے کیا وہ عبور ہو سکے گی؟ یقیناً اس میں بہت وقت لگے گا۔
Samuel Johnson
کے مضامین میں سے مستعار لیا گیا انگریزی کا یہ قطعہ ڈاکٹر مرحوم پر کتنا مناسب لگتا ہے !

Good men are scarce, the just are thinly sown;
They thrive but ill, nor can they last when grown.
And should we count them, and our store compile;
Yet theres more gates could shew, more mouths the Nile.