ڈاکٹر محمد شہزاد
عطاء الحق قاسمی ایک سدا بہار کالم نگار
عطاء الحق قاسمی ادبی دنیا کے لئے عطائی نہیں بلکہ عطا ہیں۔ ان کے ساتھ حق کی آواز شامل ہو جاتی ہے تو قحط الرجال میں وہ عطاء الحق بن کر سامنے آتے ہیں۔ حق گوئی ہو یا حق کی تلاش ہر عہد میں مشکل رہی ہے اسی طرح دوسرے عطاء الحق قاسمی کی تلاش بھی مشکل ہے۔
جیسے مریضوں کی کثرت ہو اور ڈاکٹر کم۔ وبائی امراض پھیل رہے ہوں تو عطائی حکیم عطائی ڈاکٹر کھمبیوں کی طرح نکل آتے ہیں اور خم ٹھونک کر انسانی جانوں کو تختہ مشق بناتے ہیں۔ آج کل معاشرہ بڑے گھمبیر مسائل اور اخلاقی امراض کا شکار ہے۔ اس لیے ڈاکٹر کی طرح کالم نگار بھی کم اور عطائی کالم نگار تصویروں کے ساتھ چھپتے اور اپنے نیم کارڈ (Name Card) پر کالم نگار کا سابقہ لاحقہ لگائے گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت آپ یقیناًمجھ سے اتفاق کریں گے کہ عطاء الحق حقے سچے کالم نگار ہیں اور ان کی کالم نگار ی حقیقت نگاری سے مزین ہے۔
عطاء الحق قاسمی کی کالم نگاری میں سب سے زیادہ کشش وسیلۂ اظہار کی ہے کہ اہل زبان کی طرف سے کسی سند کی ضرورت سے بے نیاز نظر آتے ہیں کہ زبان ضرور کوثر وتسلیم میں دُھلی ہو گنگا یا جمنا میں غسل یا تیمم کرایا جائے۔ یہ جذبے کی صداقت سے بے ساختہ کالم کو اپنے قلم کے گرد محوِ طواف کر لیتے ہیں اور دیس پنجاب کے کھیتوں کھلیانوں اور دیہات کی خوشبو میں ڈوبے ہوئے آنچل کی طرح لہراتے ہیں۔
؂ شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
یہ بات تو شاعری اور شعروسخن کے حوالے سے کہی جاتی ہے کہ جذبات کے ساتھ ساتھ انسان کی شخصیت کا بھی اظہار ہو جاتا ہے۔ عطاء الحق قاسمی کا ہر کالم ان کی شخصیت کو بھی سامنے لاتا ہے لیکن قاسمی صاحب رسوائی کا الزام نہیں اٹھاتے۔ چونکہ کالم بھی کسی نہ کسی نئے موضوع پر ہوتا ہے اس لیے ان کی شخصیت کا بھی کوئی نیا پہلو سامنے آتا ہے جو بڑا محترم ہوتا ہے۔ مثلاً یہ پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہیں لہٰذا میں انہیں قومی کالم نگار کہہ سکتا ہوں۔ پاکستان کے مسائل جیسے گاؤں گاؤں، شہر شہر، گھرگھر بکھرے ہوئے ہیں وہ اس کالم نگار کی رگوں میں بھی دوڑتے پھرتے نظر آتے ہیں اور یہی سوچ انہیں پھر ایک سچے کالم نگار اور کالم نگار سے آگے غم گسار کی طرح سامنے لاتی ہے۔
عطاء الحق قاسمی کے ہر کالم میں شاخِ گُل کی مہکارتو ہے تلوار کی کاٹ نہیں اور مزاح کا رنگ بھی گلابی گلابی ہے جو کالم نگاری میں سیرابی کے عمل کو زندہ رکھتا ہے۔ یہ کالم نگاری میں ابہام نگاری نہیں کرتے کہ یہ باتیں ضرور کرنا ہیں بلکہ قلم کی روانی اور احساس کی جولانی انہیں خود بیدار رہنے اور بیدار رکھنے کے راستے پہ ڈال دیتی ہے۔ جس کردار کو موضوع بناتے ہیں اس کے خدوخال پوری سچائی کے ساتھ ہمارے سامنے لاتے ہیں لیکن اس میں انسانی تحقیر یا تذلیل کی صورت پیدا نہیں ہونے دیتے۔ یہاں وہ کالم نگار کے منصب اور دائرہ فکر کی جغرافیائی حدود (Line of Demarcation) بھی متعین کرتے ہوئے آگے آتے ہیں۔
عطاء الحق قاسمی اپنے ہر کالم میں امید اور سدھار کی کھڑکی کھلی رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے کالموں میں فتوے بازی اور حرب و ضرب نظر نہیں آتی۔ عطاء الحق قاسمی نے اپنے ماہ وسال ہوائی سفر میں نہیں گزارے بلکہ زمینی مقاماتِ آہ وفغاں سے بھی گزرے ہیں۔ محنت کی شدت اور محنت کے ثمرات واثرات سے بھی ہمکنار ہیں۔ اس لیے وہ لکھتے وقت امام مسجد، ماجھے ساجھے، سیاست دان، شاعر، ادیب، فرشتے یا شیطان پر لکھ رہے ہوتے ہیں تو وہ چشم دید گواہ کی طرح شہادت بن کر لکھتے چلے جاتے ہیں اور اس سیاحت میں ہم بغیر ٹکٹ کے اپنے ملک میں ہنستے، روتے کرداروں سے ہاتھ ملا لیتے ہیں۔ چونکہ عطاء الحق قاسمی کی کالم نگاری بھی ربع صدی کا حصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ اس لیے آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ وہ الفاظ کو بیساکھی بنا کر نہیں لکھتے بلکہ الفاظ کو نئے نئے پیرہن پہنا کر عروسِ اظہار میں جلوہ افروز کرتے ہیں۔ میں یہاں اس مقام پر ایک مثال دینا چاہوں گا۔
"
اپوزیشن کا 'الف' گرادیا جائے تو باقی 'پوزیشن' رہ جاتی ہے اور پوزیشن تین طرح کی ہوتی ہے۔ پوزیشن جو اچھی بھی ہوتی ہے، بری بھی ہوتی ہے اور پوزیشن جو لی بھی جاتی ہے۔ سو اپوزیشن میں اس وقت تینوں قسم کی پوزیشن کے لوگ موجود ہیں"۔
اب یہاں دیکھیے عطاء الحق قاسمی نے ایک لفظ کی تبدیلی سے اپنے کالم کو مکمل کر لیا اور ایوان میں بیٹھے کتنے چہروں کو آئینہ رو کر دیا۔
ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی روایات جنہیں ہم نے اپنے سینوں سے لگا رکھا ہے اور آنکھ اشکبار نہ ہوتے ہوئے بھی زندگی کو سوگوار دیکھتی ہے لیکن عطاء الحق قاسمی کی کالم نگاری دیکھیے کہ وہ روایات کے اس کرب زار میں بھی عطاء الحق بن کر سامنے آتے ہیں۔
عطاء صاحب کے بقول !
"
کسی محفل میں میری ملاقات ایک سوگوار شخص سے ہوئی جس کے والد کو فوت ہوئے کچھ عرصہ گزرا تھا۔ وہ اپنے والد کی وفات سے متعلق گفتگو کر تے ہوئے کہہ رہا تھا 'پورے نو من گھی خرچ ہوا ہے'اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ شایدُ مردوں کو تَل کے دفن کیا جاتا ہے کیونکہ متذکرہ شخص کا نومن گھی چہلم کی رسومات کی ادائیگی کے سلسلے میں خرچ ہوا تھا"۔
عطاء الحق قاسمی کی کالم نگاری کو معاشرے میں تعمیری کردار ادا کرنے والوں کی محبت بھی رنگ وروغن فراہم کرتی ہے۔ مثال کے طور پر تحریک پاکستان میں جنہوں نے کردار ادا کیا اور ان کا خون وطن عزیز کی بنیادوں میں صرف ہوا یا وہ کردار جو صلاحیتوں کے ساتھ ہی زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے یا وہ استحصال کی ٹھوکریں کھاتے رہے یہ عطاء صاحب کی کالم نگاری کا اثاثہ ہیں وہ کالم نگاری کے فورم پر کس خوبصورت انداز میں آنکھوں میں شبنم کی ٹھنڈک اتار تے ہیں۔ اگرچہ کچھ حاتم طائی ناراض ہیں کہ وہ کالم نگاری سچائی کی دہلیز پر بیٹھ کر کرتے ہیں اور ان کے قلم کی روشنائی کسی کشکول میں جمع نہیں رہتی۔ کچھ روزقبل آپ کا کالم حفیظ جالندھری کے حوالے سے تھا۔
اگرچہ حفیظ جالندھری قومی ترانے کے خالق ہیں شاہنامہ اسلام ان کا شاہکار ہے۔ لیکن وہ ماضی کا افسانہ بنتے جارہے ہیں اس لیے ان کے دل کی ہُوک اور قلم کی کُوک ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ میں جہاں ریاست ہو سیاست ہو ادب ہو وہیں ان مشاہیر کے نام کی خوشبو کو محسوس کیا جائے یعنی انہیں صرف ماضی کے چراغ نہ سمجھا جائے بلکہ اپنی سوچ میں ان کی سوچ کی روشنی کو بھی شامل کیا جائے۔
جیسے چاند کے گرد روشنی کا ایک ہالہ ہوتا ہے اور اردگرد ستارے بکھرے ہوتے ہیں یہ ستارے ان کے موضوعات ہیں اور یہ چاند کا ہالاعطاء صاحب کی شگفتگی اور مزاح نگاری ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ عطاء الحق اگر عطاء الحق ہیں تو وہ کالم نگار ہیں۔ اگر وہ کالم نگار ہیں تو عطاء الحق قاسمی ہیں۔ اس لیے جب بھی کالم کو چھوا جائے گا اور جب کسی کالم نگار کے نام پر دستک دی جائے گی تو ہر موڑپر عطاء الحق قاسمی اپنے کالم کے ساتھ ہم کلام ہو ں گے۔ کالم لکھتے ہوئے اور کالم پڑھتے ہوئے دکھائی دیں گے اور یہ کالم نگاری کی وسعتیں ہیں کہ شاعری میں بھی ان کے ہر شعر میں کالم کی دھنک مسکراتی اور جی کو لبھاتی ہے۔