انعم نواز

اشاریہ اخبار اردو

قوموں کی تہذیب و ثقافت میں زبان بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ تہذیب کا ارتقأ اور ثقافتی ترقی زبان کی ترقی کے راست متناسب ہوتی ہے۔ اسی اصول کے تحت برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کی نمو میں اردو زبان کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا ہے۔ اردو زبان کی اسی اہمیت کے پیش نظر بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں بھی اردو کو بالترتیب دو قومی نظریہ کی اساس اور پھر قومی اور سرکاری زبان قرار دیا۔
انہی مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کے آئین ۱۹۷۳ء کی دفعہ ۲۵۱ کے تحت ایک قرار داد کے نتیجے میں ۴؍اکتوبر ۱۹۷۹ء کو ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ عمل میں لایا گیا۔ اس کا صدر دفتر کراچی میں بنایا گیا، پھر ۱۹۸۳ء میں یہ صدر دفتر کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ اس کے پہلے صدرنشین نامور مؤرخ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مقرر کیے گئے۔ ا س کے بعد بالترتیب میجر (ر) آفتاب حسن، ڈاکٹر وحید قریشی ، ڈاکٹر جمیل جالبی، افتخار عارف اور پروفیسر فتح محمد ملک صدر نشین رہے۔ موجودہ صدرنشین افتخار عارف اب دوسری مرتبہ صدرنشین رہنے کے بعد حال ہی میں سبکدوش ہوئے ہیں۔ البتہ ان کی رہنمائی اور قیادت میں مقتدرہ قومی زبان کے زیر اہتمام بہت سے علمی وتحقیقی پروگراموں پر کام ہوا ہے۔
مقتدرہ قومی زبان نے اپنے مقاصد کی ترجمانی اور اردو زبان کے فروغ کے لیے جوالائی ۱۹۸۱ء میں ماہنامہ ’’اخبار اردو‘‘ کا اجراء کیا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل اخبار اردو کے پہلے مدیر تھے جو جولائی ۱۹۸۱ء سے اپریل ۱۹۸۳ء تک اس کی ادارت کے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔
’’اخبار اردو‘‘ کے بیس سال مکمل ہونے پر ڈاکٹر محمد اشرف کمال نے اس میں شائع ہونے والے مضامین کا موضوعاتی اشاریہ مرتب کیا جو جولائی ۱۹۸۱ء سے جون ۲۰۰۱ء تک شائع ہونے والے شماروں کی تخلیقات پر محیط تھا۔ یہ اشاریہ اخبار اردو کے جولائی اگست ستمبر ۲۰۰۱ء کے مشترکہ شمارے میں شائع کیا گیا۔ ڈاکٹر محمد اشرف کمال نے اخبار اردو کا پچیس سالہ شماریاتی جائزہ بھی ترتیب دیا جسے اخبار کے دسمبر ۲۰۰۶ء کے شمارہ میں شائع کیا گیا۔
ڈاکٹر محمد اشرف کمال کی زیر نظر کتاب ’’اشاریہ اخبار اردو‘‘ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کے ترجمان رسالے ’’اخبار اردو‘‘ کے جولائی ۱۹۸۱ء تا دسمبر ۲۰۰۹ء تک انتیس سال کے شماروں میں شائع ہونے والے مضامین کا اشاریہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑی محنت اور دقت نظر سے اشاریہ مرتب کیا۔
کتاب کے شروع میں اپنے پیش لفظ میں افتخار عارف، سابق صدرنشین مقتدرہ، نے جہاں اخبار اردو کی اشاعت کے مقاصد پر روشنی ڈالی ہے، وہاں زیر نظر کتاب کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: ’’ہمیں امید ہے ڈاکٹر اشرف کمال کی یہ کاوش جہاں اخبار اردو کے تقریباً انتیس سالہ ریکارڈ کو محفوظ کرتی ہے، وہیں یہ اردو زبان و ادب سے منسلک افراد کے لیے بالخصوص استفادہ کا باعث ہو گی۔‘‘
فاضل مرتب نے ’’حرف آغاز‘‘ کے عنوان سے مقتدرہ قومی زبان اور اخبار اردو‘‘ کی مختصر تاریخ اور مقاصد تحریر کیے ہیں۔ اخبار اردو کے خصوصی شمارہ جات کے بارے میں بھی تفصیل فراہم کی گئی ہے۔ کتاب بالمجموع دو حصوں پر مشتمل ہے۔
حصہ اول : اشاریہ مضامین اخبار اردو بلحاظ موضوعات
حصہ دوم : اشاریہ مضامین اخبار اردو بلحاظ مصنفین
رسائل و جرائد کا اشاریہ بنانے میں موضوعات کی ترتیب بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر محمد اشرف کمال نے اس کتاب میں جس ماہرانہ انداز میں موضوعات کو ترتیب دیا ہے، اس کی وجہ سے ایک قاری کو اپنے مطلوبہ مواد تک پہنچنے میں بہت آسانی ہو گی۔ چنانچہ پہلے حصے میں انھوں نے مضامین کا اشاریہ موضوعات کے حوالے سے بنایا ہے ۔ اس میں انھوں نے تیس موضوعات مع متفرقات کے حوالے سے اشاریہ مرتب کیا ہے۔ ان میں ۱۔ اردو ادب، ۲۔اردو اور پاکستانی زبانیں، ۳۔ اردو سائنسی اور جدید علوم، ۴۔ اردو زبان اور انگریزی، ۵۔ اردو زبان۔ تاریخ، تشکیل و ارتقاء ، ۶۔ اردو عالمی تناظر میں، ۷۔ اردو: قومی زبان اور قومی یکجہتی، ضرورت و اہمیت، ۸۔ اشاریہ اور فن اشاریہ سازی، کتابیات، ۹۔ اصطلاحات ، ۱۰۔ انٹرویو ، ملاقات ، گفتگو، مکالمہ، ۱۱۔ بیرون ملک اردو، ۱۲۔ پیغامات، تأثرات ، خطبات، مکتوبات، ۱۳۔ تعارف،تبصرہ کتب، تبصرہ نگاری، ۱۴۔ تعلیم و تدریس ، نصاب اور امتحان، ۱۵۔ تنقید و تحقیق، ۱۶۔ دفتری ترکیبات، محاورات، فقرات اور دفتری اردو، ۱۷۔ رسم الخط، اِملا اور رموز اوقات، ۱۸۔ سروے ، روداد ، کانفرنس، سیمینار، ۱۹۔ شخصیات، انٹرویو، ۲۰۔ صحافت، اخبارات، رسائل و جرائد، ۲۱۔علمی و ادبی ادارے، ۲۲۔ فن ترجمہ، ترجمہ نویسی، ۲۳۔ قائداعظم ، اردو اور تحریک آزادی ، ۲۴۔ قواعد، لغت ، ۲۵۔ کالم ، اداریہ، ۲۶۔ کمپیوٹر، ٹائپ مشین، ۲۷۔ لائبریری سائنس (علم کتب خانہ)، ۲۸۔ لسانیات ، الفاظ، زبان اور صوتیات، ۲۹۔ مقتدرہ قومی زبان اور مطبوعات مقتدرہ، ۳۰۔ نفاذ اردواور ۳۱۔ متفرقات جیسے موضوعات شامل ہیں۔
دوسرے حصے میں فاضل مرتب نے تمام مضامین کا اشاریہ بلحاظ مصنفین ترتیب دیا ہے۔ اس کی وجہ سے محققین اور قارئین اپنی تحقیق و مطالعے کے دوران ’’اخبار اردو‘‘ میں اپنے مطلوبہ مصنف کے شائع شدہ تمام مضامین کی تفصیل ایک ہی جگہ دیکھ سکتے ہیں۔
کتب و رسائل کے اشاریوں کی افادیت اور ضرورت و اہمیت سے کون واقف نہیں ہے۔ ان اشاریوں کی وجہ سے نہ صرف پرانے رسائل و جرائد کے بارے میں تمام تفصیلات مل جاتی ہیں بلکہ تمام رسائل کو کھنگالنے کے بجائے اشاریہ کی مدد سے مطلوبہ مواد بآسانی بہت کم وقت میں حاصل کیا جا سکتاہے۔ زیر نظر کتاب’’اشاریہ اخبار اردو‘‘ بھی رسائل کے دیگرمعیاری اشاریوں کی طرح اشاریہ سازی کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اشاریہ نگار ڈاکٹر محمد اشرف کمال نے برسوں کی محنت کے بعد اخباراردو کے مضامین کا انتیس سالہ اشاریہ پیش کیا ہے جو ادب کے عام قارئین کے لیے بھی اتنا ہی مفید ہے جتنا کہ ایم اے، ایم فل، پی ایچ ڈی کے محققین کے لیے۔