ترک نژاد اردو دان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر جلال صوئیدان
ڈاکٹر اے، بی، اشرف


لمبا سیدھا ، گورا چٹا رنگ ، سیاہی اور سفیدی کا امتزاج لیے بڑھے ہوئے لمبے لمبے بال ، بلوریں آنکھیں ، سجل ، سمارٹ نوجوان ، شلوار قمیض پرواسکٹ اور پاؤں میں پشاوری چپل پہن لے تو ہمارے پختون خوا کا گبھرو پٹھان لگے۔ نام کا جلال مگر نِرا جمال ہی جمال___ اس پر کسی بھی حالت میں جلال طاری نہیں ہوتا۔ صحیح معنوں میں شریف الطبع ، شریف النفس انسان __ بہترین شاگرد، بہترین استاد ، بہترین دوست ، بہترین رفیق کار ، بہترین خاوند اور بہترین باپ__ ایک ترک شریف زادی آہو خانم کی چشم آہو کا صیدبن کر جنم جنم کا رشتہ اس سے باندھ لیا۔ نہایت پیارے دو بچے اس کے بطن سے پیدا ہوئے ایک اتکوبے اور دوسری غزل خانم۔ دونوں اپنے ماں باپ کی آنکھوں کے تارے اور انقرہ میں میری محبت ، توجہ اور دلچسپی کے مرکز اور دلبر دلارے ہیں۔
جلال اور آہو میں ترکوں کی مہمان نوازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ دونوں خلوص، محبت، شرافت اور وضع داری کا پیکر ہیں۔ آہو نے ہندولوجی ڈیپارٹمنٹ سے گریجویشن کی اور جلال صوئیدان نے اُردو شعبے سے گریجویشن اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ دونوں کا پیار رادھا اور کنہیا کے دیس میں (جب دونوں سیاحت پر تھے ) پروان چڑھا اور ترک بچہ چشم آہو کی ترکتازی سے گھائل اور دلفگار ہوا اور پھر جلال آہو گیر نے آہو کو آہوئے حرم بنا لیا۔
جلال صوئیدان بحر اسود کے کنارے بسے ہوئے ایک چھوٹے سے شہر’’ گموش خانے ‘‘میں پیدا ہوئے۔ سال پیدائش کے لحاظ سے اس وقت ان کی عمر پینتالیس سے تجاوز کر گئی ہے لیکن وہ اپنی اصلی عمر سے بہت کم لگتے ہیں۔ لیسے (Lise) یعنی میٹرک کرنے کے بعد ۱۹۸۴ء میں انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اُردو زبان وادبیات میں گریجویشن کے لیے داخلہ لیا۔ چار سال کی تعلیم کے بعد گریجویٹ ہوئے اور اسی سال( ۱۹۸۸ء) ڈاکٹر انوار احمد کے بقول رانجھا اپنی ہیر کی تلاش میں چل نکلا۔ بسوں کا سفر کرتے ہوئے وان جھیل (ترکی اور ایران کی سرحدوں کے درمیان واقع) تک پہنچا اور وہاں سے فیری پر ایران کی سرحد میں داخل ہوا۔ پھر ایرانی بسوں کے ذریعے پاکستان کی سرحد پر پہنچا اور میرامن کے درویشوں کی طرح منزل پہ منزل مارتا منزل مقصود یعنی سرزمین لاہور تک پہنچ گیا اور پھر اس دلکش شہر نے ان کے پاؤں ایسے پکڑے کہ پانچ برس تک اپنی زلفِ گرہ گیر کا اسیر بنائے رکھا۔
جس ہیر کی تلاش میں یہ رانجھا گیا تھا وہ تو نہ مل سکی البتہ اورئینٹل کالج میں علم کی دیوی سے ناطہ جوڑ لیا۔ اُردو زبان وادب کے اس شیدائی نے پہلے تو دو ڈپلومے حاصل کیے اور پھر ایم اے اُردو میں داخلہ لے لیا۔ دو سال میں ایم اے اُردو کا امتحان پاس کیا ۔ ایم اے کے لیے ’’ ترکی میں مطالعۂ اقبال ‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ بھی قلم بند کیا۔ ایم اے کرنے کے بعد جلال صوئیدان واپس انقرہ آئے اور شعبہ اُردو کے ساتھ بطور ریسرچ سکالر وابستہ ہوئے۔ پی ایچ ڈی کے لیے پہلے کورس ورک مکمل کیا۔ ڈاکٹر شوکت بولو اور میں نے انھیں کورس ورک مکمل کرایا۔ جیوری میں کامیابی کے بعد’’ مطالعہ اقبال ___اُردو کی منثور تخلیقات کی روشنی میں ‘‘ کے موضوع پر ریسرچ شروع کی اور ۱۹۹۹ء میں یہ مقالہ مکمل کیا۔ ممتحین کی جیوری میں مَیں بھی شامل تھا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے بعد وہ ہمارے باقاعدہ رفیق کار بن گئے اور انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے ساتھ بطور استاد وابستہ ہوگئے۔
ٍ ۲۰۰۲ء میں اسسٹنٹ پروفیسر منتخب ہوئے ۔ ۲۰۰۵ء میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن (ترکی میں اس کو YOK کہتے ہیں ) کا امتحان پاس کر کے اپنے تحقیقی کام کی بنیاد پر ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوگئے اور پھر ۲۰۱۰ء میں پروفیسر بن گئے ۔ ڈاکٹر شوکت بولو کی ریٹائرمنٹ کے بعد شعبے کی سینئر اُستاد ڈاکٹر سلمیٰ بینلی شعبے کی سربراہ مقرر ہوئی تھیں لیکن کینسر کے موذی مرض کے سبب ۲۰۰۵ء میں انتقال کر گئیں تو ڈاکٹر جلال صوئیدان شعبے کے صدر مقررہوئے اور تاحال شعبے کے سربراہ ہیں۔
اس وقت ترکی میں اُردو زبان وادب کی ترویج وترقی میں جتنا وقیع اور جامع کام استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوق آر (استادِ محترم ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار مرحوم کے داماد) اور انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے صدر پروفیسر ڈاکٹر جلال صوئیدان کر رہے ہیں اتنا نہ تو ان سے پہلے کسی نے کیا اور نہ موجودہ دور میں کوئی اور کر رہا ہے۔ اس وقت تک ڈاکٹر جلال صوئیدان کی ایک درجن کتابیں اور بیس سے زیادہ مقالات شائع ہوچکے ہیں۔ چار پانچ کتابیں زیر طبع ہیں۔
سن ۲۰۰۰ میں ان کی پہلی کتاب آکچا پبلی کیشنز انقرہ سے شائع ہوئی ۔ اس کتاب کا نام اقبال کی ایک نظم ’’ ذوق وشوق ‘‘ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کتاب میں علامہ اقبال کی دس طویل نظموں کا منظوم ترکی ترجمہ شامل ہے۔ ڈاکٹرجلال صوئیدان غالب اور اقبال کے عاشق ہیں اور انھوں نے ان دونوں عظیم شاعروں پر بڑا کام کیا ہے۔ اقبال کے چار مجموعوں کا منظوم ترکی ترجمہ کرچکے ہیں ۔ یہ چار مجموعے ہیں ؛بانگ درا، بال جبریل ، ضرب کلیم اور ارمغانِ حجاز ۔ یہ چاروں کتابیں زیر اشاعت ہیں۔ اقبال پر ان کے کئی ایک مقالات بھی چھپ چکے ہیں۔
غالب‘ ڈاکٹر جلال صوئیدان کا خاص موضوع ہے۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب کے عنوان سے ان کی ایک تصنیف بزبانِ ترکی انقرہ سے ۲۰۰۴ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انھوں نے غالب کی حیات اور فن پر سیر حاصل بحث کی ہے اور ترکوں کو بتایا ہے کہ غالب کا شعری اور نثری سرمایہ صرف پاک وہند کا ہی ورثہ نہیں بلکہ ترکی اور ترکوں کا بھی ہے، اس لیے کہ غالب ترکی الاصل تھے۔ چنانچہ انھوں نے اس کتاب کی اشاعت کے بعد غالب کے پورے دیوان کو ترکی زبان میں منتقل کر ڈالا۔ دیوان غالب کا منظوم ترکی ترجمہ ۲۰۰۸ء میں اش نبک پبلی کیشنز استنبول سے طبع ہوا۔
اُردو مختصر افسانے پر بھی انھوں نے وقیع کام کیا ہے۔ اس وقت تک ان کے دو منتخب گلدستے (Anthology) شائع ہوچکے ہیں۔ ان دونوں مجموعوں میں انھوں نے منشی پریم چند سے لے کر جدید تر دور کے افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانوں کو ترکی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ ان افسانوں کو پڑھ کر ترکی نقادوں نے اُردو کے مختصر افسانوں کی بہت تعریف کی ہے اور اپنے تبصروں میں بتایا ہے کہ ان افسانوں سے ابھرنے والے معاشرے اور اس کے کردار خود ترکی کے معاشرے اور اشخاص سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر جلال صوئیدان نے ٹیگور کی کہانیوں کا انتخاب کر کے ان کو بھی ترکی زبان میں منتقل کیا ہے۔ یہ کتاب بھی ۲۰۰۶ء میں انقرہ سے شائع ہوچکی ہے۔ عبدالحلیم شرر کے معروف ناول ’’ حسن بن صباح ‘‘ کا ترجمہ ’’ الموت کی جنت ‘‘ کے عنوان سے کرچکے ہیں۔ یہ کتاب ۲۰۰۹ء میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکی ہے۔
میرے ساتھ مل کر بھی انھوں نے خاصا کام کیا ہے۔ مثلاً ہم دونوں نے ’’ اُردو ترکی لغت‘‘ تیار کیاجسے مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد نے ۲۰۰۸ء میں شائع کیا ۔ ترکی اُردو لغت تو پہلے موجود تھے لیکن یہ اُردو ترکی ڈکشنری اپنی نوعیت کے اعتبار سے اولین ہے۔ اس کے علاوہ ہم دونوں نے ایک جامع ترکی اُردو اور اُردو ترکی ڈکشنری بھی ایک جلد میں تیار کر کے انقرہ کے ایک سرکاری ادارے کو دے دی ہے جو جلد شائع ہوگی۔ علاوہ ازیں ہم نے کمال اتاترک کی اس تقریر کو جو چھ روز تک جاری رہی تھی اور جو جدوجہد آزادی کی مبنی پر حقیقت تاریخ ہے، اُردو زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ کتاب جس کا ترکی نام ’’ نطق ‘‘ ہے کئی زبانوں یعنی انگریزی ، فرانسیسی ، جرمنی، فارسی ، ترکمانی ، یونانی ، قزاقی ، قرقیزی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی تھی۔ عربی ، چینی اور جاپانی زبانوں میں بھی ترجمے کرائے جارہے ہیں لیکن اُردو زبان میں ہم دونوں نے اس کو پہلی بار منتقل کیا ہے۔ اس پر ہم نے بڑی محنت صرف کی ہے ۔ تقریباً ڈیڑھ سال لگایا اور اب یہ کتاب ’’ نطق‘‘ ہی کے نام سے شائع ہوئی ہے اور اسے کلچراور ریسرچ سنٹر انقرہ نے زیور طبع سے آراستہ کرایا ہے۔ پاکستان میں سب سے پہلے مقتدرہ قومی زبان نے یہ کتاب منگوائی ہے اور اخبار اُردو میں اس پر تبصرہ بھی شائع کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بحیثیت محقق، نقاد اور مترجم ڈاکٹر جلال صوئیدان نے بڑا وقیع کام کیا ہے۔ غالب اور اقبال کے علاوہ اُردو شاعروں میں علامہ شبلی ، فیض احمد فیض اور ن م راشد کی شاعری پر مقالات قلم بند کرچکے ہیں۔ اسی طرح ترک شاعروں میں ترکی ترانے کے خالق محمد عاکف ارصوئی اور بین الاقوامی شہرت کے حامل شاعر ناظم حکمت پرانھوں نے خاصا کام کیا ہے۔ فیض اور ناظم حکمت کی نظموں میں مماثلتیں تلاش کی ہیں۔ ن ۔ م راشد کی نظموں کے مختلف موضوعات پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ صوفیانہ موسیقی اور قوالی ، اُردو ادب میں فسادات کا تذکرہ اور ترقی پسند ادبا اور شعراء، اُردو کا مزاحمتی ادب وغیرہ جیسے اہم موضوعات پر ان کے مقالات اُردو اور ترکی زبان کے مؤقر جریدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔
۲۰۱۰ء میں ایک اہم کتاب ’’ Sagdas Urdu Edebiyate Scckisi‘‘ (ہم عصر اُردو ادبیات کاانتخاب) انقرہ سے شائع کرائی۔ اس کتاب میں اُردو ادب کی مختلف اصناف سے انتخاب کر کے ترکی زبان میں منتقل کیا ہے۔ شعراء میں مجید امجد ، ن م راشد ، فیض احمد فیض ، ابن انشا، ناصر کاظمی ، احمد فراز، پروین شاکر کے کلام کا انتخاب ___ مزاحیہ ادب میں سے پطرس بخاری، مشتاق احمد یوسفی ، ابن انشاء ، عطاالحق قاسمی ، کرنل محمد خان اور فکر تونسوی کی نگارشات کا انتخاب ، سفرنامہ نگاروں میں مستنصر حسین تارڑ ، رفیق ڈوگر ، اے بی اشرف کے سفرناموں سے اور کہانی نگاروں میں سعادت حسن منٹو ، انتظار حسین ، احمد ندیم قاسمی ، مظہر الاسلام ، محمد منشایاد کے افسانوں کا انتخاب شامل ہے۔
گویا اُردو ادبیات اور اس کے حوالے سے پاکستانی معاشرے کو ترکی میں متعارف کرانے میں ڈاکٹر جلال صوئیدان کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس طرح انھوں نے علمی اور ادبی سطح پر، ترکی اور پاکستان کے صدیوں پر پھیلے ہوئے برادرانہ تعلقات میں ، نہ صرف اضافہ کیا ہے بلکہ اس بندھن کو علمی اور ادبی سطح پر مضبوط کیا ہے۔ حکومتوں کے تعلقات سیاسی اورعسکری سطح پر ہوتے ہیں جبکہ ان ملکوں کے عوام کے باہمی تعلقات وہاں کے ادبیات کے ذریعے وہاں کے معاشرے اور سماج کی پہچان کے حوالے سے استوار ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر جلال صوئیدان کی ادبی اور تحقیقی خدمات قابل تحسین ہیں۔
ڈاکٹر جلال صوئیدان لاہور، فیصل آباد، ملتان اور استنبول میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں بھی شرکت کر چکے ہیں اور ان تمام کانفرنسوں میں مقالات بھی پیش کرچکے ہیں۔
ذہانت ، محنت اور خلوص کسی شخص میں جمع ہوجائیں تو اس کی کامیابی یقینی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر جلال صوئیدان ایسے ہی ایک کامیاب انسان ہیں جن میںیہ تینوں خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ جو مرتبہ ہم نے ایڑیاں رگڑ رگڑ اور گھسا گھسا کر حاصل کیا وہ جلال نے جوانی میں پالیا اور استحقاق کی بنیاد پر پایا۔
ڈاکٹر جلال صوئیدان اُردو شعر وادب کے ساتھ ساتھ سرزمین پاکستان اور پاکستانیوں کے بھی عاشقِ صادق ہیں اور پاکستان میں قیام کے دوران ان کا عشق اور بھی پکا ہوگیا۔ ان کا کہنا ہے کہ :
’’
برعظیم پاک وہند کی ثقافتی رنگا رنگی نفاست ، وضع داری اور رواداری کا پیکر ہے۔ وہ آزاد منش ، لبرل اور سیکولر ذہن رکھنے والے مسلمان ہیں۔ مذہبی تعصب، تنگ نظری اور انتہا پسندی سے انھیں سخت نفرت ہے۔ طلبہ و طالبات کے ساتھ ان کا رویہ بڑا مشفقانہ اور دوستانہ ہے۔ اورئینٹل کالج کے ا ساتذہ ، جن سے انھوں نے تعلیم حاصل کی ؛عطا الحق قاسمی ، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر روبینہ ترین سے انھیں عقیدت ہے۔ میرے شاگرد بھی رہے ، رفیق کار بھی اور دوست بھی ۔ میرے ساتھ بہت محبت کرتے ہیں اور میں بھی انھیں اپنے بیٹوں کی طرح چاہتا ہوں ۔ ان کی فیملی میری اپنی فیملی کی طرح ہے وہ ہمیشہ میرے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں اور میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر جلال ، انقرہ میں پاکستانی سفارت خانے سے خاص تعلق قائم رکھتے ہیں ۔ وہ انقرہ میں پاکستان ایمبیسی ، سکول کے بورڈ آف گورنر کے ممبر بھی ہیں۔ ہمارا سفارت خانہ اپنی تمام تقریبات میں انھیں مدعو کرتا ہے اور وہ بڑے ذوق وشوق سے ان میں شرکت کرتے ہیں۔ جب وہ بڑی روانی کے ساتھ پاکستانیوں سے اُردو میں بات کرتے ہیں۔ تو وہ متعجب بھی ہوتے ہیں اور خوش بھی ۔ میرے سکول کے ایک پاکستانی اور ایک ترک طالب علم نے ان سے ملنے اور بات کرنے کے بعد مجھ سے کہاکہ وہ تو ترک سے زیادہ پاکستانی لگتے ہیں تو میں نے کہا کہ وہ آدھے ترک اور آدھے پاکستانی ہیں جیسے میں آدھا ترک اور آدھا پاکستانی ہوں ۔
کیا پروفیسر ڈاکٹر جلال صوئیدان کی اُردو شعر وادب اور تحقیق میں خدمات اور ترکی پاکستان تعلقات کی علمی اور ادبی سطح پر استواری کے لیے مساعی ، اس لائق نہیں کہ انھیں پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ سے نوازا جائے۔