یہ ملا دو پیازہ کون تھا ؟
انتظار حسین


رضا علی عابدی بی بی سی پروگرام کرتے تھے۔ بولنے کے بادشاہ تھے۔ لکھنؤ کاد انہ تھے۔ لکھنؤ ہی کے لہجہ میں چٹرپٹر کرتے تھے۔ زبان و بیان میں طاق ، بہت کامیاب جا رہے تھے۔ پھر کچھ عجیب قسم کے سیریل ان کے دل و دماغ میں کھد بد کرنے لگے۔ ایک سیریل اسی طرح سوچا کہ یہ جو برصغیر میں شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی سڑک شمال میں اس کنارے سے اس کنارے تک یعنی پشاور کے اس پاس سے کلکتہ تک چلی گئی ہے۔ پہلے وہ شیر شاہی سڑک تھی۔ اب اسے گرینڈ ٹرنک روڈ کہتے ہیں۔ مگر خلقت اسے جرنیلی سڑک کہتی ہے۔ تو رضا علی عابدی نے خوب سوچا کہ اس راہ پر دوڑنے والی پھک پھک کرتی ریل سے کنارہ کرو ، سڑک پر چلنے والی سواریوں میں بیٹھ کر ناک کی سیدھ میں اس سڑک پر چلتے چلے جاؤ اور کلکتہ جا کر دم لو ۔ انہوں نے یہی کیا اور پھر واپس آکر بی بی سی کے اپنے پروگرام میں اپنے سفر میں جو دیکھا سہا اور کہا سنا اسے بیان کرنا شروع کردیا ۔ اس پروگرام کو سمجھ لیجیے کہ پرلگ گئے ۔ مگر یہ سلسلہ زبانی جاری رہ کر تمام ہو جاتا تو ہوا میں اڑجاتا ۔ رضا علی عابدی کو دور کی سوجھی کہ اس سفر نامے کو کتاب بنا کر چھاپ ڈالو۔ نام رکھا جرنیلی سڑک۔ بی بی سی سے ریٹائر ہونے کے بعد ویلا پھر رہا تھا ۔ مگر چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے تو نہیں جاتا ۔ بی بی سی پرموصوف سیریل بہت کر چکے تھے۔ اچانک اپنا ایک سیریل یاد آیا جو ’کتب خانہ‘کے عنوان سے لمبے عرصے تک نشر ہوتا رہا تھا اور بہت مقبول ہوا تھا ۔ اس پروگرام کا پس منظر یہ تھا کہ لندن میں ایک ہے انڈیا آفس لائبریری ۔ غیر منقسم ہندوستان میں جب چھاپہ خانہ کی نمود ہوئی تو اس وقت سے جو جو کتاب یہاں چھپی اس کی چند کاپیاں انڈ یا آفس لائبریری کے نام روانہ کی جاتی تھیں ۔ اور اس لائبریری کے منتظمین کیا کمال کے لوگ تھے کہ ہندوستان کی چھپی ہوئی جو اچھی بری چھوٹی بڑی کتاب ان کے پاس پہنچی انہوں نے اسے لائبریری میں حفاظت کے ساتھ رکھ لیا ۔ لندن میں رہتے ہوئے رضا علی عابدی کو اس بات کی سن گن ملی ۔ انہوں نے وہاں جاکر اس انبار پر نظر ڈالی اور منتخب کتابوں کے تعارف کے نام پر بی بی سی پراپنا سلسلہ گفتگو شروع کر دیا ۔
اب جب عابدی صاحب لندن میں بیٹھے بی بی سی پر اپنے پرانے دنوں کو یاد کررہے تھے تو انہیں اپنا یہ سلسلہ گفتگو یا دآیا ۔ پھر سوچا کہ ارے اس سلسلہ کے سارے مسودے میرے پاس محفوظ ہیں ۔ ان مسودوں کو انہوں نے چھانا پھٹکااو ر اس سلسلہ سے اسے ترتیب دیا کہ ایک صدی کی ہندوستانی مطبوعات کی سواردو کتابیں اس میں سمٹ آئیں۔جب ہم اس مال کو ٹٹول رہے تھے تو ہماری نظرکہاں جاکر ٹکی ملادو پیازہ کی سوانح عمری۔ مطبوعہ ۱۸۹۳ء چھاپنے والے پیسہ اخبار والے منشی محبوب عالم اور ہاں لاہور میں اسی کشمیر ی دروازے میں پیسہ اخباروالوں کے برابر میں منشی فضل الدین نے قومی دکان کے نام سے دکان کھول رکھی تھی ۔ وہاں یہ کتاب خوب بک رہی تھی ۔ اب اس کتاب کا احوال عابدی صاحب کی کتاب میں پڑھا تو پتہ چلا کہ ملادو پیازہ تو اچھے بھلے عالم فاضل تھے ۔ وہ ملا دو پیازہ کیسے بن گئے اور پھر لطیفہ گو کے طور پر وہ کیسے مشہور ہوئے ۔ اور وہ تو عرب کے شہر طائف میں پیدا ہوئے تھے ۔ ابو الحسن ان کا نام تھا۔ ہندوستان کس تقریب سے آئے ۔ خیریہ تو آپ خود اس کتاب میں پڑھیں ۔ ہم سے یہ سن لیجیے کہ وہ ملادوپیازہ کیسے بنے۔ایک دن ایک امیر نے انہیں دعوت پر بلایا ۔ وہاں دستر خوان پردو پیازہ پلاؤ بھی تھا ۔ ملا ابوالحسن دوپیازہ پلاؤ پر لہلوٹ ہوگئے ۔پھر تو جہاں دعوت ہوتی تو پوچھ لیتے کہ دو پیازہ پلاؤ بھی دستر خوان پر ہو گا ۔ بس اسی تقریب سے یار لو گ ا نہیں ملادو پیازہ کہنے لگے ۔شہنشاہ اکبر کے لشکر کے ساتھ سفر کر رہے تھے راہ میں طبیعت بگڑی اور انتقال کرگئے ۔ قریب ہی ایک بستی تھی ہانڈی ۔ وہاں دفن کیے گئے ۔ اس پر کسی نے کیا خوب ٹکڑالگایا کہ ’’واہ بھئی واہ ملادوپیازہ مر کر بھی ہنڈیا ہی میں رہے ۔ لیجیے ہم کہاں نکل گئے ۔ سو کتابوں کے اس ذخیرے کا آغاز تو انیسویں صدی کے اوائل میں چھپنے والی مطبوعات سے ہوتا ہے جو فورٹ ولیم کالج نے چھاپی تھیں۔پہلی کتاب وہ ہے جو میر بہادر علی حسینی نے ’اخلاق ہندی ‘کے عنوان سے مرتب کی جو ۱۸۰۳ء میں چھپی تھی ۔ دوسری کتاب میرا من کی باغ وبہا ر‘ جو ۱۸۰۴ء میں چھپی تھی ۔بھئی واہ کیاکمال کے یہ لوگ تھے ۔ فورٹ ولیم کالج کے سربراہ جان گلکر ائسٹ نے انہیں یہ سمجھایا کہ ہم اپنے انگریزی بھائیوں کے لیے جوار دو ہندی سے شناسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں ،یہ کتابیں مرتب کرار ہے ہیں۔ توز بان سیدھی سچی ہو تو بہتر ہے ۔ سومرصع اُردو سے پرہیز کیجیے ۔ اور زبان کو زیادہ مفرس اور معرب بھی نہیں ہونا چاہیے ۔ ان بزرگوں کے لیے اتنا اشارہ کافی تھا ۔ جیسے وہ اس کام کے لیے تیارہی بیٹھے تھے ۔ مر صع اظہار سے دامن چڑ ھایا ۔ معرب اور مفرس بیان کے بوجھ تلے جوار دودبی ہوئی تھی اس سے نجات دلائی ۔ اور میرا من نے تو کمال ہی کر دیا پہلے ہی ہلہ میں ان کے قلم سے ایسی رواں اردو میں ان کی کتاب سامنے آئی کہ وہ تو مثال بن گئی کہ اردو نثر کا یہ کینڈا ہونا چاہیے ۔ اردو کی نئی نثر جو ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے اس کا حرف اول تو ۱۸۰۴ء میں میرا من نے لکھا تھا ۔۵۴۰صفحات پر مشتمل یہ کتاب ختم ہوتی ہے ۔ تذکرۃالنساکے تذکرے پر ۔ یہ کتاب ۱۸۷۷ء میں چھپی تھی، اسے مرتب کیا تھا درگا پر شاد نے ۔یہ خاتون شاعرات کا تذکرہ ہے۔ بہوبیگم صاحبہ کا ایک شعر سنئے ۔ یہ والی رام پور نواب یوسف علی خاں کی بیگم تھیں۔ بہو ان کا تخلص تھا :
اتنا بھی غنیمت ہے تیری طرف سے ظالم
کھڑکی نہ رکھی روزن دیوار تو رکھا
بیگم جان جانی نواب آصف الدولہ کی بیگم تھیں ۔ بیگمات اودھ میں ممتاز تھیں ۔
دل جس سے لگایا وہ ہوادشمن جانی
کچھ دلکا لگانا ہی ہمیں راس نہ آیا
جینا بیگم ،مرزا سودا کی شاگرد، ولی عہد مرزا جہاں دار شاہ کی بیگم
ڈبڈبائی آنکھ آنسو تھم رہے
کان سۂ نرگس میں جوں شبنم رہے
روزنامہ ایکسپریس ۸جون ۲۰۱۲
****