فیصلہ

ڈاکٹر غلام سرور


کہکشاؤں کے اس پار کی ان دیکھی دنیاؤں اور ان جانے فاصلوں سے وہ آیا تھا۔ سورج کی طرف ، یہ دیکھنے کے لیے کہ اس ستارے کے گردجو سیارے گھومتے ہیں ، ان میں سے ایک پر زندگی کا جو بیج اس نے ماضی میں بویا تھا اس کا پھل آیا تو کیسا آیا !
ان گنت نوری سالوں کے یہ فاصلے اس نے ایک مختصر وقفے میں طے کر لیے اور اپنے وجود کو نظام شمسی کی حدود کے اندر پہنچا کر مارس اور جو پیٹر کے درمیان بکھرے ہوئے سیارچوں کے ساتھ ہم آہنگ کردیا۔ پھر اس نے زمین کی طرف نگاہ کی جو ایک نیلی گیند کی صورت اس کے سامنے خاموش خلا میں معلق سورج کی روشنی میں ایک نگینے کی طرح جگ مگ کر رہی تھی ۔ کم و بیش اسی شکل میں جسے وہ چھوڑ کرگیا تھا ۔
وہ زمین سے قریب تر ہونا چاہتا تھا مگر یہ سوچ کر ٹھہر گیا کہ کہیں ایسا کرنے سے زمین کے کسی بڑے یا چھوٹے نظام میں ذرہ بھر فرق بھی پڑ گیا تو پھل کا ذائقہ تبدیل ہوجائے گا اور وہ اپنی بے تابی کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ یہ سوچ کر وہ بڑے پیار سے اور کڑی احتیاط سے ، مکان وزمان میں کوئی لہر پیدا کیے بغیر، زمین کے اطراف پھیل گیا اور اپنی بینائی کو زمین کے محیط پر رکھ دیا۔ زمین اب پوری طرح اس کے حصار میں تھی اور کوئی چھوٹی یا بڑی شے نظر سے مخفی نہیں رہی تھی ۔ وہ سب کچھ دیکھ سکتا تھا۔
پہلے اس نے سرسری نظروں سے جلد جلد ہر طرف دیکھنا شروع کیا اور یہ دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سمایا کہ اس کے بوئے ہوئے زندگی کے بیچ نے زمینی ماحول میں انواع و اقسام کے پھل دیے تھے ۔ جیتی جاگتی زندگی ہر طرف ٹھاٹھیں مار رہی تھی۔ گہرے پانیوں کی تہوں سے لے کر فلک بوس پر بتوں کی چوٹیوں تک ، سورج کی تپش سے سنسناتے صحراؤں سے لے کر برفیلے یخ بستہ میدانوں تک ہر طرف زندگی کی چہل پہل ، ریل پیل اور گہماگہمی موجود تھی ۔
یہ دیکھ کر اس کی مسرت بڑھتی جارہی تھی کہ وہ کسی قدر خوبصورت زندگی کاخالق تھا ۔ اسے بہت خوشی ہورہی تھی اور جی چاہ رہا تھا کہ اپنی تخلیق کی مدح میں گیت گائے اوررقص کرے کہ ایک میٹھی آواز نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا ۔ اس نے بے اختیار ہو کر اس آواز کی طرف دیکھا۔آواز ایک تھی منی چڑیا کی تھی جو دھنک کے نگ ۔۔۔ نازک پروں پر سجائے ایک پھولوں سے بری جھاڑی کی کومل سی شاخ پہ بیٹھی ایک سریلا الاپ رہی تھی۔ جھاڑی ہوا میں ہلکے ہلکے یوں لہرا رہی تھی جیسے نغمے کی لذت سے مسحور جھوم رہی ہو۔ اس نغمے سے اچھی طرح واقف تھا ۔ یہ نغمہ آفاق تھا۔ اب تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور قریب تھا کہ وہ خود بھی ننھی منی چڑیا کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر وہی گیت گانے لگے کہ اچانک اسے ایک زبردست دھچکا سا لگا اور اس کی خوشیوں کا محل ریت کا ڈھیر ہوگیا۔
ایک سانپ نے جو اسی جھاڑی کے نیچے چھپا ہوا تھا اپنا سر اٹھایا اور لپک کرتریا کوہڑپ کرلیا اور چلتا بنا۔ خالق ایک دم بھونچکا سارہ گیا۔ یہ کیا ہوا ؟ ایسا تو اس نے نہ چاہا تھا۔ اور پھر اس کے بعد جوں جوں وہ بغور دیکھتا گیا اس کی خوشی غم میں بدلتی چلی گئی۔
بھوک ہر طرف ناچ رہی تھی ۔ ہر ذی روح بھوک کا شکار تھا اور یہ بھوک صرف دوسرے جاندار کو ’’ ہڑپ ‘‘ کرنے سے ہی بجھتی تھی۔ وہ بھی صرف تھوڑی دیر کے لیے اور پھر ستانے لگتی تھی ۔ اس چکر سے کسی کو نجات نہیں تھی ۔ ہر جاندار بیک وقت طاقتور بھی تھا اور کمزور بھی شکار ی بھی تھا اور شکار بھی۔ سب سے زیادہ مایوسی اسے اس مخلوق سے ہوئی جس نے زمین پر اور سب مخلوقات سے زیادہ تبدیلیاں پیدا کی تھیں ۔ یہ انسان تھا جو نہ صرف بھوک کا شکار تھابلکہ لالچ کا بھی۔ انسان جو ہر ذی روح پر اپنی ذات سمیت، ان گنت مصائب لایا تھا سب سے بڑا دھچکا اس کو اس وقت لگا جب اسے انسان کے بنائے ہوئے وہ جوہری اور شعاعی ہتھیار نظر آتے جو زمین کے اطراف خلا میں بکھرے ہوئے تھے ۔ انسان نے اپنی اور دوسری ساری زمینی زندگی کی آخری تباہی کی تیاریاں مکمل کرلی تھیں۔
یہ سب کچھ خالق نے نہ چاہا تھا۔ بھوک کیونکر پیدا ہوئی اور اس کا علاج دوسرے جاندار کا خون اور گوشت کیونکر ہوا۔ خوف کدھرسے آیا ، انسان لالچی کیسے ہوا اور پیار اور محبت اس قدر کمزور کیوں رہ گئے۔ ان تمام سوالوں کا اس کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔ یہ تجربہ ناکام ثابت کیو ں ہوا؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے اس نے زمینی پرتوں کا جائزہ لیا جہاں چٹانوں کے سینے میں قرنہاقرن کی زندگی کا ریکارڈ محفوظ تھا اور ابتدا ء سے لے کر حال تک زندگی کے تمام ارتقائی مراحل کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا تھا۔ اسے پتہ چلا کہ اکثر لوگ اسی وقت شروع ہوگئے تھے جب اس کے بوئے ہوئے بیچ سے زندگی نے پہلی بارسر اٹھایا تھا ۔خرابی یقیناًبیج میں تھی ارتقائی منازل میں نہیں مگر کیا ؟ کاش وہ یہ جان سکتا !
اب کیا ہوسکتا تھا۔ اس نے سوچنا شروع کیا ۔خیال آیا کہ زمین پر موجودہ زندگی کو ایک حرف غلط کی طرح مٹا کر نئی زندگی کا بیج پھرسے بویا جائے۔ نئی امیدوں خے ساتھ اور نئے اجزائے ترکیبی کے ساتھ ،مگرزمین اب بوڑھی ہوچلی تھی۔ شاید وہ نئے تجربے کی متحمل اب نہ ہوسکے۔ نہیں نہیں وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ اب اتنا وقت زمین کے پاس نہیں رہا۔ بہت سوچ بچار کے بعد اس کی سمجھ میں آیا کہ شاید بہتری اسی میں تھی کہ زمین اور اسکی زندگی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے ہوسکتا ہے کہ یہ خود ہی سنور ہوجائے ورنہ انسان تو اسے ملیا میٹ کر ہی دے گا۔ ایک موقع دینے میں کوئی حرج نہیں ۔
یہ فیصلہ کر کے وہ خاموشی سے اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔ سورج کے اس پار ، دوسری دنیاؤں کی طرف ، جہاں اس نے اور بہت سارے بیج بو رکھے تھے۔

****