یاد ایم عشرت فانی
مرزا فرحت اللہ بیگ

کسی نے سچ کہا ہے کہ تلخی میں بھی حلاوت ہے۔ کچھ تو ہے جو پکڑ دھکڑ کر مدرستہ جانے۔ رات کو گیارہ گیارہ بجے تک محنت کرنے ۔ ماسٹروں کی مار کھانے کو سب بھول جاتے ہیں۔ اور جب کبھی مدرسہ کا خیال آتا ہے تو دل ہی دل میں مزے لیتے ہیں۔ اور جب ذکر کرتے ہیں۔ تو یہی کہ ’’ بھئی کیا زمانہ تھا۔‘‘ اب کسی سے پوچھو کہ حضرت اس وقت آپ کو کون سی تکلیف ہے اور اس وقت کونسی راحت تھی جو ا س زمانہ کا خیال آپ کے دل سے کسی طرح نہیں نکلتا ۔ تو یقین مانئے کہ سو میں ننانوے بھی وجہ نہ بتا سکیں گے۔
بات دراصل یہ ہے کہ بچپن کا زمانہ ایک عجیب زمانہ ہوتا ہے ۔ مدرسہ جاتے ہیں۔ شرارت بھی کرتے ہیں۔پٹتے بھی ہیں۔ غرض یہ سب چیزیں ملا کر دل میں ایک خاص لطف چھوڑ جاتی ہیں۔ واقعات بھول جاتے ہیں۔ لیکن ان واقعات کا جو پر لطف اثر ہوتا ہے ۔ وہ باقی رہ جاتا ہے ۔ دوسری چیز یہ ہے کہ موجودہ حالت کو سب برا کہتے چلے آئے ہیں۔ بڈھوں سے پوچھو تو وہ غدر سے پہلے زمانہ کی تعریف کریں گے۔ اور آج کل کے زمانہ کی مذمت۔ ہم سے پوچھو تو ہم اپنے بچپن کے زمانہ کو اچھا کہیں گے ۔ اور آج کل کے زمانہ کو برا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بچپن کا زمانہ بے فکری کا زمانہ ہو تا ہے ۔ اب یہ نقشہ ہے کہ ’’ا یک سر اور ہزار سودا ‘‘ فکروں سے فرصت ہو تو کوئی زندگی کا لطف اٹھائے اور کسی پر لطف واقعہ کو یادر کھے ۔
مجھے اپنی طالب علمی کے زمانہ کے کچھ واقعات یاد رہ گئے ہیں ۔ لکھے دیتا ہوں یاد گار رہ جائیں گے۔ ہاں کہنے سے پہلے دو باتوں کا وعدہ آپ سے لیتا ہوں۔ اول یہ کہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں۔ اس کو حرف بحرف صحیح جانئے ۔ ناول نہیں آپ بیتی ہے۔ نمک مرچ اس لئے لگانے کی ضرورت نہیں ہوئی کہ واقعات خود چٹ پٹے ہیں۔ دوسرے یہ کہ میں اس مضمون میں اپنی بہت تعریف کروں گا۔ اس کا برا نہ مانئے ۔ خدا کے لیے آپ ہی انصاف کیجئے کہ جب کوئی اور میری تعریف نہیں کرتا تو میں خود اپنی تعریف کیوں نہ کروں؟ اگر آپ میری تعریف سننا نہیں چاہتے تو میرا مضمون ہی کیوں پڑھتے ہیں۔ کسی دوسرے کا مضمون پڑھیے جو اپنی تعریف نہ کر کے آپ کی تعریف کرے۔ اچھا اب ان شرائط کو طے کر کے اصل مضمون شروع کرتا ہوں۔
اکتالیس برس ہوئے کہ ہم خالی کی تیسری تاریخ کو عالم ارواح سے ذیقعدہ کے مہینے کو دلی والے خالی کا مہینہ کہتے ہیں۔ حکیم آغا جان عیش کا ایک شعر
تہی وصیت سب سے ا س ناکام الفت کی یہی
میں کبھی مر جاؤں لیکن کیجیو خالی میں پھول
اس تیرہ خاکدان عالم میں رونق افروز ہوئے۔ تاریخ اور مہینہ خود ہماری آئندہ زندگی کا زائچہ تھا۔ تیسری تاریخ سے صاف ظاہر تھا کہ ہم ہمیشہ چکر میں رہیں گے اور خالی کا مہینہ اس امر پر دلالت کر رہا تھا۔ کہ ہم خالی ہاتھ آئے ہیں۔ خالی ہاتھ رہیں گے۔ اور خالی ہاتھ جائیں گے۔ دنیا میں تشریف لاتے ہی ماں پر پہلے ہاتھ صاف کیا۔ گویا ہمارا آنا ان کے جانے کی تمہید تھی۔ پھوپھی نے اس نحس قدم کو پالنے کا بار اٹھایا۔ بیمار پڑے۔ سحت جاں تھے۔ مرتے مرتے بچ گئے ۔ سیتلا نکلی اور ایسی نکلی کہ لینے کے دینے پڑ گئے۔ مگر ہم کب مرنے والے تھے۔ ہم کو تو یہ مضمون لکھنا تھا۔ بھلا مرتے تو کیسے مرتے۔ تھوڑے دنوں میں خاصے بھلے چنگے ہو گئے بچاری پھوپھی نے پالنے میں ماں سے زیادہ محبت دکھائی۔ یہاں تک کہ مجھے بارہ پندرہ برس کی عمر تک یہ بھی نہ معلوم ہو سکا کہ یہ میری ماں نہیں پھوپھی ہیں۔ اتنی محبت کرتی تھیں کہ کوئی ماں بھی کیا کرے گی۔ ہاں د و تین باتوں میں بڑی سخت تھیں۔ ایک تو یہ کہ بڑوں کی تعظیم اور چھوٹوں پر شفقت کرنے میں ذرا چُوک ہوتی تو پھر وہ بری طرح آڑے ہاتھوں لیتی تھیں ۔ دوسرے یہ کہ کبھی پیسہ انہوں نے ہمارے ہاتھ میں نہیں دیا۔ جس اچھی سے اچھی چیز کو کہتے فوراََ منگا دیتیں ۔ مگر ہاتھ میں پیسہ دینے کی روا دار نہ تھیں۔ تیسرے یہ کہ پڑھائی کا ایک دن بھی ناغہ کرنا ان کو گوارا نہ تھا۔ ایسا ویسا بخار بھی ہوتا تو مدرسہ بھیجتی تھیں۔ اور کہتی تھیں۔ ’’بیٹا مدرسہ جاؤ دل بہل جائے گا۔ ‘‘ یونہی موسمی بخار ہے۔ اس میں طرح اوڑھ لپیٹ کر پڑے رہنا ٹھیک نہیں۔ ‘‘ خدا گواہ ہے کہ میرا گوشت اور میرا پوست انہی کے نمک کی پروردہ ہے۔ میرے روئیں روئیں سے ان کے لئے دعا نکلتی ہے۔ اور اس وقت جس چین و اطمینان سے میں زندگی بسر کر رہا ہوں ۔ وہ صرف انہی کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔ اگر انہوں نے کبھی مجھ پر سختی کی تھی تو ایک واقعہ بھی یاد نہ آئے گا۔ اور یاد آئے بھی تو کیسے جب کوئی واقعہ ہی نہیں تو یاد کہاں سے رہے گا۔
ہمیشہ سے دلی والوں کو حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ سے خاص عقیدت رہی ہے۔ میں بچہ ہی تھا کہ درگاہ کے قریب بازار کی نکڑ پر جو مسجد ہے اس میں ایک بزرگ آکر ٹھہرے، عجب بارونق چہرہ تھا۔ کوئی اسی برس کی عمر ہو گی۔ سفید نیچی داڑھی، سرخ و سفید رنگت،۶ فٹ کا قد ۔ سر سے پاؤں تک سفید لباس،چہرہ پر باریک سفیدململ کی نقاب، غرض ایسی نورانی شکل تھی کہ دیکھنے سے جی نہیں بھرتا تھا۔ مسجد میں قیام اور رات دن یاد الٰہی سے کام تھا۔درگاہ شریف میں جا روب کشی کی خدمت ان کے سپرد تھی۔ چار بجے صبح سے جاتے تمام صحن میں جھاڑو دیتے صبح کی نماز پڑھ پھر اپنی مسجد میںآ جاتے ۔حضرت غوث پاک کی اولاد میں تھے ۔تمام اسلامی ممالک کا سفر کرتے ہوئے مدراس آئے۔ وہاں سے دہلی میں آکر کھڑے۔ خاک دہلی ایسی دامن گیر ہوئی کہ یہیں کے ہو رہے۔ نام تو سید ولی اللہ تھا۔ مگردلی بھر میں بغدادی صاحب کے نام سے مشہور تھے۔ دلی والوں کا ان کے ہاں تانتا بندھا رہتا تھا۔ ان کی وجہ سے غیاث پورہ میں بڑی چہل پہل ہو گئی تھی۔ سب سے بے غرض ملتے دعا کرتے ۔ دم کرتے ۔ مگر مرید بہت کم کرتے ۔ تمام بیماریوں کی دو ا ان کے پاس بس ایک سرمہ تھا۔ سرمہ کیوں کہو۔ پسی ہوئی کالی مرچیں تھیں جہاں کسی نے کہا’’لمیاں میرے سر میں درد ہے‘‘ یا کوئی اور بیماری ہے۔ انہوں نے پڑیا کھول چٹکی بھر مرچیں آنکھوں میں رگڑ دیں۔ بیمار کی ایک چیخ ہے کہ آسمان کو جا رہی ہے ۔ ایک ہے کہ زمین کو جاتی ہے۔ کسی ساتھ والے نے بیمار کا ہاتھ پکڑ کا وضو کی نالی پر لے جا کر بٹھایا ۔ بیچارے کے آنسو ہیں۔ کہ بہہ رہے ہیں۔ مرچیں ہیں کہ آنکھیں پھوڑے ڈالتی ہیں۔ غرض تھوڑی دیر یونہی غل مچتا۔ اس کے بعد ٹھنڈک پڑ جاتی۔ اب اس کو عقیدہ کہو۔ یا ان بزرگ کی دیا۔ فوراََ ہی آرام بھی ہو جاتا ۔ ایک دفعہ میں بھی اس سرمہ کا
مزہ چکھ چکا ہوں۔ ایک دن ہم سب لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ میں نے اماں (میں پھوپھی کو ہمیشہ اماں ہی کہا کرتا تھا) سے ربڑی کے لیے پیسے مانگے۔ انہوں نے پیسے دینے سے انکار کر کیا۔ میں مچل گیا۔ بغدادی صاحب نے پوچھا ’’ بی بی یہ کیوں رو رہا ہے۔ ‘‘ انہوں نے عرض کیا۔ ’’میاں ربڑی کھانے کو پیسے مانگ رہا ہے۔ ‘‘بغدادی صاحب نے فرمایا’’بی بی۔ دوپہر ہے۔ اس وقت پیسے نہ دینا ۔ خبر نہیں کیا الابلا کھا جائے‘‘ وہ تو یہ کہہ کر دوسری طرف متوجہ ہو گئے۔ اور میں نے زبر دستی اماں کے بٹوئے میں سے پیسے نکال ہی لئے۔ ماما کو ساتھ لے بازار گیا۔ وہاں ربڑی لے کر کھائی اس کے بعد کیا ہوا اس کی مجھے مطلق خبر نہیں۔ خبر اس وقت ہوئی جب مجھے معلوم ہوا کہ کسی نے میری آنکھوں میں مرچیں ٹھونس دیں۔ میں نے غل مچا کر ساری مسجد سر پر اٹھا لی۔ تھوڑی دیر تو جلن رہی اس کے بعد ٹھنڈک پڑ گئی۔ اور میں خاصہ بھلا چنگا ہو گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ربڑی کھاتے ہی میں بے ہوش ہو گیا تھا۔ ‘‘ اماں نے مجھے گودی میں سے لے بغدادی صاحب کے سامنے لٹا دیا۔ اور کہا‘‘ میاں اب آپ جانیں اور یہ جانے۔ میں تو جیسا لے کر آئی تھی۔ ویسا ہی لے کر جاؤں گی۔ بغدادی صاحب کا تو بندھا ہو ا نسخہ تھا ۔ آنکھوں میں مرچیں گھسیڑ دیں لیجئے اچھے ہو گئے۔ آج کل تعلیم یافتہ اصحاب ان واقعات کو سن کر ہنسیں گے۔ ہنسنے دو۔ واقعات کی تردید منطق سے نہیں ہوا کرتی۔ ہاں یہ کہہ دو کہ تم لوگوں کا عقیدہ تھا۔ خیال کی قوت سے یہ سب کچھ ہو ا ،ہم مان جائیں گے۔ مگر خدا کے لئے تم بھی اپنے کسی خیال کو ایسا پختہ کر کے دکھا دو تو جانیں۔
غرض میں کوئی چار برس کا تھا۔ کہ گھر کا گھر بغدادی صاحب کے ہاں گیا، باتوں باتوں میں بغدادی صاحب فرمانے لگے ’’ بی بی اس لڑکے کی بسم اللہ ہوئی ہے یا نہیں۔ ‘‘ اماں نے کہا ’’جی نہیں‘‘ ۔ فرمایا’’اس کی بسم اللہ میں پڑھا ؤں گا۔اسی وقت گیارہ آنے کی مٹھائی منگوا۔ بسم اللہ پڑھا۔ نیاز دے ۔ سب میں تقسیم کر دی۔ لیجئے ہم اس طرح بغیر دولہا بنے سہرہ بند ھے۔ بچوں کے زمرہ سے نکل طالب علموں میں شریک ہو گئے۔ ایک واقعہ بغدادی صاحب کا ایسا ہے کہ میرے دل پر پتھر کی لکیرہو گیا۔ اس کا تعلق میری طالب علمی سے نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی جی نہیں چاہتا کہ اس کو چھوڑ دوں۔ اس لئے لکھے دیتا ہوں۔ اپنے آخر آخر زمانے میں انہوں نے مسجد کی کوٹھڑی میں قبر کھدوا کر اور قبر میں بیٹھ کر چلے کھینچتے تھے۔ آٹھویں روز مسجد کے دروازہ پر آدھ پاؤ دودھ رکھ دیا جاتا ۔ اسی پر آٹھ روز تک گذارہ کرتے ۔
یوں تو وہ دائم الصوم اور قائم اللیل تھے۔ مگر دلی میں انہوں نے ایک چلّہ پورا اور ایک آدھے سے کچھ زیادہ کھینچا تھا۔ پہلے چلّے کے تھوڑے ہی دنوں بعد وہ دوسرے چلّے میں بیٹھے۔ کوئی بیس بائیس روز بعد معلوم ہو ا کہ بغدادی صاحب چلّہ سے نکل آئے ہیں۔ سب کو بڑا تعجب ہوا۔ ہم لوگ بھی زیارت کو گئے۔ کسی قدر نحیف ہو گئے تھے۔ میری عمر اس وقت کوئی سات برس کی تھی۔ مجھ سے پڑھائی کے متعلق پوچھتے رہے۔ شاید تین بجے ہونگے ۔ کہ یکا یک فرمانے لگے ’’ بھئی اب تم لوگ جاؤ مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے اور تمہیں بھی تکلیف ہوتی ہے۔‘‘یہ پہلا موقع تھا کہ کسی کو انہوں نے اسی طرح رخصت کیاہو۔ حکم کی تعمیل میں سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہاں سے درگاہ شریف آئے فاتحہ پڑھی، بہلیوں میں سوار ہو کر گھر چلے۔ ابھی پرانے قلعہ تک نہ پہنچے تھے کہ لوگ پیچھے سے بھاگتے ہوئے آئے ۔ دریافت کیاتو معلوم ہوا کہ بغدادی صاحب کا انتقال ہو گیا۔ ہم تو ’’مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے۔ ‘‘ کے معنی واقعات کے لحاظ سے لیں گے کہ ان کو اپنے دنیا سے رخصت ہونے کا علم تھا ۔ آپ جو چاہیں معنی نکال لیں۔بہر حال بغدادی صاحب سے بسم اللہ پڑھنے کے بعد ہمارے پہلے پڑھانے والے مرزا قاسم رضا بیگ ہوئے عجیب ہاتھ پاؤں کے آدمی تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ شیر بیٹھا ہوا ہے۔ ساٹھ ستر برس کی عمر تھی۔ رنگت ایسی جیسی انار کا دانہ ،قد کچھ نہ ہوگا تو کوئی ساڑھے چھ فٹ ہو گا۔ خوشنویس ایسے کہ شائد دلی بھر میں کوئی ان سے لگا کھاتاہو، کھانے والے ایسے کہ خدا کی پناہ، پان پان سیر بریانی ایک وقت میں کھا جاتے ۔ اور وہیں پڑ رہتے تا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ کہیں کونہ میں جا کر نکال دی چھوٹے چوسنے کے آم ہمیشہ مع گٹھلی کھا تے کھٹالی حلق میں سے اتر تی ہوئی صاف دکھائی دیتی تھی۔ غرض تھوڑے دن ان سے پڑھا تھا کہ بیچارے کا انتقال ہو گیا۔ میاں قمر الدین ہمارے دوسرے مولوی مقرر ہوئے۔ ہمارے مکان کی جو دکانیں تھیں۔ ان میں سے ایک میں رہتے تھے۔ بڑے اللہ والے آدمی تھے۔ کتابوں کا بیوپار کرتے تھے۔ کہیں کسی کا عرس ہو ان کا جانا ضرور تھا۔ کتابوں کے علاوہ ان کے پاس تسبیحاں نگینے ، سنگ لرزاں کے ٹکڑے ، قہوہ پیسنے کی مشینیں ۔ غرض ایسا ہی کاٹھ کباڑ بھرا رہتا تھا۔ اس کی تھڑی ۱؂ لگاتے عرس ختم ہوا۔ اور یہ اپنی دکان میں آ پھر کتابیں بیچنے لگتے۔ ان کے متعلق یہ میں ضرور کہوں گا کہ تھے بڑے متوکل آدمی۔ کسی سے پیسہ لینے کے روادار نہ تھے۔ اسی خرید فروخت میں جو تھوڑا بہت مل جاتا اسی پر گذران کرتے ۔ ہم نے بھی قہوہ پیسنے کی کئی کلیں ان سے خریدی تھیں۔ دو چار مشینیں ان کی دکان پر ہی رہتی تھیں۔ چنے خریدتے ۔ نمک اور چنے کھلاتے ۔ غرض چھ برس کی عمر میں کلام مجید کا گرد۲؂ ان کا کر مکتب کا مرحلہ طے کر لیا۔ اور مدرسہ کی پڑھائی کی نوبت آئی۔
اب یہ تو پوچھو کہ یہ مدرسہ کہاں ہے۔ دلی میں ہے۔ کمیٹی کا مدرسہ ہے اور بڑا مدرسہ ہے۔ ایک عالی شان محل ہے۔غدر سے پہلے کسی رئیس کا مکان تھا۔ غدر کے بنے ہوئے نواب نے کوڑیوں کے مول خرید لیا۔ مردانہ مکان میں چوتھی اور پانچویں جماعتیں بیٹھتی ہیں۔ اندر کے مکان میں پہلی ۔ دوسری اور تیسری محل سرا کی دوسری منزل میں جو کمرے ہیں ۔ ان میں ٹیکنیکل اسکول ہے۔ مردانہ مکان کا صحن بہت بڑا ہے۔ اس میں بچوں کی قواعد ہوتی ہے۔ کبھی کبھی کرکٹ بھی کھیل لیا جاتا ہے ۔ ان سب چیزوں کا ذکر اپنے اپنے موقعوں پر کروں گا۔ اب سلسلہ وار پڑھائی کی کیفیت سنئے۔
مردانہ مکان سے زنانہ مکان میں گھستے ہی جو سامنے والا دالان در دالان ہیں۔ ان میں پہلی جماعت بیٹھتی ہے۔ ٹاٹ بچھے ہوئے ہیں۔ روزانہ جھاڑو ہوتی ہے۔ لیکن ٹاٹ کی بناوٹ میں جو گرد بیٹھ جاتی ہے۔ وہ نہ کسی طرح نکل سکتی ہے ۔ اور نہ نکالی جا تی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب بچوں کی میانیوں پر گہرے خاکی رنگ کی گلکا ری ہو جاتی ہے۔ جو مولوی صاحب تعلیم دیتے ہیں۔ ان کے لئے ایک سڑیل دری بچھ جاتی ہے۔ مولوی صاحب بڑے سوکھے سہمے آدمی ہیں۔ منڈا ہوا سر۔ خشخاشی ڈاڑھی ایک بر کا پاجامہ ۔ جسم پر نیچی چولی کا انگرھا ۔ اس کے نیچے کرتہ ندارد۔ سر پر منڈھی ہوئی سفید ٹوپی، چھوٹی چھوٹی چیاں ریزی، چُند ہی چُند ہی آنکھیں۔ ان میں گہرا گہرا سرمہ۔ ان کا نام تو جو کچھ ہو وہ ہو۔ مگر مدرسہ بھر میں گنجہ مولوی صاحب کے نام سے مشہور ہیں۔ پڑھا رہے دوا کن دوا ادھر ان کے منہ سے دو اکن دو نکلا۔ اور ادھر چالیس پچاس لڑکوں نے غل مچایا دو ا کن دو۔ ان کو اس سے غرض نہیں کہ کوئی لڑکا سمجھا بھی کہ یہ دوا کن دو کیا بلا ہوئی۔ یہ تو بس اتنا جانتے ہیں کہ میں پچیس برس سے اسی طرح پڑھاتے آئے ہیں اور مرتے دم تک اسی طرح پڑھائیں گے۔ قاعدہ پڑھانے بیٹھتے تو’’ حق کہہ مت ڈر‘‘ کا غل شروع ہوا۔ ان کو یہ بتانے کی ضرورت کہ ’’حق کہہ مت ڈر ۔ ‘‘ کے کچھ معنی بھی ہیں یا نہیں اوریہ لڑکوں کو دریافت کرنے کی حاجت ۔ ان کو پڑھانے سے مطلب اور لڑکوں کو غل مچانے اور رٹنے سے غرض۔
سبق یاد نہ کرنے یا شرارت کرنے پر بجائے سزائے تازیانہ کے سزائے جرمانہ دی جاتی تھی۔ کسی سے ذرا خفا ہوئے۔ اور پوچھا پیسہ لایا ہے ۔ اگر اقرار کیا تو فبہا اگر انکار کیا تو چل تیرے کی اورچل میرے کی بیچارے بچے رو پیٹ کر گھر سے پیسے لاتے اور پٹنے سے بچتے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جرمانہ جمع سرکار نہیں ہوتا تھا ۔ اسی وقت چنے منگوائے جاتے اور سب بچوں میں بٹ جاتے ۔ مگر کس طرح آتے او رکس طرح بٹتے ۔ یہ ذرا صراحت طلب ہے۔
جس دالان میں پہلی جماعت بیٹھتی تھی۔ اس کے پہلو ہی میں ایک دروازہ تھا۔ اندر گھسو تو ایک کھوٹھڑی مگر ایسی اندھیری کہ خدا کی پناہ یہ کسی زمانہ میں محلسرائے کا دروازہ تھا مگر گرد سے ایسا اٹ گیا تھا کہ شاید مڈل کے امتحان دینے والے بھی مشکل نکال سکیں گے۔ کہ اگر ایک مرد دو عورتیں اور تین بچے اتنی مٹی ایک دن میں کھودتے ہیں۔ کتنے مرد کتنی عورتیں اور کتنے بچے اس دروازہ کی مٹی کے انبار کو کھود سکیں گے۔ بہر حال اس کوٹھڑی کے باہر کا دروازہ سد سکندری سے کم نہ تھا۔ درو ازہ میں ایک گول چھید تھا۔ اور یہی ایک پیسے کے چنوں کا پیمانہ تھا۔ جس لڑکے پر جرمانہ ہوا۔ وہ پیسہ لے اس کوٹھڑی میں گیا۔ دروازہ کے چھید پر منہ رکھ کر آواز دی۔ ’’کلو ۔ کلو‘‘ خدا جانے وہ کلو کون تھا۔ اور اس کی کیا شکل تھی۔ ہاں اتنا معلوم ہوتا تھا کہ ایک پرچھائیں سی سامنے آگئی۔ پیسہ کو سفید دو پلڑی ٹوپی میں لپیٹ چھید سے ادھر نکا ل دیا ۔ ایک لمحہ گذرنے نہ پاتا کہ ٹوپی میں چنے لپٹے ادھر آگئے، اگر زیادہ ہوئے تو مسٹر کلونے کم کر لئے۔ اگر کم ہوئے تو لڑکے کی قسمت بہر حال ایک پیسہ کے چنوں کا یہ اندازہ تھا کہ ململ کی دو پلڑی ٹوپی میں لپٹ کر چھید کے پار ہو جائیں لڑکے نے خوشی خوشی چنے مولوی صاحب کے سامنے رکھ دیے۔ انہوں نے آدھے میں ملا موج آدھے میں ساری فوج کے مقولہ پر عمل کر کے آدھے تو خود کھا لئے ۔ باقی آدھے سب بچوں میں تقسیم کر دییے۔ جب تک چنوں کے کھانے کا شغل چلتا رہا۔ اس وقت تک پڑھنا لکھنا سب بند ۔ ادھر چنے ختم ہوئے اور ادھر دوا کن دو کا دور شروع ہوا۔
غرض ایک سال گذر گیا۔ امتحان ہوا سب کے سب پاس ہو گئے۔ اور کیوں نہ ہوتے پورے سال بھر دوا کن دو کا رٹا تھا۔ امتحان لینے والے بھی بس ایسے ہی تھے۔ کسی سے کہا دو کا پہاڑہ پڑھو۔ اس نے جو لین لگائی تو دو ہائے دس پر جا کر دم لیا۔ دوسرے سے تین کا پہاڑا پڑھوایا۔ اس نے ایک سانس میں ختم کیا۔ قاعدہ پڑھوایا تو لونڈے نے وہ فراٹے سے پڑھا کہ خدا کی پناہ ۔ ممتحن صاحب کہتے ہی رہے کہ بس بس ۔ مگر وہ کیا ماننے والا تھا مشق کے ختم پر جب اسٹیشن آیا اس وقت دم لیا۔چلو پہلی جماعت پاس دوسری میں داخل ۔
دوسری میں ایک کائیستھ صاحب ماسٹر تھے۔ بڑا اور اونچا قد چھوٹی سی ناک ۔ سر پر بڑے بڑے پٹھے۔ جھابرجھلا لباس۔ غرض عجب پریشان حال اور پریشان بال آدمی تھے۔ ان کی بس دو تین باتیں یادر ہ گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب وہ غصہ میں یا جوش میں آکر ذرا گردن جھٹکا دیتے تو بال منہ پر بکھیر کر ان کی کچھ عجیب ڈراؤ نی صورت پیدا کر دیتے ۔ دوسرے یہ ان کی انگلیاں بڑی لمبی لمبی تھیں۔ کسی کے تھپڑ مارتے تو انگلیاں ایک کلے پر سے گذر کر ناک پر سے ہوتی ہوئی دوسرے کلہ کی خبر لاتیں۔ ان کے تھپڑ سے تو سب ڈرتے تھے مگر ان سے کوئی نہیں ڈرتا تھا۔ اس لئے پڑھائی میں بھی وہ غل شور نہیں ہوتا تھا۔ جو گنجے مولوی صاحب کے ہوتا تھا۔
جب میں دوسری جماعت میں تھا۔ تو تیسری جماعت کو ایک مولوی پڑھایا کرتے تھے۔ مگر خدا کی پناہ تمام جماعت ان کے نام سے کانپتی تھی نام تو کیا بتاؤں، ہاں یہ بتائے دیتا ہوں کہ تمام مدرسہ ان کو کالا سانپ کہتا تھا۔ خاصہ اونچا قد۔ کالی سیاہ فام رنگت، بڑی بڑی کالی آنکھیں۔ آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک۔ اس رنگت پر سفید لباس اور سفید چھوٹا سا منڈاسا عجب بہار دیتا تھا۔ ٹھونکتے اس بری طرح سے تھے کہ توبہ ہی بھلی ۔ نئی نئی طرح کی سزائیں نکالی تھیں۔ کان پکڑوانا تو سب جانتے ہیں۔ جھکے ٹانگوں میں سے ہاتھ ڈالے۔ کان پکڑ لیے۔ تھوڑی دیر مینڈک بنے رہے کچھ روئے دھوئے ۔ ماسٹر صاحب کو رحم آیا۔ چلو چھٹی ہوئی۔ مگر ان مولوی صاحب نے اس کان پکڑوانے میں بھی جدتیں کی تھیں۔ معمولی طرح کان پکڑوائے اور کمر پر اوپرتلے دس بارہ تختیاں رکھ دیں ۔ اب ایک طرف تو جھکنے کی وجہ سے ٹانگیں کانپ رہی ہیں دوسری طرف تختیوں کا بوجھ کمر توڑے دیتا ہے ۔ مولوی صاحب ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔ تختی گری اور کم بختی آئی جب لونڈے کے انجر پنجر ڈھیلے ہو جاتے اس وقت کہیں ایک ایک کر کے تختیاں اتر تیں۔ اور اس بیچارے غریب کی کمر سیدھی ہوتی۔ کبھی ایسا ہوتا کہ مولوی صاحب ادھر ادھر چلے جاتے۔ یہ گئے اور اس وقت پہرے قائم ہو گئے۔ ایک لونڈا اس دروازہ پر پہر ا دے رہا ہے۔ دوسرا اس دروازہ پر تختیاں اتار کر نیچے رکھدی گئی ہیں۔ جن صاحب کے کان پکڑوائے گئے ہیں۔ وہ ذرا سستا رہے ہیں۔ ضرورت ہوئی تو ایک آدھ لونڈا کمر بھی دبا رہا ہے ۔ کہ اتنے میں کسی دروازے سے سیٹی بجائی ۔ بچارے گنہگار نے پھر دہرے ہو کر کا ن پکڑ لئے تختیاں اوپر رکھ دی گئیں ۔ ساری جماعت کی جماعت ہل ہل کر پڑھنے لگی۔ او ر جو کہیں مولوی صاحب کو ذرا سا شبہ بھی ہو گیا۔ کہ ان کی غیر حاضری میں سزا میں کچھ دخل در معقولات کیا گیا ہے ۔ تو دوسروں سے تو کچھ نہ بولتے آہستہ آہستہ اس کان پکڑنے والے لونڈے کے پیچھے آکر زور کی لات رسید کرتے کہ تختیاں تو پھسل پھسل کر یہاں سے وہاں تک ریل ہو جاتیں ۔ اور لونڈا ان پر سے قلابازیاں کھاتاہو ا دوسرے سرے پر انجن بن جاتا۔ مگر یہ ضرور ہے کہ اس سزا اور دوچار تھپڑوں کے بعد اس کو رہائی مل جاتی۔
ان کی دوسری سزا سمجھنے کے لئے اس مکان کا نقشہ ذہن نشین کر لیجئے ۔ تیسری جماعت پہلی جماعت کے دالانوں کے بالکل سامنے دہرے دلانوں میں بیٹھتی تھی۔ یہ حصہ چبوترہ کے اوپر ہے اور گویا محل سرائے کا صدر ہے ۔ دالانوں میں بیسیوں طاق ہیں۔ کونے کے جو طاق تھے وہ اس دوسری سزا کے کام میں آتے تھے۔ جس کو سزاد دینی ہوئی اس کو دو چار لڑکوں نے اٹھایا۔ مولوی صاحب نے بھی ہاتھ بٹایا۔ اور اس بچارے کو اس طرح بٹھا دیا کہ اس کا ایک پاؤں کونہ کے ایک جانب کے طاق میں غرض اس طرح اطمینان سے اس کو بٹھا مولوی صاحب آکر جماعت کو سبق دینے لگتے۔ یہ بھی نہ سوچتے کہ اگر یہ غریب دو گز اونچے سے گرا تو منہ اور ناک کا کیا حال ہو گا اور کہاں جا بیچا چوٹ لگ جائے گی ۔ مگر لڑکے بھی ان کے استاد تھے۔ وقت سے پہلے آکر طاقوں میں بیٹھنے کی مشق کیا کرتے تھے۔ بیچ میں بھی اگر وقت مل گیا تو تھوڑی دیر یہ ریاضت بھی کر لی۔
تیسری سزا اس سے زیادہ سخت تھی اور خاص صورتوں میں دی جاتی تھی۔ ایک لڑکا تھا۔ اس سے مولوی صاحب کو سخت نفرت تھی۔ اور یہ بھی اس بلا کا تھا۔ کہ باوجود ان مصیبتوں کے کبھی سبق یاد کر کے نہیں لایا۔ شاید ہی کوئی بدنصیب دن ہوتا ہو گا۔ جو یہ سزا ا س کو نہ دی جاتی ہو ۔ اندر کے دالان میں طاقوں کی دہری لین تھی ۔ پہلی لین تو کوئی گز ڈیڑھ گز اونچی ہو گی۔ مگر دوسری لین کبھی تین گز سے کم اونچی نہ تھی۔ مولوی صاحب ان صاحبزادے کو اٹھاتے۔ وہ ہاتھ اونچے کر کے طاق کی کگر پکڑ لیتا ۔ اور یونہی بڑی بڑی دیر تک لٹکا رہتا آخر میں وہ ایسا مشاق ہو گیا تھا کہ مولوی صاحب ذرا خفا ہوئے اور وہ طاق کی طرف چلا ۔ اب ہے کہ دیوار کے برابر پیٹھ پھیرے ہاتھ اونچے کیے کھڑا ہے۔ کہ آؤ اور لٹکا دو ۔لٹکنے میں تو وہ ایسا مضبوط ہو گیا تھا ۔ کہ مولوی صاحب بھی اس سے عاجز آگئے تھے۔کوئی اپنی دہن کا پکا ہو تو ایسا ہو۔ جب میں تیسری جماعت میں گیا تو یہ مولوی صاحب جنت کو سد ہار چکے تھے۔ ایک جاٹ ماسٹرہو کر آئے تھے ۔ غریب تو بہت تھے مگر لکھانا پڑھانا خیر سلا ہی تھا۔ شہر کے باہر کسی گاؤں میں رہتے تھے۔ ایک چھوٹی سی ہوائی پر سوار ہو کر آیا کرتے تھے۔ ادھر یہ ٹٹوانی کوباہر باندھ جماعت میں آئے اور وہ ٹٹوانی یاروں کا مال ہو گئی۔ جب دیکھو کوئی نہ کوئی سوار مٹر گشت ہو رہا ہے۔ آخر آخر میں اسے دو لتیاں چلانے کی بری عادت ہو گئی تھی۔ ممکن ہے کہ ماسٹر صاحب ہی نے یہ عادت ڈالی ہو۔ لیکن اس کا پیچھا نہ چھٹنا تھا ۔ نہ چھٹا۔ گرتے، چوٹیں کھاتے پیٹتے ۔ غرض کیا کیا کچھ نہ ہوتا۔ لیکن ٹٹوانی کی ملکیت میں لڑکے ماسٹر صاحب کے شریک رہے۔ اس کے بعد بیچارے ماسٹر صاحب پیدل آنے لگے۔ مدرسہ میں ایک اور مولوی صاحب بھی ٹٹوانی پر آیا کرتے تھے۔ مگر یہ رقم ہی دوسری تھی۔ سوار ہونا تو کجا کبھی کسی کو ہاتھ لگانے کی بھی جرات نہ ہوتی تھی۔ ٹٹوانی کو لونڈا ایک منٹ میں سیدھا کر لیتے ۔ بات یہ تھی کہ مولوی صاحب سے دم نکلتا تھا۔
پہلی اور دوسری جماعت کے بعض لڑکوں کے ساتھ مامایا نوکر آتے تھے۔ لڑکے جماعتوں میں پڑھتے۔ یہ لوگ چبوترہ پر پاؤں لٹکائے بیٹھے گپیں مارا کرتے ۔ ان میں سے کوئی اٹھ کر ذراگیا۔ اور لونڈا جماعت چھوڑ کر پیچھے بھاگا۔ اب ماسٹر صاحب ہیں کہ ’ہیں۔ہیں ۔ہیں۔ ہیں۔‘‘ کر رہے ہیں۔ مگر کون سنتا ہے۔ جب تک اس مفرور ملازم کو وہیں اس کی جگہ لا کر نہ بٹھا لیتا۔ جماعت میں آنے کا نام نہ لیتا۔
اب صرف اس مدرسہ کے بیت الخلا کا حال لکھ کر لوئر پرائمری کی تعلیم کا تذکرہ ختم کرتا ہوں۔
دوسری جماعت کے دالان سے ملا ہوا۔ بیت الخلا کا چھوٹا سا دروازہ تھا۔ دروازہ کو دیکھ کر اندازہ نہیں ہو سکتا تھا۔ کہ اندر کا حصہ اتنا بڑا ہو گا۔ دروازہ سے ذرا آگے گھونگھٹ تھا۔ گھونگٹ کیا تھا۔ پرانے قلعہ کے دروازہ کا گھونگٹ تھا۔ اس سے چکر کھا کر جو اندر گھسو تو اندھیرا گھپ جب ذرا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کا دیکھو تو ایسا معلوم ہو جیسے کسی بڑے قبرستان میں گھس آئے ہیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو کوئی تیس چالیس قدمچے تھے۔ ہوا اور روشنی کے لئے کوئی کھڑکی یا روشندان تو بڑی بات ہے دیواروں میں کوئی سوراخ تک نہ تھا ۔ خبر نہیں کہ زمانہ کے ہاتھوں سے یا کسی بھلے آدمی کی مہربانی سے چھت کی ایک اینٹ نکل گئی تھی ۔ بس اسی سے روشنی آتی تھی۔ ایسے بڑے ہال میں اس روشنی کا ہونا نہ ہونا برابر تھا۔ بیت الخلا کی بجائے اگر اس کو رصد گاہ بنا کر اور چھت کے سوراخ میں دور بین لگا کر استعمال کیا جاتا تو زیادہ مناسب تھا۔ اس اندھیرے گھر میں گھسنے کی بجائے بعض کمزور دل کے لڑکے وہ کر بیٹھتے تھے ۔ جو ان کو نہ کرنا چاہیے تھا۔ وہاں خدا کے فضل سے ایک ٹین کا لوٹا بھی رہتا تھا ۔ لوٹا کیا تھا۔ ہزارہ تھا۔ سر سے پاؤں تک چھلنی تھا۔ بعض بڑے بڑ ے چھیدوں میں کپڑا ٹھونس دیا تھا۔ بعض سوراخوں میں مٹی تھوپ دی تھی ۔ مگر جس کام کے لئے یہ رکھا گیا تھا۔ اس میں اس کا استعمال کرنا محال نہیں تو دشوار ضرور تھا۔ لوٹا بدلوانے کی بڑی بڑی کوششیں کی گئیں۔ محضر پیش ہوئے ۔ صدائے احتجاج بلند ہو ئی لیکن میونسپل کمیٹی کے بجٹ میں نہ گنجائش نکلتی تھی۔ نہ نکلی۔ آخر سب ہارے اور یہ لوٹا جیتا ۔ ماسٹر بدلے لڑکے بدلے۔ لیکن یہ لوٹا نہ بدلنا تھا۔ اور نہ بدلا۔ مرتے دم تک اپنی خدمات پر قائم رہا۔ کسی نے سچ کہا ہے ’’ کہ نیا نو دن اور پرانا سو دن۔
چوتھی جماعت (اپر پرائمری) مکان کے باہر کے حصہ میں بیٹھتی تھی یہاں سے ٹاٹ کی جماعت ختم اور بنچ کی جماعت شروع ہوتی تھی۔ جو ماسٹر صاحب اس جماعت کو پڑھاتے تھے۔ وہ سیپیرے کے خطاب سے ممتاز تھے۔ اور واقعی لڑکوں نے خطاب بھی وہ تجویز کیاتھا کہ اگر ماسٹر صاحب خود بھی غور کرتے تو اس سے زیادہ مناسب اور موزوں خطاب ان کے بھی دھیان میں نہ آتا۔ شکل و صورت کیا بتاؤں بس سنپیرا سمجھ لیجئے ۔ وہی سنپیروں کی ضع کا منڈا سا وہی زرد رنگ کا ڈھیلا ڈھالا چغہ ۔ وہی کالی سیاہ فام رنگت ۔کہ ذرا تلاش ہی سے آنکھ ناک کا پتہ چل سکے۔ وہی کالی نیچی ڈاڑھی موٹے موٹے ہونٹ سانس ایسے لمبے لمبے لیتے تھے۔ جیسے سانپ پھنکارے مار رہا ہے۔ پڑھانا وڑھانا تو خاک نہیں جانتے تھتے۔ ہاں انگریزی خط بہت پاکیزہ تھا۔ اس لئے چوتھی اور پانچویں جماعتوں کو انگریزی لکھنا بھی سکھاتے تھے۔ پرانے زمانے کے آدمی تھے ۔ اسی زمانہ کی طرز پر ۔ ایک طرف جھکے ہوئے حروف لکھتے تھے۔ کہا کرتے تھے کے خط ایسا ہونا چاہیے۔جیسے پچھوا کی مار سے گیہوں کا جھکا ہو ا کھیت، معلوم نہیں یہ پچھوا ہو اور گیہوں کی شرط کیوں قائم کی گئی تھی۔ خدا کاکرنا کیا ہوتا ہے کہ انہی دنوں میں خط کی روش بدل گئی۔ بجائے جھکے ہوئے خط کے سیدھا خط رائج ہوا۔ اس سے یہ بیچارے مصیبت میں آگئے تمام عمر آڑے خط کی مشق کی تھی۔ اب ایک دفعہ ہی جو سیدھے خط کی آفت ناز ل ہوئی ۔ تو نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔ لفظ لکھتے تو اس میں کوئی حروف سیدھا اور کوئی ترچھا معلوم ہوتا تھا۔ کہ پچھوا کی مار سے ان کے کھیت میں گیہوں کا کوئی پودا زمین پر لوٹ گیا ہے۔ اور کوئی سیدھا کھڑا رہ گیا ہے۔ مگر آخر تھے استاد۔ گھر پردن رات مشق کر کے خط درست کر ہی لیا۔ پڑھانے کی عجیب کیفیت تھی۔ جس طرح کسی زمانہ میں خود پڑھا تھا۔ بس اسی طرح پڑھا دیتے ۔ ایک لفظ کابل نہ پڑتا تھا۔ اگر کسی نے بیچ میں کوئی سوال کر دیا تو اس کو یہ کہہ کر ٹال گئے کہ آخر میں بتائیں گے۔ آخر میں کسی نے پوچھا تو کہ دیا۔ اب تھک گئے ہیں کل بتائیں گے۔ یہ کل ایسی ہوتی تھی کہ ختم سال تک نہ آتی تھی۔ ان کے ہاں مارپیٹ کم تھی۔ مگر بنچ پر کھڑا کرنا اور کان پکڑوانا بہت چلتا تھا۔ بنچ پر کھڑے ہوکر کان پکڑنا جتنا مشکل اور تکلیف دہ ہے ۔ اتنا ہی صراحت طلب بھی ہے۔ میں نے یہ سزا کسی دوسرے مدرسہ میں یا کسی دوسری جماعت میں نہیں دیکھی ۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خاص ان کی ایجاد تھی اور سچی بات یہ ہے کہ خوب ایجاد تھی۔ اچھااس کو آپ سمجھنا چاہیں تو جیسا میں کہتا ہوں ۔ کرتے جائیے۔ پہلے تو بنچ پر کھڑے ہو جائیے، کمر دیوار سے لگائیے اور اب کمر کو دیوار سے پھسلاتے ہوئے ذرا جھکیے اور جھکیے اتنا جھکیے کہ رانوں اور پنڈلیوں میں زاویہ قائمہ بن جائے۔ یا ایسا معلوم ہو کہ پچھلی دو ٹانگیں ٹوٹی ہوئی میزکو دیوار سے لگا کر کھڑا کر دیا ۔ اب دونوں ہاتھوں سے دونوں کان پکڑ لیجئے ۔ بعض لوگوں کو کان پکڑوانے کا آخری جزو محض تکمیل ضابطہ معلوم ہو گا۔ مگر نہیں اس میں بھی ایک خاص مصلحت تھی۔ اگر ہاتھوں کو کسی کام میں نہ لگایا جائے۔ تو ممکن ہے کہ لڑکا ۔ ان ہاتھوں سے رانوں کو سہارا دے کر اپنی مصیبت کو کم کر دے ۔ اس لئے ان ہاتھوں کو کان پکڑوا کر اس طرح نمایاں رکھا جاتا تھا۔ کہ ایک ہی نظر میں معلوم ہو چکے کہ لڑکا ادھر کھڑا ہے یا نہیں ہے۔ بہر حال یہ سزا کسی ایسے صحیح الدماغ شخص نے ایجاد کی ہے کہ تعریف نہیں ہو سکتی۔ اور میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہر مدرسہ میں جاری ہو نی چاہیے۔ شروع میں تو کچھ معلوم نہیں ہوتا ۔ لیکن چند منٹ گزرنے کے بعد گھٹنوں میں تکلیف شروع ہو تی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ گھٹنے ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہو جائیں گے۔ خود بخود پاؤں کانپنے لگتے ہیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ اگر کچھ دیر اور چھٹکارا نہ ہو ا تو چیخنے چلانے کی نوبت آ جاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اب چل چلاؤ کا وقت آگیا یہ گویا سماوار کی سیٹی ہے کہ چائے تیار ہے اگر اس کے بعد فوراََ ہی رہائی نہ ملی تو لڑکا دہم سے نیچے گرا۔ مگر مسٹر سنپیرے بھی بڑے مشاق استاد تھے کہ لڑکے کی شکل سے تاڑ جاتے تھے۔ کہ واقعی یہ تکلیف سے بے چین ہے۔ یا یونہی غل مچا رہا ہے۔ اور جس طرح یہ جانتے تھے کہ کون سا لڑکا پڑھنے میں ہوشیار ہے ۔ اسی طرح یہ بھی جانتے تھے کہ کون سا لڑکا کان پکڑنے میں مشاق ہے اور اس میں کتنا دم ہے۔ بہر حال بنچ سے قلا بازی کھا کر گرنے کی بہت کم نوبت آتی تھی ۔ ہاں یہ ضرورہے کہ بیچارے بھلے آدمی نے کان پکڑ لئے۔ اس کی ٹانگیں کئی کئی گھنٹے تک کانپتی تھیں۔ یہ تو انگریزی کے ماسٹر ہوئے۔ اب فارسی کے مولوی صاحب کے سنیے۔
اسی جماعت کی چھت پر فارسی کے مولوی صاحب بیٹھتے تھے۔ صورت ایسی تھی جیسے فرشتہ، چھوٹا سا قد رنگ۔ ایسا جیسے دھویا کپڑا۔ سفید چھوٹی، سی ڈاڑھی۔ سفید منڈا سا۔ سفید چغہ۔ سفید کرتا۔سفید ایک برکا پا جامہ، زردبانات کی سلیم شاہی جوتی ۔ غرض ان کے آنے سے مدرسہ میں رونق آجاتی تھی۔ ادھر وہ مدرسہ میں گھسے۔ ادھر لڑکوں کا گروہ ان کے پاؤں چومنے بڑھا۔ ہندو ہو یا مسلمان ، کوئی ایسا نہ ہوتا تھا جو ان کی جوتیوں کو ہاتھ لگا کر اپنا ہاتھ نہ چومتا ہوں۔ البتہ میں ایک بد نصیب اسی نعمت سے ہمیشہ محروم رہا شکل تو مجھے بھی ان کی بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ مگر کیا کروں ان کی باتوں سے اعتقاد اٹھ گیا تھا۔ مارتے تو کسی کو نہ تھے مگر گالیاں بہت دیتے تھے اور گالیاں بھی ایسی کہ نہ کہیں دیکھیں نہ سنیں ۔ ان کے دو تین فقرے بطور نمونہ تبرکاًعرض کرتا ہوں۔
کسی پر خفا ہوتے تو ہمیشہ کہتے’’ چل چرخہ نچاؤنی کے ‘‘ اس سے زیادہ خفا ہوئے تو فرماتے ’’چل بے تننگی ۱؂ کے جنے‘‘ غرض ایسی ہی باتوں اور پھبتیوں میں ان کا گھنٹہ گذر جاتا کبھی پڑھاتے ہوں گے۔ ہم نے تو ان سے کچھ نہیں پڑھا۔ مجھے چوتھی جماعت میں جا کر کوئی دو ہی مہینے ہوئے تھے کہ یہ عالم بالا میں تعلیم دینے کے لئے طلب کر لئے گئے۔ ان کی جگہ جو مولوی صاحب آئے۔ وہ واقعی مولوی تھے شکل بھی عالموں کی سی تھی اور پڑھانا بھی عالموں کا سا تھا۔ ذات کے بھی مرزا تھے۔ چھ فٹ کا قد۔ سرخ و سفید رنگت، موٹا موٹا نقشہ ، چھوٹی چھوٹی آنکھیں۔ نیچی کڑ بڑی ڈاڑھی ، چوڑاچکلا ہاڑ، ہمیشہ کشمیری کام کا چغہ اور کشمیری کام کا منڈاسا باندھتے تھے۔ فارسی ایرانی لہجہ میں پڑھاتے تھے۔ خود سمجھتے تھے۔ دوسروں کو سمجھاتے تھے۔ اگر کوئی طالب علم ہوشیار ہوا تو اس کی تعریف کرتے۔ دل بڑھاتے کوئی نالائق یا سست ہوا، ٹھونکتے اور خوب ٹھونکتے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس ٹھکائی میں بھی مرزائی آن بان نہ جاتی تھی۔ جب مارتے پینترے بدل بد ل کر مارتے مگر ایک روز مولوی صاحب کو لکڑی کے ہاتھ دکھانے پر بڑا خفیف ہونا پڑا ۔ دلی میں ایک مرزا صاحب رہتے تھے۔ بنوٹ اور لکڑی کے فن میں کامل ۔ ان کا لڑکا ہماری جماعت میں پڑھتا تھا۔ وہ بھی لکڑی خوب جانتا تھا۔ تھا بھی ہوشیار ۔ اس لئے پٹتا کم تھا ۔ ایک روز کسی بات پر مولوی صاحب کو غصہ آگیا بیت لے۔ اس پر چڑھائی کر دی وہ بھی پیترا بدل کھڑا ہوگیا۔ مولوی صاحب نے بیت چلائی اس نے کتاب روکی پھر کیا تھا ۔ ادھر سے سٹرا سٹربیت چلتی۔ ادھر پھٹا پھٹ کتاب پر رکتی ۔ مولوی صاحب مارتے مارتے تھک گئے ۔ مگر اس لونڈے کے جسم پر ایک بیت نہ پڑی۔ اس کے بعد جو کچھ مولوی صاحب نے کیا وہ ان کے شایان نہ تھا۔ حریف کو نہتا کر کے سونت دیا۔ کچھ وار تو وہ خالی دے گیا۔ مگر کچھ بیتیں پڑ گئیں۔ اس نے جا کر باپ سے شکایت کی ۔ وہ بھی مرزا تھے۔ لڑکے کو مدرسہ سے اٹھا دوسرے مدرسہ میں داخل کر دیا۔ ایف اے میں میرا اور ا س کا پھر ساتھ ہوا۔ اپنے فن میں اس بلا کا نکلا تھا ۔ کہ تعریف نہیں ہو سکتی۔ کہا کرتا تھا کہ بھئی دلی تو دلی ہندوستان بھر میں شائد ہی مجھے کوئی دبا سکے۔ ہاں ایک ترک کے لونڈے نے ایک روز میرے حواس باختہ کر دیے تھے۔ ابا مکان کا دروازہ بند کئے چند شاگردوں کو بنوٹ سکھا رہے تھے کہ کسی نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھولا تو کیا دیکھتے ہیں ایک خوبصورت سترہ اٹھارہ برس کا لڑکا کھڑاہے۔ اندر بلا لیا وہ بیٹھا رہا۔ پھر ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہنے لگا۔ تمہارے استاد کہاں ہیں ۔ ہم نے ابا کی طرف اشارہ کیا۔ وہ ان کے سر ہو گیا۔ کہ میرے مقابلہ میں آؤ انہوں نے لونڈا سمجھ کر ٹالنا چاہا ۔ مگر وہ کب ماننے والا تھا۔ آخر بمشکل مجھ سے مقابلہ کرنے پر راضی ہوا۔ کوٹ اور ٹوپی پھینک کر لکڑی کے اکھاڑہ میں کود گیا۔ میں بھی لکڑی لے کر اترا۔ شروع میں تو میں سمجھا کہ لونڈا ہے کیا کرے گا۔ مگر بھئی خدا کی قسم اس نے وہ وہ ہاتھ مارے کے پسینے چھوٹ گئے۔ مجھے موقع ہی نہ دیتا تھا۔ کہ وار کروں اس کے واروں کا بچانا ہی مشکل ہو گیا۔ آخر کہنے لگا’’ علی مد کا ہاتھ مارتا ہوں۔ یہ کہہ کر اور یا علی کا نعرہ مار کر ۔ جو اس نے جست کی توایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہوا میں اڑ گیا نیچے اترتے اترتے اس زناٹے کا ہاتھ مارا کہ میرے اوسان جاتے رہے۔ ابانے بھی دیکھا کہ رنگ برا پڑا ہے، روک دیا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ بڑی دیر تک میرے حواس درست نہیں ہوئے۔ یا تو اس روز مولوی صاحب کی تابڑ توڑ مار سے میں چکرا یا تھا۔ یا اس دن اس لونڈے کے استادی ہاتھوں سے حواس باختہ ہو گیا۔ نہیں تو میں اچھے اچھوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔
یہ مولوی صاحب مجھ سے بہت خوش تھے۔ کیونکہ ایک تو میں گھر پر فارسی پڑھے ہوئے تھا۔ دوسرا توڑ مروڑکر فارسی کا ایسا تلفظ کرتا تھا کہ ایرانی بھی سنتے تو شاید مشکل ہی سے سمجھ سکتے کہ یہ فارسی زبان ہے یا کوئی اور زبان ۔ مگر ہم کو ایرانیوں سے کیا غرض ہم کو تو مولوی صاحب سے غرض تھی۔ وہ تعریف کرتے تھے۔ ہم خوش ہوتے تھے۔ مولوی صاحب کو مجھ پر اتنا ناز تھا کہ جب پانچویں جماعت کا امتحان انسپکٹر صاحب نے لیا۔ تو مجھ کو خاص طور سے پیش کیا گیا۔ میں نے بھی وہ زبان ٹیڑھی کر کے اور منہ بنا بنا کے پڑھا ۔ کہ صاحب بھی لوٹ گئے۔ میرے پڑھنے کی اور مولوی صاحب کے پڑھانے کی بڑی دیر تک تعریف کرتے رہے اور آخر ان کو ماننا پڑا کہ فارسی لہجہ ایسا ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون چار اقساط میں شائع ہوگا