کتاب دوستی ۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ  رپورٹ
جاوید اختر ملک


سرکاری سطح پر قائم علمی ، ادبی اور ثقافتی ادارے معاشرے میں علم و فن کے فروغ ، کتاب دوستی اور اقدار شناسی کا ماحول پیدا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔سرکاری اداروں میں اقرباء پروری اور بد عہدی نے ان اداروں کو اپنے قیام کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہونے دیاجبکہ ذاتی پسند کی بنا پر افسران کے ایک مخصوص گروہ پر عنایات اور دوسرے گروہ کو دیوار کے ساتھ لگا دینا روایت بن چکا ہے ۔ شعبہ جاتی سیاست اور ذاتی مفاد کی خاطر کسی بھی ملکی مفاد کو قربان کر دیا جاتا ہے ۔ جب آپ اپنی ذات اور ذاتی مفاد سے نکل کر سوچیں اور کام کریں توتبھی ملک کی لسانی اور نظریاتی حدوداورمستقبل کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ جب ادارے منفی خیالات کی بھینٹ چڑھ جائیں تو کیا کسی مثبت سوچ ،رویے اور مقصد کو جگہ مل سکتی ہے؟اس حوالے سے سروے کے دوران چند نمایاں افراد کی رائے ملاحظہ کیجیے :
احمد سلیم :
سرکاری ادارے اردو زبان و ادب کی ترقی اور اصلاح کے معاملات سے قاصر رہے ہیں سوائے چند ایک مستثنیات کے، جیسے مقتدرہ قومی زبان نے کتاب میلہ کا انعقاد کر کے ایک کامیاب کوشش کی ہے ۔ ضروری ہے کہ افسر شاہی کے بجائے ایسے افراد کو ان اداروں میں مرکزی اور ذیلی ذمہ داریاں سونپی جائیں جو زبان و ادب خصوصاً اردو زبان و ادب کے ماہرین میں شمار ہوتے ہوں۔ ’’اخبار اردو ‘‘کو اسی طرز پر چلتے رہنے دیا جائے تا کہ قاری کی دلچسپی قائم رہے۔ کتب کی فراہمی کو مزید آسان بنادیا جائے ۔
حمیرا اشفاق :
عمومی تاثر تو یہی ہے کہ ان اداروں نے کوئی خاطر خواہ کام سر انجام نہیں دیا بلکہ اسے عوام سے الگ تھلگ چند احباب کا حلقہ بنا کر رکھ دیا گیا۔ اس لیے عام طلبا وطالبات کی اس سسٹم تک رسائی نہ ہو سکی ۔ کتب اگر شائع ہوئی بھی ہوتی ہیں تو ان کی ترسیل کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا جاتا۔ ان اداروں کو اپنے تمام نظاموں کو تعلیمی اداروں کیساتھ وابستہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ آنے والی نسل ااس سے استفادہ کر سکے اور ان اداروں کو بھی دورجدید کی ضروریات کا اندازہ ہو سکے۔ اداروں میں میرٹ اور صرف میرٹ کو اہمیت دی جانی چاہیے اور سربراہان کو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ شفافیت سے نظام بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ جواب دہی اور سالانہ جائزہ رپورٹ کو ٹھوس بنیادوں پر مبنی ہونا چاہیے۔ سالانہ جائزہ رپورٹ کو صرف ایک آدمی کی رائے پر مبنی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک بورڈ قائم ہونا چاہیے جو کارکردگی کی بنیاد پر ترقیوں کا تعین کرے۔ اس سے میرٹ کی بنیاد پر معیار بنانے میں مدد ملے گی اور اداروں کی کارکر دگی فعال ہو جائے گی۔
امجد چوہدری (کالم نگار ):
قوموں کی پہچان ،ان کی تہذیب ،اقدار اور زبان سے ہوا کرتی ہے لیکن ہمارے ہاں مغرب کی تقلید اور چکا چوند نے زبان ، لباس اور معاشرتی اقدار سب کچھ چھین لیا ہے ۔ اگر اس قوم نے اپنی گم گشتہ پہچان کو پھر سے زندہ کرنا ہے تو اسے اپنی تہذیب کو اجاگر کرنا ہو گا جو علم و فن کے فروغ ، کتاب دوستی اور اقدار شناسی کے بغیر ممکن نہیں۔
تجاویز : ہر ادارے میں لائبریریوں کا قیام اور سستی کتابوں کی فراہمی،طلباء کی اخلاقی اقدار کے لیے باقاعدہ کتب کا اجراء ؛آباء کی نصیحتوں پر مبنی مختصر مگر بامعنی تحریریں ان تک پہنچانا؛سوشل میڈیا اور SMSکے ذریعے پیغامات ؛اچھی تحریروں پر مقابلے اور انعامات کا انتظام اور تعلیم و تربیت کا ایسا نظام جس سے قاری علم اور پراپیگنڈا میں فرق جان سکے جیسے اقدامات کی ضرورت ہے۔
یوسف عالمگیرین :
جس طرح سے ہر کسی کو سرکار اور سرکاری اداروں سے کوئی نہ کوئی شکایت ہوتی ہے۔ اسی طرح سرکاری سطح پر قائم علمی ، ادبی اور ثقافتی ادارے بھی تنقید کی زد میں آتے ہیں ۔ بہر کیف کسی ایک آدھ واقعہ کی بناء پر پورے ادارے کے حوالے سے تاثر قائم کر لینا شائد مناسب نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ ذاتی وجوہ کی بنیاد پر بھی تنقید برائے تنقید کی روش اپنا لیتے ہیں ۔ لیکن یہ امر بھی اپنی جگہ حقیقت پر مبنی ہے کہ مقتدرہ قومی زبان ، اکادمی ادبیات پاکستان ، نیشنل بک فاؤنڈیشن اور اردو سائنس بورڈ سمیت دیگر اداروں نے جس طرح سے ملک میں شعور و آگہی اور علم و ادب کی شمع روشن کی ہے وہ قابل تحسین ہے ۔ مقتدرہ قومی زبان نے جس طرح سے قومی زبان سے متعلق لغات اور لٹریچر سے متعلقہ کتب کے تراجم کو فروغ دیا ہے وہ قابل تعریف ہے ۔ پاکستان کے طول وعرض میں بہت سے شاعر اور ادیب ایسے ہیں جو اپنی تخلیقات شائع کروانے سے قاصر ہیں ۔ مقتدرہ قومی زبان کو ایسے احباب کو تلاش کر کے ان کی تخلیقات کی اشاعت کو یقینی بنا کر ادب میں روشناس کرانے میں عملی کاوش سر انجام دینی چاہیے۔
فاروق الزمان خان :
بلاشبہ مقتدرہ نے بہت کا م کیا ہے تاہم بہت کچھ ہونا ابھی باقی ہے مگر جس سپرٹ سے اس کا قیام عمل میں آیا وہ اب مفقودہے ۔ موجودہ صورت حال نے یہ ثابت کیا ہے کہ خوشحال ادیب اور لکھاری تخلیق سے محروم ہو تا جاتا ہے اور مزاحمتی ادب کا زمانہ جس میں ادیب بھکاری کی حیثیت رکھتا تھا ادب تخلیق کرنے کے لئے زیادہ موزوں تھا ۔آج اردوزبان کو جتنے چیلنج درپیش ہیں وہ مقتدرہ قومی زبان کے کسی ایک عمل سے نظر نہیں آیا۔ سرکاری پیسے سے شائع شدہ کتابیں آپس میں بانٹ لینے سے کام نہیں چلے گا ۔ سارے ادیب و دانشوراس وقت کے پاکستان کی موجودہ صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کے رائٹرز گلڈسے بھی کوئی سبق سیکھنا چاہیے تھا ۔ جب آپ اپنی ذات اور ذاتی مفادسے نکل کے سوچیں اور کام کریں گے تب پاکستان،اس کی قومی زبان، نظریہ اور مستقبل بچاسکیں گے۔ سرکاری سر پرستی سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔
صالحہ مقدس :
مقتدرہ قومی زبان واحد ادارہ ہے جو اردو کے فروغ کے لیے کام کررہا ہے۔ لہٰذا اس کو اپنی کارکردگی مزید بہتر بنانی چاہیے۔ مقتدرہ کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ سیمینار کرائے اور اپنے اشاعتی امور عوام تک پہنچائے۔ آج کل اردو زبان کو ختم کرکے انگریزی کو فروغ دیا جارہا ہے حالانکہ اردو زبان کے فروغ کے لیے خصوصی اقدمات کیے جانے چاہئیں تاکہ اس کو زیادہ سے زیادہ فروغ حاصل ہو۔ یہ ہماری غلطی ہے کہ اردو زبان سے لاپروائی برتی جارہی ہے جس سے یہ زبان اپنی اصلی شناخت کھو چکی ہے ۔
انیلہ :
مقتدرہ قومی زبان کو زیادہ سے زیادہ سیمینار کرانے چاہئیں اور تعلیمی اداروں کے طلباء و طالبات کو مدعو کرنا چاہیے تاکہ انھیں آگاہی ہو سکے اور بڑے مصنفین کو بھی مدعو کرنا چاہیے اور اخبار ورسائل میں اس ادارے کے بارے میں لکھا جانا چاہیے تاکہ لوگوں کو اس ادارے سے متعلق مزید آگاہی ہو سکے۔ یہ نہایت تشویش کی بات ہے کہ سرکاری سکولوں میں بھی اردو کو ختم کیا جارہا ہے ۔ مقتدرہ کو چاہیے کہ اردوکو مزید فروغ دے۔
فرحت جبیں :
یہ تاثر غلط بھی نہیں ہے کیونکہ اب آج کل کے دور میں جتنی اہمیت انگریزی زبان اور انگریزی زبان کے فروغ کے لیے قائم اداروں کو دی جارہی ہے اتنا فروغ اردو ادب کو نہیں دیا جارہا ۔ اور اس میں صرف اداروں کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ اگرادارے ہیں بھی تو ان میں پیشہ وارانہ لوگوں کی شدید کمی ہے، کتب خانوں کی کمی ہے ۔ سرکاری سطح پر بھی اور نجی سطح پر بھی۔ ایک تو یہ کہ لوگوں کو ایسی تربیت دی جائے کہ وہ فروغ اردوکو سمجھ سکیں، دوم یہ کہ انگریزی زبان کی طرح اردو زبان اور علم وفن کو بھی میڈیا پہ فروغ دینا چاہیے ۔ اس سلسلے میں میڈیا سب سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ طالب علموں میں اردو زبان کے ساتھ لگاؤپیدا کرنا چاہیے ۔ کتاب دوستی کے لیے ضروری ہے کتابوں کی قیمتوں میں کمی لائی جائے کیونکہ کتابوں کی قیمت بڑھ جانے سے لوگ خاص کر طالب علم نیٹ سے فائدہ اٹھا تے ہیں سو سرکاری سطح پر ان تجاویز کو زیر غور لایا جاسکتا ہے ۔
شیراز فضل داد :
(
۱ ) عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ ایک مرتبہ جو کتاب چھپ جاتی ہے وہ دوبارہ نہیں چھپتی۔ اس لیے ایسی کتابوں کے حصول میں دشواری پیش آتی ہے۔
(
۲ ) دوسرے اداروں کی چھپی ہوئی مہنگی کتابوں کے سستے ایڈیشن بھی ان اداروں سے چھپنے چاہئیں۔
(
۳ ) جو کتب نایاب ہو چکی ہیں ان کی اشاعت کا انتظام ہونا چاہیے۔
شائستہ ظفر :
میں مندرجہ بالا حقائق سے کلی طور پہ متفق ہوں ۔ یہ بات درست ہے کہ سرکاری ادارے اپنا کردار بخوبی نبھانے سے قاصر ہیں ۔ معاشرے کو علم وادب اور فنی ، ادبی ، ثقافتی اقدار سے منسلک کرنے اور ان کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ان تمام علوم کو ہر ڈگری کے نصاب کا لازمی جزو قرار دیا جائے ۔ نیز طلبہ اور طالبات کو ہماری تاریخ ، ثقافت اور قومیت کی اہمیت بتانے کے لیے انہیں پاکستان کے لوک ورثہ اور ایسی لائبریری میں لے جایا جائے جو ان میں لگن پیدا کرے ۔نجی سطح پہ والدین اس امر کو بخوبی نبھاسکتے ہیں،اپنے گھر کی روٹین اور بچوں کی تعلیم میں اگروہ اپنا کردار ادا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے ورثے کو محفوظ نہ بنا سکیں۔