میدان جنگ کہ نام ہے جس کا زبان
اجمل کمال ترجمہ: نبلی پیرزادہ


طلسی داس۔ سولہویں صدی عیسوی کا ایک براہمن درویش اور والمیکھی (Valmiki) کی سنسکرت تصنیف رامیانا اودھی صورت (Awadhi Version)’’رام شرط مانس ‘‘(Ramcharitmanas)کے مشہور و معروف مصنف سے درج ذیل دو سطور منسوب کی جاتی ہیں۔
’’
ڈھول، گنوار، شودر، پشّو، ناری/سکل تاں کہ ادھ کاری (ایک ڈھول ، غیر تہذیب یافتہ آدمی، ایک کمّی، ایک جانور اور ایک عورت۔۔۔ تمام کے تمام بھرپور مارپیٹ کے حق دار ہیں‘‘ ۔
اس بات پر غور کرنایقیناً دلچسپی سے خالی نہیں کہ طلسی داس کی یہ بیش قیمت تخلیق آنے والی صدیوں میں معاشرے کے محروم اور پسماندہ گروہوں کے خلاف تعصب اور ظلم کو جائز قرار دینے کے لیے ایک تسلیم شدہ دستاویز اور سماجی لسانی (Sociolinguistic)ذریعے کی حیثیت کیسے اختیار کر گئی؟ مزید برآں یہ بات اس سے بھی زیادہ دلچسپی کا باعث ہے کہ ۲۰ ویں صدی میں کیسے کچھ (اونچی ذات کے) تنقید نگار اساتذہ، مبلغین اور سیاستدان، بڑی مشقت اور کوشش سے، دیہاتیوں ، مزدوروں، اپنے ہاتھ سے روزی کمانے والوں، کم تر جنس (خواتین) سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف طلسی داس کی اس نفرت اور حقارت کا دفاع کرتے پائے گئے۔
وہ زبانیں بھی جو ہم آج کل بولتے ہیں ۔۔۔قبول عام کہاوتوں ، زبانی روایت او رتحریری ادب سے اخذ کیے گئے اقوال، تشبیہات، استعارات، لطیفوں، معروف طنزیہ جملوں (Wise cracks)گھسے پٹے جملوں اور عام بول چال کے محاورات وغیرہ کے ذریعے۔۔۔ جنس اور ذات کی بنیاد پر تعصب، نفرت، حقارت اور ظلم کی اسی تاریخ کو محفوظ کیے ہوئے ہیں۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک مسحور کن پہلوہے جیسا کہ یہ عدم مساوات پر مبنی ایک ناپختہ اور غیر مہذب معاشرے سے سماجی مساوات کی جانب ہمارے سفر کی منزلوں کی نشاندہی کرتا نظر آتا ہے۔
مثال کے طور پر مولانا اشرف علی تھانوی جیسے شخص پر جو ابلاغ کے لیے اردو نثر کے استعمال میں انتہائی مہارت رکھتے تھے، یہ بات نہایت قدرت طور پر آشکارا ہوئی کہ وہ اپنے خطبوں اور تحریروں میں جلاہوں ، سنی مولویوں اور خواتین کے قابلِ مذمت، مضحکہ خیز اور غلط طرز عمل کی مثالیں بیان کر سکیں۔ البتہ ایسا ضرور ہوا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان جیسے علماء کے لیے ایسے طبقوں مثلاً ’’خواتین‘‘ یا’’کم ذات‘‘ لوگوں کے بارے اپنے خیالات کا اتنا کھلم کھلا اظہار ممکن نہیں رہا۔ تاہم جوں جوں ہمارا معاشرہ ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے اور یقیناً گو بہت آہستگی سے ، فرد کی جانب وہ سفر کرتا ہے جو جمہوریت کی بنیاد ہے۔۔ تو نچلے طبقات کی جانب سے دباؤ میں تبدریج اضافہ ہوتا ہے اور اس دباؤ کا اظہار اُن خیالات و نظریات سے بغاوت اور ان کو چیلنج کرنے کی صورت میں ہوتا ہے جو ہماری زبان میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔
ابتدائی ایام میں ___یعنی ۱۸۵۷ء سے پہلے کے اس زمانہ میں جسے حسن عسکری کے چالاک اور معصوم، دونوں قسم کے پیروکار ’’عامی جامی کا زمانہ‘‘ (ٹھہراؤ کا دور)، ’’ہند اسلامی تہذیب کا سنہری دور‘‘ اور اس قسم کے دیگر ناموں سے تعبیر کرتے ہیں__ کے دوران حسب نسب اور پیدائش کی بنیاد پر سماجی مراتب کے تعین کی بابت ایک عمومی موافقت پائی جاتی تھی۔ یہ سماجی گروہ معاشرہ میں اپنے مرتبہ سے واقف اور اپنی پیدائشی حیثیت کو قبول کیے ہوئے تھا اور سب (جن کا تعلق حاکم طبقے سے تھا) ہنسی خوشی زندگی گزارتے تھے۔ اُن دنوں یہ معمول کی بات تھی کہ کسی ردِ عمل کے خوف کے بغیر، لوگوں کو شریف اور نوریکل رذیل (یا ذلیل) کے خانوں میں بانٹ دیا جائے۔ لوگوں کے مختلف طبقات کے درمیات بنیادی فرق یہ تھا کہ آیا کہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے والوں میں تھے__ یعنی آیا کہ وہ ’’کمّی‘‘، ’’خدمتی‘‘ یا ’’شودر‘‘ تھے__یا وہ جاگیروں، مال و دولت (سونا، چاندی، جواہرات)، جسمانی اور سیاسی قوت (شمشیر، خنجر وغیرہ) کے مالک و مختار تھے اور علم اور روحانی طاقت رکھتے تھے___ یعنی آیا وہ ’’زمیندار‘‘، ’’ساہوکار‘‘، ’’صاحبِ شمشیر‘‘ یا ’’صاحبِ کلام‘‘ تھے (چند ان تمام پر اجارہ داری کا دعوٰی کرتے ہوئے اپنے آپ کو صاحبِ سیف و کلام یا پیراور گدی نشین کہلواتے تھے)۔
خواتین کا طبقہ جس کو تین واضح حد بندیوں، اشرافیہ (Elite) ، عوام (Cmmoner)اور طوائف (Prostitute)میں تقسیم کیا گیا تھا۔۔۔ کی جانب سماجی رویہ ان کی جنس کے حوالے سے بنیادی طو رپر شکوک و شبہات پر مبنی تھا۔ اس مشکوک رویہ کا عملی اظہار اشرافیہ کی خواتین کے لیے بے پناہ تکریم کے مظاہرے اور ان کی مکمل خلوت کی صورت میں عیاں تھا۔ یہاں تک کہ کسی اجتماع میں ان کے وجود کا تذکرہ بھی بے حرمتی کے زمرہ میں آتا تھا۔ ( یہ عزت و احترام البتہ اشرافیہ کے مردوں کو ان خواتین کی مارپیٹ ، ان پر تشدد اور بسااوقات انھیں موت کے گھاٹ تک اتارنے سے نہیں روک سکا)۔ اس کے برعکس مذکورہ بالا بقیہ دو طبقات کی خواتین کے ساتھ اس مشکوک رویہ کا اظہار نفرت و حقارت اور ذلت سے بھرپور جملوں کی صورت میں ہوتا تھا۔ جدید دور میں شہروں کی ترقی پسند خواتین کے لیے یہ انداز گفتگو انتہائی ناقابل قبول ہے جس کی بنا پر، مثال کے طور پر ٹی وی کے مباحث میں شریک مولوی حضرات یا قدامت پسند نظریات کے حامل تبصرہ نگاروں کو اپنی زبان پر قابو رکھنے کی ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اس قسم کی زبان سے اجتناب کریں جو وہ شاید پسِ پردہ استعمال کرتے ہیں۔
بدلتے ہوئے حالات نے معاشرہ اور زبان__ دونوں پر حاوی اشرافیہ کو کڑوی بات نرم انداز سے کہنے کا ڈھنگ سکھاا دیا اور انھوں نے براہِ راست تذلیل کی جگہ ’’حسنِ ادا‘‘ کو اپنا لیا۔ میرے لیے ایسے خوش کلام الفاظ (Euphemisms)کا مطالعہ انتہائی دلچسپی کا باعث ہے جیسا کہ یہ ذات پات کی سیاست (Caste politics)یا اشتمال (Inclusion)اور اخراج (Exclusion)کے میدانِ جنگ کی کہانیاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔
ہم میں سے بیشتر کو ۱۹۴۰ء ، ۱۹۵۰ء اور شاید ۱۹۶۰ء بھی ، کی ممبئی ہندی فلموں میں کثرت سے دہرایا جانے والا ایک منظر یاد ہو گا: جب ہیرو کسی سڑک یا دریا کے کنارے بے ہوش پڑا ہوتا ہے (کسی حادثہ، ڈوبنے کی ناکام کوشش یا بہت زیادہ پی لینے کی وجہ سے) اور پاس سے گزرنے والے غریب راہگیروں کا یہ تبصرہ کہ ’’کسی اچھے گھر کا معلوم ہوتا ہے‘‘ اچھے خاندانی پس منظر کے اس حوالہ کو ایک ایسی سماجی قدر کو تقویت بخشنے کی کوشش کے طور دیکھا جا سکتا ہے جسے ۱۹۳۰ء اور ۱۹۴۰ء کی دہائی میں وقوع پذیر سماجی اقتصادی (Socioeconomic)تبدیلی کے بے رحم عمل نے باہر پٹخ دیا تھا__نیز یہ امر کہ مکالمہ ادا کرنے والا فنکار ایک غریب شہری یا دیہاتی کا کردار ادا کر رہا ہوتا تھا، بذاتِ خود بات کو عیاں کر دیتا تھا اور (مذکورہ کردار سے) یہ بات کہلوانے کا مقصد اس اتفاق رائے کو ثابت کرنا ہوتا تھا جو ذات پات کی بنیاد پر قائم سماجی طبقات کے حوالے سے معاشرہ میں پایا جاتا تھا لیکن جو حقیقتاً اس وقت مفقود ہو چکا تھا۔ یہاں تک کہ سینما کے سستے حصے میں بیٹھے کچھ افراد (خاص طور پر شہروں کو ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے) کو ردِ عمل کے طور پر جواباً یہ کہتے بھی سنا جا سکتا تھا کہ ’’تو ہم کیا بُرے گھر کے ہیں؟‘‘۔
اسی طرح ایک زمانہ تھا جب کوئی مشکل صورت حال (جیسا کہ گلی محلے کا جھگڑا یا ٹریفک پولیس کے ہاتھوں چالان کی نوبت) سے دو چار ہوتا تو جان چھڑانے کا فوری اور آسان طریقہ یہ تھا کہ کہہ دیا جائے کہ ’’ہم شریف لوگ ہیں!‘‘ یا ’’ہم عزت دار لوگ ہیں!‘‘ لیکن آج کل کے زمانے میں ایسا کہنے والے کو فوری طور پر اس اکھڑ جواب کا سامنا ہو سکتا ہے کہ ’’ہم کیا بدمعاش ہیں؟‘‘ یا ’’ہماری عزت نہیں ہے کیا؟ ‘‘
مذکورہ بالا مؤخر الذکر شخص ہی جو ’’شریف‘‘ اور ’’عزت‘‘ جیسے الفاظ کے روایتی مطالب کو چیلنج کرتا ہے، ان افراد کا نمائندہ ہے جو تبدیلی کے اس جدید عمل کا ماحصل ہیں اور مندرجہ بالا الفاظ اور ان جیسے دیگر بھاری بھرکم الفاظ کے روایتی مطالب کو ان کے لغوی (Literal)مطالب میں ڈھالنے کے خواہشمند ہیں۔ چنانچہ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری زبان ایک انتہائی متحارب میدان ہے۔