چھوٹا(ناول کا پہلا ورق)

احمد اعجاز

کے ابھی بول گونج رہے تھے،
''بالی، عمر موری، سونی رے سجنیا۔!''
مَیں حواس باختہ سا ہو کر چھوٹے کو ایک سے دوسرے کمرے ، تیسرے میں اورپھر چھت پر ڈھونڈ آتا ہوں ۔۔۔مگر اُسے غائب پاتا ہوں۔۔۔
آج صبح مَیں اور چھوٹا ایک ساتھ گھر سے نکل کر اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے تھے، مسافربس میں ہم دونوں کی سیٹیں بھی ساتھ ساتھ تھیں ،مَیں پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہنے جا رہا ہوں کہ منڈی موڑ پر اُتر کر آئی ٹین فور کے لیے ٹیکسی میں ایک ساتھ ہی سوار ہوئے تھے۔مکان کے سامنے جب ٹیکسی رُکی ،ایک ساتھ ہی اُترے،کچھ سامان اُس نے اُٹھایا کچھ مَیں نے ،جب مَیںسیڑھیاں چڑھ رہاتھا،وہ پیچھے ہی تھا،اُس کے پیروں کی آوازیںباآسانی سنائی دے رہی تھیں۔جب مَیں نے کمرے کے دروازے میں پڑے ہوئے تالے میں چابی گھمائی،اندر داخل ہوکر ٹیوب لائٹ آن کی ،سامان رکھااور تھکاوٹ کے سبب بستر پر پڑ کر آنکھیں بند کر لیں پھر جو آنکھیں کھولیں تو چھوٹے کو غائب پایا۔مَیں نے بستر پر پڑے پڑے باتھ روم کی اَور نظر ڈالی ،اُس کا دروازہ باہر سے بند تھا،کمرے کے دروازے کی اَور دیکھا تواندر سے چٹخنی چڑھی ہوئی تھی۔مَیں نے چٹخنی چڑھائی ؟مَیں خود سے پوچھتا ہوں۔۔۔شاید ہاں ۔۔۔یا ۔۔۔شاید نہیں۔۔۔عجیب گو مگو کی کیفیت میں گھِر جاتا ہوں۔۔۔مَیں گو مگو کی کیفیت کو بستر پر چھوڑتا دروازے کی طرف بڑھتا ہوں، یہ سوچتا ہوا کہ چٹخنی مَیں نے ہی چڑھائی ہو اور وہ باہر نہ رہ گیا ہو؟لیکن دروازے کے اُس پار وہ موجود نہ تھا۔
مَیں حواس باختہ سا ہو کر چھوٹے کو ایک سے دوسرے کمرے ، تیسرے میں اورپھر چھت پر ڈھونڈ آتا ہوں ۔۔۔مگر اُسے غائب پاتا ہوں۔۔۔
مَیں ہونقوں کی طرح کمرے کی طرف پلٹتا ہوں اور گو مگو کی کیفیت اُوڑھ کر بستر پر ڈھیر ہو جاتا ہوں۔۔۔ ہم دونوںانتہائی اُفتادگی اور بے بسی کی حالت میں گھر سے ایک ساتھ ہی نکلے تھے۔۔۔یا شاید مَیں اکیلا ہی نکلا تھا۔۔۔وہ گھرہی میں تو نہیں رہ گیا؟مجھے گھر میں فون کر کے پوچھ لینا چاہیے؟اس احساس سے ایک طرف پڑے سیل فون کو اُٹھاتا ہوں پھر رکھ دیتا ہوں۔۔۔معلوم نہیں کیوں۔۔۔مَیں ایک بار پھر آنکھیں بند کر لیتا ہوں، بند آنکھوں میں ستارے ناچ اُٹھتے ہیں۔ معلوم نہیں کتناعرصہ ناچ ناچ جب تھک جاتے ہیں تو مَیں ایک گَونہ سکون پاتا ہوںاور خود کو مسافربس میں موجودپاتاہوں ،وہ میرے ساتھ ہی توبیٹھاہوا تھا ،ہم دونوں وقفے وقفے سے اجنبی مسافروں کے سے انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھ بھی لیتے تھے۔۔۔یہ پہلا موقع ہے جب مَیں اپنے او رچھوٹے کے لیے،لفظ 'اجنبی' استعمال کررہا ہوں ۔ہم سارا سفر ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے بھی رہے ،یہ لفظ بھی پہلی بار استعمال ہو رہا ہے ۔ یہ اجنبیت اور کھنچے کھنچے رہنے کا عمل کب اور کیوں کر شروع ہوا؟شاید چند ایک برس سے۔۔۔یا ۔۔۔شاید چند ایک دن سے۔۔۔ کچھ بھی ہو ،اب اجنبیت اور کھنچے کھنچے رہنے کے عمل کے بلوغت والے لمحے ہیں۔ کیوں کر ،کا پتہ بھی لگانا ہے ۔یہ کام مجھے ہی کرنا ہو گا کہ وہ تو غائب ہے۔ کیا ہم اپنے اپنے رویوںسے اپنی اپنی جگہ ایک دوسرے سے الگ ہونے کا فیصلہ تو نہیں کر رہے تھے؟مگر کیوں ؟۔۔۔معلوم نہیں ۔۔۔کیا ہم گھر سے آج ہی اسلام آباد کے لیے نکلے تھے۔۔۔؟شاید ہاں ۔۔۔یا۔۔۔شاید نہیں ۔۔۔ میرا ' شاید 'سے کب رشتہ اُستوار ہوا؟شاید۔۔۔اس شاید کا پتہ بھی لگانا ہے اور یہ کام بھی مجھے ہی کرنا ہو گا، کہ وہ تو غائب ہے۔کب سے غائب ہے؟شاید۔۔۔مگر یہ ایک بات صرف ایک بات مَیں پورے یقین کے ساتھ کہنے جا رہا ہوں کہ منڈی موڑ پر اُتر کر آئی ٹین فور کے لیے ٹیکسی میں ایک ساتھ ہی سوار ہوئے تھے۔مکان کے سامنے جب ٹیکسی رُکی ،ایک ساتھ ہی اُترے،کچھ سامان اُس نے اُٹھایا کچھ مَیں نے ،جب مَیںسیڑھیاں چڑھ رہاتھا،وہ پیچھے ہی تھا،اُس کے پیروں کی آوازیںباآسانی سنائی دے رہی تھیں۔ہاں مگر دو ایک برس قبل جب میں اُس کے ہم راہ پہلی بار اسلام آباد آیا تھا،یہ تب کا واقعہ ہے یا آج کا۔۔۔؟مَیں اپنے ذہن پرزور دیتا ہوں اور سوچتا ہوں بہت سوچتا ہوں تو معلوم پڑتا ہے کہ یہ تب کا واقعہ ہے اور مجھے احساس ابھی ابھی ہوا۔۔۔مگر شاید۔۔۔یہ آج اور ابھی ابھی ہی کی بات ہے۔۔۔اُف !!!یہ شاید ۔۔۔شاید۔۔ ۔ اُف ! ! ! تاہم یہ معاملہ ' شاید 'سے صاف ہے کہ چھوٹا اب غائب ہے۔
مجھے آنکھیں کھول لینی چاہیے؟مجھے آنکھیں بند کیے کتنی دیر ہو گئی ہے ؟ مَیں نے آنکھیں کیوں بند کیں ؟مجھ سے بچھڑ کر چھوٹا کتنا سفر کر چکا ہو گا؟ اور وہ کہاں گیا ہو گا؟وہ تو بہت معصوم ہے جس طرح مجھ سے کھو گیا ہے کہیں دنیا بھر سے نہ کھو جائے ؟( کیا وہ مجھ سے کھو گیا ہے؟ کیا میر ااور دنیا کاچھوٹا ایک ہی ہے؟یہ چھوٹا ،چھوٹا ۔ ۔ ۔ کم بخت سے میرا رشتہ کیا ہے؟ )اگر ایسا ہو گیا ؟تب ؟کیا تب دنیا کی بھی ایسی ہی حالت ہو سکتی ہے جیسی میری ہے ؟گو مگو کی حالت۔۔۔اُفتادگی اور بے بسی کی اتھاہ کی حالت۔۔۔ تکلیف کے اُمنڈتے سمندر کی حالت۔۔۔جس کی موجیں اُچھل اُچھل رہی ہیں ۔۔۔ اگر دنیا کو اپنے ناخن کاٹتے ہوئے ناخن کے زیادہ کٹ جانے کی رتی بھر بھی تکلیف ہوئی ہے ،تو اُسے جان لینا چاہیے کٹنے کا عمل کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اور زائد ناخن کٹنے کا عمل تو انتہائی معمولی عمل ہے،پھر بھی کٹنے کا عمل مرنے کا عمل ہے ،یہاں مَیں لفظ 'شاید ' استعمال نہیںکررہا ۔سچ تو یہ ہے کہ 'شاید ' ایک کیفیت ہے جو میرے بس میں نہیں اور یہ بُرے دوستوں کی بُری بہن ہے جو مجھے گلی میں آتے جاتے تاڑتی ہے ،کمرے تک محض پیچھا ہی نہیں کرتی بستر میں گُھس کر دبوچ لیتی ہے،نیند کی گہری آنکھوں میں اُترنے نہیں دیتی ۔ مجھے لمحہ ء موجود میں کیا کرنا چاہیے ؟ مجھے فیصلہ کر لینا چاہیے ۔۔۔کیسا فیصلہ ؟کسی معمولی سے فیصلے پر بھی مجھے کب اختیاررہا ہے؟۔شاید مَیں بکواس کر رہا ہوں ،کہ اپنے سارے فیصلے خود کیے ہیں ،میرے فیصلوں کا اختیار کوئی کون اورکیوںسنبھالے؟فیصلوں کا اختیار تو وہاں سنبھالا جاتا ہے جہاں مفادات ہوں ،مجھ سے کسی کو کیا مفاد ،کہ مَیں تو عام بندہ۔۔۔مگر عام بندے کی زندگی کے فیصلے بھی تو یہاں دوسرے ہی کرتے آرہے ہیں ۔۔۔ مَیں ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔۔۔؟ مَیں یہ کس سے پوچھوں۔۔۔؟ مَیں آنکھیں کھولتا ہوں ،سامنے دیوار پہ میری ہی طرح گومگو کی حالت میں لٹکی گھڑی ٹھنڈی ،اُداس اور منحوس شب کے نو بجا رہی ہے۔ یہ نو حقیقی ہیں یاگو مگو والے ہیں ؟ مَیں رات ،مستزاد سردیوں کی رات ،سے بہت خوف کھاتا ہوں ،کہ رات میں وسوسے ہوتے ہیں اوروسوسے ہمارے دشمن ہوتے ہیں ۔۔۔اُہ یہ تو مَیں نے چھوٹے کی بات کی۔۔ ۔چھوٹا ۔ ۔ ۔ وسوسوں بھری یہ رات مَیں چھوٹے کے ساتھ گذاروں گایعنی اُسے یاد کرتے کرتے۔ چھوٹے سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی تھی؟
وہ مئی یا شاید اپریل کے اختتامی دنوں اورسَن نواسی یا شاید نوے ( چھوٹا اُس وقت چھٹی جماعت میں تھا ) کی ایک صبح تھی ،سورج لوہاروں کے گھر سے نکلنے کی تیاری باندھ رہا تھا۔وہ سائیکل کے آگے بیٹھا تھا ،اُس کا باپ سائیکل چلارہاتھا اور مرجیونی ماں پیچھے بیٹھی ہوئی تھی۔وہ اُن دونوں ،جو سائیکل چلارہاتھا اور جوپیچھے بیٹھی ہوئی تھی ،کو اُن کھیتوں میں چھوڑنے جا رہاتھا،جہاں مزدوری پر گندم کاٹ رہے تھے۔ ''جلدی جلدی جلدی،ابھی یہاں تک ہی پہنچے،ایک گھنٹہ ہو گیا ہے گھر سے نکلے ہوئے''اُس کے باپ نے یہ الفاظ اُس کے بہنوئی ،بہن اور دو بھائیوں کو جو اُنھیں کھیتوں کو پیدل جاتے ہوئے، راستے میں ملے تھے،ہانپتے ہوئے محض مذاقاََ کہے تھے۔اُس کی بہن چھ درانتیاں اُٹھائے سب کے پیچھے گھسیٹ گھسیٹ چل رہی تھی،چھوٹے کو بڑی بہن پہ رحم آیا اوردل میں خیال پیدا ہوا اور یہ خیال کئی دنوں سے پیدا ہو رہاتھا کہ اپنے باپ کو کہے میری جگہ بی بی کو بٹھا لے،مگر کہہ نہیں پاتا تھا شاید اس لیے کہ سائیکل کے آگے کسی عورت کو آج تک بیٹھے ہوئے دیکھا نہیں تھا ۔ وہ سوچتا کہ اگر عورت کھیتوں میںگندم کاٹ سکتی ہے ،گدھے ریڑھی پر بیٹھ کر گدھے کو ہانک سکتی ہے ،درانتیاںاُٹھاسکتی ہے تو سائیکل کے آگے کیوںنہیںبیٹھ سکتی۔؟ پکی سڑک کنارے سائیکل رُک گئی،دونوں کھیتوں کی طرف بڑھے ،پھر اچانک اُس کا باپ پلٹا اور کھیسے سے دو روپے نکالے اور اُس کی طرف بڑھا دیے۔چھوٹے نے بے کراں مسرت سے رقم لے کر جیب میں ڈالی، واپس ہو لیا۔وہ تیز تیز اور ایک انجانی خوشی ،جو یقینی طور جیب میں موجود دو روپے کی خطیر رقم سے پھوٹی تھی،سے لب ریز سائیکل کے پیڈل مارنے لگا،جلد سے جلد کھیتوں کی طرف آتے باقی اہلِ خانہ تک پہنچنا چاہتا تھا،وہاں سے اُس نے بہن کو اُٹھا کر کھیتوں تک چھوڑنا تھا،یہ روز کا معمول تھا،مگر یہ روز کا معمول نہیں تھا ،کہ باپ پلٹا اور کھیسے سے دو روپے نکالے اور اُس کی طرف بڑھا دیے اور یہ بھی روز کا معاملہ نہیں تھا، ایک انجانی خوشی ،جو یقینی طور جیب میں موجود دو روپے کی خطیر رقم سے پھوٹی تھی،سے لب ریز سائیکل کے پیڈل مارنے لگا تھا۔جب وہ بہن کو چھوڑ کر پلٹے گا تب باقی بھی کھیتوں کے قریب پہنچ چکے ہوں گے ،سیدھا گھر جائے گا اور صبح کی ایک پائو دودھ سے بنی چائے جو کالی دھوں ہو چکی ہو گی،سے خشک روٹی عجلت میں معدے میں اُنڈیل کر بستہ اُٹھا سکول کو چل پڑے گا، سکول پہنچے گا اسمبلی ہو رہی ہو گی۔مگر اُس دن جس کا مَیں اُوپر ذکر آیا ہوں کہ وہ مئی یا شاید اپریل کے اختتامی دنوں اورسَن نواسی یا شاید نوے ( چھوٹا اُس وقت چھٹی جماعت میں تھا ) کی ایک صبح تھی ، سورج لوہاروں کے گھر سے نکلنے کی تیاری باندھ رہا تھا، ایک نئے احساس اور انجانی خوشی سے لب ریز تھا۔اُسے گھر پہنچنے ،ناشتہ کرنے اور پھر سکول پہنچنے کا احساس تک نہ ہوا،بس احساس تھا تو ایک ہی کہ جیب میں دو روپے تھے۔جب بار بار جیب میں پڑی رقم کو ٹٹولتا تو خوشی سے بھر جاتا۔وہ کھیتوں سے گھر اور گھر سے سکول تک مسلسل سوچ و بچار کے باوجود یہ فیصلہ ہی نہ کر سکاکہ رقم خرچ کہا ں کرے گا۔اُس کا اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کا کوئی تجربہ بھی نہیںتھا۔
وہ طے کر چکا تھا،یہاں 'طے 'کی جگہ لفظ' فیصلہ'آنا چاہیے تھا،یعنی وہ فیصلہ کر چکا تھا۔مگر 'طے 'سے' فیصلہ'تک کا سفر تو وہ زندگی میں کبھی نہیں کر سکا(مَیں جبھی لفظ طے استعمال کر رہا ہوں)۔وہ طے کر چکا تھا ،آدھی چھٹی سے پہلے کہ آدھی چھٹی میں ان پیسوں سے اپنی پسند کے نان ،آلو والی ٹکی اور دہی کی بنی چٹنی کے مزے اُڑائے گا۔یہ تب کی بات ہے جب وہ اس سکول میں داخل ہوا تھا،ایک نئے دوست نے نئی دوستی کا بھرم رکھتے ہوئے اُسے آدھی چھٹی وقت کھانے میں شامل کیا تھا۔اُسے نان ،آلووالی ٹکی اور دہی کی چٹنی نے اتنا مزا دیا کہ وہ روز اس کی خواہش کرتا اور جیسے ہی روزانہ آدھی چھٹی ہوتی ریڑھی کے اردگرد منڈلانے لگتا ،مگر اُس روز کے بعد کسی نے اُسے اپنے ساتھ کھانے میں شامل نہ کیا۔تب سے اُس وقت تک جب جیب میں دو روپے تھے ، سب سے بڑی خواہش اُس مزے سے ایک بار پھر ہمکنار ہونا تھا۔ آج بھر پور موقع تھا کہ وہ اُس لذ ت سے جس کے لیے وہ ترسا کرتا ،جی بھر کر ہمکنار ہو۔مگر وہ سمے آنے میں چند منٹ باقی تھے کہ گھر یاد آگیا ،مرجیونی ماں یاد آگئی ،باپ یاد آگیا ،بہنوئی ،بہن اور بھائی یاد آگئے ۔اُس کی ماں یہ جانتے ہوئے کہ ابھی دو گھنٹے باقی ہیں چھوٹے کو سکول سے چھٹی ہونے میں، راہ تک رہی ہو گی کہ تب آیا اب آیا۔جیسے ہی وہ سکول سے گھر پہنچے گا ، گھر میں موجود بہن کھانا تیار کر چکی ہو گی ،کافی ساری روٹیاں ،ہمسائے سے مانگا ہوا برف کا مونگر اور پتلی سوجی کے ٹفن کے دو ڈبے یا شوربے والے آلو،اور یا پھر مونگی کی پتلی دال۔وہ سا ئیکل باہر دروازے پر کھڑی کرے گا،بستہ اُتار کے رکھے گا جب تک کپڑے تبدیل کرے گا اُس کی بہن سائیکل پر کھانا باندھ چکی ہو گی۔وہ جلدی جلدی سائیکل بھگاتا ہوا گندم کاٹنے والوں کی طرف بڑھے گا۔۔۔آدھی چھٹی شروع ہونے اور پھر بند ہونے کی گھنٹی بجی، اُسے پتہ ہی نہ چلا ۔ اور اُسے پتہ ہی نہ چلاکہ لذت بھری بھوک مر چکی تھی۔ اوراُسے پتہ ہی نہ چلا پوری چھٹی کی گھنٹی بجی،پتہ تو اُس وقت چلا ،جب ٹارزن ،عمرو عیار اور ڈائجسٹوں والے رسالوں کی دکان پر تھا۔یہ دکان سکول اور گھر کے راستے میں پڑتی تھی ،نان والی ریڑھی کے ساتھ ساتھ اس دکان پرمنڈلانا معمول تھا،اور تب سے تھا جب پہلی بار سکول میں داخل ہونے کے لیے آیا تھا ،اور دکان سے ایک رسالہ خریدا چاہتا تھا،ٹارزن،جنگل کے ہر دل عزیز بادشاہ کی بہادری اور خدا ترسی کے واقعات پر مبنی۔اُسے پہلے رسالے جو ایک سکول دوست نے پڑھنے کے لیے دیا تھا، نے ٹارزن کے بہت قریب کر دیا تھا،دو وجوہات تھی ،ایک جنگل اور ایک ٹارزن کی خدا ترسی اوربہادری۔جنگل ،چھوٹے کے اندر بستا تھا،اُسے جن چند چیزوں سے والہانہ عشق تھا،ایک جنگل تھا۔
ایک جنگل چھوٹے کے گھر کے قریب آباد تھا۔ہنستا مسکراتاجنگل ،آباد اور شاد جنگل،باتیں کرتا ،قہقہے لگاتا جنگل،ٹاہلی ،کیکر ،فراش کا شاداب اور گھنا جنگل ،کوئوں ،لالیوں ،فاختوں ،طوطوں ،چڑیوں ،کال کلیچیوں کا گھر جنگل اور گیدڑوں کی پناہ گاہ جنگل۔یہ جنگل وہاں تھا ،جہاںچھوٹا پیدا ہوا تھا،اُس کی بستی اور جنگل ہمسائے تھے۔اور شہر جس کے سکول میں چھوٹا آ کر داخل ہوا تھا ،جس کے مرکزی گیٹ کے سامنے نان والی ریڑھی تھی،اُس بستی اور جنگل سے بہت دور تھا۔وہ جنگل اب ٹارزن کی کہانیوں میں تھا،وہ سوچتا کہ اب جب وہ کبھی اُس جنگل میں جائے گا تو ٹارزن سے ضرور ملے گا اور اُس سے گلہ کرے گا کہ جب جنگل میں پھرا کرتا تھا تب وہ کیوں جنگل میں نہیںرہتا تھا۔کتنی بار کیکر کے نوک دار خار وں نے اُس کے بوسیدہ جوتے میں گھس کر پائوں کو زخمی کیا ،کتنی بار پائوں کے تلووں سے خون رِسا،کتنی بار سرکنڈوں میں گھستے ہوے ڈرا،کتنی بار کوئوں نے مل کر حملہ کیا اور سر پہ ٹھونگے مارے۔۔۔پھر بھی جنگل اُس کے اندر بستا تھا،شاید اُ س کی روح جنگل میں کہیں کھو گئی تھی۔ یا شاید وہ سارے کا سارا جنگل میں کھوگیا تھا۔وہ جتنا وقت جنگل میں گذارتا،باپ کی محبت کا سا احساس رہتا۔اُس کے باپ کی محبت کے احساس کی طرح جنگل گھنا تھا۔اُس کا باپ جب شام کو مزدوری سے لوٹتا اور کچھ دیر سستانے کے بعد مغرب کی نماز کے لیے وضو کرتا ،تو وہ نلکا چلاتا،جب باپ وضو کر چکتا تو چھوٹے کی طرف محبت کے قیمتی احساس سے دیکھتا تو اُسے لگتا جیسے وہ جنگل میں موجود ہے۔جہاں ،ٹاہلی ہے،اُس کے بدن پر فاختہ کا آلنہ ہے اور فاختہ کے گیت ہیں ۔پھر سچ مچ فاختہ گا اُٹھتی ،ٹاہلی کی بلند و بالا چوٹی پر بیٹھی فاختہ۔۔۔پاکیزہ اور معصوم دل فاختہ۔۔۔