اردو زبان کے فروغ میں ''اخبارِ اُردو'' کی خدمات

شازیہ مجیدملک

اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں میں سے ''زبان'' بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ نُطقِ انسانی ہی وہ طاقت ہے جو زمینوں کو چیرنے اور آسمانوں کو مسخر کرنے والے فرد کے لیے ناگزیر ہے اور یہی نعمت جب ایک قوم اپنا لیتی ہے تو وہ قومی زبان بن جاتی ہے۔
مسلمانوں نے الگ قومیت کا مطالبہ کیا تو بننے والی مملکت کے لیے قائد اعظم نے واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ ''اردو اور صرف اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہو گی۔''
قیامِ پاکستان کے بعد ''اردو '' کے پاکستان کی قومی زبان ہونے کا باقاعدہ اعلان مارچ ۱۹۴۸ء میں ڈھاکہ میں بابائے قوم نے کیا۔ پاکستان کے پہلے آئین ۱۹۵۶ء کے آرٹیکل ۲۱۴، دوسرے آئین ۱۹۶۲ء کے آرٹیکل ۲۱۵ اور ۱۹۷۳ء کے تیسرے متفقہ آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ میں اردو مملکت کی سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا۔
آئین کی بجا آوری کی خاطر ۴۔اکتوبر ۱۹۷۹ء کو مقتدرہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مقتدرہ قومی زبان گزشتہ تینتیس سال سے مملکت کی سرکاری زبان کی تیاری میں مصروفِ کاررہا ہے۔ مقتدرہ محض فروغِ اردو کا ادارہ نہیں بلکہ اپنے فرائض کار کے حوالے سے ''نفاذِ اردو '' کا ایک خود مختار وفاقی ادارہ بھی رہا جو اپنے قیام سے لے کر اب تک قومی زبان اردو کی ترویج کے سلسلے میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں وقیع و وسیع خدمات سرانجام دے رہا ہے۔
''اخبار اردو'' کراچی سے مقتدرہ قومی زبان کے آرگن کے طور پر جولائی ۱۹۸۱ء میں نفاذِ اردو کی تحریک کو مائل بہ عام کرنے کے لیے جاری کیا گیا۔
اردو زبان کے فروغ میں ماہنامہ ''اخبار اردو'' کی خدمات میرے ایم فل کے تحقیقی مقالے کا موضوع ہے۔
اس مقالے میں ''ادارے '' کی خدمات اس کے ترجمان ''اخبار اردو'' کے ذریعے لینے کی ایک سعی کی گئی ہے۔
''اخبارِ اردو ''کی اشاعت کا مقصد اردو زبان کے فروغ اور ترویج کے لیے ادارہ فروغ قومی زبان (مقتدرہ) کی خدمات سے لوگوں کو آگاہ رکھنااور اردو زبان سے دل چسپی رکھنے والے معلمین ، محققین ، سکالروں اور ماہرینِ لسانیات کے مضامین اور علمی مباحث کی اشاعت کرنا ہے۔
اس میں چھ ابواب شامل ہیں جس کی ابواب بندی میں باب اول میںادارے کے قیام اور مقاصد کا جائزہ، باب دوم میں اخبار اردو کے اغراض و مقاصد اور خدمات ، باب سوم میں اردو زبان کے فروغ میںاخبارِ اردو کی خدمات مختلف حوالوں سے جس میں زبان کی تشکیل و ارتقا ، اصطلاحات سازی ، ترجمہ نویسی، لسانیات، صوتیات، دفتری ترکیبات اور رسم الخط کا جائزہ لیا گیا ہے۔ باب چہارم میں اردو تحقیق و تنقید کے فروغ میں اخبار اردو کا کردار بیان کیا گیا ہے۔ باب پنجم میں نفاذِ اردو کی مساعی کے ذیل میں اخبارِ اردو کی خدمات اور مطبوعاتِ کا جائزہ لیا گیا ہے۔آخری باب ششم میں معاصر رسائل و جرائد میں اخبارِ اردو کا منفرد مقام متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اخبار اردواس ادارے کے ترجمان کے طور پر اردو کے فروغ و نفاذ کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہو رہا ہے اورانہی خدمات کا جائزہ لینا میرا مقصد ہے تا کہ اردو زبان سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے میری یہ ادنیٰ سی کاوش ایک سرمایہ بن کر سامنے آئے۔
اس مقالے کی تکمیل میں کئی نشیب و فراز کا سامنا رہا۔ بہت سی رکاوٹوں کے باوجود میرے قدم اپنے مقصد کے حصول کے لیے کوشاں رہے اور اس مقالے کی تیاری اور مواد کی فراہمی کے لیے متعدد بار اسلام آباد جانا پڑااور وہاں کے مخلص عملہ کا تعاون میرے شاملِ حال رہا۔
ا س مقالے کی تکمیل میں اپنے نگران ڈاکٹر اشرف کمال کی رہنمائی کے ساتھ نا سپاسی ہو گی اگر میں ڈاکٹر ارشد اویسی کی شفقت کا تذکرہ نہ کروں جنہوں نے مجھے اس ادارے کا رستہ دکھا کر اخبار اردو سے متعارف کرایا اور قدم قدم پر میری رہنمائی فرمائی۔ ان کے ساتھ شعبہ اردو کے تمام اساتذہ کا تعاون، میرے کالج کے تمام رفقائے کار کا ساتھ، میرے بہت سے مخلص دوستوں کی محبت، بہت سے چاہنے والوں کا پیار ، تمام افرادِ خانہ کی محبت ، سب سے بڑھ کر والدین کی دعائیں ، خصوصی طور پر میرے ابو کی محبت، شفقت اور دلی لگائو اور اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت میرے شاملِ حال رہی جن کی بدولت یہ مقالہ پایۂ تکمیل کو پہنچا۔