منفرد ناول نگار رضیہ بٹ
ڈاکٹر ندیم مقبول

طویل عرصہ تک علیل رہنے کے بعد ۱۹ مئی ۱۹۲۴ء کو راولپنڈی میں پیدا ہونے والی مشہور و معروف ناول نگار رضیہ بٹ ۴کتوبر ۲۰۱۲ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔ ان کی عمر ۸۹ سال تھی۔ رضیہ بٹ کا تعلق ایک کشمیری خاندان سے تھا۔ رضیہ بٹ کو اپنے گھر میں جو علمی و ادبی ماحول میسر آیا اس نے ان کی تخلیقی و ادبی صلاحیتوں کو نکھارنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی ان کے اندر موجود تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار ہونے لگا تھا انھوں نے پرائمری جماعت سے ہی اپنی مضمون نویسی کی ایسی صلاحیتیں پیش کیں کہ ان کی استاد خود حیران ہو گئیں اور اس ننھی طالبہ نے اپنے جوشِ قلم سے اپنے اساتذہ کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ انھیں یہ کہنے پر بھی مجبور کر دیا کہ یہ صلاحیتیں کسی عام شخصیت کی چھپی ہوئی صلاحیتیں نہیں بلکہ آنے والے وقت میں یہ کسی عظیم انسان کی پیش گوئی کر رہی ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں ہی انھوں نے مسلم لیگ کی خواتین تنظیم میں شمولیت کی اور تحریک پاکستان کے لیے بھرپور جدوجہد کا آغاز کیا ان کی محنت اور کوششوں سے اس علاقے میں مسلمان خواتین میں جذبہ حریت کو پیدا کرنے میں نمایاں کامیابی ہوئی۔
رضیہ بٹ نے ۱۹۴۰ء کے عشرے میں لکھنا شروع کیا ۵۱ ناول اور ۳۵۰ کہانیاں لکھنے والی رضیہ بٹ کی تحریر میں ایک ایسا تاثر ملتا ہے جنھوں نے ہمیشہ اپنے ناول کے قاری کے دل و دماغ پر اثر چھوڑا ہے۔ انھوں نے اپنی اپنی کہانیوں میں زندگی کی سچی اور تلخ حقیقت کو ہمیشہ مثبت انداز سے پیش کیا ہے جس میں معاشرے کے اتار چڑھائو اور مایوسی و نا امیدی کا تاثر سر چڑھ کر بولتا ہے۔
رضیہ بٹ نہایت خوش اخلاق، ملنسار، سادگی پسند اور خاموش عقیدت کی مالک تھیں مگر اپنے مزاج کے برخلاف انھوں نے اپنی تحریروں میں اپنے قلم سے ایسی جان ڈالی کہ پڑھنے والا ان کی تحریروں کو پڑھ کر ایسااثر لیتا ہے کہ اسے اس بات پر یقین نہیں ہوتا کہ ایسے اوصاف رکھنے والی خاتون کی تحریروں کے اوصاف سے یکسر مختلف ہیں۔ رضیہ بٹ نے تحریک پاکستان کی تمام جدوجہد کو تمام جزئیات کے ساتھ اس خوبصورت انداز سے پیش کیا کہ واقعی تحریک پاکستان کی اصل روح بیدار ہوتی نظرآتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اس معاشرے میںجس قسم کے مسائل نے جنم لیا اور جو مسلسل ابھر کر سامنے آئے ان مسائل کو بھی رضیہ بٹ نے نہایت خوبصورتی سے اپنے ناولوں کے ذریعے پیش کر کے ایک کامیاب کوشش کی۔
رضیہ بٹ نہ صرف ایک ناول نگار تھیں اور انھوں نے اپنا نام ناول نگاری میں پیدا کیا اور ناول نگاری کو ایک نیا رنگ اور ڈھنگ عطا کیا بلکہ تحریک پاکستان کے حوالے سے بھی ان کا کردار ایک مثالی کردار رہا اور اس کا ذکر بھی انھوں نے اپنے ناولوں میں پیش کیا۔
زندگی کے چلتے پھرتے کرداروں اور الفاظ کی اثر انگیزی کے سبب رضیہ بٹ کے ناول بہت مشہور ہیں۔ اردو ادب میںناول نگاری کو ایک خاص رنگ اور مقام دینے والی رضیہ بٹ نے فکشن نگاری میں بھی ایک خاص مقام حاصل کیا۔ پا کستانی خواتین میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ناول نگار ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ گھریلو اور رومانوی ناولوں کی ملکہ کہلانے والی رضیہ بٹ نے اپنے ناولوں میں پاکستانی معاشرے میں عورت کے کردار کو بہت اہمیت دی اور اپنے ناولوں کا مرکزی کردار بنایا۔ انھوں نے خواتین کی زندگی کے مسائل پر جس طرح بحث کی ہے اس کی باز گشت ہر دور میں سنائی دیتی رہے گی۔
رضیہ بٹ کو اپنی ناول نگاری کی بنا پر نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیامیں پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم کے لیے بھی ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کے کئی ناولوں پر ٹیلی ویژن کے ڈرامے اور فلمیں بھی بنائی گئیں جن کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اورجن کو ٹیلی ویژن اور فلم کے ناظرین نے بے حد پسند کیا۔
رضیہ بٹ کے چند ناول
بانو: رضیہ بٹ کا یہ ناول بہت مشہور ہوا جو تحریک پاکستان کے پس منظر میں لکھا گیا ایک نہایت ہی پُر اثر اور خوبصورت ناول ہے ۔ اس ناول میں تحریک پاکستان کے تمام کردار و واقعات کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے جس سے تحریک پاکستان کی اصل روح بیدار ہوتی نظر آتی ہے۔
ناہید: یہ ناول ایک طوائف کا قصہ ہے جس طرح ہمارے معاشرے میں طوائف کو ایک ناپسندیدہ کردار سمجھا جاتا ہے لیکن بعض اوقات حالات انسان کو یہ خراب پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ناہید ایسی ہی حالات کی ستائی ہوئی ایک طوائف کا قصہ ہے۔
دکھ سکھ اپنے: رضیہ بٹ کے ناولوں میں زندگی کا کوئی نہ کوئی سبق ضرور ہوتا ہے۔ ان کے ناول حقیقت اور حقیقی زندگی کے بہت قریب ہوتے ہیں۔ اس ناول میں زندگی کی حقیقتوں کو بیان کیا گیا ہے۔
ریطہ: اکثر لوگ روزگار کی تلاش میں ملک سے باہر جاتے ہیں مگر ان کے جانے کے بعد کتنی آنکھیں ایسی ہوتی ہیں جو ہر لمحہ ان کے انتظار میں تکتی رہتی ہیں۔ ایسا ہی ایک ناول جو ملک سے باہر جانے والوں کے انتظارکی کیفیات بیان کرتا ہے۔