پچھواڑے کا نالہ
ابرار مجیب
جھر جھر،سرسر،پچھواڑے کا نالا بہہ رہا ہے۔۔۔
چارپائی کے نیچے رکھا ہوا بوٹ کا جوڑا میری نگاہوں کے سامنے ہے اور آنگن میں نیم کے عظیم الشان صدیوں پرانے درخت کی شاخ پر بیٹھا ہواکوئی کوّاچلانے لگاہے۔کائیں کائیں، بڑے بوڑھے کہتے ہیں جب کوّاتیرے آنگن میں بلا مقصد راگ الاپنے لگے توسمجھ لیجو کہ تیرے گھر ضرور کوئی عزیز آوے گا۔
پل بھر کے لیے میں نے بھی سوچاشاید جانے والا لوٹ کر آرہا ہے۔بہت دن نہیں گزرے ان کو گئے ہوئے،لیکن شاید ماں اپنی چھاتی پیٹ پیٹ کرآج تھک چکی ہے اور اب کمرے کے ننگے فرش پر آنکھیں بند کیے سورہی ہے یا شاید مستقبل کے تانے بانے میں الجھی ہوئی ہے۔بہن کی سسکیاں بھی معدوم ہو چکی ہیں۔وہ اپنی ویران آنکھیں چھت پر مرکوز کئے کسی گہری سوچ میں گم ہے۔آنسوؤں کی خشک لکیریں اس کے سلونے گالوں پر بہت نمایاں ہیں۔
اور اب ہر طرف مکمل سناٹا ہے۔
مکان کے پچھواڑے سے گزرنے والا یہ نالا اس سناٹے کو اور بھی بھیانک بنا رہا ہے۔جھرجھر،سرسر،بہتا ہوا چلا جا رہا ہے۔ کہاں؟ کہیں نہ کہیں تو اس کے وجود کا انت ہوتا ہی ہوگا! شاید یہ کسی ندی کی کوکھ میں جا سماتا ہو اور وہ ندی ۔۔۔وہ ندی بھی تو اپنا سفر طے کرکے کہیں گم ہو جاتی ہوگی ! شاید کسی سمندر کی پنہائیوں میں دفن ہو جاتی ہو۔ اور یہ سمندر ، یہ سمندرکہیں نہیں جاتا، نہ یہ کہیں سے شروع ہوتا ہے اور نہ ہی کہیں پر ختم ہوتا ہے۔ مطلب سمندر سب کچھ ہے۔۔۔اور یہ کہ سمندر تو کچھ بھی نہیں۔
اف یہ سمندر ، ندی اور نالے کا قصہ میں کیوں لے بیٹھا ہوں؟
جواب صرف نیم کے درخت پر بیٹھا ہو ا کوّا دیتا ہے۔
اور میری نگاہوں تلے بوٹ چمک اٹھتے ہیں۔ اب مجھے یہ احساس ہو چلا ہے کہ سمندر سے پلٹ کر ندی کبھی اپنے پہلے قدم تک نہیں آسکتی اور ندی سے پلٹ کر نالا میرے مکان کے پچھواڑے تک نہیں پہنچ سکتا۔
سمندر۔۔۔سمندر۔۔۔اف یہ سمندر !
میں چپکے سے ،بڑی آہستگی سے اٹھا ہوں اور یوں سنبھل سنبھل کر باہر آیا ہوں کہ کوئی آہٹ،کوئی آواز نہ ابھرے۔ماں اسی طرح ننگے فرش پر آنکھیں بند کئے لیٹی رہے،بہن کی آنکھیں یوں چھت پر مرکوز رہیں۔
آنگن میں نیم کے درخت کے تنے سے اسی دن ایک بلب لٹکا دیا گیا تھاکہ رات کی تاریکی آنگن پر محیط نہ ہو سکے،کم از کم چالیس دنوں تک۔ سوچتا ہوں تو بڑا عجیب سا لگتا ہے، ایک بھونڈے مذاق کی طرح،کیا کوئی روشنی اس آنگن کے اندھیرے کو مٹاسکتی ہے؟
نیم کے درخت سے ذرا اس طرف اندھیرا ہے،گھنا اندھیرا۔ پیڑ پودے،خاردارباڑیں،مکانات ،محلے کی مسجد اور اس سے ذرا ہٹ کر بچوں کا پرائمری اسکول ،سب کچھ تیرگی کے سائے میں سانس لے رہا ہے۔آج یہ اندھیرا اس قدر گھنا کیوں ہے؟ سوال کرتا ہوں لیکن کوئی سرگوشی کوئی آواز نہیں ابھرتی۔ گہری خاموشی ،بھیانک سنّاٹا۔
میں پلٹتا ہوں، سامنے دیوار پر ایک فریم آویزاں ہے۔بلب کی تیز روشنی فریم پر پڑ رہی ہے۔تصویر واضح،بہت صاف نظر آرہی ہے۔ تصویریں جہاں رکھ دی جائیں وہیں دھری رہتی ہیں، کہیں نہیں جاتیں۔ اس فریم کو یہاں کب لگایا گیا تھا، لیکن یہ آج تک جوں کا توں یہیں پر موجود ہے۔نہ ادھر نہ ادھر۔ اور وہ چل دیے۔
چل دیے اپنا کوئی پتہ دیے بغیر !
لیکن ابّا آپ تو ویسے ہی ہیں۔ یہ میری آنکھوں کے سامنے، خوبصورت،تندرست،ویسے ہی کشادہ پیشانی چمک رہی ہے۔ تھوڑے اُ ڑے ہوئے بالوں والا آپ کا سراسی طرح آپ کی شخصیت کو با وقار بنا رہا ہے۔آپ کے ہونٹوں کی مسکراہٹ بھی ویسی ہی ہے۔کہیں سے بھی تو نہیں لگ رہا ہے کہ آپ چلے گئے۔
دفعتاٌ میری آنکھیں بھرآئیں۔بہت بھاری ہو گئیں ہیں،بہت بوجھل۔ وہ روشن اورچمکتی ہوئی آنکھیں،ہمدرد اور مہربان آنکھیں،مجھے دیکھ رہی ہیں، ایک امید ، ایک آس ، ایک تمنا لئے۔ جیسے کہہ رہی ہیں، بڑی محنت سے ،بڑی لگن سے تنکے چن چن کرمیں نے آشیانہ بنایا ہے۔ اسے بکھرنے نہ دینا اور مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میرے شانے بوجھل ہوگئے ہیں۔
اف یہ رات !
یہ سیاہ رات اب ختم نہیں ہوگی؟ سنّاٹا،سنّاٹے کی چیخ ! نیم کی شاخ پر بیٹھا ہوا کوّا پتہ نہیں اب کیوں خاموش ہوچکا ہے۔
یوں لگ رہا ہے جیسے زمین و آسمان، یہ کائنات، سوچ ،کسی گہری سوچ اور صدمے کی ردا اوڑھے ساکت ہے، گم سم ہے کسی تالاب کے گدلے پانی کی طرح۔وقت تھم گیا ہے۔ میں اپنے پاوٗں گھسیٹتا ہوا پھر کمرے میں آگیا ہوں۔ماں نے کراہ کر کروٹ بدلی۔بہن ماں کی کراہ سن کر چونک پڑی ہے اور اب اس کی آنکھیں مجھ پر آٹکی ہیں،بے بس ،ویران اور اداس آنکھیں۔ یہ آنکھیں کیا ڈھونڈھ رہی ہیں مجھ میں۔کون سا عکس دیکھنا چاہتی ہیں۔کیا آرزوئیں، کون سی حسرتیں،کیسے ارمان ،کیاکیا سپنے چھپے ہیں ان آنکھوں میں۔ اف میرے شانے اس قدربوجھل کیوں ہوئے جا رہے ہیں۔وہ اب بھی مجھے تکے جا رہی ہے۔ابّاکی صورت تو مجھ سے نہیں ملتی، وہ اکثر اماں سے مذاقا کہا کرتے تھے، یہ تو میرا بیٹا ہے ہی نہیں۔
اور ابّا اب ، اب تو سچ مچ ہم آپ کے بیٹے نہیں رہے۔ یہ نازیہ بھی آپ کی بیٹی نہیں رہی ،جس کی شکل آپ سے بہت ملتی ہے۔یہ پگلی شاید مجھ میں آپ کو تلاش کررہی ہے،بدھو کہیں کی۔ نہیں جانتی رشتے ناتوں کی عمارتوں کی بنیادیں ریتیلی زمینوں میں ڈالی جاتی ہیں اور اکثر طوفان آتے ہی رہتے ہیں۔وہ نہیں جانتی ہمارے پچھواڑے کا نالا کہاں جا کر ختم ہوتا ہے۔وہ سمندر کے بارے میں کچھ نہیں سوچ سکتی۔ آپ ٹھیک ہی کہا کرتے تھے وہ بالکل بدّھو ہے اور بہت معصوم بھی۔
ہوا اچانک غصّے سے بپھر اٹھی ہے۔چنگھاڑتی ہوئی،پاگلوں کی طرح ادھر ادھر دوڑنے لگی ہے۔تنے سے لگا ہو بلب تیز تیز جھولنے لگا ہے اور تھمی ہوئی روشنی پنڈولم کی طرح رقص کرنے لگی ہے۔نیم کی شاخوں پر محّوخواب پرندے اچانک بوکھلا اٹھے ہیں اور ان کی دہشت زدہ چیخوں سے ماحول لرز اٹھا ہے۔
کچھ یہی ماحول چندروز پہلے اس گھر کا بھی تھا۔بہت سارے لوگ آئے تھے۔ہاں وہ سب بھی جو ابّا کی زندگی میں کبھی نہیں آئے۔وہ رو نہیں رہے تھے۔ وہ چیخ نہیں رہے تھے۔رو تو میں رہا تھا۔آنسووں کی دھار تو نازیہ کے گالوں پر رواں تھی۔چیخ چیخ کر تو امّاں کا حلق زخمی ہورہا تھا۔ہاں ہم پرندے تھے۔بے بس پرندے، اور وہ لوگ ،وہ خاموش تھے۔اداس نہیں۔ان کی صورتیں ہر طرح کے جذبوں سے عاری تھیں۔ تو پھر،تو پھر وہ کیوں آئے تھے۔ کیوں؟ کیوں؟؟ کیوں؟؟؟
وہ آئے تھے ابّا کو منوں مٹّی کے نیچے دبانے کے لئے! آپ کی زندگی میں انہیں آپ سے کتنی نفرت تھی ابّا۔
میں نازیہ کے سر پر ہاتھ پھیر کر آنگن میں چلا آیا ہوں۔تاریک آکاش سے کوئی ستارہ ٹوٹا اور بہت دور تک ایک روشن لکیر کھینچتا ہوا معدوم ہو گیا۔
مجھے یاد ہے ان میں سے کسی نے کہا تھا ۔ حمید کی موت سے بہت لوگ خوش ہیں۔
آدمی آدمی کی موت سے خوش کیوں ہوتا ہے؟
بس پاگلوں کی طرح ناچتی ہوا !
باوٗلی ہوا
اور ہوا کی کرب ناک چنگھاڑ۔
میری نگاہیں برآمدے میں چارپائی کے نیچے بھاری بھرکم بوٹوں پر جا ٹکی ہیں۔مجھے معلوم ہے ان کے تلے لوہے کے ہیں۔میں لپک کر کمرے میں چلا آیا ہوں، ایک کونے میں ٹنگے ہوئے ان کپڑوں سے لپٹ گیا ہوں،جن پر تیل، موبیل، اور نہ جانے کن کن چیزوں کے دھّبے لگے ہوئے ہیں۔ ان کپڑوں سے بڑی عجیب لیکن بڑی خوشگوار بو پھوٹ رہی ہے، یہ بوٹ ،یہ کپڑے ابّا کا مقدر تھے۔
جب میں چھوٹا ساتھاتو اسکول سے آکر بستہ ایک طرف پھینکتا اور دوڑتا ہوا سڑک پر نکل جاتااور ایک کنارے بنے ہوئے ریلنگ پر بیٹھ کرابّاکے کارخانے سے لوٹنے کاانتظار کیا کرتا۔بہت دور ہی سے دیکھ کر میں انہیں پہچان لیتاکہ وہ اپنی مخصوص رفتار سے سائیکل چلاتے ہوئے چلے آرہے ہیں۔میرے قریب پہنچ کر وہ سائیکل سے اتر پڑتے اور مجھے اپنی گود میں اٹھا کر سائیکل پر بٹھا لیتے، اور ان کے کپڑوں سے پھوٹتی ہوئی یہ عجیب اور خوشگوار سی بو مجھے کافی دیر تک مخمور کئے رہتی۔
وہ لوگ جو ابّا کو منوں مٹّی کے نیچے دبانے کے لئے آئے تھے وہ سب ،سارے کے سارے ابّا سے نفرت کرتے تھے۔ یہ سب ابّا کو ایک کم ترین آدمی سمجھتے تھے۔ ہمارے گھر کو ایک اچھوت کا گھر سمجھتے تھے کہ ابّا بہت تعلیم یافتہ نہ تھے اور ایم ،اے تھے۔جو ایم ،اے نہ تھے وہ کوئلوں کی دلالی کرتے اور اینٹوں بھٹّے لگاتے تھے یا پھر صحرا کا سفر کرکے گنگا کے میدانوں پر اپنے نام کی مہر ثبت کر چکے تھے۔ اور جن کے پاس یہ سب کچھ نہ تھا ، ان کے پاس خاکسارانہ الفاظ تھے۔ جنہیں وہ کسی ایم،اے، کسی کوئلے کے دلال، اور اینٹ کا بھٹّہ لگانے والے یا کسی صحرا کا سفر کرنے والے پر شب وروز نچھاور کرتے رہتے، اور ابّا کے پاس خاکسارانہ الفاظ بھی تو نہیں تھے۔
ہاں ابّا وہ سب آپ سے نفرت کرتے تھے کہ آپ کا لباس تیل کے دھبّوں سے پر ہوتا تھا اور وہ بہت صاف ، بہت اجلے کپڑے پہینتے تھے۔ ابّا وہ آپ کو حقیر جانتے تھے کہ آپ کی سائیکل بہت پرانی،بہت زنگ آلود ہوچکی تھی اور وہ نمائشی آوازوں والی موٹر سائیکلوں پر رقص کیا کرتے تھے۔ وہ آپ سے ملنا کثر شان سمجھتے تھے کہ آپ ایک معمولی مزدور، بہت معمولی انسان تھے۔
لیکن یہ سارے لوگ آئے تھے۔ آپ کاوہ بھائی،بے حس ،بے ر حم اور بہت ظالم بھائی بھی آیا تھا۔وہی جو ساری زندگی آپ کو اپنا بھائی کہنے سے کترایا کرتا تھا۔ بہت پہلے آپ نے کہا تھا، اس شخص کو میری لاش کا منہ تک نہ دکھانا اور نہ ہی جنازہ کو کاندھا لگانے دینا۔ یہ بات کہتے ہوئے آپ کو کتنا یقین تھا کہ آپ اس سے پہلے چلے جائیں گے۔حالاں کہ وہ آپ سے بڑا تھا۔
اس شخص کو دیکھتے ہی امّاں بپھر اٹھی تھیں۔ وہ بہت کچھ بہت ساری باتیں کہنا چاہتی تھیں۔مگر میں نے روک دیا۔ نازیہ بھی آپے سے باہر ہورہی تھی۔وہ آپ کی کہی ہوئی بات اس شخص سے کہنا چاہتی تھی۔آپ کی لاش آنگن میں چارپائی پررکھی ہوئی تھی اور میں نہیں چاہتا تھاکہ اس سوگوار ماحول میں ایک شیطان کی وجہہ سے کوئی ہنگامہ ہوجائے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے صبر کا پیمان لبریز ہوجائے اور آپ کے علاوہ چند اور لاشیں یہاں نظر آئیں۔ اس لئے، اس لئے میں نے نازیہ کے منہ کو دبا دیا تھا۔
ایک گہری ،بہت گہری آہ میرے لبوں سے نکل گئی اور میں دھیرے سے ابّا کے کپڑوں سے الگ ہو گیا ہوں۔ باہر تیز چنگھاڑتی ہوئی ہوا پر سکون ہو چکی ہے اور پنڈولم کی طرح ہلتی ہوئی روشنی اب جیسے منجمد ہے۔بے چین پرندے اب خاموش ہوچکے ہیں۔پھر وہی پر اسرار بھیانک سنّاٹا ما حول پر حکمراں ہو چکا ہے۔ امّاں اور نازیہ اب گہری گہری سانسیں لے رہی ہیں۔
اچانک مجھے احساس ہوتا ہے کہ ہم کتنے بے بس ہیں۔ کتنے بے اختیار ہیں کہ ہم اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم چیختے ہیں، چلّاتے ہیں۔ ہماری آوازوں کی بازگشت ہمارے کانوں تک ہی محدود رہتی ہے۔ہمارے احتجاج کا اس کائنات ،اس نظام پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ہم جتنا چیخیں، ہم جس قدر چلّائیں مگر ہوگا وہی اور وہی ہوا بھی !
وہ دن بے حد سفید تھا۔ کفن کی طرح اجلا سا۔ آسمان کی نیلاہٹ میں انوکھا اسرار، بہت انوکھی چمک تھی۔ ہوا بوجھل ، تھمی تھمی سی سر گوشیاں کرتی پھر رہی تھی۔ ادھر ادھر دیکھ ایک خوف ، اداسی کی ایک لہر اندر اندر رینگ جاتی اور پھر وہی ہوا کہ ابّا آنکھیں موند کر چل دئے۔ ڈاکٹر نے کہا دماغ کی نس پھٹ گئی ہے۔
یہ نس، دماغ کی یہ نس کیوں پھٹ گئی؟ سوچتا ہوں اور پھر وہ سارے چہرے،وہ سارے جسم، وہ ساری ٹانگیں، وہ سارے سر میری نگاہوں کے دائرے میں ناچنے لگتے ہیں اور پھر یہ تمام حصّے ایک دوسرے میں پیوست ہوکر لوگوں کی ایک بھیڑ بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ، یہ جانے پہچانے لوگ بڑے مخصوص طریقے سے گھیرا بندی کرکے،نظر نہ آنے والی اذیتیں دے کر اپنے غیر مرئی ہاتھوں سے دباوء ڈال ڈال کر کسی بہت ہی عام آدمی کے دماغ کی نس کو پھاڑ ڈالتے ہیں اور پھر آتے ہیں اسے منوں مٹّی میں دبانے کے لئے کہ یہ رسم دنیا ہے، کہ یہ ان کے اعلی و بر تر ہونے کا ثبوت ہے۔
یہ رات جو ختم ہونے میں نہیں آتی ، اس رات کا بھی انت ہے۔ یہ ختم ہوکر رہے گی۔ پھر دن کا سفر شروع ہوگا۔ اور یہ دن بھی مر جائے گا۔ چارپائی کے نیچے رکھا ہوا بوٹ پھر میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ کا ایسے ہی بالکل نئے بوٹ مجھے اپنے پیروں میں سجا کر چمنیوں کے شہر کو جانا ہے اور پھر۔۔۔۔۔ !!!!
باہر پچھواڑے کا نالا ویسے ہی جھر جھر، سر سر بہتا چلا جا رہا ہے۔ چلا جا رہا ہے۔چلا جا رہا ہے۔ نیم کی شاخ پر بیٹھے ہوئے کوّے کی کائیں کائیں بند ہوچکی ہے، لیکن اب اس کی آواز کا بوجھ میرے شانوں پر رکھا ہوا ہے۔ جانے والا لوٹ کر نہیں آتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں جانے والا پھر آگیا ہے۔
جھر جھر ،سر سر نالا اپنی رفتارسے بہتا ہی جا رہا ہے۔