ھائیڈل برگ یونیورسٹی ، جرمنی میں چند ماہ
ڈاکٹر ناصر عباس نیئر
اردوکی پوسٹ ڈاکٹرل فیلوشپ کے لیے جرمنی کا انتخاب بعض اتفاقات کا نتیجہ تھا۔جرمنی پہنچنے کے بعد مجھ پر کھلا کہ کچھ اتفاقات ہماری زندگی میں بعض اہم چیزوں کے اضافے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ فیلوشپ کی ابتدائی تیاری کے دنوں میں مجھے یہ سوال پریشان کرتا رہا کہ اردو کی پوسٹ ڈاکٹرل فیلو شپ کے لیے کسی یورپی ملک کا انتخاب آخر کیوں؟ظاہر ہے یہ سوال پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے ارباب کے اس اصرار کے نتیجے میں ہی پیدا ہوتا تھاکہ کسی ’’ صنعتی و سائنسی طور پر ترقی یافتہ‘‘ ملک میں جاکر پوسٹ ڈاکٹرل تحقیق مکمل کرنی چاہیے۔چنانچہ میں نے ڈاکٹر خالد سنجرانی اور ڈاکٹر قاضی عابد (جو مجھ سے پہلے ہائیڈل برگ ہی میں اپنی پوسٹ ڈاکٹرل تحقیق مکمل کر کے واپس آئے تھے۔بر سبیلِ تذ کرہ ہم تینوں نے اپنے پی ایچ ۔ڈی کے مقالات ڈاکٹر انوار احمد کی نگرانی میں لکھے تھے ،ان سے اس سوال کے ہر پہلو پر تبادلہء خیال کیا تھا اور انھوں نے مجھے جرمنی کی اس قدیم ترین یونیورسٹی میں موجود اردو سے متعلق نادر کتابوں کی موجودگی بارے آگاہ کیا تھا،نیز ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹرہیلڈ نے مجھے مطلع کیا تھا کہ وہاں نول کشور ذخیرے میں نہایت اہم کتابیں موجود ہیں۔ ان معلومات کے بعد ہی میں نے اپنی تحقیق کے لیے ’’ ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں موجود نو آبادیاتی عہد کے اردو نصابات کا مابعد نو آبادیاتی مطالعہ‘‘ کا عنوان منتخب کیا۔ ڈاکٹر کرسٹینا اور ان کے شعبے(جنوبی ایشیا کی جدید زبانیں) کے سربراہ ڈاکٹر ہنس ہارڈر نے اس موضوع کو پسند کیا اور مجھے اپنے شعبے میں پوسٹ ڈاکٹرل تحقیق کی منظوری بھیج دی۔اس فیلو شپ کے لیے مجھے جرمن تعلیمی تبادلے کی تنظیم (Deutscher Akademischer Austausch Dienst)نے چھ ماہ (مئی تا اکتوبر۲۰۱۱ء)کے لیے وظیفہ دیا۔
۶۲۵سال قبل قائم ہونے والی ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ ۱۹۶۲ء میں قائم ہوا۔ اس وقت دوسری جنگِ عظیم اپنے اثرات و نتائج نہایت واضح انداز میں مغرب و ایشیاپر مرتب کر چکی تھی، ایشیا و افریقہ کے اکثر ممالک استعمار سے آزادی حاصل کر چکے تھے،دنیا میں دو عالمی طاقتوں کی اجارہ داری قائم ہوچکی تھی، خود جرمنی دوحصوں ہی میں نہیں،بعدالقطبین رکھنے والی عالمی طاقتوں کے سیاسی و معاشی نظاموں میں بٹ چکا تھالہٰذااس تناظر میں جنوبی ایشیائی مطالعاتی مرکز کے قیام کا مقصد ان مقاصد سے بہر حال مختلف تھا،جو برطانیہ کے۱۹۱۶ء میں قائم ہونے والے مشرقی و افریقی مطالعاتی سکول (The School of Oriental and African Studies) کے پیشِ نظر تھے۔یوں بھی جرمنی کے ایشیائی مطالعات کی روایت کی تشکیل میں انیسویں صدی کی مشرقی تحریک(جس کے ممتاز نمائندوں میں گوئٹے،شلر،، نووالِس، ٹائیک، بری نیٹنو شامل ہیں)کا خاصا حصہ شامل ہے اور یہ روایت برطانوی و فرانسیسی استشراق سے جس نکتے پر اختلاف رکھتی ہے وہ معروف معنوں میں علم کو سیاسی و ثقافتی اجارے میں تبدیل کرنا ہے۔ہر چندجرمنی کے فلسفے کی روایت میں مثالیت،مادیت، اشتراکیت ،وجودیت کے متنوع عناصر موجود ہیں مگر برطانوی فلسفی بینتھم کی افادیت پسندی موجود نہیں اور اس امر نے جرمن استشراق کی جہت پر بھی اثر ڈالا ہے۔ایڈورڈ سعید بھی بڑی حد تک برطانوی و فرانسیسی اور جرمن استشراق میں فرق کرتے ہیں۔اس تناظر میں میرے لیے ہائیڈل برگ میں نو آبادیاتی عہد کے اردو نصابات کا مابعد نو آبادیاتی مطالعہ گہری معنویت کا حامل تھا۔
ہائیڈ ل برگ یونیورسٹی کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ میں جنوبی ایشیا کی زبانوں، ادبیات،تاریخ، معیشت،بشریات سے متعلق سات پروفیسرشپس یعنی سات شعبے ہیں۔حکومتِ پاکستان کی قائم کردہ اقبال چیئر بھی اسی انسٹی ٹیوٹ میں قائم ہے(جس پر ان دنوں تاریخ کے پروفیسر، ڈاکٹر وقار علی شاہ کام کر رہے ہیں۔)اس کے علاوہ دو اور پروفیسر سطح کی فیلوشپ ہیں:بیڈن ورٹمبرگ (یہ اس صوبے کے نام پر ہے جس میں ہائیڈل برگ ہے) اور ہائنرش سمر فیلوشپ۔یہ دونوں فیلو شپ بھارتی پروفیسروں کے لیے ہیں۔پہلی فیلو شپ جرمن حکومت نے جبکہ دوسری بھارتی حکومت نے قائم کی ہے۔اس سے ہمارے اداروں کی کارکردگی کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ میری فیلوشپ ’جنوبی ایشیا کی جدید زبانیں‘کے نام سے قائم شعبے میں تھی۔اس کا پرانا نام ماڈرن انڈالوجی ہے اور یہ خاصا مغالطہ آمیز نام تھا،چنانچہ اسے تبدیل کردیا گیا۔اس شعبے میں اردو، ہندی،بنگالی اورتامل زبانیں اور ان کا ادب ابتدائی سطح کے علاوہ بی ۔اے اور ایم۔اے کی سطح پربھی پڑھایا جاتا ہے۔شعبے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ہنس ہارڈر ہیں۔ان کی تخصیص بنگالی زبان و ادبیات ہے،تاہم انھیں اپنی مادری زبان جرمن کے علاوہ انگریزی، ہندی، ہسپانوی، فرانسیسی، اطالوی پر دسترس حاصل ہے اور وہ اردو اور تامل بھی خوب سمجھ لیتے اور بول سکتے ہیں۔اور ان سب باتوں پر مستزاد ان کا وہ نقطہ ء نظر ہے جو وہ ایشیا،مشرق اور مغرب کے ضمن میں رکھتے ہیں۔وہ مشرق و ایشیا پر مغرب و یورپ کی ثقافتی برتری کے بیانیے کو لغو قرار دیتے ہیں۔ وہ کسی ثقافت کے مختلف ہونے کو اس کے کم تر یا برتر ہونے کی بنیاد تسلیم نہیں کرتے۔برلن یونیورسٹی سے قرۃالعین حیدر پر ڈاکٹریٹ کرنے والی ڈاکٹر کرسٹینا اسی شعبے میں سینئر استاد کے طور پر کام کر رہی ہیں۔انھوں نے اردو فکشن کے مختلف پہلوؤ ں پر جرمن اور انگریزی میں متعدد مقالات لکھے ہیں۔یورپ، امریکا اور ایشیا میں اردو کی ایک ممتاز سکالر کے طور پروہ اپنی شناخت رکھتی ہیں۔پاکستانی نژادمسز منان طاہر(جنھوں نے ’یہ جہاد‘ کے نام سے ایک اردو ناول بھی لکھا ہے)بھی اسی شعبے میں اردو کی جز وقتی استاد ہیں۔
ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری میں جنوبی ایشیا سے متعلق پونے تین لاکھ کے قریب کتب اور رسائل موجود ہیں۔ان سب کو جدید سائنسی طریق سے اس طور ترتیب دیا گیا ہے کہ آپ کو مطلوبہ کتاب یا رسالہ چند منٹ میں مل جاتا ہے۔طبقاتی نظام کی قباحتوں سے ہر سطح پر دوچار رہنے والے ہم جیسے افراد کے لیے یہ امر باعثِ حیرت ہوتا ہے کہ یورپ میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگ اپنے بیشتر کام خود کرتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ لائبریری کی انچارج فراؤ نکلولس مرکل کو لائبریری کے کام خود کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ میری مطلوبہ کتب چونکہ نایاب تھیں اور زیادہ اچھی حالت میں نہیں تھیں، ا س لیے ان کے کیٹلاگ تیار نہیں کیے گئے تھے اور وہ سب کتابیں لائبریری کے تہ خانے میں ایک جگہ ڈبوں میں بند کر کے محفوظ کی گئی ہیں۔یہ تمام ڈبے وہ خود باری باری فراؤ مرکل ریڈنگ روم میں پہنچا دیا کرتی تھیں ۔مجھے یہاں سے ایسی۲۹ نصابی کتب دستیاب ہوئیں جو ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک پاک وہند کے سرکاری مدارس میں پڑھائی جاتی رہیں۔نو آبادیاتی عہد کی یہ نہایت اہم کتب پاکستان کی لائبریریوں میں بھی موجود نہیں ہیں۔میں نے ان کی وضاحتی فہرستیں تیار کیں اور ان کا مابعد نو آبادیاتی تناظر میں تجزیاتی مطالعہ مکمل کیا۔نو آبادیاتی عہد کے اردو ادب اورثقافت کے مطالعے کے لیے وہ مابعدنو آبادیاتی تھیوری ہی موزوں ہے۔مجھے یہ احساس فرانز فینن،ایڈورڈ سعید،برنارڈ ایس کوہن،ہومی بھابھا،گیاتری چکر ورتی، اعجاز احمدکی تحریروں سے ہواتھا اور میں اپنی پوسٹ ڈاکٹرل تحقیق کے آغاز سے قبل ہی اپنی کتاب ’’مابعد نو آبادیات : اردو کے تناظر ‘‘مکمل کر چکا تھا۔ یہ کتاب بہت جلد ایک ممتاز اشاعتی ادارے شائع کر رہا ہے۔جب میں نے اردو کی نصابی کتب کا مابعد نو آبادیاتی تناظر میں مطالعہ کیا تو پہلی مرتبہ یہ احساس شدت سے ہوا کہ کسی سماج میں نئے تصورکائنات کو راسخ کرنے میں نصابی کتب کا کس قدر اہم کردار ہوتا ہے۔نو خیز ذہنوں کے لیے سچائی کی اہمیت جس قدر ہوتی ہے، نصابی کتابوں میں سچ اور جھوٹ کا امتیازاپنے اثر وعمل کے لحاظ سے اسی قدر’غیر اہم‘ ہو جاتا ہے۔ ان کتابوں میں ہر بات ’سچ‘ کا حکم رکھتی اور نئی ذہنی تشکیل میں مؤثر ہوتی ہے،خواہ وہ کس قدر باطل اور بے بنیاد ہو۔’تعلیمی فلسفے‘ کا یہی وہ اہم نکتے تھا جس نے نصابی کتب کے ذریعے نو آبادیاتی آئیڈیالوجی کے نفوذ و فروغ کو ممکن بنایا۔
ہائیڈل برگ کے قیام کے دوران میں مجھے کئی اہم مباحثوں اورسیمیناروں میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر ہنس ہارڈر، ڈاکٹر کرسٹینا،ڈاکٹر ٹامس،گوتم لیوسے اکثر ادبی،تاریخی اور ثقافتی موضوعات پر بحثیں ہوئیں۔شعبہ ء تاریخ کے ڈاکٹر عنایت اللہ بلوچ سے پاکستان، اردو ، پاک و ہند اور اسلامی تاریخ کے حوالے سے طویل نشستیں ہوئیں۔ انھی دنوں جارجیا یونیورسٹی، امریکا کے پروفیسر میکس رینہارٹ گوئٹے اور اقبال پر تحقیق کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے۔ ان سے بھی یاد گار نشستیں ہوئیں۔ وہاں پربی۔اے اور ایم ۔اے کے طالب علموں کو گاہے گاہے پڑھانے کا موقع بھی ملا۔ڈاکٹر کرسٹینا ہر سال اردو کے ایک ’انٹینسوکورس‘ کااہتمام کرتی ہیں۔جو تین ہفتوں تک جاری رہتا ہے اور جس میں یورپ بھر سے طالب علم شریک ہوتے ہیں۔ مجھے اس کورس کے ایڈوانسڈ گروپ کے طالب علموں (جن میں سے اکثر اردو میں پی ایچ۔ڈی کر رہے تھے) کو پڑھانے اور ان سے مغرب،ایشیا،اسلام، اردو،بنیادپرستی،طالبانائزیشن ،امریکی جنگوں اور پاکستان و اسلام سے متعلق یورپی بیانیوں پر تفصیلی تبادلہء خیال کا موقع ملا۔جس کے دوران میں مجھے بار بار احساس ہوا کہ ہم مکالمے کے ذریعے اس فاصلے کو اگر پوری طرح مٹا نہیں سکتے تو مسلسل کم ضرور کر سکتے ہیں جومغرب اور مشرق میں موجودہے ۔
ہائیڈل برگ میں قیام کے دوران مجھے ایک ایسے نادرتجربے سے گزرنے کاموقع بھی ملاجس کی ندرت سے بھی میں پہلی بار وہیں آگا ہ ہوا۔ میں اکثر شام کو دریاے نیکر کے کنارے لمبی سیر کیا کرتا تھا۔شام کے وقت نیکر کے کنار ے سبز مخملی گھاس کے تختوں پر حسن کی بہارہوتی تھی اور دریا کے پرسکون بہاؤ میں کشتیوں سے ہلچل رہتی تھی مگر یہاں سب اپنے آپ مگن ہوتے تھے،چنانچہ ایسی سیر کے دوران میں مجھے خود سے مکالمہ کرنے کا نادر تجربہ ہوا۔ یہ ایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھاجس نے مجھے وہ آگہی اور پیمانہ دیا کہ میں اپنے رشتوں اورمصروفیتوں میں سے اہم اور غیر اہم میں فرق کرسکوں،کچھ کو ترک اور بعض کو اختیار کیے رکھوں۔