بی بی خدیجہ
الیکشن

          چھوٹا چودھری تقریباً برستے ہی گائوں والوں کو اکٹھا کرتا۔ آس پاس کے دیہاتوں کے لوگ بھی آتے۔ چودھری کے جاننے والے اور یار دوست بھی آ جاتے اور چودھری ایک لمبی چوڑی تقریر کرنا جو کہ اور تو اور دین محمد کی کچھ سمجھ میں نہ آتی لیکن جب چودھری کہتا کہ اگر وہ الیکشن جیت گیا تو گائوں کے سارے مسئلے حل کر دے گا اور گائوں میں خوشحالی آئے گی۔ پانی اور بجلی کے مسئلے حل کرے گا اور کچی گلیاں اور سڑکیں پکی کروائے گا تو دین محمد بہت خوش ہوتا۔ چودھری کی بہت باتوں کو وہ سمجھ نہ پاتا تھا۔ مگر اتنا ضرور جان گیا تھا کہ چودھری کو ووٹ دینے سے گائوں والوں کے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے اور گائوں میں خوشحالی آئے گی۔ جب چودھری تقریرختم کرتا تو دین محمد ماسٹر صاحب سے تقریر کا خلاصہ سننا نہ بھولتا اور جب ماسٹر صاحب ایسے چودھری کی کہی ہوئی باتیں سمجھاتے تو دین محمد تصور ہی تصور میں خوشحالی کے اس دور کی سیر کر آتا۔ جیسے چودھری کی جیت کی صورت میں گائوں کا مقصد ہوتا تھا۔ الیکشن کا دین محمد کو یقین تھا کہ جیت چودھری کی ہی ہو گی۔ ماسٹر صاحب اس دفعہ بہت پُر امید تھے کیونکہ چھوٹا چودھری بڑے چودھری کی نسبت مزاج کا اچھا تھا جبکہ بڑا چودھری کچھ زیادہ ہی اکھڑ مزاج تھا۔ ماسٹر صاحب کو امید تھی کہ چھوٹی چودھری گائوں کی بھلائی کے لیے زیادہ نہ سہی مگر کچھ کرے گا ضرور۔ یہی وجہ تھی کہ وہ چودھری کے ہر جلسے میں شریک ہوتے اور جلسے کے اختتام پر جو کچھ چودھری نے کہا ہوتا خوشی خوشی دین محمد کو سمجھاتے اور گھر واپس آ کر رات کو سونے سے پہلے ایک زوجہ پھر دل میں چودھری کی باتوں کو دہراتے اور مستقبل کی بہتری کے امکانات کا جائزہ لیتے اور ہر تمام پچھلے تجربوں کو ایک طرف رکھ کر خوشحالی کے خواب دیکھنے لگتے۔ پھر انھیں دین محمد یاد آ جاتا جو ان سے بھی زیادہ پرجوش اور پُرامید ہوتا۔ جب ماسٹر صاحب دین محمد کو چودھری کی تقریر میں کہی گئی باتیں تفصیل سے سمجھاتے تو انھیں دین محمد کی آنکھوں میں امید کی چمک دکھائی دیتی تھی۔ اس نے تو جیسے اپنی ساری امیدیں چودھری کی جیت سے وابستہ کر لیں تھیں۔ دین محمد اس لیے بھی زیادہ پر جوش تھا کہ اس سے پہلے اسے کبھی ووٹ ڈالنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ دراصل اسے معلوم ہی نہ تھا کہ الیکشن کیا چیز ہے؟ ووٹ کیسے ڈالا جاتا ہے اور ووٹ ڈالنے کا کیا مقصد ہوتا ہے۔ یہ ساری باتیں اسے ماسٹر صاح نے سمجھائیں اور بہت دوڑ دھوپ کر کے اس کا شناختی کارڈ بھی بناویا تاکہ وہ ووٹ ڈالنے کے قابل ہو سکے۔ اب دین محمد کو شدت سے انتظار تھا کہ وہ دن کب آئے گا اور چودھری جیتے گا۔ آخر وہ دن بھی آ بھی گیا جب چودھری کی ہار جیت کا فیصلہ ہونا تھا۔ شام تک لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے آتے رہے۔ ماسٹر صاحب اور دین محمد لوگوں کو آتے جاتے دیکھتے رہے اور اپنی  باری کا انتظار کتے رہے۔ چھوٹا چودھری آج بہت بے چین نظر آتا رہا۔ دن اس نے اضطراب میں گزارا۔ چودھری کی نظریں ووٹوں والے بکس پر لگی تھیں۔ جبکہ لوگ ووٹ ڈالنے آتے اور ووٹ کو ایک بوجھ کی طرح سر سے اتار کر اس طرف بھاگتے جہاں چودھری کی طرف سے لوگوں کے لیے  دوعت کا انتظام تھا۔ کاغذ کا وہ ٹکڑا جیسے وہ پھینک کر جا رہے تھے۔ اور جس کی قدر و قیمت     اور استعمال اور مقصد سے وہ بے خبر تھے۔ وہ چودھری کے لیے بڑا اہم تھا۔ ووٹ ڈالے جا چکے تھے۔ گنتی ہو چکی اور چودھری جیت گیا تو پورے گائوں میں خوشی منائی گئی۔ چودھری کے ہاں  مبارک باد کے لیے لوگوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ کئی دن تک اس کے دوست احباب مبارک باد کے لیے آتے رہے۔ اس کے بعد عام لوگوں کی باری آئی تو وہ مبارک باد کے ساتھ جاتے ہوئے اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی درخواست بھی لکھ کر لے گئے۔ ماسٹر صاحب بھی اپنے ساتھ درخواست لے کر گئے۔ جس میں انھوں نے گائوں کے سکول کی عمارت کی ضرورت پر زور دیا تھا اور ان بچوں کی مشکلات پر روشنی ڈالی تھی جو گرمی سردی پر موسم میں کھلے آسمان تلے پڑھنے پر مجبور تھے۔ حویلی میں چودھری سے ملنے کے لیے آنے والوں کی ایک لمبی قطار کھڑی تھی۔ ماسٹر صاحب اور دین محمد بھی جا کر ان میں کھڑے ہو گئے۔ کافی انتظار کے بعد چودھری سفید کلف لگی شلوار قمیض میں ملبوس باہر آیا۔ لیکن آج نہ اس کے لہجے میں وہ رنگ تھا نہ اس کی چال میں جو الیکشن سے پہلے جلسوں میں ہوا کرتا تھا۔ آج اس کے لباس کی طرح اس کا لہجہ بھی کلف لگا ہی محسوس ہوتا تھا۔ وہ بس تھوڑی دیر کے لیے آیا لوگوں کا سلام کہا۔ مبارک باد قبول کی۔ درخواستیں اکٹھی کروائیں اور واپس چلا گیا۔ حویلی کے نوکر آنے والوں کو کاغذوں میں لپیٹ کر مٹھائیاں دینے لگے۔ ماسٹر صاحب بھی اپنے ہاتھ میں کاغذ میں لپٹی ہوئی مٹھائی لیے ہوئے واپس ہوئے۔ دین محمد بھی ان کے ساتھ تھا۔ حویلی سے باہر اکبر سکول کی عمارت کے لیے جگہ منتخب کرنے اور بچوں کے لیے دیگر سہولیات کی فراہمی پر بحث کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ گویا اسے یقین تھا کہ اب تو عمارت چند دنوں میں ہی بن جائے گی جبکہ ماسٹر صاحب اپنے ہاتھ میں اپنی ہی درخواست میں مٹھائی کو دیکھتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ اب خود گائوں والوں کو سکول کے لیے کوئی جھونپڑی بنا لینی چاہیے۔