تجمل شاہ

مطبوعات ِ ادارہ فروغِ قومی زبان…ایک تعارف

جدید طبیعی جغرافیہ
(Physical Geography)

کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اس کی بنیادی تعلیم کا اپنی زبان میں ہونا ہوتا ہے۔ عالمی جنگ کے نتیجے میں تباہ حال جاپان جب دنیا کے نقشے پر دوبارہ سر اٹھانے لگا تو اس کو اقوام عالم کی طرف سے کئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب جاپانی دانشوروں نے ملک کو ترقی پذیر سے ترقی یافتہ قوموں میں لا کھڑا کرنے کی ٹھانی تو انھوں نے اپنا پہلا مطالبہ ہی جاپانی قوم کو بنیادی تعلیم اپنی مادری زبان میں دینے کا کر دیا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایٹم بم حملے سے تباہ حال جاپانی پھر سے سر اٹھا کر دنیا کوورطۂ حیرت میں ڈال دیں گے۔ چین، فرانس، روس وغیرہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز بھی اپنی زبان میں تعلیم کاحصول ہے جہاں وہ دنیا بھر کے سائنسی اور دیگر علوم کا اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کر دیتے ہیں۔
پیش نظر کتاب میں نبلیٰ پیرزادہ نے جغرافیہ اور دنیا بھر میں ہونے والی جغرافیائی تبدیلیوں کو اردو زبان میں قلمبند کر کے جہاں نہ صرف سائنسی علوم حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے آسانی پیدا کر دی بلکہ اردو زبان میں درسی اور حوالہ جاتی امور میں جغرافیائی حوالے سے تحقیق کرنے والے سکالروں کے لیے حوالے کا سامان پیدا کر دیا ہے اور ان ناقدین کا منہ بھی بند کر دیا ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اگر اردو کو تعلیمی زبان بنا دیا گیا تو سائنسی تعلیم کا کیا بنے گا۔ ادارے نے اس سے قبل بھی نصاب کی سائنسی کتب کو اردو زبان میں ترجمہ کر کے شائع کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
کتاب میں مصنفہ کے اپنے دیباچے میں لکھا ہے کہ اُردو زبان میں سائنسی علوم کے درسی اور حوالہ جاتی مواد کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے۔ غیر زبان میں کسی بھی علم کا حصول وہ جامعیت، گہرائی اور وسعت فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے جو علم کا بنیادی تقاضا ہے اور تعلیمی عمل کا ماحصل محض تقلیدی عبارت آفرینی اور چند نظریات کے حفظ و ادراک تک محدود ہوکررہ جاتا ہے۔ یہ تقاضا صرف ان علوم کو اپنی زبان کے قالب میں ڈھال کر ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔ طبیعی جغرافیہ (Physical Geography) کے موضوع پر بھی ایک اچھی حوالہ جاتی اور نصابی کتاب، جغرافیہ کے طلباء کی ایک دیرینہ ضرورت رہی ہے جیسا کہ یہ موضوع نہ صرف گریجویٹ سطح پر علم جغرافیہ کے نصاب کے ایک بڑے حصے کا احاطہ کرتا ہے بلکہ ایم۔ایس۔ سی کی سطح پر بھی موسمیات (Climatology) اور ارضیات (Geomorphology) کے دو علیحدہ علیحدہ پرچوں کی صورت میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس مضمون کو پڑھنے والے طلباء کی ایک کثیر تعداد انگریزی زبان پر دسترس نہ رکھنے کے باعث متعلقہ حوالہ جاتی اور نصابی کتب سے خاطر خواہ استفادہ میں ناکام رہتی ہے۔ طلباء کی اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مقتدرہ قومی زبان (اب ادارہ فروغِ قومی زبان) سے کئی برس پہلے مذکورہ موضوع پر ایک کتاب شائع کی گئی ہے، تاہم یہ کتاب HEC سے منظور شدہ BSاور BA/BScکے موجودہ نصاب اور جدید معلومات کو مد نظر رکھ کر تحریر کی گئی ہے۔ ''آب و ہوا کے خطوں'' کے عنوان سے اس کتاب میں چھ اضافی باب بھی شامل کیے گئے ہیں۔
یہ کتاب کل ۳۰ ابواب اور تین بنیادی حصوں (۱) فضائی کرہ (۲) چٹانی اور حیاتیاتی کرہ اور (۳) آبی کرہ پر مشتمل ہے۔ حصہ اول کے پہلے چھ ابواب فضائی درجہ حرارت، دباؤ، ہواؤں، رطوبت اور ریزش جیسے عناصر کا احاطہ کرتے ہیں جبکہ آخری چھ ابواب دنیا کی آب و ہوا اور اس کی قسم بندی کا ایک مفصل مطالعہ پیش کرتے ہیں۔ کتاب کا دوسرا حصہ مختلف طبیعی عملوں (Physical Processes) اور متعلقہ زمینی اشکال (Landforms) پر مشتمل ہے۔ جدید تناظر میں ماحول اور ماحولیات کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر اس حصے کے آخر میں جنگلات کے موضوع پر ایک باب کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ جبکہ مذکورہ کتاب کا تیسرا اور آخری حصہ آبی کرہ سے متعلق تفصیل پیش کرتا ہے۔
زیر نظر کتاب گوبنیادی طور پر BSاور BA/BScکے طلباء کے لیے ہے تاہم کوشش کی گئی ہے کہ معلومات اور تفصیل کے اعتبار سے یہ ایم۔ایس۔سی کی سطح کے متعلقہ پرچوں کے لیے بھی یکساں مفید ہو اورمطالعہ کے اعتبار سے بھی یہ طلباء کے لیے ہر ممکن سہل ہو۔ کتاب کے ہر باب سے قبل ایک ابتدائی خاکہ درج کیا گیا ہے جس میں انگریزی ترجمہ کے ساتھ متعلقہ باب کے تمام مرکزی اور ذیلی عنوانات کی تفصیل موجود ہے۔نیز تمام اشکال کو متعلقہ مرکزی یا ذیلی عنوان کا ہی نمبر دیا گیا ہے تاکہ خاکہ جات کی تلاش میں سہولت ہو۔ جدید طبیعی جغرافیہ میں شامل تمام خاکہ جات کا انتخاب نہایت محنت سے کیا گیا ہے اور انہیں اس پہلو کو مد نظر رکھ کر سیاہ روشنائی سے تیار کیا گیا ہے کہ یہ نہ صرف متن کے مطالب کی کماحقہ وضاحت کرسکیں بلکہ طلباء کے لیے انہیں خود بنانا بھی آسان ہو۔ اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ دیگر سائنسی علوم کی طرح علم جغرافیہ کی اُردو اصطلاحات بھی گو مشکل نہیں لیکن نسبتاً غیر مانوس ضرور ہیں، چنانچہ تمام اصطلاحات کا انگریزی ترجمہ بھی متعلقہ مقامات پر بریکٹ میں درج کیا گیا ہے تاکہ طلباء ان اصطلاحات سے بتدریج مانوس ہوسکیں۔
اگر آج بھی اردو کو دفتری ، تعلیمی، عدالتی اور رابطے کی زبان کے طو ر پر رائج کر دیا جائے تو ہم بھی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔
۴۴۴ صفحات پر مشتمل بڑے سائز کے اس کتاب کی قیمت =/۵۵۰ روپے ہے۔
فن ترجمہ کاری (مباحث)
پیش نظر کتاب فن ترجمہ کاری کے حوالے سے نامور قلم کاروں، دانشوروں اور نقادوں کے منتخب مقالات پر مشتمل ہے جن میں خلیق انجم، شمس الرحمن فاروقی ، حسن الدین احمد، پروفیسر ظہور الدین، پروفیسر محمد حسن، ڈاکٹر حامد مرزا بیگ، شان الحق حقی، مسکین حجازی، مولوی عبدالحق، ڈاکٹر سلیم اختر اور ڈاکٹر عطش درانی جیسے نامور اہل قلم کے مقالے شامل کیے گئے ہیں۔کتاب کے مرتبین میں ڈاکٹر صوبیہ سلیم اور صفدر رشید شامل ہیں۔
صفدر رشید لکھتے ہیں کہ ترجمہ کاری ایک فن ہے اور فن کو سیکھا جاسکتا ہے۔ اکثر مغربی ممالک میں مترجمین کے لیے باقاعدہ تربیت کا انتظام ہے اور جامعات میں فنِ ترجمہ پر مختصر دورانیے کے علاوہ ماسٹرز سطح کے پروگرام وضع کیے گئے ہیں۔تاہم پاکستان میں اب صورت حال بہتر ہو رہی ہے۔ کچھ جامعات نے انگریزی اور اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی سطح پر فن ترجمہ کاری (Translitology) کا کورس متعارف کرایا ہے۔
مترجم مصنف اور قارئین کے درمیان پُل کا کام کرتا ہے۔ ترجمہ کو تصنیف کے مقابلے میں کمتر درجہ دیا جانا چاہیے مگر یہ شکایت بھی بجاہے کہ اس فن کو وہ مقام نہیں ملا جس کا یہ مستحق تھا۔ بعض اوقات تو ترجمے کی اہمیت کسی صورت تخلیق سے کم نہیں ہوتی۔ اس لیے ترجمہ کے لیے recreation کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ترجمے کی بدولت ہی ہم دوسری اقوام اور تہذیبوں کے افکار اور اقدار سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ کامیاب مترجم صرف وہ نہیں جو دونوں زبانوں سے شناسائی رکھتا ہو بلکہ وہ ہے جو source language کی تہذیب اور روایات سے نہ صرف شناساہو بلکہ ایک گونہ اس سے لگائو بھی رکھتا ہو۔کلچر کو سمجھے بغیر معنی تک پہنچنا بعض اوقات محال ہو جاتا ہے۔
تاریخ کے دو ادوار ترجمے کے لحاظ سے بہت سنہری ہیں، یعنی مسلمانوں کے دورِ عروج اور یورپ کی بیداری (Renaissance) کا زمانہ۔ تخلیقی عمل جب کمزور پڑ جائے تو تراجم تازہ ہوا کے جھونکے کا کردار ادا کرتے ہیں اور تخلیق کے لیے فضا پیدا کرتے ہیں۔اردو کے ابتدائی شعری اور نثری ادب میں تراجم نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ اردو کا ابتدائی سرمایہ فارسی سے اردو میں تراجم ہی ہیں۔ اسی طرح دکنی عہد او ر فورٹ ولیم کالج کا زمانہ تراجم کے لحاظ سے سنہری ادوار ہیں۔انیسویں صدی کے آخر سے اردو ادب پر مغربی ادب کے اثرات پڑنے شروع ہوئے۔ مغرب کی ادبی تحریکوں اور اصناف نے اردو کو بے حد متاثر کیا اور یہ اثرات زیادہ تر تراجم ہی کی بدولت تھے۔تاہم دانستہ یا نا دانستہ سماجی علوم اور سائنسی مضامین کے تراجم پر خاص توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی آج دی جا رہی ہے اور ہم اس کی قیمت بھی ادا کر رہے ہیں۔ہم یہ بات حیرت سے سنتے ہیں کہ کسی بھی زبان کی ہر اہم کتاب بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں فوراً ترجمہ کر لی جاتی ہے حتیٰ کہ ایران بھی اس سلسلے میں کچھ زیادہ پیچھے نہیں۔مگر اردو میں تو ابھی بنیادی کتابیں بھی ترجمہ نہیں کی گئیں۔ اس بارے میں ملکی سطح پر ایک جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے اور یہ کام ضمنی طور پر کسی ادارے کے سپرد نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے لیے ادارہ درکار ہے۔
کتاب کی شریک مرتب ڈاکٹر صوبیہ سلیم نے لکھا ہے کہ اس شعبہ علم سے میرا شغف تو پہلے بھی تھا مگر نیشنل یونیورسٹی اف ماڈرن لینگویجز سے وابستگی اور ترجمے سے متعلق کورس کی تدریس کے دوران خاص طور پر اپنے غیر ملکی طالب علموں کی مشکلات کے پیش نظر میں مواد کی تلاش میں ادارہ فروغ قومی زبان(مقتدرہ قومی زبان) کے کتاب خانے اور اس کے مستعد عملے سے ملی تو مجھے اس بات کی ترغیب ملی کہ میں دونوں اداروں کی شراکت کے ساتھ کچھ علمی منصوبے مکمل کر سکوں۔
۳۹۱ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت = / ۳۵۰ روپے ہے۔
اردو میں اصلاح املا کی کوششیں
(تحقیقی و تنقیدی جائزہ)
کتاب میں شازیہ آفتاب نے املائی جائزہ لیا ہے۔ اس سے قبل ادارے کے قیام کے ابتدائی سالوں میں ڈاکٹر اعجاز راہی کی کتاب ''املا و رموزِ اوقاف کے مسائل'' کے عنوان سے کتاب شائع ہو چکی ہے۔ فاضل مصنفہ ادارے کی سفارش کردہ ہائیہ آوازوں والے الفاظ کی املا پر اختلاف رکھتی ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ میں لکھا گیا ہے کہ فاضل ماہرین کی بالاتفاق سفارشات پر مبنی ادارے کے فیصلوں کے باوجود اس تحقیقی کتاب کو شائع کیا جا رہاہے تاکہ تحقیق کے لیے در کھلیں اور آنے والی نسلیں اردو کے بارے میں واضح فکر کی حامل ہوں۔ کیونکہ گزشتہ تین دہائیوں سے لسانی صورتحال میں تیزی سے تبدیلیاں آئیں اور نئے ماہ و سال نے ذہنوں میں نئے خیالات کو جنم دیا ہے بہت کچھ اطمینان بخش ہونے کے باوجود بعض اوقات انفرادی رائے کا اظہار ہو جو دراصل اردو کی لسانی ترویج کا ہی ایک مثبت پہلو ہے۔ کتاب کی مصنفہ نے اپنے دیباچے میں لکھا ہے کہ اس مقالے میں اردو املا کا ابتدا تاحال تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ جس میں فرمان اورنگ زیب عالمگیر سے لے کر بیسویں صدی کے آخری عشرے تک اردو املا سے متعلق مبسوط جائزہ شامل ہے۔ بیسویں صدی سے پہلے اردو املا پر کوئی مقالہ یا کتاب تو نہیں ملتی لیکن مختلف ادوار میں شعرا کے ہاں یہ شعوری کوشش ضرور نظر آتی ہے کہ انھوں نے اردو املا کی اصلاح میں کسی نہ کسی حد تک خود حصہ لیا اور اپنے شاگردوں کو بھی تلقین کی۔ میں نے اس مقالے میں ابتدا سے لے کر موجودہ دور تک اصلاحِ املا کے ضمن میں ہونے والی کوششوں کا احاطہ کرنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے اور درست املا کے تعین میں بھی دلائل دیے ہیں۔ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے جس میں اردو کی قدیم املا کا جائزہ، بیسویں صدی عیسوی میں اصلاح املا کی تحریک اور اس دوران شائع ہونے والی کتب کا جائزہ اور اس دوران املا کے حوالے سے شائع ہونے والے مضامین ، مقالات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ، اردو املا کے حوالے سے کتب کے اختلافی املا کا جائزہ اور دیگر مباحث کے ساتھ ساتھ ہائیہ آوازوں سے متعلق املا کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ شامل اشاعت ہے۔ ۳۰۶ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت =/۳۰۰ روپے ہے۔
٭٭٭